Tafseer-e-Mazhari - An-Nahl : 44
بِالْبَیِّنٰتِ وَ الزُّبُرِ١ؕ وَ اَنْزَلْنَاۤ اِلَیْكَ الذِّكْرَ لِتُبَیِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ اِلَیْهِمْ وَ لَعَلَّهُمْ یَتَفَكَّرُوْنَ
بِالْبَيِّنٰتِ : نشانیوں کے ساتھ وَالزُّبُرِ : اور کتابیں وَاَنْزَلْنَآ : اور ہم نے نازل کی اِلَيْكَ : تمہاری طرف الذِّكْرَ : یاد داشت (کتاب) لِتُبَيِّنَ : تاکہ واضح کردو لِلنَّاسِ : لوگوں کے لیے مَا نُزِّلَ : جو نازل کیا گیا اِلَيْهِمْ : ان کی طرف وَلَعَلَّهُمْ : اور تاکہ وہ يَتَفَكَّرُوْنَ : وہ غور وفکر کریں
(اور ان پیغمبروں کو) دلیلیں اور کتابیں دے کر (بھیجا تھا) اور ہم نے تم پر بھی یہ کتاب نازل کی ہے تاکہ جو (ارشادات) لوگوں پر نازل ہوئے ہیں وہ ان پر ظاہر کردو اور تاکہ وہ غور کریں
بالبنیت والزبر (ہم نے مردوں کو پیغمبر بنا کر بھیجا) کھلے معجزات اور کتابوں کے ساتھ۔ وانزلنا الیک الذکر لتبین للناس ما نزل الیھم اور ہم نے آپ پر بھی ایک نصیحت نامہ (یعنی قرآن مجید) اتارا تاکہ آپ لوگوں کے سامنے کھول کر اس کا اظہار کردیں جو (آپ کے ذریعہ سے) ان کے پاس بھیجا گیا ہے۔ مَا نُزِّلَ سے مراد ہے : ثواب کا وعدہ ‘ عذاب کی وعید ‘ احکام اور مجمل قوانین۔ بیان ( جس کا رسول اللہ ﷺ کو حکم دیا گیا ہے) قولی بھی تھا ‘ عملی بھی اور تقریری بھی ‘ اس کو تو بیان صریح کہا جاتا ہے۔ بیان کی دوسری قسم غیر صریحی ہے ‘ جیسے رسول اللہ ﷺ نے قیاس کرنے کا حکم دیا ہے (پس مقیس علیہ میں تو صریحی بیان ہوتا ہے اور مقیس میں غیر صریحی) ۔ ولعلھم یتفکرون اور تاکہ وہ غور کریں۔ غور کرنے سے مراد ہے : رفتار عبادت اوراقسام دلالت پر غور کرنا ‘ اس طرح کہ شارع کی طرف سے کسی بیان کی ضرورت نہ ہو۔ مثلاً آیت فَأتُوْا حَرْثَکُمْ میں لفظ حرث بتارہا ہے کہ اس سے مراد زنانہ شرمگاہ ہے ‘ مبرز مراد نہیں ہے کیونکہ مبرز کھیتی (تخم آفرینی) کا مقام نہیں ہے (مبرز میں تخم ریزی ضیاع تخم ہے) یا آیت ثلثۃ قروء میں قروء سے مراد حیض ہے ‘ طہر مراد نہیں ہے کیونکہ طلاق مسنون طہر کے زمانہ میں ہی ہوتی ہے۔ اب گر جس طہر کے زمانہ میں طلاق دی ہو ‘ اس کو پورا طہر محسوب کرلیا جائے تو تین طہر سے مدت کم ہوجائے گی اور محسوب نہ کیا جائے تو مدت تین سے بڑھ جائے گی ‘ بہرحال پورے تین طہر نہ ہوں گے۔ اس سے ثابت ہوا کہ قروء سے مراد طہر نہیں ہے بلکہ حیض مراد ہے۔
Top