Tafseer-e-Mazhari - An-Nahl : 128
اِنَّ اللّٰهَ مَعَ الَّذِیْنَ اتَّقَوْا وَّ الَّذِیْنَ هُمْ مُّحْسِنُوْنَ۠   ۧ
اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ مَعَ : ساتھ الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو اتَّقَوْا : انہوں نے پرہیزگاری کی وَّالَّذِيْنَ : اور وہ لوگ جو هُمْ : وہ مُّحْسِنُوْنَ : نیکو کار (جمع)
کچھ شک نہیں کہ جو پرہیزگار ہیں اور جو نیکوکار ہیں خدا ان کا مددگار ہے
ان اللہ مع الذین اتقوا والذین ہم محسنون اللہ ایسے لوگوں کے ساتھ ہوتا ہے جو (گناہوں سے) بچتے ہیں اور ان کے ساتھ ہوتا ہے جو نیک کردار ہوتے ہیں۔ اتَّقُوْا یعنی گناہوں سے پرہیز رکھتے ہیں۔ مُحْسِنُوْنَ یعنی نیک کردار ہیں۔ یا اتَّقُوْا سے مراد ہیں وہ لوگ جو اللہ کے حکم کی تعظیم کرتے ہیں اور اس سے ڈرتے ہیں اور مُحْسِنُوْنَ سے مراد ہیں وہ لوگ جو مخلوق کے ساتھ اچھا سلوک کرتے ہیں۔ یا اتَّقُوْا سے مراد ہیں وہ لوگ جو بدلہ لینے میں زیادتی کرنے سے بچتے ہیں اور مُحْسِنُوْنَ سے مراد ہیں وہ لوگ جو دوسروں کو معاف کرتے ہیں۔ ا اللہ کے ساتھ ہونے سے مراد ہے : اللہ کی رفاقت ‘ دوستی ‘ مہربانی اور مدد و نصرت کا ساتھ ہونا ‘ یا معیت ذاتیہ مراد ہے جو بےکیف ہے۔ اس کی کوئی کیفیت نہ سمجھی جاسکتی ہے نہ بیان کی جاسکتی ہے۔ ابن سعد وغیرہ نے حضرت ابوہریرہ کی روایت سے جو حدیث بیان کی ہے جس کا ذکر اوپر کردیا گیا ہے ‘ اسی حدیث میں ہے کہ اس آیت کے نزول کے بعد رسول اللہ ﷺ نے اپنی قسم کا کفارہ دے دیا اور جو ارادہ کیا تھا ‘ اس سے باز رہے اور صبر کیا۔ ابن المنذر ‘ طبرانی اور بیہقی نے بھی حضرت ابوہریرہ کی روایت کی طرح حضرت ابن عباس کی روایت سے حدیث مذکور بیان کی ہے اور شان نزول کے سلسلے میں ایسی ہی حدیث سورت کے آغاز میں ہم نے ابن اسحاق ‘ ابن جریر اور عطاء کے حوالے سے ذکر کردی ہے۔ عبدا اللہ بن امام احمد نے زوائد المسند میں اور نسائی اور ابن المنذر اور ابن حبان اور ضیاء اور ترمذی نے بیان کیا ہے اور ترمذی نے اس کو حسن قرار دیا ہے کہ حضرت ابی بن کعب نے فرمایا : احد کی جنگ میں 64 انصار اور چھ مہاجرین کام آئے۔ مہاجرین شہداء میں حضرت حمزہ بھی شامل تھے۔ ان سب کو کافروں نے مثلہ کیا تھا (یعنی سب شہیدوں کے ناک کان بھی کاٹ لئے تھے) انصار نے کہا : اگر ہم کو کسی روز ایسا موقع ہاتھ لگا تو ہم بھی ان کی حالت قابل رحم بنا دیں گے (یعنی ہم بھی مثلہ کردیں گے کہ جو لاشوں کو دیکھے گا ‘ اس کو ان کی ذلیل خستہ حالت دیکھ کر رحم آئے گا) کچھ مدت کے بعد جب مکہ فتح ہوا تو اللہ نے آیت وَاِنْ عَاقَبَتُمْ فَعَاقِبُوْا بِمِثْلِ مَا عُوْقِبْتُمْ بِہٖ وَلَءِنْ صَبَرْتُمْ لَھُوَ خَیْرٌ للِّصَّابِرِیْنَ نازل فرما دی۔ اس آیت کے نزول کے بعد رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ہم بدلہ نہ لیں گے ‘ صبر کریں گے۔ چار آدمیوں کے علاوہ باقی سب سے ہاتھ روک لو (کسی کو قتل نہ کرو) ۔ بغوی نے لکھا ہے : یہ آیت شہداء احد کے متعلق نازل ہوئی۔ مسلمانوں نے جب دیکھا کہ مشرکوں نے ہمارے شہداء کے پیٹ چاک کئے اور بہت ہی برے طریقہ سے لاشوں کے ناک کان کاٹے ہیں ‘ ہر شہید کو مثلہ کردیا گیا ہے ‘ صرف حنظلہ بن ابو عامر راہب کو مثلہ نہیں کیا تھا کیونکہ حضرت حنظلہ کا باپ ابو عامر (جس کو رسول اللہ ﷺ نے راہب کے بجائے فاسق فرمایا تھا) اس روز ابوسفیان کے ساتھ تھا (اسی وجہ سے حنظلہ کو مثلہ کرنے سے انہوں نے چھوڑ دیا تھا ‘ تو کہا : اگر اللہ نے ہم کو ان پر غالب کردیا تو جو حرکت انہوں نے کی ہے ‘ ہم اس سے بھی زیادہ کریں گے اور ایسا مثلہ کریں گے کہ کسی عرب نے کسی کو نہ کیا ہوگا۔ اس وقت رسول اللہ اپنے چچا حضرت حمزہ (کی نعش) کے پاس کھڑے تھے۔ مشرکوں نے حضرت حمزہ ؓ کے کان ناک اور آلات مردانہ کاٹ لئے تھے اور پیٹ چاک کردیا تھا۔ ہندہ بنت عتبہ (زوجۂ ابو سفیان) نے آپ کے جگر کا ایک ٹکڑا چبا ڈالا تھا اور اس کو نگل گئی مگر وہ پیٹ میں رک نہ سکا اور اس نے اگل دیا۔ رسول اللہ کو جب یہ اطلاع ملی تو آپ نے فرمایا : سنو ! اگر وہ کھا لیتی تو آگ میں کبھی داخل نہ ہوتی۔ حمزہ کو اللہ نے یہ عزت عطا فرما دی ہے کہ ان کا کوئی حصہ دوزخ میں نہیں جائے گا۔ رسول اللہ نے حمزہ ؓ کی جو یہ حالت دیکھی تو ایسا منظر آنکھوں کے سامنے آیا کہ اس سے زیادہ دلخراش منظر کبھی نہیں دیکھا تھا ‘ فرمایا : ابو السائب ! آپ پر اللہ کی رحمت ہو ‘ مجھے معلوم ہے کہ آپ بڑے نیک کردار اور صلہ رحمی کرنے والے تھے۔ اگر آپ کے بعد رہنے والوں کے رنجیدہ ہونے کا خیال نہ ہوتا تو مجھے اس بات سے خوشی ہوتی کہ آپ کو یونہی (بےگور و کفن) چھوڑ دوں تاکہ (قیامت کے دن) آپ کا حشر متعدد (درندوں اور پرندوں کی) گروہوں کے اندر سے ہو۔ خدا کی قسم ! اگر اللہ نے مجھے ان پر فتح عنایت کی تو آپ کی جگہ میں ان کے ستّر آدمیوں کو ضرورضرور مثلہ کروں گا۔ اس پر اللہ نے آیات مذکورہ نازل فرمائیں ان کے بعد حضور ﷺ نے فرمایا : ہم (انتقام نہیں لیں گے بلکہ) صبر کریں گے۔ چناچہ آپ اپنے ارادہ سے باز آگئے اور قسم کا کفارہ ادا کردیا۔ فائدہ حضرت ابی بن کعب کی مذکورۂ بالا روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ اس آیت کا نزول فتح مکہ کے وقت ہوا ___ حضرت ابوہریرہ ‘ حضرت ابن عباس اور عطاء بن یسار کے بیان سے معلوم ہوتا ہے کہ احد کے موقع پر یہ آیات نازل ہوئیں۔ ابن الحصار نے دونوں متضاد روایتوں میں ایک صورت جامعہ اس طرح بیان کی ہے کہ ان آیات کا نزول اوّل مکہ میں ‘ پھر احد میں ‘ پھر فتح کے بعد یادداشت کے طور پر ہوا۔ بغوی نے لکھا ہے کہ حضرت ابن عباس اور ضحاک نے فرمایا : اس آیت کا حکم سورة براءت کے نزول سے پہلے تھا جبکہ حضور ﷺ کو خود آغاز قتال سے منع کیا گیا تھا اور لڑنے والوں سے لڑنے کا حکم دیا گا تھا۔ لیکن اللہ نے اسلام کو غالب کردیا اور سورة براءت نازل ہوگئی اور (عمومی جہاد کا حکم دے دیا گیا تو) یہ آیت منسوخ کردی گئی۔ نخعی ‘ ثوری ‘ سدی ‘ مجاہد اور ابن سیرین کے نزدیک یہ آیت محکم ہے ‘ منسوخ نہیں ہوئی۔ جن لوگوں نے ظلم کیا ہو ‘ ان کے ظلم کے مطابق انتقام لینے کا حکم اس آیت میں دیا گیا ہے یہی اس کی شان نزول ہے ‘ ظالم نے جتنا ظلم کیا ہو ‘ اس سے زیادہ انتقام لینا جائز نہیں۔ بقدر ظلم بدلہ لیا جاسکتا ہے اور معاف کردینا بہتر ہے۔ مسئلہ باتفاق علماء مثلہ کرنا ناجائز ہے۔ ابن اسحاق نے حضرت سمرہ بن جندب کا بیان نقل کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ (تقریر فرمانے کیلئے) جس مقام پر بھی کھڑے ہوئے ‘ جب تک اسی جگہ صدقہ (خیر خیرات ‘ زکوٰۃ) دینے کا حکم نہیں دے دیا اور مثلہ کرنے کی ممانعت نہ کردی ‘ وہاں سے نہ ہٹے۔ مُثلہ کرنے کی ممانعت بکثرت احادیث میں آئی ہے۔ سورۂ نحل کی تفسیر 2/رجب 1402 ھ ؁ کو ختم ہوئی __ الحمد اللہ کہ سورة نحل کی تفسیر کا ترجمہ 16/ رمضان المبارک 1387 ھ ؁ کو بعونہ تعالیٰ ختم ہوا رَبِّ اَوْزِعْنِیْٓ اَنْ اَشْکُرَ نِعْمَتَکَ
Top