Tafseer-e-Mazhari - An-Nahl : 63
تَاللّٰهِ لَقَدْ اَرْسَلْنَاۤ اِلٰۤى اُمَمٍ مِّنْ قَبْلِكَ فَزَیَّنَ لَهُمُ الشَّیْطٰنُ اَعْمَالَهُمْ فَهُوَ وَلِیُّهُمُ الْیَوْمَ وَ لَهُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ
تَاللّٰهِ : اللہ کی قسم لَقَدْ اَرْسَلْنَآ : تحقیق ہم نے بھیجے اِلٰٓى : طرف اُمَمٍ : امتیں مِّنْ قَبْلِكَ : تم سے پہلے فَزَيَّنَ : پھر اچھا کردکھایا لَهُمُ : ان کے لیے الشَّيْطٰنُ : شیطان اَعْمَالَهُمْ : ان کے اعمال فَهُوَ : پس وہ وَلِيُّهُمُ : ان کا رفیق الْيَوْمَ : آج وَلَهُمْ : اور ان کے لیے عَذَابٌ اَلِيْمٌ : عذاب دردناک
خدا کی قسم ہم نے تم سے پہلی امتوں کی طرف بھی پیغمبر بھیجے تو شیطان نے ان کے کردار (ناشائستہ) ان کو آراستہ کر دکھائے تو آج بھی وہی ان کا دوست ہے اور ان کے لیے عذاب الیم ہے
تا اللہ لقد ارسلنا الی امم من قبلک فزین لھم الشیطن اعمالھم بخدا ! آپ سے پہلے جو امتیں ہو گذری ہیں ‘ ان کے پاس بھی ہم نے رسولوں کو بھیجا تھا ‘ سو ان کو بھی شیطان نے ان کے (کفریہ) اعمال خوبصورت (پسندیدہ) بنا کر دکھائے۔ لَھُمْ یعنی اکثر امتوں کو۔ اعمال سے مراد ہیں : کفریہ اعمال ‘ شرک باللہ اور پیغمبروں کی تکذیب۔ شیطان نے اعمال کفر کو ان کی نظر میں پسندیدہ بنا دیا ‘ اسلئے وہ اپنے برے اعمال پر جمے رہے۔ فھو ولیھم الیوم ولھم عذاب الیم پس وہی شیطان آج (اس دنیا میں) ان (کفار قریش) کا (بھی) رفیق ہے اور قیامت کے دن ان کیلئے دردناک عذاب ہوگا۔ وَلِیُّھُم کی ضمیر کفار قریش کی طرف لوٹ رہی ہے۔ کلام کی رفتار کا یہی تقاضا ہے۔ کفار قریش کے متعلق کلام کیا جا رہا ہے۔ وَلِی کا معنی ہے : مددگار ‘ رفیق ‘ ساتھی ‘ جو قریش کے برے اعمال کو اچھی شکل میں بنا کر دکھا رہا ہے۔ مسلمانوں کی دشمنی میں ان کا ساتھی اور مددگار ہے۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ وَلِیُّھُم کی ضمیر امم سابقہ کی طرف لوٹائی جائے اور گزشتہ حال کی حکایت قرار دی جائے ‘ یعنی شیطان امم سابقہ کا اس دنیا میں رفیق تھا ‘ اعمال کفریہ کو پسندیدہ بنا کر دکھاتا تھا۔ یہ بھی ممکن ہے کہ الیوم سے مراد قیامت کا دن ہو اور آنے والے واقعہ کا بیان ہو ‘ قیامت کے دن شیطان ان کافروں کا ساتھی ہوگا اور طوق و زنجیر میں انکا ساتھ بندھا ہوا ہوگا۔ یا یہ مطلب ہے کہ قیامت کے دن بس شیطان ہی ان کا رفیق ہوگا ‘ کوئی اور رفیق نہ ہوگا اور ظاہر ہے کہ شیطان اس روز خود اپنی مدد نہیں کرسکے گا تو ان کی مدد کیا کرے گا۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ مضاف محذوف ہو ‘ یعنی گزشتہ اقوام جیسے لوگوں کو رفیق یہاں شیطان ہی ہے۔ مطلب یہ کہ کفار قریش گزشتہ امتوں کی طرح ہیں اور ان کا رفیق شیطان ہے۔
Top