Tafseer-e-Mazhari - Ibrahim : 31
قُلْ لِّعِبَادِیَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا یُقِیْمُوا الصَّلٰوةَ وَ یُنْفِقُوْا مِمَّا رَزَقْنٰهُمْ سِرًّا وَّ عَلَانِیَةً مِّنْ قَبْلِ اَنْ یَّاْتِیَ یَوْمٌ لَّا بَیْعٌ فِیْهِ وَ لَا خِلٰلٌ
قُلْ : کہ دیں لِّعِبَادِيَ : میرے بندوں سے الَّذِيْنَ : وہ جو کہ اٰمَنُوْا : ایمان لائے يُقِيْمُوا : قائم کریں الصَّلٰوةَ : نماز وَيُنْفِقُوْا : اور خرچ کریں مِمَّا : اس سے جو رَزَقْنٰهُمْ : ہم نے انہیں دیا سِرًّا : چھپا کر وَّعَلَانِيَةً : اور ظاہر مِّنْ قَبْلِ : اس سے قبل اَنْ يَّاْتِيَ : کہ آجائے يَوْمٌ : وہ دن لَّا بَيْعٌ : نہ خریدو فروخت فِيْهِ : اس میں وَلَا خِلٰلٌ : اور نہ دوستی
(اے پیغمبر) میرے مومن بندوں سے کہہ دو کہ نماز پڑھا کریں اور اس دن کے آنے سے پیشتر جس میں نہ (اعمال کا) سودا ہوگا اور نہ دوستی (کام آئے گی) ہمارے دیئے ہوئے مال میں سے درپردہ اور ظاہر خرچ کرتے رہیں
قل لعبادی الذین امنوا یقیموا الصلوۃ وینفقوا مما رزقنھم سرا وعلانیۃ (اے محمد ! ) آپ میرے ان بندوں سے جو ایمان لے آئے ہیں ‘ کہہ دیجئے کہ وہ نمازیں قائم کریں اور جو کچھ ہم نے ان کو عطا کیا ہے ‘ اس میں سے پوشیدہ اور ظاہر طور پر راہ خدا میں کچھ خرچ کریں۔ اہل ایمان کو خصوصی طور پر نماز پڑھنے اور راہ خدا میں خرچ کرنے کی ہدایت کرنے کا حکم دیا اور مؤمنوں کو خاص طور پر عبادی فرمایا اور اپنے بندے قرار دیا ‘ اس سب سے مقصود اہل ایمان کی عزت افزائی ہے اور اس امر پر تنبیہ کرنی مقصود ہے کہ اہل ایمان ہی حقیقتاً حقوق عبدیت کو ادا کرنے اور تعمیل احکام کرنے والے ہیں ‘ وہ امر کی تعمیل کریں گے۔ یُقِیْمُُوا ‘ قُلْ کا مفعول نہیں ہے۔ قُلْ کا مفعول محذوف ہے ‘ یعنی آپ ان کو حکم دیں کہ تم لوگ نماز پڑھو اور راہ خدا میں خرچ کرو۔ یُقِیْمُُوا اور یَنْفِقُوا شرط محذوف کی جزا ہے ‘ یعنی اگر تم ان کو حکم دو گے تو وہ تعمیل کریں گے۔ اس کلام میں تنبیہ ہے اس امر پر کہ وہ رسول اللہ ﷺ کے فرمانبردار ہیں ‘ فرمان کو ضرور مانیں گے اور تعمیل کریں گے۔ من قبل ان یاتی یوم لا بیع فیہ ولا خلل قبل اس کے کہ وہ دن آجائے کہ اس میں نہ خریدو فروخت ہوگی (کہ کوئی قصور وار کوئی ایسی چیز خرید کر دے دے جو اس کے قصور کا بدلہ ہو سکے) اور نہ کوئی دوستی ہوگی (کہ دوست اپنے دوست کی سفارش کر کے بچا لے) ۔ ایک شبہ : متقی شفاعت کریں گے اور بعض مؤمن بعض مؤمنوں کی بھی شفاعت کریں گے ‘ یہ مسئلہ مسلمہ ہے۔ اللہ نے فرمایا ہے : اَلْاَ خلاَّءُ یَوْمَءِذٍ بَعْضُھُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ الاَّ الْمُتَّقِیْنَ سب دوست باہم دشمن ہوجائیں گے سوائے تقویٰ والوں کے (یعنی متقی باہم دشمن نہ ہوں گے) پھر عموماً دوستی کام نہ آنے کی جو اس آیت میں صراحت ہے ‘ وہ کس طرح صحیح ہوسکتی ہے ؟ جواب : نماز پڑھنے اور زکوٰۃ دینے کا حکم ہی تقویٰ اختیار کرنے کا حکم ہے۔ جن میں تقویٰ نہ ہو ‘ ان میں باہم دوستی نہ ہوگی ‘ یعنی جو نماز نہ پڑھیں اور زکوٰۃ نہ دیں ‘ وہ متقی نہ ہوں گے اور جو متقی نہ ہوں گے ‘ ان میں باہم دوستی نہ ہوگی اور دوستی نہ ہوگی تو ان میں سے کوئی کسی کی شفاعت نہیں کرے گا۔
Top