Tafseer-e-Mazhari - Ar-Ra'd : 29
اَلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ طُوْبٰى لَهُمْ وَ حُسْنُ مَاٰبٍ
اَلَّذِيْنَ : جو لوگ اٰمَنُوْا : ایمان لائے وَعَمِلُوا : اور انہوں نے عمل کیے الصّٰلِحٰتِ : نیک (جمع) طُوْبٰى : خوشحالی لَهُمْ : ان کے لیے وَحُسْنُ : اور اچھا مَاٰبٍ : ٹھکانا
جو لوگ ایمان لائے اور عمل نیک کئے ان کے لیے خوشحالی اور عمدہ ٹھکانہ ہے
الذین امنوا وعملوا الصلحت طوبی لھم جو لوگ ایمان لے آئے اور نیک کام کئے ‘ ان کیلئے خوشی ہے۔ حضرت ابن عباس نے طوبیٰ کا ترجمہ کیا ہے : خوشی اور خنکی چشم۔ عکرمہ نے کہا : ان کا مآل اچھا ہوگا۔ قتادہ نے کہا : ان کیلئے بھلائی ہوگی۔ (ان تمام مطالب پر) طوبیٰ بروزن بشرٰی مصدر ہوگا۔ طاب (ماضی) یطیب (مضارع) (1) [ حضرت ابن عمر روای ہیں کہ حضور ﷺ کے سامنے طوبیٰ کا ذکر کیا گیا تو فرمایا : ابوبکر ! کیا تم کو معلوم ہے کہ طوبیٰ کیا ہے ؟ حضرت ابوبکر نے عرض کیا : اللہ اور اللہ کا رسول ﷺ ہی خوب جانتے ہیں۔ فرمایا : طوبیٰ جنت میں ایک درخت ہے جس کی لمبائی سے اللہ ہی واقف ہے۔ اس کی ایک شاخ کے نیچے ستر برس تک گھوڑا سوار چلتا رہے (تو اس کو طے نہ کر پائے) الخ (ازالۃ الخفاء)] معمر نے قتادہ کا قول نقل کیا ہے : اگر تم کو کوئی بھلائی اور فائدہ حاصل ہوجائے تو دوسرا آدمی (کوئی دوست) تم سے کہتا ہے : طوبٰی لک (گویا طوبیٰ کلمۂ تبریک ہے) ابراہیم نے کہا : نیکوکار مؤمنوں کیلئے بھلائی اور عزت ہوگی۔ سعید بن جبیر نے کہا : حبشی زبان میں طوبیٰ باغ (جنت) کو کہتے ہیں۔ بغوی کا بیان ہے کہ حضرت ابو امامہ ‘ حضرت ابوہریرہ اور حضرت ابو درداء نے فرمایا : طوبیٰ جنت میں ایک درخت ہے جو تمام جنتوں پر سایہ فگن ہے۔ عبید بن عمیر نے کہا : طوبیٰ جنت عدن کے اندر رسول اللہ ﷺ کے (جنتی) مکان میں ایک درخت ہے جس کی شاخیں (مؤمن کے ہر جنتی) مکان اور بالا خانہ پر سایہ فگن ہیں۔ سوائے سیاہ رنگ کے ‘ ہر رنگ اور ہر پھول اور ہر پھل اور ہر میوہ اللہ نے اس درخت میں پیدا کیا ہے۔ اس کی جڑ سے دو چشمے نکلتے ہیں ‘ کافور اور سلسبیل۔ مقاتل نے کہا : اس کا ہر پتہ ایک گروہ پر سایہ فگن ہے اور ہر پتہ پر ایک فرشتہ اللہ کی طرح طرح کی تسبیح بیان کرنے میں مشغول ہے۔ احمد ‘ ابن حبان ‘ طبرانی ‘ ابن مردویہ اور بیہقی نے حضرت عتبہ بن عبد اللہ سلمی کا بیان نقل کیا کہ ایک شخص نے عرض کیا : یا رسول اللہ ﷺ ! کیا جنت کے اندر پھل ہوں گے ؟ فرمایا : ہاں ‘ وہاں ایک درخت ہوگا طوبیٰ جو فردوس کے مطابق ہوگا (شاید مطابق ہونے سے یہ مراد ہے کہ پوری جنت فردوس پر چھایا ہوا ہوگا) سائل نے عرض کیا : ہماری زمین کے کسی درخت سے اس کی مشابہت ہوسکتی ہے ؟ فرمایا : تیری اس زمین کے کسی درخت سے اس کی مشابہت نہیں۔ کیا تو شام کو گیا ہے ؟ سائل نے جواب دیا : نہیں۔ فرمایا : شام میں ایک درخت ہوتا ہے جو طوبیٰ سے (کچھ) مشابہت رکھتا ہے ‘ اس درخت کو اخروٹ کا درخت کہتے ہیں۔ اس کا ایک تنا ہوتا ہے اور اوپر جا کر اس کی شاخیں پھیل جاتی ہیں۔ سائل نے کہا : وہ کتنا بڑا ہوگا ؟ فرمایا : اگر تو اپنے گھر والوں کے اونٹوں کا گلہ لے کر اس کی جڑ کے گرداگرد گھومے تو اگر تو بوڑھا ہوجائے اور بوڑھا ہو کر گرپڑے تب بھی اس کی جڑ کا دورہ پورا نہ ہوگا۔ سائل نے عرض کیا : کیا اس میں انگور بھی ہوں گے ؟ فرمایا : ہاں۔ عرض کیا : ان کا خوشہ کتنا بڑا ہوگا ؟ فرمایا : چتکبرے کوے کی ایک ماہ کی رفتار (اڑان) کے برابر۔ عرض کیا : اس کا ایک دانہ کتنا بڑا ہوگا ؟ فرمایا : کیا تیرے باپ نے کوئی بڑا بکرا کبھی ذبح کیا ہے ؟ عرض کیا : جی ہاں۔ فرمایا : کیا اس کی کھال اتار کر تیری ماں کو دے کر یہ کہا تھا کہ اس کی دباغت کر کے ایک (بڑا) ڈول اس کا بنا لینا جس میں پانی بھر کر ہم اپنے جانوروں کو پلایا کریں گے ؟ سائل نے عرض کیا : تو (اس سے اندازہ یہ ہوا کہ) اس کا ایک دانہ میرے اور میرے گھر والوں کا پیٹ بھر دے گا ؟ فرمایا : ہاں ‘ اور تیرے سارے کنبہ کا بھی۔ حضرت ابو سعید خدری راوی ہیں کہ ایک شخص نے رسول اللہ ﷺ سے دریافت کیا : طوبیٰ کیا ہے ؟ فرمایا : جنت میں ایک درخت ہے (جس کا پھیلاؤ) سو سال کی رفتار کے برابر ہے۔ اہل جنت کے کپڑے اس کے شگوفوں سے برآمد ہوں گے۔ رواہ ابن حبان۔ معاویہ بن قرہ نے اپنے باپ کی مرفوع روایت سے بیان کیا ہے کہ طوبیٰ ایک درخت ہے جس کو اللہ نے اپنے ہاتھ سے بویا ہے اور اس کے اندر اپنی روح سے پھونکا۔ اس درخت سے زیور اور کپڑے پیدا ہوں گے اور اس کی شاخیں حصار جنت کے باہر سے دکھائی دیں گی۔ بغوی نے اپنی سند سے حضرت ابوہریرہ کا قول نقل کیا ہے کہ جنت کے اندر ایک درخت ہے جس کے سایہ میں گھوڑا سوار سو برس تک چلتا رہے تب بھی قطع نہ کرسکے۔ اگر تم اس کا ثبوت چاہتے ہو تو پڑھو : وَظِلٍ مَّمْدُوْدٍ (متفق علیہ) امام احمد نے یہ روایت نقل کرنے کے بعد اتنا زائد بیان کیا کہ اس کے پتے جنت کو ڈھانک لیں گے۔ نہاد بن سری نے الزہد میں اور بغوی نے (تفسیر میں) آخر میں اتنا اور بھی بیان کیا کہ اس بیان کی اطلاع کعب کو پہنچی تو انہوں نے کہا : یہ سچ ہے ‘ قسم ہے اس خدا کی جس نے موسیٰ پر تورات اور محمد ﷺ پر قرآن نازل کیا ‘ اگر کوئی شخص سہ سالہ یا چہار سالہ اونٹ پر سوار ہو کر اس درخت کے تنہ کے گرداگرد چکر لگائے تو دورہ پورا نہ کرسکے یہاں تک کہ (عمر ختم ہوجائے اور) پیر فرتوت ہو کر گرپڑے۔ اللہ نے اس کو اپنے ہاتھ سے بویا ہے اور اپنی روح اس میں پھونکی ہے۔ اس کی شاخیں جنت کے باہر سے نظر آئیں گی (یعنی پوری جنت پر وہ سایہ فگن ہوگا) جنت کی ہر نہر اسی درخت کی جڑ سے نکلتی ہے۔ حضرت ابوہریرہ کا قول ہے کہ جنت میں ایک درخت ہے جس کو طوبیٰ کہا جاتا ہے۔ اللہ اس سے فرمائے گا : میرا بندہ جو کچھ چاہتا ہے تو شگافتہ ہو کر اپنے اندر سے اس چیز کو برآمد کر دے۔ حسب الحکم درخت پھٹے گا اور اس کے اندر سے بندہ کی خواہش کے مطابق گھوڑا زین اور لگام پورے ساز سمیت برآمد ہوجائے گا اور بندہ کی خواہش کے مطابق اونٹنی اپنے کجاوے ‘ نکیل اور سامان سمیت برآمد ہوجائے گی اور کپڑے بھی پھٹ کر اس درخت سے نکلیں گے۔ رواہ البغوی وابن ابی الدنیا۔ ابن مبارک اور ابن جریر نے شہر بن حوشب کا قول نقل کیا ہے کہ طوبیٰ جنت کے اندر ایک درخت ہے ‘ جنت کا ہر درخت اسی سے پیدا ہے۔ اس کی شاخیں حصار جنت سے باہر دکھائی دیں گی۔ وحسن ماب اور اچھا انجام ہے۔ مآب پلٹنے کی جگہ۔
Top