Tafseer-e-Mazhari - An-Nahl : 96
مَا عِنْدَكُمْ یَنْفَدُ وَ مَا عِنْدَ اللّٰهِ بَاقٍ١ؕ وَ لَنَجْزِیَنَّ الَّذِیْنَ صَبَرُوْۤا اَجْرَهُمْ بِاَحْسَنِ مَا كَانُوْا یَعْمَلُوْنَ
مَا : جو عِنْدَكُمْ : تمہارے پاس يَنْفَدُ : وہ ختم ہوجاتا ہے وَمَا : اور جو عِنْدَ اللّٰهِ : اللہ کے پاس بَاقٍ : باقی رہنے والا وَلَنَجْزِيَنَّ : اور ہم ضرور دیں گے الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو صَبَرُوْٓا : انہوں نے صبر کیا اَجْرَهُمْ : ان کا اجر بِاَحْسَنِ : اس سے بہتر مَا : جو كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ : وہ کرتے تھے
جو کچھ تمہارے پاس ہے وہ ختم ہو جاتا ہے اور جو خدا کے پاس ہے وہ باقی ہے کہ (کبھی ختم نہیں ہوگا) اور جن لوگوں نے صبر کیا ہم اُن کو ان کے اعمال کا بہت اچھا بدلہ دیں گے
ما عند کم ینفد وما عند اللہ جو کچھ تمہارے پاس ہے ‘ وہ ختم ہوجائے گا اور جو اللہ کے پاس ہے ‘ وہ باقی رہے گا۔ یعنی جو کچھ دنیوی مال و متاع تمہارے پاس ہے ‘ وہ فنا ہوجائے گا اور اللہ کی رحمت کے خزانے کبھی فنا نہیں ہوں گے۔ یہ جملہ لاَ تَشْتَرُوْا بِعَھْدِ اللّٰہِالخ کی علت ہے۔ حضرت ابو موسیٰ اشعری کی روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو شخص اپنی دنیا کو پسند کرتا ہے ‘ وہ اپنی آخرت کو نقصان پہنچاتا ہے اور جو آخرت کو پسند کرتا ہے ‘ وہ اپنی دنیا کا ضرر کرتا ہے۔ تم باقی رہنے والی چیز کو فنا ہونے والی (دنیا) پر ترجیح دو (آخرت کو پسند کرو ‘ دنیا کی پرواہ مت کرو) رواہ الحاکم بسند صحیح واحمد۔ ولنجزین الذین صبروا اجرھم باحسن ما کانوا یعملون اور جو لوگ ثابت قدم ہیں ‘ ان کے اچھے کاموں کے عوض میں ہم ان کا اجر ان کو ضرور دیں گے۔ یعنی جن لوگوں نے بیماری ‘ افلاس ‘ کفار کی ایذاء ‘ پابندئ احکام کی مشقت اور جہاد میں ڈٹے رہنے کی مصیبتوں پر صبر کیا ‘ اللہ ان کے صبر کا ان کو ثواب عطا فرمائے گا اور اتنا ثواب دے گا کہ ان کے اعمال کے مقررہ اجر سے بہت اچھا ہوگا۔ ہر نیکی کو سات سو گنا تک بڑھا دے گا اور اس سے بھی زیادہ جتنی اللہ کی مشیّت ہوگی۔ بعض علماء نے کہا : اَحْسَنِ مَا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ سے مراد فرائض اور مستحبات ہیں۔ ممنوعات اور مباحات سے فرائض و مستحبات بہرحال بدرجہا بہتر ہوتے ہیں۔
Top