Tafseer-e-Mazhari - Ar-Ra'd : 11
لَهٗ مُعَقِّبٰتٌ مِّنْۢ بَیْنِ یَدَیْهِ وَ مِنْ خَلْفِهٖ یَحْفَظُوْنَهٗ مِنْ اَمْرِ اللّٰهِ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ لَا یُغَیِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتّٰى یُغَیِّرُوْا مَا بِاَنْفُسِهِمْ١ؕ وَ اِذَاۤ اَرَادَ اللّٰهُ بِقَوْمٍ سُوْٓءًا فَلَا مَرَدَّ لَهٗ١ۚ وَ مَا لَهُمْ مِّنْ دُوْنِهٖ مِنْ وَّالٍ
لَهٗ : اس کے مُعَقِّبٰتٌ : پہرے دار مِّنْۢ بَيْنِ يَدَيْهِ : اس (انسان) کے آگے سے وَ : اور مِنْ خَلْفِهٖ : اس کے پیچھے سے يَحْفَظُوْنَهٗ : وہ اس کی حفاظت کرتے ہیں مِنْ : سے اَمْرِ اللّٰهِ : اللہ کا حکم اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ لَا يُغَيِّرُ : نہیں بدلتا مَا : جو بِقَوْمٍ : کسی قوم کے پاس (اچھی حالت) حَتّٰى : یہاں تک کہ يُغَيِّرُوْا : وہ بدل لیں مَا : جو بِاَنْفُسِهِمْ : اپنے دلوں میں (اپنی حالت) وَاِذَآ : اور جب اَرَادَ : ارادہ کرتا ہے اللّٰهُ : اللہ بِقَوْمٍ : کسی قوم سے سُوْٓءًا : برائی فَلَا مَرَدَّ : تو نہیں پھرنا لَهٗ : اس کے لیے وَمَا : اور نہیں لَهُمْ : ان کے لیے مِّنْ دُوْنِهٖ : اس کے سوا مِنْ وَّالٍ : کوئی مددگار
اس کے آگے اور پیچھے خدا کے چوکیدار ہیں جو خدا کے حکم سے اس کی حفاظت کرتے ہیں۔ خدا اس (نعمت) کو جو کسی قوم کو (حاصل) ہے نہیں بدلتا جب تک کہ وہ اپنی حالت کو نہ بدلے۔ اور جب خدا کسی قوم کے ساتھ برائی کا ارادہ کرتا ہے تو پھر وہ پھر نہیں سکتی۔ اور خدا کے سوا ان کا کوئی مددگار نہیں ہوتا
لہ معقبت من بین یدیہ ومن خلفہ یحفظونہ من امر اللہ ہر شخص (کی حفاظت یا اعمال کے لکھنے) کیلئے کچھ (فرشتے) مقرر ہیں جن کی بدلی ہوتی رہتی ہے ‘ کچھ اس کے آگے اور کچھ اس کے پیچھے کہ وہ بحکم خدا اس کی حفاظت یا نگرانی رکھتے ہیں۔ مُعَقِّبَاتٌ، مُعَقِّبَۃٌ کی جمع ہے۔ یہ لفظ عَقَّبَسے بنا ہے (اور متعدی نہیں ہے بلکہ) مبالغہ کیلئے عَقَّبَہٗ اس کے پیچھے آگیا۔ یا اعتقب سے بنا ہے۔ اس صورت میں مُعَقِّبَۃٌ کی اصل مُعْتَقِبَۃٌ ہوگی۔ تا کو قاف میں ادغام کردیا گیا۔ باب افتعال کی تا مبالغہ کیلئے ہے۔ بغوی نے لکھا : مُعَقَّبٌ واحد کا صیغہ ہے ‘ اس کی جمع مُعَقَّبَۃٌ ہے اور مُعَقَّبَۃٌ کی جمع مُعْقِّبَاتٌ ہے ‘ جیسے انثاوات سعدٍ (سعد کی عورتیں) اور رجالات بکرٍ (قبیلۂ بکر کے مرد) کہا جاتا ہے (انثاوات ‘ اناث کی اور رجالات ‘ رجال کی جمع ہے اور اناث کا واحد انثٰی ہے اور رجال کا مفرد رجل۔ بہرحال اس سے مراد فرشتے ہیں جو رات دن باری باری سے آتے جاتے رہتے ہیں۔ رات کے فرشتے چڑھ جاتے ہیں تو ان کے پیچھے دن کے فرشتے آجاتے ہیں اور دن کے فرشتے چڑھ جاتے ہیں تو ان کے بعد رات کے فرشتے آجاتے ہیں اور بندوں کے اعمال لکھتے ہیں اور آفات سے ان کی حفاظت کرتے ہیں۔ (1) [ ازالۃ الخفاء میں کنانہ عدوی کی روایت سے آیا ہے کہ حضرت عثمان بن عفان نے خدمت گرامی میں حاضر ہو کر عرض کیا : یا رسول اللہ ﷺ ! مجھے بتائیے کہ بندے کے ساتھ کتنے فرشتے ہوتے ہیں ؟ فرمایا : ایک فرشتہ تیرے دائیں ہاتھ کی طرف ہے جو تیری نیکیوں پر مامور ہے اور وہ بائیں ہاتھ والے فرشتے کا سردار ہے۔ جب تو کوئی ایک نیکی کرتا ہے تو وہ دس نیکیاں لکھتا ہے اور جب تو کوئی ایک بدی کرتا ہے تو بائیں ہاتھ والا فرشتہ کہتا ہے : میں اس کو لکھ لوں تو دائیں ہاتھ والا کہتا ہے (ابھی ٹھہرو) شاید یہ توبہ و استغفار کرلے۔ جب تین بار ایسا کہہ چکتا ہے تو دائیں ہاتھ والا فرشتہ کہتا ہے : اچھا ‘ اب لکھ لو۔ اللہ اس سے ہم کو بچائے ‘ یہ برا ساتھی ہے۔ نہ اس کو اللہ کا پاس ولحاظ ہے نہ اللہ سے شرم۔ اللہ فرماتا ہے : ما یلفظ من قول الا لدیہ رقیب عتیدٌ بندہ کوئی لفظ زبان سے نہیں نکالتا مگر ایک محافظ تیار اس کے پاس (لکھنے کیلئے) موجود رہتا ہے (جو لکھ لیتا ہے) اور دو فرشتے تیرے آگے پیچھے ہیں۔ اللہ فرماتا ہے : لَہٗ مُعْقِّبٰتٌ مِنْم بَیْنِ یَدَیْہِ وَمِنْ خَلْفِہٖ یَحْفَظُوْْنَہٗ مِنْ اَمْرِ اللّٰہِ اور ایک فرشتہ تیری پیشانی پر مسلط ہے ‘ جب تو اللہ کیلئے اس کو نیچے رکھتا ہے تو وہ تجھے سربلند کرتا ہے اور اگر تو غرور کرتا ہے تو وہ تجھے شکستہ کردیتا ہے (ذلیل کردیتا ہے) اور دو فرشتے تیرے لبوں پر مامور ہیں۔ ان کا کام صرف یہ ہے کہ تو نبی پر جو درود پڑھے ‘ اس کی نگہداشت کریں اور ایک فرشتہ تیرے منہ کا محافظ ہے کہ سانپ (وغیرہ) کو منہ میں داخل ہونے نہیں دیتا اور دو فرشتے تیری دونوں آنکھوں پر مامور ہیں۔ یہ ہر آدمی کے دس فرشتے ہوئے۔ رات کے فرشتے دن کے فرشتوں پر اترتے ہیں کیونکہ رات کے فرشتے دن کے فرشتوں سے الگ ہیں۔ پس ہر آدمی کیلئے بیس فرشتے ہیں اور ابلیس دن میں ہے اور اس کی اولاد رات کو آتی ہے (از مفسر قدس سرہٗ )] بغوی نے صحیح سند سے حضرت ابوہریرہ کی روایت سے لکھا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تم میں رات کے فرشتے اور دن کے فرشتے آگے پیچھے آتے جاتے رہتے ہیں۔ فجر اور عصر کی نماز میں دونوں کا اجتماع ہوتا ہے۔ رات بھر جو فرشتے تم میں رہتے ہیں (فجر کو) جب وہ چڑھ جاتے ہیں تو ان کا رب باوجودیکہ بخوبی واقف ہوتا ہے ‘ پھر بھی فرشتوں سے پوچھتا ہے : تم نے میرے بندوں کو کس حال میں چھوڑا ؟ فرشتے عرض کرتے ہیں : ان کو ہم نے نماز پڑھتے چھوڑا اور جب ہم پہنچے تھے تب بھی وہ نماز پڑھ رہے تھے۔ مِنْم بَیْنِ یَدَیْہِ یعنی چھپنے والے اور ظاہر ہونے والوں میں سے ہر ایک کے آگے۔ وَمِنْ خَلْفِہٖ یعنی اس کے (باقی) اطراف میں (حضرت مفسر کا مطلب یہ معلوم ہوتا ہے کہ خَلْف سے مراد صرف پیچھے کا رخ کا نہیں بلکہ دایاں بایاں رخ بھی اس میں شامل ہے کیونکہ دائیں بائیں رخ سے حفاظت کرنے پر بھی تو فرشتے مقرر ہیں) ۔ یَحْفَظُوْنَہٗ یعنی اگر تقدیری وقت اور حکم نہیں آیا ہے تو حفاظت کرتے ہیں اور تقدیر کا لکھا آچکا ہے تو بندے کو چھوڑ کر الگ ہوجاتے ہیں۔ مجاہد نے کہا : ہر بندے پر ایک فرشتہ موکل (مقرر) ہے جو سوتے جاگتے اس کی حفاظت کرتا ہے اور ہر جن و انس اور کیڑے مکوڑے سے اس کی نگہداشت کرتا ہے۔ جو (ضرر رساں) چیز بھی بندے پر آنا چاہتی ہے ‘ فرشتہ اس سے کہتا ہے : ہٹ ‘ پرے جا۔ ہاں اللہ ہی کا حکم کسی چیز کے آ پہنچنے کو ہوتا ہے تو وہ چیز پہنچ جاتی ہے۔ کعب احبار نے کہا : اگر اللہ فرشتوں کو تم پر مامور نہ کردیتا جو کھانے پینے اور برہنگی کے وقت تمہارے قریب رہتے ہیں تو جنات تم کو جھپٹ لیتے۔ یا یَحْفَظُوْنَہٗ سے مراد ہے کہ آدمی کے اعمال کی نگرانی کرتے ہیں۔ اس مطلب پر معقبات سے مراد ہوں گے وہ دو فرشتے جو دائیں بائیں ہاتھ پر بیٹھے نیکیاں اور بدیاں لکھتے رہتے ہیں (اور چونکہ یہ فرشتے چار ہیں ‘ دو دن کے اور دو رات کے ‘ اسلئے معقبات بصیغۂ جمع فرمایا۔ مترجم) ا اللہ نے فرمایا ہے : اِذْ یَتَلَقَّی الْمُتَلَقِّیَانِ عَنِ الْیَمِیْنِ وَعَنِ الشِّمَالِ قَعِیْدٌ۔ ابن جریج نے کہا : یعنی آدمی پر اس کے اعمال کی حفاظت کرتے ہیں۔ مِنْ اَمْرِ اللّٰہِ کے دونوں ترجمے ہوسکتے ہیں : وہ فرشتے آگے پیچھے آتے جاتے رہتے ہیں اللہ کے حکم سے۔ یا بندہ کی حفاظت کرتے ہیں اللہ کے حکم کی وجہ سے۔ اوّل مطلب پر معقبات کی صفت ہوگی اور دوسرے مطلب پر یحفظون سے اس کا تعلق ہوگا۔ یا اَمْرِ اللّٰہِ سے مراد ہے : اللہ کا عذاب ‘ یعنی اللہ کے عذاب سے بندے کو بچاتے ہیں ‘ اس کیلئے دعائے مغفرت کرتے ہیں ‘ مہلت طلب کرتے ہیں۔ بعض علماء نے کہا : مِنْ اَمْرِ اللّٰہِ میں مِنْ بمعنی باء ہے ‘ یعنی اللہ کے حکم کے سبب اس کی حفاظت کرتے ہیں۔ بعض کے نزدیک معقبات سے مراد وہ آدمی ہے جو بادشاہ کے گرداگرد اس کی حفاظت کیلئے مقرر ہوتے ہیں اور بادشاہ اپنی خام خیالی کی وجہ سے سمجھتا ہے کہ اللہ کے جاری کردہ فیصلہ سے وہ مجھے بچا لیں گے۔ بغوی نے لکھا ہے : یہ بھی کہا گیا ہے کہ لَہٗ معقبات میں لَہٗ کی ضمیر محمد ﷺ کی طرف راجع ہے۔ یعنی رسول اللہ ﷺ کی حفاظت کیلئے اللہ کی طرف سے کچھ فرشتے مقرر ہیں جو آپ کے آگے پیچھے رہتے ہیں اور شیاطین ‘ جن و انس کے شر اور حوادث لیل و نہار سے آپ کی حفاظت کرتے ہیں۔ عبدالرحمن بن زید نے کہا : اس آیت کا نزول عامر بن طفیل اور اربد بن ربیعہ کے سلسلہ میں ہوا۔ کلبی نے بروایت ابوصالح حضرت ابن عباس کا بیان نقل کیا ہے کہ عامر بن طفیل عامری اور اربد بن ربیعہ عامری رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہونے کے ارادے سے چلے۔ رسول اللہ ﷺ مسجد کے اندر صحابہ کی ایک جماعت میں تشریف فرما تھے۔ دونوں مسجد میں داخل ہوئے۔ عامر بن طفیل کانا تھا مگر تھا بہت ہی حسین۔ خوبصورتی کی وجہ سے لوگ نظر اٹھا کر اس کی طرف دیکھنے لگے۔ ایک شخص نے عرض کیا : یہ عامر بن طفیل آپ کی طرف آ رہا ہے۔ فرمایا : آنے دو ‘ اگر اللہ کو اس کی بھلائی منظور ہوگی تو اس کو ہدایت کر دے گا۔ عامر آکر کھڑا ہوگیا اور بولا : محمد ﷺ اگر میں مسلمان ہوجاؤں تو مجھے کیا ملے گا ؟ فرمایا : جو دوسرے مسلمانوں کے حقوق و فرائض ہوں گے ‘ وہی تمہارے ہوں گے (یعنی نفع و نقصان میں تم مسلمانوں کے برابر کے شریک ہوجاؤ گے) کہنے لگا : اپنے بعد یہ حکومت میرے سپرد (کرنے کا وعدہ) کرو (تو میں مسلمان ہوجاؤں) حضور ﷺ نے فرمایا : اس کا اختیار مجھے نہیں ‘ یہ تو اللہ کے ہاتھ میں ہے جس طرح چاہے کرے۔ کہنے لگا : تو آپ صحرائیوں (بدویوں اور خانہ بدوشوں) پر مجھے حاکم بنا دیں اور شہریوں (گھروں میں رہنے والوں) پر آپ حاکم رہیں۔ حضور ﷺ نے فرمایا : یہ بھی نہیں ہوسکتا۔ بولا : پھر آپ مجھے کیا دیں گے ؟ فرمایا : میں گھوڑوں کی لگامیں تم کو سپرد کر دوں گا جن پر سوار ہو کر تم جہاد کرو گے۔ بولا : کیا آج تک میرے پاس یہ نہیں ہیں (یعنی گھوڑے تو میرے پاس موجود ہیں جن پر سوار ہو کر میں جنگ کرتا ہوں) اچھا ‘ آپ میرے ساتھ اٹھ کر آئیں ‘ میں آپ سے بات کرنا چاہتا ہوں۔ حضور ﷺ اٹھ کر اس کے ساتھ ہو لئے۔ عامر نے اربد سے کہہ دیا تھا کہ جب تو مجھے محمد ﷺ کے ساتھ باتوں میں مشغول دیکھے تو ان کے پیچھے سے آکر تلوار سے حملہ کردینا۔ چناچہ عامر جب رسول اللہ ﷺ سے کچھ جھگڑا اور گفتگو میں لوٹ پلٹ کرنے لگا تو اربد حملہ کرنے کے ارادے سے گھوم کر حضور ﷺ کے پیچھے آگیا اور ایک بالشت تلوار نیام سے کھینچ بھی لی لیکن اللہ نے اس کو روک دیا اور وہ پوری تلوار نہ کھینچ سکا ‘ عامر اس کی طرف اشارے بھی کرتا رہا۔ رسول اللہ ﷺ نے جو منہ پھیر کر اربد کو دیکھا اور تلوار نکالنے (کی کوشش) میں مشغول پایا تو دعا کی : اے اللہ ! جس طرح تو چاہے میری طرف سے ان کا کام تمام کر دے (یعنی مجھے ان کا تدارک نہ کرنا پڑے ‘ تو غیب سے ان کو ختم کر دے) اس روز ابر نام کو نہ تھا ‘ دن سخت گرمی کا تھا اور فضا صاف تھی لیکن یکدم اربد پر بجلی ٹوٹ پڑی اور اس کو سوختہ کردیا۔ عامر پیٹھ پھیر کر بھاگا اور کہنے لگا : محمد ﷺ تو نے اپنے رب سے دعا کی ‘ اس نے اربد کو مار ڈالا۔ خدا کی قسم ! میں تیرے اوپر اتنے کم مو گھوڑے اور نوجوان (سوار) چڑھا کر لاؤں گا کہ اس سارے میدان کو (فوج سے) بھر دوں گا۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اللہ تجھے ایسا کرنے ہی نہ دے گا اور قبیلہ کی دو شاخیں یعنی قبائل اوس و خزرج بھی تجھے ایسا نہ کرنے دیں گے (ان کی موجودگی میں تو کچھ نہیں کرسکتا) ۔ غرض عامر جا کر ایک سلولیہ عورت کے گھر جا کر اترا اور صبح کو اٹھ کر ہتھیار باندھے ‘ چہرہ کا رنگ بدلا ہوا تھا۔ گھوڑے پر سوار ہو کر گھوڑے کو ایڑھ لگائی اور دوڑتا ہوا صحرا میں پہنچا اور غرور سے کہنے لگا : اے موت کے فرشتے ! میرے سامنے نکل کر آ۔ پھر کچھ شعر پڑھنے لگا اور بولا : قسم ہے لات و عزٰی کی ! اگر دوپہر تک میں محمد ﷺ اور اس کے ساتھی یعنی ملک الموت تک پہنچ گیا تو اپنا یہ برچھا دونوں کے آرپار کر دوں گا۔ اللہ نے ایک فرشتہ بھیجا جس نے اپنے پَر کی ایک جھپٹ اس کے منہ پر رسید کی اور عامر چکرا کر زمین پر گرپڑا اور اسی وقت اس کے زانو پر ایک بڑی گلٹی نکل آئی۔ مجبوراً سلولیہ عورت کے گھر لوٹ آیا اور کہنے لگا : اونٹ کی گلٹی کی طرح گلٹی اور سلولیہ عورت کے گھر میں موت۔ پھر گھوڑا منگوا کر سوار ہوا اور دوڑاتا ہوا چل دیا ‘ آخر گھوڑے کی پشت پر ہی مرگیا۔ اس طرح اللہ نے رسول ﷺ کی دعا قبول فرمائی۔ عامر طاعون سے مرا اور اربدبجلی سے ہلاک ہوا اور اسی واقعہ کے سلسلہ میں اللہ نے نازل فرمایا : سَوَاءٌ مِّنْکُمْ مَنْ اَسَرَّ الْقَوْلَ وَمَنْ جَھَرَبِہٖ وَمَنْ ھُوَ مُسْتَخُفٍ م باللَّیْلِ سَارِبٌم بالنَّھَارِ لَہٗ مُعَقِّبَاتٌ مِنْم بَیْنِ یَدَیْہِ وَمِنْ خَلْفِہٖ یَحْفَظُوْنَہٗ مِنْ اَمْرِ اللّٰہِ یعنی اللہ کے حکم سے رسول اللہ ﷺ کی حفاظت وہ فرشتے کرتے ہیں جو رسول اللہ ﷺ کے آگے پیچھے ہیں۔ جیسا کہ ثعلبی نے روایت کیا۔ طبرانی نے حضرت ابن عباس کی روایت سے بیان کیا کہ اربد بن قیس اور عامر بن طفیل مدینہ میں رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ عامر نے کہا : محمد ﷺ اگر میں مسلمان ہوجاؤں تو آپ مجھے کیا دیں گے ؟ حضور ﷺ نے فرمایا : جو مسلمانوں کا فائدہ ہوگا ‘ وہ تمہارا بھی ہوگا اور جو مسلمانوں پر فرض ہوگا ‘ وہ تم پر بھی ہوگا۔ عامر نے کہا : کیا اپنے بعد آپ میرے لئے یہ حکومت مقرر کردیں گے ؟ حضور ﷺ نے فرمایا : یہ نہ تم کو ملے گی نہ تمہاری قوم کو۔ یہ سن کر عامر نے اربد سے (چپکے سے) کہا : میں محمد ﷺ کو باتوں میں لگا لوں گا ‘ تم تلوار سے ان پر حملہ کردینا۔ غرض اس کے بعد دونوں لوٹ گئے (چلتے وقت) عامر نے کہا : محمد ﷺ ذرا میرے ساتھ اٹھ کر چلو۔ حضور ﷺ اٹھ کھڑے ہوئے اور کھڑے اس سے باتیں کرنے لگے۔ اربد نے تلوار سونت لی اور قبضہ پر ہاتھ رکھا ہی تھا کہ ہاتھ سوکھ گیا۔ رسول اللہ ﷺ نے گردن پھیر کر اس کو دیکھ لیا پھر دونوں کو چھوڑ کر آپ واپس چلے آئے۔ دونوں چلے گئے ‘ جب مقام رقم میں پہنچے تو بحکم خدا اربد پر بجلی ٹوٹ پڑی اور بجلی نے اس کو ہلاک کردیا۔ اس پر اللہ نے آیات اللہ یعلم ما تحمل کل اُنْثٰی ......... شدید المحال تک نازل فرمائیں (ثعلبی اور طبرانی کی روایات میں فرق یہ ہے کہ ثعلبی کی روایت میں اربد بن ربیعہ آیا ہے اور طبرانی کی روایت میں اربد بن قیس۔ ثعلبی کی روایت میں عامر کا طاعون سے ہلاک ہونا مذکور ہے اور طبرانی کی روایت میں اس کا ذکر نہیں ہے۔ ثعلبی کی روایت میں بہت زیادہ تفصیل ہے اور طبرانی کی روایت مختصر ہے وغیرہ۔ مترجم) ان اللہ لا یغیر ما یغیر ما بقوم حتی یغیروا ما بانفسھم واذا اراد اللہ بقوم سوء فلا مردلہ وما لھم من دونہ من وال حقیقت یہ ہے کہ اللہ کسی قوم کی (اچھی) حالت کو (بری حالت سے) نہیں بدلتا جب تک وہ اپنی (اچھی) حالت کو نہیں بدلتے اور جب اللہ کسی قوم پر مصیبت ڈالنا چاہتا ہے تو پھر اس کے ہٹنے کی کوئی صورت نہیں اور کوئی اللہ کے سوا ان کا مددگار نہیں رہتا۔ مَا بِقَوْمٍ یعنی کسی قوم کی عافیت اور نعمت کو نہیں بدلتا۔ مَا بِاَنْفُسِھِمْ یہاں تک کہ وہ اپنے اچھے احوال کی جگہ برے احوال اختیار نہ کرلیں۔ وَاِذَآ اَرَاد اللّٰہُ بِقَوْمٍ یعنی اپنے اچھے احوال کو خود اپنے ہاتھوں بگاڑ دینے کے بعد جب اللہ ان پر مصیبت ڈالنا چاہتا ہے ‘ عذاب دینا اور تباہ کرنا چاہتا ہے۔ فَلاَ مَرَدَّ لَہٗ تو اس کو کوئی لوٹانے والا نہیں۔ مَرَدٌّ مصدر ہے بمعنی اسم فاعل مِنْ وَّالٍ کارساز ‘ مددگار کہ مصیبت کو دفع کرسکے۔ یہ آیت دلالت کر رہی ہے کہ ارادۂ خداوندی کے خلاف ہونا محال ہے (یہی مسلک اہلسنّت کا ہے۔ معتزلہ قائل ہیں کہ جس طرح حکم خداوندی کی خلاف ورزی ممکن بلکہ واقع ہے ‘ اسی طرح اللہ کے ارادہ و مشیّت کی خلاف ورزی بھی ہوسکتی ہے۔ مترجم)
Top