Tafseer-e-Mazhari - Hud : 40
حَتّٰۤى اِذَا جَآءَ اَمْرُنَا وَ فَارَ التَّنُّوْرُ١ۙ قُلْنَا احْمِلْ فِیْهَا مِنْ كُلٍّ زَوْجَیْنِ اثْنَیْنِ وَ اَهْلَكَ اِلَّا مَنْ سَبَقَ عَلَیْهِ الْقَوْلُ وَ مَنْ اٰمَنَ١ؕ وَ مَاۤ اٰمَنَ مَعَهٗۤ اِلَّا قَلِیْلٌ
حَتّٰٓي : یہاں تک کہ اِذَا جَآءَ : جب آیا اَمْرُنَا : ہمارا حکم وَفَارَ : اور جوش مارا التَّنُّوْرُ : تنور قُلْنَا : ہم نے کہا احْمِلْ : چڑھا لے فِيْهَا : اس میں مِنْ : سے كُلٍّ زَوْجَيْنِ : ہر ایک جوڑا اثْنَيْنِ : دو (نرو مادہ) وَاَهْلَكَ : اور اپنے گھر والے اِلَّا : سوائے مَنْ : جو سَبَقَ : ہوچکا عَلَيْهِ : اس پر الْقَوْلُ : حکم وَمَنْ : اور جو اٰمَنَ : ایمان لایا وَمَآ : اور نہ اٰمَنَ : ایمان لائے مَعَهٗٓ : اس پر اِلَّا قَلِيْلٌ : مگر تھوڑے
یہاں تک کہ جب ہمارا حکم آپہنچا اور تنور جوش مارنے لگا تو ہم نے نوح کو حکم دیا کہ ہر قسم (کے جانداروں) میں سے جوڑا جوڑا (یعنی) دو (دو جانور۔ ایک ایک نر اور ایک ایک مادہ) لے لو اور جس شخص کی نسبت حکم ہوچکا ہے (کہ ہلاک ہوجائے گا) اس کو چھوڑ کر اپنے گھر والوں کو جو ایمان لایا ہو اس کو کشتی میں سوار کر لو اور ان کے ساتھ ایمان بہت ہی کم لوگ لائے تھے
حتی اذا جآء امرنا وفار التنور یہاں تک کہ جب ہمارا حکم (یعنی عذاب کا حکم) آپہنچا اور تنور ابل پڑا __ ابو الشیخ نے عکرمہ اور زہری کا قول نقل کیا ہے کہ تنور کا معنی ہے روئے زمین۔ بغوی نے بھی یہی نقل کیا ہے۔ سعید بن منصور ‘ ابن جریر ‘ ابن المنذر ‘ ابن ابی حاتم اور ابو الشیخ نے اس قول کی نسبت حضرت ابن عباس ؓ کی طرف بھی کی ہے۔ صورت اس طرح ہوئی کہ حضرت نوح سے کہا گیا : جب تم روئے زمین پر پانی ابلتا دیکھو تو کشتی میں سوار ہوجانا۔ عبد بن حمید ‘ ابن ابی حاتم اور ابو الشیخ نے قتادہ کا قول نقل کیا ہے کہ آیت میں تنور سے مراد ہے زمین کا اونچا بلند حصہ۔ ابن ابی حاتم نے حضرت ابن عباس ؓ کی طرف اس قول کی نسبت کی ہے کہ آیت میں عین الوردہ مراد ہے جو جزیرہ میں ایک چشمہ تھا۔ ایک روایت میں حضرت علی ؓ کا قول آیا ہے کہ فار التنور کا مطلب یہ ہے کہ فجر نکل گئی اور صبح کی روشنی ہوگئی۔ حسن ‘ مجاہد اور شعبی نے تنور سے مراد یہی تنور بتائی ہے جس میں روٹی پکائی جاتی ہے۔ اکثر مفسرین کا یہی قول ہے۔ بروایت عطیہ ‘ حضرت ابن عباس کا بھی یہی قول آیا ہے۔ ابن جریر اور ابن ابی حاتم نے بیان کیا کہ حضرت ابن عباس نے آیت کا مطلب اس طرح فرمایا : جب تم اپنے گھر کے تنور سے پانی نکلتا دیکھو تو سمجھ لو کہ یہ تمہاری قوم کا پیام ہلاکت ہے۔ حسن نے کہا : پتھروں سے بنا ہوا ایک تنور تھا جس میں حضرت حوا روٹی پکایا کرتی تھیں (وراثتہً ) وہ حضرت نوح کے پاس پہنچ گیا اور آپ کو حکم ہوا کہ جب تنور سے پانی ابلتا ہوا دیکھو تو تم اپنے ساتھیوں کو لے کر سوار ہوجانا۔ یہ تنور کہاں تھا ؟ مجاہد اور شعبی نے کہا : کوفہ کے ایک کنارہ پر تھا۔ شعبی نے اللہ کی قسم کھا کر کہا : تنور کوفہ کے کنارہ سے ہی جوش زن ہوا تھا۔ حضرت نوح نے کوفہ کی مسجد کے اندر ہی کشتی تیار کی تھی اور باب کندہ کی جانب سے مسجد میں داخل ہونے والے کے دائیں جانب وہ تنور تھا اور تنور سے پانی کا ابلنا حضرت نوح کیلئے (طوفان آب کی) علامت تھی۔ ابن المنذر ‘ ابن ابی حاتم اور ابو الشیخ نے حضرت علی بن ابی طالب کا قول نقل کیا ہے کہ مسجد کوفہ کے اندر باب کندہ کی جانب سے تنور ابلا تھا۔ ابو الشیخ نے باسناد شعبی نقل کیا ہے کہ حضرت علی نے فرمایا : قسم ہے اس کی جس نے دانہ کو چیرا اور جاندار کو پیدا کیا کہ یہ مسجد مسلمانوں کی چار مسجدوں میں چوتھی مسجد ہے اور سوائے مسجد حرام (کعبہ) اور مسجد رسول اللہ ﷺ کے دوسری کسی مسجد میں دس رکعت نماز پڑھنے سے اس مسجد میں دو رکعت پڑھنا مجھے زیادہ عزیز ہے۔ اسی کے دائیں جانب قبلہ کی طرف تنور ابلا تھا۔ مقاتل نے کہا : یہ حضرت آدم والا تنور تھا اور شام میں اس جگہ واقع تھا جس کو عین الوردہ کہا جاتا ہے۔ ایک روایت میں حضرت ابن عباس کا قول آیا ہے کہ یہ تنور ہند میں تھا (معلوم نہیں ہند سے مراد ہندوستان ہے یا وہ مقام جو عراق میں ہے) یہ قول ابن جریر اور ابن المنذر اور ابن ابی حاتم اور ابو الشیخ اور حاکم نے نقل کیا ہے اور حاکم نے اس کو صحیح بھی قرار دیا ہے۔ (فارَماضی کا صیغہ ہے ‘ اس کا مصدر فوران ہے) فَورانکا معنی ہے جوش زن ہونا (اچھلنا ‘ ابلنا) ۔ قلنا احمل فیھا من کل زوجین اثنین ہم نے کہا : ہر ایک (قسم کے جانوروں) میں سے ایک ایک نر اور ایک مادہ ‘ یعنی دو عدد کشتی میں چڑھا لو۔ زَوْجَیْنِ دو زوج ‘ نر مادہ کا جوڑ ہوتا ہے اور مادہ نر کا جوڑ ‘ نر یا مادہ کوئی بھی دوسرے سے بےنیاز نہیں ہوتا ‘ اسلئے ہر ایک کو جوڑ کہا جاتا ہے۔ ہر ایک موزہ کو دوسرے موزہ کا اور ہر جوتہ کو دوسرے جوتہ کا زوج (جوڑ) کہا جاتا ہے ‘ یعنی ہر حیوان کا ایک جوڑا (نر و مادہ) کشتی میں سوار کرلو۔ لفظ اثنین ‘ زوجین کی تاکید ہے اور زوجین مفعول ہے۔ بغوی نے اس قصے کے ذیل میں بیان کیا ہے کہ حضرت نوح نے عرض کیا : پروردگار ! میں ہر ایک کا جوڑا کس طرح لوں ؟ اللہ نے آپ کے سامنے درندوں اور پرندوں کو جمع کردیا اور آپ نے اپنے دونوں ہاتھ ان پر مارے۔ دایاں ہاتھ نر پر پڑا اور بایاں ہاتھ مادہ پر ‘ اس طرح ایک نر اور ایک مادہ آپ کے ہاتھ میں آگیا اور آپ نے ان کو کشتی میں سوار کرلیا۔ واھلک الا من سبق علیہ القول ومن امن اور اپنے گھر والوں کو بھی باستثناء اس کے جس (کے ڈوبنے) کا حکم پہلے ہی نافذ ہوچکا ہے اور (گھر والوں کے علاوہ دوسرے) مؤمنوں کو بھی۔ یعنی ازل میں اللہ نے جن کو غرق کرنے کا فیصلہ کردیا ہے ‘ ان کو چھوڑ کر دوسرے گھر والوں کو سوار کرلو۔ حضرت نوح کی بیوی واہلہ اور واہلہ کے پیٹ سے حضرت نوح کا بیٹا کنعان ‘ یہ دونوں کافر تھے۔ مَنْ سَبَقَ عَلَیْہِ الْقَوْلُ سے یہی دونوں مراد ہیں۔ وما امن معہٓ الا قلیل۔ اور نوح کے ساتھ ایمان لانے والے بس تھوڑے ہی تھے۔ حضرت نوح پر ایمان لانے والوں کی تعداد کیا تھی ؟ اس کے متعلق مختلف روایات ہیں۔ قتادہ ‘ ابن جریج اور محمد بن کعب قرظی کے قول پر کشتی میں سوار ہونے والے صرف آٹھ آدمی تھے : حضرت نوح ‘ آپ کی بیوی ‘ آپ کے تین لڑکے سام ‘ حام ‘ یافث اور تینوں کی بیویاں۔ ابن جریر ‘ ابو الشیخ نے ابن جریج کا قول نقل کیا ہے کہ حضرت نوح نے اپنے ساتھ اپنے تینوں بیٹوں اور ان کی بیویوں کو سوار کرلیا تھا۔ حام نے کشتی میں اپنی بیوی سے قربت کرلی۔ حضرت نوح نے بددعاء کی کہ اس کے نطفہ کا رنگ بدل جائے۔ چناچہ اس عورت سے حبشی پیدا ہوئے۔ اعمش کا قول ہے کہ کشتی میں کل سات آدمی تھے : حضرت نوح ‘ ان کے تین بیٹے اور بیٹوں کی تین بیویاں۔ یہ دونوں قول صراحت قرآنی کے خلاف ہیں۔ آیت میں مَنْ اٰمَنَکا عطف اھْلَکَ پر ہے اور مذکورہ بالا تمام لوگ حضرت نوح کے گھر والوں میں داخل تھے (لہٰذا گھر والوں کے علاوہ کچھ دوسرے مؤمنوں کا بھی کشتی میں ہونا لازم ہے) ۔ ابن اسحاق نے کہا : دس شخص تھے : حضرت نوح ‘ آپ کے تینوں بیٹے سام ‘ حام ‘ یافث اور چھ دوسرے مؤمن اور سب کی بیویاں ‘ یعنی دس مرد اور دس عورتیں۔ مقاتل نے کہا : کل اٹھتر آدمی تھے ‘ آدھے مرد اور آدھی عورتیں۔ تین بیٹے اور ان کی بیویاں اور بہتر دوسرے مؤمن۔ ایک روایت میں حضرت ابن عباس کا قول آیا ہے کہ کشتی میں کل اسّی مرد تھے جن میں سے ایک جرہم بھی تھا۔ ابن جریر ‘ ابن المنذر ‘ ابن ابی حاتم اور ابو الشیخ نے حضرت ابن عباس کا قول نقل کیا ہے کہ حضرت نوح نے اپنے ساتھ اسی آدمیوں کو سوار کرلیا تھا اور آپ کی زبان عربی تھی۔ یہ بھی حضرت ابن عباس کا قول ہے کہ سب سے پہلے حضرت نوح نے کشتی میں چھوٹی چیونٹی کو لیا اور سب سے آخر میں گدھے کو۔ گدھا داخل ہونے لگا اور اس کا سینہ اندر آگیا تو ابلیس اس کی دم سے لٹک گیا جس کی وجہ سے اس کی ٹانگیں اٹھ نہ سکیں۔ حضرت نوح نے فرمایا : ارے ! اندر آ جا۔ گدھا اٹھا ‘ مگر اٹھ نہ سکا۔ حضرت نوح نے فرمایا : ارے ! اندر آ جا ‘ خواہ شیطان ہی تیرے ساتھ ہو۔ یہ لفظ بیساختگی میں آپ کی زبان سے نکل گیا۔ ان الفاظ کو سنتے ہی شیطان نے گدھے کا راستہ چھوڑ دیا ‘ گدھا اندر آگیا اور شیطان بھی اس کے ساتھ داخل ہوگیا۔ حضرت نوح نے فرمایا : دشمن خدا ! تجھے کس نے داخل کیا ؟ شیطان نے کہا : آپ نے (گدھے سے) نہیں فرمایا تھا کہ اندر آ جا ‘ خواہ شیطان ہی تیرے ساتھ ہو۔ آپ نے فرمایا : دشمن خدا ! نکل جا۔ شیطان نے کہا : اب تو مجھے اپنے ساتھ سوار کرنے کے بغیر آپ کیلئے کوئی چارہ نہیں۔ لوگوں کا خیال ہے کہ شیطان کشتی کی پشت پر تھا۔ بعض اہل روایت کا خیال ہے کہ سانپ اور بچھو حضرت نوح کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا : ہمیں بھی چڑھا لیجئے۔ حضرت نوح نے فرمایا : تم ضرررساں اور سبب مصیبت ہو ‘ میں تم کو نہیں چڑھاؤں گا۔ کہنے لگے : آپ ہمیں چڑھا تو لیجئے ‘ ہم ذمہ دار ہیں کہ جو بھی آپ کا ذکر کرے گا ‘ ہم اس کو ضرر نہیں پہنچائیں گے۔ چناچہ جس سانپ اور بچھو کے ضرر کے خوف سے سلاَمٌ عَلٰی نُوْحٍ فِی الْعَالَمِیْنَ پڑھا ‘ اس کو سانپ اور بچھو نے کوئی ضرر نہیں پہنچایا۔ حسن کا قول ہے کہ حضرت نوح نے کشتی میں صرف ان جانوروں کو چڑھایا تھا جو بچہ یا انڈہ دیتے ہیں۔ جو کیچڑ سے پیدا ہیں جیسے مچھر ‘ پسّو وغیرہ ان کو کشتی میں سوار نہیں کیا تھا۔
Top