Tafseer-Ibne-Abbas - Az-Zumar : 62
قَالَ یٰقَوْمِ اَرَءَیْتُمْ اِنْ كُنْتُ عَلٰى بَیِّنَةٍ مِّنْ رَّبِّیْ وَ اٰتٰىنِیْ مِنْهُ رَحْمَةً فَمَنْ یَّنْصُرُنِیْ مِنَ اللّٰهِ اِنْ عَصَیْتُهٗ١۫ فَمَا تَزِیْدُوْنَنِیْ غَیْرَ تَخْسِیْرٍ
قَالَ : اس نے کہا يٰقَوْمِ : اے میری قوم اَرَءَيْتُمْ : کیا دیکھتے ہو تم اِنْ كُنْتُ : اگر میں ہوں عَلٰي بَيِّنَةٍ : روشن دلیل پر مِّنْ رَّبِّيْ : اپنے رب سے وَاٰتٰىنِيْ : اور اس نے مجھے دی مِنْهُ : اپنی طرف سے رَحْمَةً : رحمت فَمَنْ : تو کون يَّنْصُرُنِيْ : میری مدد کریگا (بچائے گا) مِنَ اللّٰهِ : اللہ سے اِنْ : اگر عَصَيْتُهٗ : میں اس کی نافرمانی کروں فَمَا : تو نہیں تَزِيْدُوْنَنِيْ : تم میرے لیے بڑھاتے غَيْرَ : سوائے تَخْسِيْرٍ : نقصان
تو کیسی (ندامت کی) بات ہے کہ جب ان کے اعمال (کی شامت) سے ان پر کوئی مصیبت واقع ہوتی ہے تو تمہارے پاس بھاگے آتے ہیں اور قسمیں کھاتے ہیں کہ واللہ ہمارا مقصود تو بھلائی اور موافقت تھا
(62) اور جس وقت منافقین سے جن کی حضرت زبیر بن العوام ؓ کے ساتھ لڑائی تھی حکم خداوندی اور حکم رسول کی طرف آنے کو کہا جاتا تھا، تو آپ کے حکم سے اعراض کرتے اور منہ بنانے لگتے ہیں، سو ان کا اس وقت کیا حشر ہوگا، جب اس کی پاداش میں گرفتار ہوں گے اور پھر یہ لوگ آپ کے پاس قسمیں کھاتے ہوئے آتے ہیں کہ ہمارا مقصد صرف بھلائی تھا۔ ان کے دلوں میں جو نفاق ہے اللہ تعالیٰ اس کو اچھی طرح جانتے ہیں اور یہ بھی معنی بیان کیے گئے کہ جب منافقین نے مسجد ضرار بنائی اور پھر ان کو اس کی سزا بھگتنی پڑی تو ان میں سے بعض قسمیں کھاتے ہوئے آئے کہ ہمارا مقصود تو صرف مسلمانوں کی مدد اور آپ کے دین کی موافقت تھی اس کے علاوہ کچھ نہیں تھا۔
Top