Tafseer-e-Mazhari - Ibrahim : 47
فَلَا تَحْسَبَنَّ اللّٰهَ مُخْلِفَ وَعْدِهٖ رُسُلَهٗ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ عَزِیْزٌ ذُو انْتِقَامٍؕ
فَلَا تَحْسَبَنَّ : پس تو ہرگز خیال نہ کر اللّٰهَ : اللہ مُخْلِفَ : خلاف کرے گا وَعْدِهٖ : اپنا وعدہ رُسُلَهٗ : اپنے رسول اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ عَزِيْزٌ : زبردست ذُو انْتِقَامٍ : بدلہ لینے والا
تو ایسا خیال نہ کرنا کہ خدا نے جو اپنے پیغمبروں سے وعدہ کیا ہے اس کے خلاف کرے گا بےشک خدا زبردست (اور) بدلہ لینے والا ہے
فلا تحسبن اللہ مخلف وعدہ رسلہ پس آپ یہ خیال بھی نہ کرنا کہ اللہ نے جو وعدہ اپنے پیغمبروں سے (ان کی نصرت اور دشمنوں کو ہلاک کرنے کا) کیا ہے ‘ وہ اس کے خلاف کرنے والا ہے۔ اللہ نے اپنے پیغمبروں کی نصرت کا وعدہ ایک اور آیت میں کیا ہے ‘ فرمایا ہے : اِنَّا لَنَنْصُرُ رُسُلَنَا اور پیغمبروں کو غالب کرنے اور دشمنوں کو ہلاکت کرنے کے متعلق فرمایا ہے : لَنُھْلِکَنَّ الظَّالِمِیْنَ وَلَنُسْکِنَتَّکُمُ الْاَرْضَ مِنْم بَعْدِھِمْ ۔ وَعْدِہٖ کو رُسُلَہٗ سے پہلے ذکر کرنے سے اس طرف اشارہ ہے کہ اللہ وعدہ خلافی کرتا ہی نہیں ہے۔ اِنَّ اللّٰہَ لاَ یُخْلِفُ الْمِیْعَاد اور وہ کسی سے وعدہ خلافی نہیں کرتا تو پیغمبروں سے جو وعدہ کیا ہے ‘ اس کے خلاف کیسے کرسکتا ہے۔ ان اللہ عزیز ناقابل شک ہے یہ بات کہ اللہ غالب ہے۔ اس کے مقابلے میں کوئی سازش نہیں کی جاسکتی اور ایسا قاد رہے کہ اس کا مقابلہ نہیں ہوسکتا۔ ذوانتقام (اپنے دوستوں کا دشمنوں سے) انتقام لینے والا ہے۔
Top