Tafseer-e-Mazhari - Hud : 86
بَقِیَّتُ اللّٰهِ خَیْرٌ لَّكُمْ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ١ۚ۬ وَ مَاۤ اَنَا عَلَیْكُمْ بِحَفِیْظٍ
بَقِيَّتُ : بچا ہوا اللّٰهِ : اللہ خَيْرٌ : بہتر لَّكُمْ : تمہارے لیے اِنْ : اگر كُنْتُمْ : تم ہو مُّؤْمِنِيْنَ : ایمان والے وَ : اور مَآ : نہیں اَنَا : میں عَلَيْكُمْ : تم پر بِحَفِيْظٍ : نگہبان
اگر تم کو (میرے کہنے کا) یقین ہو تو خدا کا دیا ہوا نفع ہی تمہارے لیے بہتر ہے اور میں تمہارا نگہبان نہیں ہوں
بقیت اللہ خیر لکم اللہ کا دیا ہوا جو کچھ (حلال مال) بچ جائے ‘ وہ تمہارے لئے بہتر ہے۔ حضرت ابن عباس ؓ نے اس جملہ کا یہ مطلب بیان کیا کہ صحیح صحیح ناپ تول کردینے کے بعد جو حلال چیز باقی رہ جاتی ہے ‘ وہ بہتر ہے اس حرام مقدار سے جو ناپ تول میں کمی کر کے تم حاصل کرتے ہو۔ مجاہد نے کہا : بَقِیَّتُ اللّٰہِ سے مراد ہے اللہ کی اطاعت ‘ جیسے دوسری آیت میں فرمایا ہے : وَالْبَاقیات الصالحات خیر۔ ان کنتم مؤمنین اگر تم مؤمن ہو۔ یعنی بَقِیَّتُ اللّٰہِ کا تمہارے لئے بہتر ہونا ایمان کے ساتھ مشروط ہے۔ مؤمن کو ہی نیکی کا اجر ملے گا ‘ کافر کی بھلائیاں تو اکارت جائیں گی۔ بعض علماء نے یہ مطلب بیان کیا کہ اگر تم میرے قول کو سچ مانتے ہو تو میں نے جو صحیح ناپنے تولنے کا تم کو حکم دیا ہے ‘ اس پر عمل کرو۔ وما انا علیکم بحفیظ اور میں تمہارا پہرہ دینے والا نہیں ہوں کہ برائیوں سے تم کو بچا لوں یا تمہارے اعمال کی نگہداشت کرو اور پھر ان کا بدلہ دوں۔ میں تو صرف ناصح اور مبلغ ہوں ‘ میرا فرض تو حکم پہنچانے کے بعد پورا ہوجاتا ہے (مانو یا نہ مانو) یا یہ مطلب ہے کہ اگر تم اپنی بداعمالی نہ چھوڑو تب بھی میں اللہ کی نعمت تم پر قائم رکھوں ‘ میں ایسا نہیں کرسکتا۔
Top