Tafseer-e-Mazhari - Hud : 87
قَالُوْا یٰشُعَیْبُ اَصَلٰوتُكَ تَاْمُرُكَ اَنْ نَّتْرُكَ مَا یَعْبُدُ اٰبَآؤُنَاۤ اَوْ اَنْ نَّفْعَلَ فِیْۤ اَمْوَالِنَا مَا نَشٰٓؤُا١ؕ اِنَّكَ لَاَنْتَ الْحَلِیْمُ الرَّشِیْدُ
قَالُوْا : وہ بولے يٰشُعَيْبُ : اے شعیب اَصَلٰوتُكَ : کیا تیری نماز تَاْمُرُكَ : تجھے حکم دیتی ہے اَنْ : کہ نَّتْرُكَ : ہم چھوڑ دیں مَا يَعْبُدُ : جو پرستش کرتے تھے اٰبَآؤُنَآ : ہمارے باپ دادا اَوْ : یا اَنْ نَّفْعَلَ : ہم نہ کریں فِيْٓ اَمْوَالِنَا : اپنے مالوں میں مَا نَشٰٓؤُا : جو ہم چاہیں اِنَّكَ : بیشک تو لَاَنْتَ : البتہ تو الْحَلِيْمُ : بردبار (باوقار) الرَّشِيْدُ : نیک چلن
انہوں نے کہا شعیب کیا تمہاری نماز تمہیں یہ سکھاتی ہے کہ جن کو ہمارے باپ دادا پوجتے آئے ہیں ہم ان کو ترک کر دیں یا اپنے مال میں تصرف کرنا چاہیں تو نہ کریں۔ تم تو بڑے نرم دل اور راست باز ہو
قالوا یشعیب اصلوتک تامرک ان نترک ما یعبد اباؤنا او ان نفعل في اموالنا ما نشوا انہوں نے کہا : شعیب ! کیا تمہاری نماز تم کو حکم دیتی ہے کہ جن (بتوں) کی پوجا ہمارے بڑے کرتے چلے آئے ہیں ‘ ہم ان کو چھوڑ دیں یا اپنے مال میں اپنی منشاء کے مطابق جو ہم تصرف کرتے ہیں ‘ اس کو ترک کردیں۔ حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا : حضرت شعیب نماز بہت پڑھتے تھے ‘ اسی لئے کافروں نے آپ کی نماز کا تذکرہ کیا۔ اعمش کے نزدیک نماز سے مراد ہے نماز پڑھنا۔ حضرت شعیب نے قوم کو توحید کی دعوت دی ‘ اس کے جواب میں انہوں نے آپ سے استہزاء کیا اور آپ کی نماز کا مذاق بنایا اور اس استہزاء میں اس امر کی طرف اشارہ کیا کہ اس قسم کی دعوت تم سے یہ نماز کی پابندی اور مداومت کرا رہی ہے ‘ اس نے تمہارے دماغ میں خلل پیدا کردیا ہے ورنہ صحیح ہوش و خرد کا تو یہ تقاضا نہیں۔ انک لانت الحلیم الرشید واقعی آپ ہیں بڑے عقلمند ‘ دین دار۔ حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا : (انہوں نے حضرت شعیب کو حلیم و رشید بطور طنز کہا تھا (حقیقت میں ان کا مقصد تھا یہ کہنا کہ تم سادہ لوح گمراہ ہو۔ عرب لوگ ایک مفہوم کی تعبیر اس کی ضد سے کرلیتے ہیں (نیک شگون یا دعا کے طور پر) اس شخص کو جس کو بچھو ڈس لے ‘ سلیم کہتے ہیں اور خطرناک بیابان کو مفازہ (کامیابی کی جگہ) ۔ بعض علماء نے کہا : انہوں نے حلیم و رشید بطور استہزاء کہا تھا ‘ مقصد تھا حضرت شعیب کے اندر سفاہت و ضلالت ثابت کرنا۔ حضرت ابن عباس ؓ کے قول پر استعمال مجازی ہوگا اور مؤخر الذکر قول پر حقیقی کنائی (یعنی بطور کنایہ مذمت مراد ہوگی) بعض نے کہا : کلام مبنی برحقیقت ہے اور کنایتہ مذمت کرنا بھی غرض نہیں ہے۔ مطلب یہ ہے کہ ہمارے خیال میں تو تم بڑے سنجیدہ اور صاحب رشد ہو۔ ہم تو گمان بھی نہیں کرتے تھے کہ تم ایسی بات کہو گے۔ حضرت صالح کی قوم نے بھی حضرت صالح سے ایسا ہی کلام کیا تھا اور کہا تھا : قَد کُنْتُ فِیْنَا مَرْجُوْا قَبْل ھٰذَا۔ بعض علماء نے کہا : (بزعمک کا لفظ محفوظ ہے اور کلام حقیقی ہے ‘ یعنی) تم تو اپنے خیال میں حلیم و رشید ہو ‘ پھر ایسی بات تم نے کیوں کی ؟
Top