Tafseer-e-Mazhari - Hud : 83
مُّسَوَّمَةً عِنْدَ رَبِّكَ١ؕ وَ مَا هِیَ مِنَ الظّٰلِمِیْنَ بِبَعِیْدٍ۠   ۧ
مُّسَوَّمَةً : نشان کیے ہوئے عِنْدَ رَبِّكَ : تیرے رب کے پاس وَمَا : اور نہیں ھِيَ : یہ مِنَ : سے الظّٰلِمِيْنَ : ظالم (جمع) بِبَعِيْدٍ : کچھ دور
جن پر تمہارے پروردگار کے ہاں سے نشان کئے ہوئے تھے اور وہ بستی ان ظالموں سے کچھ دور نہیں
مسومۃ عند ربک جو نشان زدہ تھے تمہارے رب کے پاس۔ ابن جریج نے کہا : ان پتھروں پر ایک خاص علامت تھی ‘ وہ زمین کے پتھروں کے ہم شکل نہ تھے۔ قتادہ اور عکرمہ نے ان پر سرخ دھاریاں بتائی ہیں۔ حسن اور سدی نے کہا : وہ مہر زدہ تھے ‘ مہر کی طرح ان پر نشان تھا۔ ہر پتھر پر اس شخص کا نام لکھا ہوا تھا جس پر وہ گرنے والا تھا۔ وما ھي من الطلمین ببعید اور وہ (اجاڑ بستیاں) ان ظالموں سے کچھ دور نہیں۔ الظلمین سے مراد ہے مشرکین مکہ ‘ بغوی نے لکھا ہے کہ قتادہ اور عکرمہ کے نزدیک الظلمین سے مراد ہیں : اس امت کے ظالم۔ ابن جریر ‘ ابن ابی حاتم اور ابو الشیخ نے بھی قتادہ کی طرف اس قول کی نسبت کی ہے ‘ یعنی اس امت کے ظالم بھی اس امر کے مستحق ہیں کہ ان پر سنگساری کی جائے۔ قتادہ اور عکرمہ نے کہا : اللہ نے کسی ظالم کو ان پتھروں سے محفوظ نہیں رکھا۔ بغوی نے لکھا ہے کہ بعض آثار میں آیا ہے : کوئی ظالم ایسا نہیں کہ وہ پتھروں کے نشانہ پر نہ ہو ‘ ہر ظالم پر ہر وقت پتھر گر سکتا ہے۔ بیضاوی میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے دریافت کرنے پر حضرت جبرئیل نے کہا کہ آپ کی امت کے ظالم مراد ہیں۔ کوئی ظالم ایسا نہیں کہ وہ پتھر کے نشانے پر نہ ہو ‘ ہر وقت پتھر اس پر گر سکتا ہے۔ سیوطی نے لکھا ہے : ثعلبی نے اس کو بغیر سند کے نقل کیا ہے اور مجھے اس کی سند معلوم نہیں۔ در منثور میں ہے کہ ابی ابن حاتم اور ابو الشیخ نے آیت مذکورہ کے ذیل میں ربیع کے حوالے سے بیان کیا ہے کہ ہم نے جو کچھ سنا ہے ‘ وہ یہ ہے کہ ہر ظالم کی سیدھ میں ایک پتھر موجود ہے جو اس بات کا منتظر ہے کہ کب اس کو (ظالم پر) گرنے کا حکم دیا جاتا ہے۔ بعض اہل تفسیر نے لکھا ہے کہ ھي ضمیر ان بستیوں کی طرف راجع ہے جو شام کو جاتے ہوئے کفار مکہ کے راستہ میں ادھر ادھر پڑتی تھیں۔ بعید کو بصیغہ مذکر لانا (باوجودیکہ ھي مؤنث ہے) اس وجہ سے ہے کہ ھي سے مراد پتھر یا مقام ہے (یعنی لفظ مؤنث کا اعتبار نہیں کیا گیا بلکہ معنی کے لحاظ سے مذکر کا صیغہ استعمال کیا گیا) ۔
Top