Tafseer-e-Mazhari - An-Nahl : 8
وَّ الْخَیْلَ وَ الْبِغَالَ وَ الْحَمِیْرَ لِتَرْكَبُوْهَا وَ زِیْنَةً١ؕ وَ یَخْلُقُ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ
وَّالْخَيْلَ : اور گھوڑے وَالْبِغَالَ : اور خچر وَالْحَمِيْرَ : اور گدھے لِتَرْكَبُوْهَا : تاکہ تم ان پر سوار ہو وَزِيْنَةً : اور زینت وَيَخْلُقُ : اور وہ پیدا کرتا ہے مَا : جو لَا تَعْلَمُوْنَ : تم نہیں جانتے
اور اسی نے گھوڑے اور خچر اور گدھے پیدا کئے تاکہ تم ان پر سوار ہو اور (وہ تمہارے لیے) رونق وزینت (بھی ہیں) اور وہ (اور چیزیں بھی) پیدا کرتا ہے جن کی تم کو خبر نہیں
والخیل والبغال والحمیر لترکبوھا وزینۃ اور اس نے تمہاری سواری اور شان بنانے کیلئے گھوڑے ‘ خچر اور گدھے پیدا کئے۔ امام ابوحنیفہ نے اس آیت سے گھوڑے کے گوشت کے حرام یا مکروہ ہونے پر استدلال کیا ہے۔ صاحب ہدایہ نے لکھا ہے : اللہ نے اس آیت میں اپنی نعمت کا اظہار کیا ہے اور اپنی نعمت کی یاددہانی کی ہے اور دو فائدوں کی صراحت کی ہے ‘ سواری ور زینت اور ظاہر ہے کہ غذائیت سب سے بڑی نعمت ہے ‘ اسلئے ممکن نہیں کہ جو اصل منفعت ہو ‘ اس کی تو یاددہانی نہ کی جائے اور نیچے درجے کے فائدوں کا اظہار کیا جائے (اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان جانوروں کو فراہمئ غذا کیلئے پیدا ہی نہیں کیا گیا ورنہ سواری اور زینت سے پہلے ان سے غذائیت فراہم کرنے اور ان کا گوشت یا دودھ کھانے پینے کا ذکر کیا جاتا) ۔ میں کہتا ہوں : غذائیت تو بھیڑ ‘ بکری ‘ مرغی وغیرہ کے گوشت سے بہترین حاصل ہوجاتی ہے اور اس کا حصول آسان بھی ہے۔ گھوڑے گدھے وغیرہ کا گوشت نہ اچھا ہوتا ہے نہ اس کا حصول زیادہ سہل ہے۔ ہاں سواری ‘ باربرداری اور شان بان کے جو فوائد ان سے وابستہ ہیں ‘ وہ دوسرے چھوٹے جانوروں سے حاصل نہیں ہوسکتے ‘ اسلئے صاحب ہدایہ کا یہ قول غلط ہے کہ گھوڑوں اور گدھوں کا گوشت بطور غذائیت سب سے بڑی منفعت ہے۔ ان جانوروں کا سب سے بڑا فائدہ تو سواری وغیرہ ہی ہے جو دوسرے جانوروں سے حاصل نہیں ہوتا۔ اس کے علاوہ یہ بات بھی قابل غور ہے کہ یہ آیت مکی ہے جبکہ گدھے کا گوشت بھی حلال تھا۔ اس کی حرمت تو خیبر کی فتح کے موقع پر 6 ھ ؁ میں ہوئی (ایسی صورت میں اس آیت سے گھوڑے کے گوشت کی حرمت پر استدلال کیسے کیا جاسکتا ہے) اس مسئلہ کی پوری تشریح آیت اَلْیَوْمَ اُحِلَّ لَکُمْ الطَّیِّبَاتُ کی تفسیر کے ذیل میں سورة مائدہ میں گذر چکی ہے۔ ویخلق ما لا تعلمون اور ایسی ایسی چیزیں بناتا ہے جن کی تمہیں خبر بھی نہیں ہے۔ (حضرت مفسر (رح) نے اس آیت کا تعلق آخرت سے قرار دیتے ہوئے حسب ذیل تفسیری مطلب بیان کیا ہے) یعنی جنت میں مؤمنوں کیلئے اور دوزخ میں کافروں کیلئے ایسی ایسی راحتیں اور تکلیفیں پیدا کی ہیں جن کا تمہیں پتہ بھی نہیں۔ نہ کسی آنکھ نے ان کو دیکھا ‘ نہ کسی کان نے سنا ‘ نہ کسی شخص کے دل میں ان کا تصور آیا۔
Top