Tafseer-e-Mazhari - Ibrahim : 25
تُؤْتِیْۤ اُكُلَهَا كُلَّ حِیْنٍۭ بِاِذْنِ رَبِّهَا١ؕ وَ یَضْرِبُ اللّٰهُ الْاَمْثَالَ لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ یَتَذَكَّرُوْنَ
تُؤْتِيْٓ : وہ دیتا ہے اُكُلَهَا : اپنا پھل كُلَّ حِيْنٍ : ہر وقت بِاِذْنِ : حکم سے رَبِّهَا : اپنا رب وَيَضْرِبُ : اور بیان کرتا ہے اللّٰهُ : اللہ الْاَمْثَالَ : مثالیں لِلنَّاسِ : لوگوں کے لیے لَعَلَّهُمْ : تاکہ وہ يَتَذَكَّرُوْنَ : وہ غور وفکر کریں
اپنے پروردگار کے حکم سے ہر وقت پھل لاتا (اور میوے دیتا) ہو۔ اور خدا لوگوں کے لیے مثالیں بیان فرماتا ہے تاکہ وہ نصیحت پکڑیں
تؤتی اکلھا کل حین باذن ربھا جو اپنے خالق کے ارادے اور تخلیق کی وجہ سے ہر (اس) وقت پھل دیتا ہے (جو اس کے رب نے پھل لانے کیلئے مقرر کردیا ہے) ۔ کلمۂ طیبہ کی بھی یہی حالت ہے ‘ مؤمن کے دل میں اس کی جڑ یعنی ایمان مضبوطی کے ساتھ قائم ہے۔ جب یہ کلمہ زبان سے نکلتا ہے تو اوپر اٹھنے اور اللہ تک پہنچنے سے اس کو کوئی نہیں روک سکتا۔ اللہ نے فرمایا ہے : اِلَیْہِ یَصَعَدُ الْکَلِمُ الطَّیِّبُ اللہ ہی کی طرف پاکیزہ کلمہ چڑھتا ہے۔ ترمذی نے حضرت عبد اللہ بن عمرو کی روایت سے بیان کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : سبحان اللہ پڑھنا (قیامت کے دن) میزان (عدل) کا آدھا حصہ ہوگا اور الحمد اللہ (پڑھنا) میزان کو (نیکیوں سے) بھر دے گا اور لا الٰہ الا اللہ کو (ا اللہ تک پہنچنے سے) کوئی مانع نہیں۔ ترمذی نے حسن کی سند سے حضرت ابوہریرہ کا قول نقل کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب بھی کوئی بندہ خلوص کے ساتھ لا الٰہ الا اللہ کہتا ہے تو ضرور اس کیلئے آسمان کے دروازے کھول دئیے جاتے ہیں ‘ یہاں تک کہ وہ کلمہ عرش تک پہنچ جاتا ہے بشرطیکہ اس کا قائل کبیرہ گناہوں سے بچتا رہے۔ ترمذی ‘ نسائی ‘ ابن حبان اور حاکم نے حضرت انس کی روایت سے بیان کیا ہے اور حاکم نے اس کو صحیح بھی کہا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : شجرۂ طیبہ کھجور کا درخت ہے اور شجرۂ خبیثہ حنظل (اندرائن) کا درخت ہے۔ لغت میں حَیْن کا معنی ہے : وقت۔ مجاہد اور عکرمہ کے نزدیک اس جگہ پورا سال مراد ہے کیونکہ درخت کھجور میں پورے سال پھل آتا ہے۔ سعید بن جبیر ‘ قتادہ اور حسن بصری کے نزدیک چھ مہینے کی مدت مراد ہے ‘ یعنی کایا نکلنے کے وقت سے کھجور توڑنے کے وقت تک۔ حضرت ابن عباس کی طرف بھی اس قول کی نسبت کی جاتی ہے۔ بعض علماء کے نزدیک چار ماہ کی مدت مراد ہے ‘ یعنی پھل برآمد ہونے کے وقت سے پھل پکنے کا وقت۔ سعید بن مسیب نے کہا : دو ماہ مراد ہیں ‘ یعنی کھجور کھانے کے قابل ہوجائے ‘ اس وقت سے لے کر توڑنے کے وقت تک۔ ربیع بن انس نے کہا : کُلَّ حَیْن سے مراد ہے : ہر صبح شام کیونکہ کھجوریں ہر زمانہ میں اور ہر فصل میں اور ہر وقت کھائی جاتی ہیں۔ صبح ہو یا شام ‘ گرمی کی فصل ہو یا سردی کا موسم ‘ چھواروں کی شکل میں اس کو کھایا جاتا ‘ یا کھجوروں کی صورت میں ‘ یا نیم پخت حالت میں۔ مؤمن کے عمل کی بھی یہی حالت ہے۔ صبح شام ‘ رات دن اور درمیانی اوقات میں ‘ غرض ہر وقت نیک عمل اوپر چڑھتا ہے اور ایمان کی برکت کبھی منقطع نہیں ہوتی ‘ ہر وقت حاصل ہوتی ہے۔ حضرت ابن عمر کی روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : درختوں میں ایک درخت ایسا ہے جس کے پتے نہیں جھڑتے اور وہ مسلمان کی طرح ہوتا ہے۔ بتاؤ ‘ وہ کونسا درخت ہے ؟ حضرت ابن عمر نے فرمایا : لوگوں کے خیالات صحرائی درختوں کی طرف جا پڑے اور میرے دل میں آیا کہ ایسا درخت کھجور ہوتا ہے ‘ مگر میں (چھوٹا تھا ‘ اسلئے) جھجکا (اور کچھ کہنے کی ہمت نہ ہوئی) آخر حاضرین نے عرض کیا : یا رسول اللہ ﷺ ! خود ہی بیان فرما دیں۔ فرمایا : وہ کھجور کا درخت ہے۔ بغوی نے لکھا ہے : درخت کی تکمیل تین اجزاء سے ہوتی ہے : زمین کے اندر جمے ہوئے ریشے ‘ تنا اور شاخیں۔ ایمان کی تکمیل بھی تین ہی چیزوں سے ہوتی ہے : (دل سے) تصدیق ‘ زبان سے اقرار اور اعضائے جسم سے عمل۔ ابو ظبیان نے حضرت ابن عباس کا قول بیان کیا کہ شجرۂ طیبہ جنت کے اندر ایک درخت ہے۔ حضرت جابر کی روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس نے (خلوص کے ساتھ) سبحان اللہ العظیم وبحمدہ کہا ‘ اس کیلئے کھجور کا ایک درخت جنت میں بو دیا جاتا ہے (رواہ الترمذی) ۔ ویضرب اللہ الامثال للناس لعلھم یتذکرون اور اللہ لوگوں کے (فائدہ کے) لئے مثالیں بیان کرتا ہے تاکہ وہ نصیحت حاصل کریں۔ تمثیل نام ہے معانی کی تصویرکشی کا اور غیر محسوس کو حس کے قریب لے آنے کا ‘ اسلئے تمثیلات سے مقصود کے سمجھنے میں آسانی اور نصیحت اندوزی میں سہولت ہوجاتی ہے۔
Top