Tafseer-e-Mazhari - Hud : 9
وَ لَئِنْ اَذَقْنَا الْاِنْسَانَ مِنَّا رَحْمَةً ثُمَّ نَزَعْنٰهَا مِنْهُ١ۚ اِنَّهٗ لَیَئُوْسٌ كَفُوْرٌ
وَلَئِنْ : اور اگر اَذَقْنَا : ہم چکھا دیں الْاِنْسَانَ : انسان کو مِنَّا : اپنی طرف سے رَحْمَةً : کوئی رحمت ثُمَّ : پھر نَزَعْنٰهَا : ہم چھین لیں وہ مِنْهُ : اس سے اِنَّهٗ : بیشک وہ لَيَئُوْسٌ : البتہ مایوس كَفُوْرٌ : ناشکرا
اور اگر ہم انسان کو اپنے پاس سے نعمت بخشیں پھر اس سے اس کو چھین لیں تو ناامید (اور) ناشکرا (ہوجاتا) ہے
ولئن اذقنا الانسان منا رحمۃً ثم نزعنھا منہ انہ لیؤس کفور۔ اور اگر ہم انسان کو (بلا استحقاق) اپنی طرف سے رحمت یعنی کسی نعمت (امن ‘ صحت ‘ دولت وغیرہ) کا مزہ چکھا دیتے ہیں ‘ پھر کچھ مدت کے بعد اس سے اپنی نعمت چھین لیتے ہیں تو وہ بالکل نراس اور ناشکرا ہوجاتا ہے۔ الانسان (میں الف لام جنسی ہے) یعنی عام انسان۔ لَیَؤُسٌ : بالکل نراس ‘ ناامید۔ نعمت کے زوال کے بعد چونکہ اس کو صبر نہیں رہتا اور اللہ پر اس کا اعتماد نہیں ہوتا اور حکم خداوندی پر وہ رضامند نہیں ہوتا ‘ اسلئے قطعاً حصول نعمت سے ناامید ہوجاتا ہے اور اللہ کی سابق اور موجودہ نعمتوں کو بھی بھول جاتا ہے ‘ پچھلی نعمتوں کی بھی ناشکری کرنے لگتا ہے اور جو نعمتیں بالفعل اس کو حاصل ہوتی ہیں ہستی بقاء ‘ ہستی زندگی اور اس کے باقی رکھنے کے اسباب ‘ سب کو بھول جاتا ہے ‘ بالکل ناسپاس ہوجاتا ہے۔
Top