Tafseer-e-Mazhari - Hud : 54
اِنْ نَّقُوْلُ اِلَّا اعْتَرٰىكَ بَعْضُ اٰلِهَتِنَا بِسُوْٓءٍ١ؕ قَالَ اِنِّیْۤ اُشْهِدُ اللّٰهَ وَ اشْهَدُوْۤا اَنِّیْ بَرِیْٓءٌ مِّمَّا تُشْرِكُوْنَۙ
اِنْ : نہیں نَّقُوْلُ : ہم کہتے اِلَّا : مگر اعْتَرٰىكَ : تجھے آسیب پہنچایا ہے بَعْضُ : کسی اٰلِهَتِنَا : ہمارا معبود بِسُوْٓءٍ : بری طرح قَالَ : اس نے کہا اِنِّىْٓ : بیشک میں اُشْهِدُ : گواہ کرتا ہوں اللّٰهَ : اللہ وَاشْهَدُوْٓا : اور تم گواہ رہو اَنِّىْ : بیشک میں بَرِيْٓءٌ : بیزار ہوں مِّمَّا : ان سے تُشْرِكُوْنَ : تم شریک کرتے ہو
ہم تو یہ سمجھتے ہیں کہ ہمارے کسی معبود نے تمہیں آسیب پہنچا کر (دیوانہ کر) دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ میں خدا کو گواہ کرتا ہوں اور تم بھی گواہ رہو کہ جن کو تم (خدا کا) شریک بناتے ہو میں اس سے بیزار ہوں
ان نقول الا اعتراک بعض الھتنا بسوءٍ ہم تو یہی کہتے ہیں کہ تم کو ہمارے کسی معبود کا جھپٹا لگ گیا ہے۔ اِعْتَرٰی (باب افتعال) عَرٰی یعرو سے ماخوذ ہے ‘ عَرٰیکا معنی ہے پہنچ گیا۔ سوئ سے مراد ہے جنون ‘ بدحواسی۔ یعنی تم جو ہمارے معبودوں کو برا کہتے ہو اور ان کی عبادت سے ہم کو روکتے ہو تو ہمارے کسی معبود نے اس کا انتقام تم سے لیا ہے اور تمہارا دماغ خراب کردیا ہے کہ ایسی خرافات بک رہے ہو۔ یا ماضی بمعنی مضارع ہے کہ تم جو معبودوں کو برا کہتے ہو ‘ ہمارا یقینی خیال ہے کہ کوئی معبود تم کو پٹ کر دے گا ‘ ہلاک کر دے گا۔ چونکہ ایسا ہوجانا قوم کے نزدیک ضروری اور یقینی تھا ‘ اسلئے دھمکی دینے کیلئے مضارع کی جگہ ماضی کا صیغہ بولا۔ حضرت ہود کا جواب آگے ذکر کیا گیا ہے۔ یہ توجیہ اس کے مناسب ہے۔ قال انی اشھد اللہ واشھدوا انی بريء مما تشرکون : میں اللہ کو شاہد بتاتا ہوں اور تم بھی گواہ رہو کہ تم جو اللہ کے سوا دوسرے (بتوں وغیرہ) کو اس کا شریک قرار دیتے ہو ‘ میں اس سے بیزار ہوں۔
Top