Siraj-ul-Bayan - At-Tahrim : 4
لَا جَرَمَ اَنَّ اللّٰهَ یَعْلَمُ مَا یُسِرُّوْنَ وَ مَا یُعْلِنُوْنَ١ؕ اِنَّهٗ لَا یُحِبُّ الْمُسْتَكْبِرِیْنَ
لَاجَرَمَ : یقینی بات اَنَّ : کہ اللّٰهَ : اللہ يَعْلَمُ : جانتا ہے مَا : جو يُسِرُّوْنَ : وہ چھپاتے ہیں وَمَا : اور جو يُعْلِنُوْنَ : وہ ظاہر کرتے ہیں اِنَّهٗ : بیشک وہ لَا يُحِبُّ : پسند نہیں کرتا الْمُسْتَكْبِرِيْنَ : تکبر کرنے والے
یہ جو کچھ چھپاتے ہیں اور جو ظاہر کرتے ہیں خدا اس کو ضرور جانتا ہے۔ وہ سرکشوں کو ہرگز پسند نہیں کرتا
لا جرم ان اللہ یعلم ما یسرون وما یعلنون ضروری بات ہے کہ اللہ ان سب کے پوشیدہ اور ظاہر احوال سے واقف ہے۔ یعنی اللہ کی ربوبیت اور معبودیت سے انکار جو دلوں میں چھپائے ہوئے ہیں اور اللہ کی عبادت اور اللہ کے رسول ﷺ کے اتباع سے تکبر جو وہ ظاہر کرتے ہیں ‘ اللہ سب سے واقف ہے۔ انہ لا یحب المستکبرین (اور) یہ بھی حقیقت ہے کہ اللہ تکبر کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : چھوٹی سرخ چیونٹی کے برابر غرور (والا) جنت میں نہیں جائے گا اور چھوٹی سرخ چیونٹی کے برابر ایمان (والا) دوزخ میں داخل نہ ہوگا۔ ایک شخص نے عرض کیا : یا رسول اللہ ﷺ ! ہم میں سے بعض لوگ چاہتے ہیں کہ ان کا لباس خوبصورت ہو (اور یہ غرور کی علامت ہے ‘ پھر ان کا نتیجہ کیا ہوگا) فرمایا : اللہ جمال والا ہے ‘ جمال کو پسند کرتا ہے (غرور کپڑوں کی پسندیدگی کا نام نہیں ‘ خوش لباسی کی خواہش تکبر نہیں بلکہ) تکبر ‘ حق سے تکبر کرنے اور لوگوں کو حقیر سمجھنے سے ہوتا ہے۔ اس حدیث میں الکبر من بطر الحق آیا ہے جس کا مطلب علماء نے مختلف طور پر بیان کیا ہے۔ نہایہ میں ہے : بطر الحق کا یہ معنی ہے کہ اللہ کی توحید اور عبادت کو باطل سمجھے باوجودیکہ اللہ نے اس کو حق قرار دیا ہے۔ بعض نے کہا کہ بطر الحق کا معنی ہے : حق کے مقابلہ میں مغرور ہوجانا ‘ حق کو حق نہ ماننا۔ بعض نے کہا : حق کو قبول نہ کرنے کا نام ہے بطر الحق۔ ان تمام اقوال کا حاصل (ایک ہی ہے ‘ وہ) یہ کہ اللہ کی عبادت کو لازم نہ سمجھے ‘ اللہ کی دی ہوئی نعمتوں کو اللہ کا احسان اور مہربانی نہ قرار دے بلکہ اللہ پر اپنا حق سمجھے۔ میں کہتا ہوں : حدیث مذکور میں جو تکبر کے مقابلہ میں ایمان کا ذکر کیا ہے ‘ اس کی وجہ یہ ہے کہ مؤمن اپنے وجود اور تمام کمالات کو خداداد سمجھتا ہے۔ یہاں تک کہ اپنی ذات کو بھی اللہ کی امانت اور عاریت جانتا ہے اس لئے اپنے کمالات پر غرور نہیں کرتا اور کافر اپنی ہستی اور اپنے کمالات کو خودآوردہ جانتا ہے اور اللہ کو بھول جاتا ہے۔ تصوف میں جو لفظ فنا آیا ہے ‘ اس کا مطلب بھی یہی ہے کہ آدمی اپنے وجود کو بجائے خود معدوم سمجھے ‘ خود اپنی ہستی کو اپنی نہ سمجھے بلکہ اللہ کی طرف سے عطا کردہ ایک عاریت جانے (اور ہر چیز میں ‘ ہر کمال مادی و علمی میں یہاں تک کہ اپنے وجودو ذات کے لحاظ سے بھی اپنے کو اللہ کا محتاج سمجھے۔ مترجم)
Top