Tafseer-e-Mazhari - An-Nahl : 40
اِنَّمَا قَوْلُنَا لِشَیْءٍ اِذَاۤ اَرَدْنٰهُ اَنْ نَّقُوْلَ لَهٗ كُنْ فَیَكُوْنُ۠   ۧ
اِنَّمَا : اس کے سوا نہیں قَوْلُنَا : ہمارا فرمانا لِشَيْءٍ : کسی چیز کو اِذَآ اَرَدْنٰهُ : جب ہم اس کا ارادہ کریں اَنْ نَّقُوْلَ : کہ ہم کہتے ہیں لَهٗ : اس کو كُنْ : ہوجا فَيَكُوْنُ : تو وہ ہوجاتا ہے
جب ہم کسی چیز کا ارادہ کرتے ہیں تو ہماری بات یہی ہے کہ اس کو کہہ دیتے ہیں کہ ہوجا تو وہ ہوجاتی ہے
انما قولنا لشیء اذا اردنہ ان نقول لہ کن فیکون ہم جس چیز کو پیدا کرنا چاہتے ہیں ‘ اس سے ہمارا اتنا ہی کہنا کافی ہوتا ہے کہ ہوجا ‘ پس وہ فوراً ہوجاتی ہے۔ اِذَآ اَرَدْنَاہٗ یعنی جب ہم کسی چیز کو موجود کرنا چاہتے ہیں خواہ پہلی بار یا دوبارہ۔ اس آیت میں دوسری زندگی کا امکان ثابت کیا گیا ہے۔ خلاصۂ بیان یہ ہے کہ اللہ مخلوق کو محض اپنی قدرت سے پیدا کرتا ہے ‘ کسی اور چیز پر کسی مخلوق کی ہستی موقوف نہیں ورنہ نتائج و اسباب کا تسلسل کہیں ختم نہ ہوگا اور کسی چیز کا وجود ہی نہ ہو سکے گا۔ پھر کسی چیز کی تخلیق وتکوین سے اللہ کو کوئی تھکان یا تکلیف نہیں ہوتی ورنہ اللہ کا عاجز ہونا لازم آئے گا __ اور عجز تقاضائے الوہیت کے خلاف ہے۔ پس جبکہ کوئی مادہ نہ تھا ‘ نہ سابق میں کوئی نظیر اور مثال تھی بلکہ اللہ نے تمام چیزوں (یہاں تک کہ خود مادہ) کو بغیر مادہ اور مثال کے پہلی مرتبہ پیدا کردیا تو (اب جبکہ ایک مثال موجود ہوچکی ہے) دوبارہ پیدا کرنا ناممکن نہیں ہوسکتا۔ حضرت ابوہریرہ راوی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے : میرے بندہ نے میری تکذیب کی اور اس کیلئے یہ زیبا نہ تھا اور میرے بندے نے مجھے گالی دی اور یہ اس کیلئے مناسب نہ تھا۔ تکذیب تو یہ کی کہ اس نے کہا : اللہ نے جیسا شروع میں مجھے پیدا کردیا ‘ ایسا دوبارہ ہرگز مجھے پیدا نہیں کرے گا ‘ حالانکہ ابتدائی تخلیق میرے لئے دوبارہ تخلیق سے آسان نہ تھی اور گالی یہ دی کہ اس نے کہا : اللہ نے اپنے لئے اولاد اختیار کرلی ہے ‘ حالانکہ میں ایک ہوں ‘ بےنیاز ہوں۔ نہ میں کسی کا باپ ہوں ‘ نہ کسی کا بیٹا۔ میری مثل کوئی بھی نہیں ہے۔ حضرت ابن عباس کی روایت کے یہ الفاظ ہیں : اس کا گالی دینا تو یہ ہے کہ اس نے کہا : میری اولاد ہے ‘ حالانکہ میں پاک ہوں بی بی یا اولاد اختیار کرنے سے۔ رواہ البخاری
Top