Tafseer-e-Mazhari - An-Nahl : 22
اِلٰهُكُمْ اِلٰهٌ وَّاحِدٌ١ۚ فَالَّذِیْنَ لَا یُؤْمِنُوْنَ بِالْاٰخِرَةِ قُلُوْبُهُمْ مُّنْكِرَةٌ وَّ هُمْ مُّسْتَكْبِرُوْنَ
اِلٰهُكُمْ : تمہارا معبود اِلٰهٌ : معبود وَّاحِدٌ : ایک (یکتا) فَالَّذِيْنَ : پس جو لوگ لَا يُؤْمِنُوْنَ : ایمان نہیں رکھتے بِالْاٰخِرَةِ : آخرت پر قُلُوْبُهُمْ : ان کے دل مُّنْكِرَةٌ : منکر (انکار کرنیوالے) وَّهُمْ : اور وہ مُّسْتَكْبِرُوْنَ : تکبر کرنے والے (مغرور)
تمہارا معبود تو اکیلا خدا ہے۔ تو جو آخرت پر ایمان نہیں رکھتے ان کے دل انکار کر رہے ہیں اور وہ سرکش ہو رہے ہیں
الھکم الہ واحد تمہارا معبود ‘ ایک معبود ہے۔ یعنی دلائل سے ثابت ہوگیا کہ تمہارا معبود ایک ہی ہے ‘ اس کا کوئی شریک نہیں۔ فالذین لا یومنون بالاخرۃ قلوبھم منکرۃ پس جو لوگ آخرت کو نہیں مانتے ‘ ان کے دل (ا اللہ کی ان گنت نعمتوں کا) انکار کرتے ہیں باوجودیکہ خداداد نعمتیں بالکل ظاہر ہیں۔ بات یہ ہے کہ اللہ نے ان کے دلوں کو نور معرفت سے محروم کردیا ہے ‘ اسی کی وجہ سے وہ کور بصیرت اور نابینا ہوگئے ہیں۔ حضرت عبد اللہ بن عمرو نے فرمایا : میں نے خود رسول اللہ ﷺ کو یہ ارشاد فرماتے سنا کہ اللہ نے مخلوق کو تاریکی (کثیف مادیت اور حیوانی جہالت) میں پیدا کیا ‘ پھر ان پر اپنا نور (یعنی اس کا ایک چھینٹا) ڈال دیا۔ جس شخص پر نور کا کچھ حصہ (کوئی چھینٹا) پڑگیا ‘ اس کو راستہ مل گیا ‘ وہ ہدایت یاب ہوگیا اور جس پر نہ پڑا ‘ وہ بھٹکتا رہا ‘ ہدایت یاب نہ ہوا۔ اسی لئے میں کہتا ہوں کہ قلم (الٰہی) علم خداوندی خشک ہوگیا (یعنی اللہ کے علم میں جس کو ہدایت یاب ہونا تھا ‘ وہ ہدایت یاب ہوگیا اور اللہ کے علم میں جس کا گمراہ ہونا تھا ‘ وہ گمراہ ہوگیا۔ اس فیصلہ کی تحریر ہوچکی ‘ فیصلہ لکھنے والا قلم خشک ہوگیا ‘ اب تحریر کردہ فیصلہ میں تغیر ممکن نہیں۔ مترجم) رواہ احمد والترمذی۔ وھم مستکبرون اور وہ (قبول حق سے) تکبر کرتے ہیں۔ یعنی اللہ کی عبادت سے غرور کرتے ہیں۔ اللہ کی نعمتوں کا ہی انکار کرتے ہیں ‘ اس لئے اللہ کو مستحق عبادت نہیں جانتے اور اتباع رسول ﷺ سے بھی غرور کرتے ہیں۔ اگر ان کو اللہ کی نعمتوں کا اقرار ہوتا اور اللہ کو مستحق عبادت جانتے تو آخرت پر ایمان رکھتے اور آخرت کی جزا و سزا کو مانتے اور رسول اللہ ﷺ کے اتباع سے سرتابی نہ کرتے۔
Top