بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Tafseer-e-Mazhari - Al-Israa : 1
سُبْحٰنَ الَّذِیْۤ اَسْرٰى بِعَبْدِهٖ لَیْلًا مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ اِلَى الْمَسْجِدِ الْاَقْصَا الَّذِیْ بٰرَكْنَا حَوْلَهٗ لِنُرِیَهٗ مِنْ اٰیٰتِنَا١ؕ اِنَّهٗ هُوَ السَّمِیْعُ الْبَصِیْرُ
سُبْحٰنَ : پاک الَّذِيْٓ : وہ جو اَسْرٰى : لے گیا بِعَبْدِهٖ : اپنے بندہ کو لَيْلًا : راتوں رات مِّنَ : سے الْمَسْجِدِ : مسجد الْحَرَامِ : حرام اِلَى : تک الْمَسْجِدِ الْاَقْصَا : مسجد اقصا الَّذِيْ : جس کو بٰرَكْنَا : برکت دی ہم نے حَوْلَهٗ : اس کے ارد گرد لِنُرِيَهٗ : تاکہ دکھا دیں ہم اس کو مِنْ اٰيٰتِنَا : اپنی نشانیاں اِنَّهٗ : بیشک وہ هُوَ : وہ السَّمِيْعُ : سننے والا الْبَصِيْرُ : دیکھنے والا
وہ (ذات) پاک ہے جو ایک رات اپنے بندے کو مسجدالحرام یعنی (خانہٴ کعبہ) سے مسجد اقصیٰ (یعنی بیت المقدس) تک جس کے گردا گرد ہم نے برکتیں رکھی ہیں لے گیا تاکہ ہم اسے اپنی (قدرت کی) نشانیاں دکھائیں۔ بےشک وہ سننے والا (اور) دیکھنے والا ہے
سُبْحٰنَ :. پاک ہے ( یا میں اللہ کی پاکی کا اقرار کرتا ہوں یا اللہ کے پاک ہونے کا تم اقرار کرو) وہ جو رات کو لے گیا اپنے (خاص) بندے (یعنی محمد ﷺ کو حرمت والی مسجد (یعنی کعبہ) سے مسجد اقصیٰ یعنی بیت المقدس تک وہ جس کے ماحول کو ہم نے برکت والا بنا دیا ہے تاکہ ہم اس بندہ کو اپنی قدرت کی کچھ عجیب نشانیاں دکھا دیں بیشک اللہ (نبی کی دعا اور کلام کو) خوب سننے والا اور (آپ کے احوال وافعال کو) خوب دیکھنے والا ہے سُبْحٰنَ اصل میں اسم مصدر ہے بمعنی تسبیح کے تسبیح کا معنی ہے پاک جاننا اور پاکی کا اقرار کرنا۔ کبھی اللہ کے نام کے طور پر بھی مستعمل ہوتا ہے۔ یعنی اللہ سبحان (پاک) ہے۔ سبحان اگرچہ اسم مصدر ہے لیکن بجائے فعل کے استعمال ہوتا ہے اس لئے اس کا فعل ذکر ہی نہیں کیا جاتا۔ کلام کے آغاز میں لانے سے اس بات پر تنبیہ کرنی ہے کہ اس کے بعد جو کچھ بیان کیا گیا ہے اس پر اللہ کے سوا کسی کو قدرت نہیں۔ کبھی سبحان کو بطور تعجب کے بھی بولا جاتا ہے۔ (جیسے کہتے ہیں سبحان اللہ) الَّذِيْٓ اَسْرٰى بِعَبْدِهٖ : لیلا رات کو۔ اسراء کا معنی ہی رات کو لے جانا ہے اس کے بعد لیلاً کو بصورت نکرہ ذکر کرنے سے وقت کی کمی کی طرف اشارہ ہے (یعنی رات کے قلیل ترین وقت میں) مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَام صحیحین میں حضرت انس ؓ کی وساطت سے حضرت مالک بن صعصعہ 1 ؂ کی روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ‘ میں مسجد حرام کے اندر نیند اور بیداری کی درمیانی حالت میں تھا (نہ سو رہا تھا نہ جاگ رہا تھا) کہ جبرئیل ( علیہ السلام) میرے پاس براق لے کر آئے۔ دوسری روایت میں ہے میں حطیم میں لیٹا ہوا تھا (یعنی نیند کی حالت میں تھا) کہ ایک آنے والا میرے پاس آیا۔ سورة والنجم کی تفسیر میں ہم نے اس کی تفصیل کردی ہے۔ بعض علماء کا خیال ہے کہ حضور حضرت ام ہانی کے مکان میں تھے۔ وہیں سے معراج ہوئی تھی اس روایت پر مسجد حرام سے مراد (کعبہ یا حطیم نہ ہوگا بلکہ) حرم ہوگا۔ حرم کو مسجد حرام اس لئے فرمایا کہ سارا حرم مسجد ہے یا یہ وجہ ہے کہ مسجد حرام حرم میں واقع ہے حرم مسجد حرام کو محیط ہے۔ معراج کو جانے کے وقت رسول اللہ ﷺ : کا کعبہ میں ہونا حضرت انس کی اس روایت سے ثابت ہوتا ہے جو صحیحین میں مذکور ہے اور حضرت انس نے حضرت ابوذر کے حوالے سے بیان کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ‘ میں مکہ میں تھا کہ (کعبہ کی چھت میں) میرے لئے شگاف کردیا گیا یہ حدیث بھی ہم نے سورة والنجم کی تفسیر میں ذکر کردی ہے۔ ابو یعلی نے مسند اور طبرانی نے الکبیر میں بیان کیا ہے کہ جب حضور ﷺ : کو معراج ہوئی اس رات کو آپ حضرت ام ہانی کے مکان میں تھے اور اسی رات میں (فوراً ) آپ واپس آگئے تھے اور ام ہانی سے معراج کی کیفیت بیان فرمائی تھی اور فرمایا تھا کہ پیغمبروں کو مشکلّ (یعنی مجسم) کر کے میرے سامنے لایا گیا اور میں نے ان کو نماز پڑھائی پھر (صبح کو) حضور ﷺ : مسجد میں آئے اور قریش کو اطلاع دی۔ لوگوں نے ناممکن سمجھ کر تعجب کیا اور بعض مسلمان بھی مرتد ہوگئے۔ کچھ لوگ دوڑے ہوئے حضرت ابوبکر ؓ کے پاس پہنچے۔ حضرت ابوبکر ؓ نے فرمایا اگر انہوں نے ایسا فرمایا ہے تو سچ فرمایا ہے۔ لوگوں نے کہا ‘ کیا ان کی ایسی باتوں کو بھی آپ سچ جانتے ہیں ؟ فرمایا میں تو اس سے بھی زیادہ دور کی باتوں کی ان کے متعلق تصدیق کرتا ہوں (جبرئیل کا آنا اور اللہ کی طرف سے قرآن لانا اور وقتاً فوقتاً نازل ہو کر وحی لانا تو اس سے بھی زیادہ دور کی باتیں ہیں اور میں ان تمام باتوں میں ان کو سچا جانتا ہوں اور ایمان لایا ہوں) حضرت ابوبکر ؓ : کو اسی تصدیق کی وجہ سے صدیق کا لقب مل گیا کچھ لوگ بیت المقدس جا چکے تھے اور وہاں کے حالات سے واقف تھے انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے بیت المقدس کے متعلق دریافت کیا۔ فوراً حضور ﷺ کے سامنے سے پردے ہٹا دیئے گئے اور آپ بیت المقدس کو سامنے دیکھ کر حالات بیان کرنے لگے۔ لوگوں نے کہا کیفیت تو آپ نے ٹھیک بیان کی اب آپ ہمارے قافلہ کے متعلق بتائیے (کہ وہ کہاں ہے) آپ ﷺ نے ان کو اونٹوں کی تعداد اور اونٹوں پر جو مال تھا اس کی کیفیت بتادی اور فرمایا ‘ فلاں دن طلوع آفتاب کے وقت قافلہ آپہنچے گا اور آگے آگے خاکستری رنگ کا اونٹ ہوگا۔ لوگ دوڑتے ہوئے پہاڑ کے درّے میں پہنچے قافلہ آتا ہوا مل گیا اور ویسا ہی ملا جیسا رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تھا پھر بھی ایمان نہ لائے اور بولے یہ تو محض کھلا ہوا جادو ہے۔ “ میں کہتا ہوں معراج کا واقعہ دو مرتبہ ہوا ایک بار حطیم سے اور دوسری بار حضرت ام ہانی کے مکان سے۔ دونوں حدیثیں اپنی جگہ صحیح ہیں دونوں میں کوئی اختلاف نہیں۔ بغوی نے لکھا ہے کہ مقاتل نے کہا شب معراج ہجرت سے ایک سال پہلے ہوئی۔ لوگ کہتے ہیں ایک بار رجب کے مہینے میں معراج ہوئی اور دوسری بار ماہ رمضان میں۔ اِلَی الْمَسْجِدِ الْاَقْصَا۔ اقصیٰ (انتہائی۔ آخری۔ پرے کے کنارے کی) کہنے کی وجہ یہ ہے کہ مسجد حرام سے بیت المقدس تک کوئی اور مسجد نہ تھی اور اس زمانے میں بیت المقدس سے پرے بھی کوئی مسجد نہ تھی۔ رات میں مسجد اقصیٰ تک پہنچنے پر قریش کو تعجب ہوا ‘ مسجد اقصیٰ بہت دور تھی ان کی نظر میں اتنی لمبی مسافت طے کر کے رات ہی میں واپس آجانا ناممکن تھا۔ بیضاوی نے لکھا ہے بیت المقدس تک آن کی آن میں رسول اللہ ﷺ : کا پہنچ جانا ناممکن تھا۔ آفتاب کے دونوں کناروں کے درمیان کی مسافت زمین کے دونوں کناروں کے درمیان کی مسافت سے کچھ اوپر ایک سو ساٹھ گنا زائد ہے اور ایک سیکنڈ میں آفتاب کا نچلا کنارہ بالائی کنارے کے مقام تک پہنچ جاتا ہے اور یہ امر علم کلام میں ثابت کردیا گیا ہے کہ تمام اجسام میں اعراض کو قبول کرنے کی صلاحیت ایک جیسی ہے پھر کیا محال ہے کہ اللہ نے رسول اللہ ﷺ کے بدن یا بدنی قوتوں میں آفتاب جیسی یا اس سے بھی زیادہ تیز حرکت پیدا کردی ہو ‘ جب سرعت حرکت ممکن بلکہ بعض اجسام میں واقع ہے تو اللہ کیلئے ناممکن نہیں کہ جو کچھ اور جیسا کچھ چاہے پیدا کر دے۔ رہا تعجب تو وہ معجزات پر ہوا ہی کرتا ہے وہ معجزہ ہی کیا جس پر تعجب نہ ہو۔ الَّذِيْ بٰرَكْنَا حَوْلَهٗ یعنی بکثرت دریا ‘ نہریں ‘ درخت اور پھل پیدا کردیئے ہیں۔ مجاہد نے بیان کیا مبارک ہونے کا یہ معنی ہے کہ اس سرزمین کو اللہ نے انبیاء کی قرارگاہ اور منزل وحی بنایا تھا اور قیامت کے دن لوگوں کا حشر وہیں سے ہوگا۔ لِنُرِيَهٗ مِنْ اٰيٰتِنَا چالیس دن کی مسافت کو رات کے قلیل ترین وقت میں طے کرانا پھر بیت المقدس سے آسمانوں تک لے جانا انبیاء کو مجسم بنا کردکھانا پھر ان کی امامت کرانا اور ان کے علاوہ دوسرے عجائبات قدرت کی سیر کرانا یہ سب کچھ اللہ کی وہ آیات تھیں جن کا مشاہدہ کرانا مقصود تھا۔ اِنَّهٗ هُوَ السَّمِيْعُ الْبَصِيْرُ ۔ اور تاریکی شب میں آپ ﷺ : کی حفاظت کرنے والا ہے۔ بغوی نے لکھا ہے کہ حضرت عائشہ ؓ : فرماتی تھیں کہ (شب معراج میں) رسول اللہ ﷺ : کا جسم مبارک غائب نہیں ہوا بلکہ روح مبارک کو لے جایا گیا تھا ‘ یعنی معراج خواب میں ہوئی اس کی تائید حضرت انس بن مالک کے اس بیان سے ہوتی ہے جو بخاری نے نقل کیا ہے جس رات کو رسول اللہ ﷺ : کو مسجد کعبہ سے (معراج کے لئے) لے جایا گیا (اس کی صورت یہ ہوئی کہ) حضور ﷺ مسجد حرام میں سو رہے تھے اور یہ واقعہ وحی آنے سے پہلے کا ہے کہ تین شخص آئے اوّل شخص نے کہا وہ کون سا ہے۔ درمیان والا بولا وہ سب سے بہتر ہے۔ تیسرے نے کہا تو جو سب سے افضل ہے اسی کو لے لو۔ یہ رات یونہی گزر گئی (کوئی اور واقعہ نہیں ہوا) دوسری رات ہوئی تو آپ کی آنکھیں سو رہی تھیں دل نہیں سو رہا تھا انبیاء کی حالت ہی یہ ہوتی ہے کہ آنکھیں سوتی ہیں دل بیدار ہوتا ہے وہی تینوں شخص آئے بات کچھ نہیں کی اور رسول اللہ ﷺ : کو اٹھا کرلے گئے اور لے جا کر زمزم کے پاس رکھ دیا۔ جبرئیل ( علیہ السلام) نے آپ ﷺ : کا سینہ ہنسلی کے گڑھے سے ناف تک چاک کیا اور اندرون صدر کو زمزم کے پانی سے دھویا (اور پھر اس میں ایمان و علم بھر دیا اور سینہ بند کردیا) حضرت انس ؓ نے معراج کی پوری حدیث بیان کی جس میں یہ بھی ذکر کیا کہ آسمان دنیا میں پہنچے تو وہاں سے دو دریا نکلتے دیکھے جبرئیل ( علیہ السلام) نے کہا یہ نیل و فرات ہیں دونوں کا سرچشمہ یہاں ہے۔ پھر جبرئیل ( علیہ السلام) آپ ﷺ : کو آسمان میں لے چلے وہاں ایک اور دریا دیکھا جس پر موتی اور زبرجد کا محل بنا ہوا تھا۔ دریا میں ہاتھ مارا تو وہ یکدم خالص مشک بن گیا۔ رسول اللہ ﷺ نے پوچھا جبرئیل ( علیہ السلام) یہ کیا ہے ؟ جبرئیل ( علیہ السلام) نے کہا ” یہ کوثر “ ہے جو اللہ نے آپ کے لئے رکھ چھوڑا ہے۔ “ حضرت انس ؓ نے بیان جاری رکھتے ہوئے کہا۔ پھر آپ ﷺ : کو ساتویں آسمان تک لے جایا گیا۔ موسیٰ نے کہا اے رب میرا تو گمان بھی نہ تھا کہ کسی کو مجھ پر بلندی حاصل ہوگی۔ پھر آپ کو اور اوپر لے جایا گیا ‘ جس کا علم سوائے اللہ کے اور کسی کو نہیں ‘ یہاں تک کہ سدرۃ المنتہیٰ پر پہنچے اور اللہ جبار رب العزت کا قرب حاصل ہوگیا۔ رب العزت کچھ نیچے آیا ‘ یہاں تک کہ دو کمانوں کے فاصلے کے بقدر یا اس سے بھی زیادہ قریب ہوگیا اور ہرر ات دن میں پچاس نمازوں کا حکم بذریعۂ وحی دیا۔ اس کے بعد (جب لوٹ کر حضرت موسیٰ کے پاس پہنچے اور موسیٰ کو پچاس نمازیں فرض کئے جانے کی کیفیت بتائی اور موسیٰ نے کہا آپ کی امت سے اس کی ادائیگی نہ ہو سکے گی غرض) موسیٰ ( علیہ السلام) بار بار لوٹا کر آپ کو رب العزت کے پاس بھیجتے رہے یہاں تک کہ پانچ نمازیں رہ گئیں لیکن موسیٰ ( علیہ السلام) نے پھر بھی رک کر کہا محمد ﷺ ! میں نے اپنی قوم بنی اسرائیل پر اس سے کم کا بہت تجربہ کیا ہے لیکن وہ اس سے بھی عاجز رہے اور ادائیگی کو چھوڑ بیٹھے اور آپ ﷺ : کی امت تو بنی اسرائیل کے مقابلے میں جسم و دل اور گوش و چشم کے اعتبار سے بہت کمزور ہے آپ اپنے رب کے پاس لوٹ کر جائیے اور تخفیف کی درخواست کیجئے تاکہ وہ تخفیف کر دے حضرت موسیٰ نے جتنی مرتبہ رسول اللہ ﷺ : کو درخواست تخفیف کی تلقین کی ہر بار آپ جبرئیل ( علیہ السلام) کی طرف مشورہ طلب نظر سے دیکھتے تھے اور جبرئیل ( علیہ السلام) اس کو نامناسب نہیں خیال کرتے تھے آخر پانچویں مرتبہ میں جب رسول اللہ ﷺ نے دعا تخفیف کی اور عرض کیا اے رب میری امت کے بدن بھی کمزور ہیں اور دل بھی اور گوش (و نظر) بھی تو ہمارے لئے اپنے حکم میں تخفیف فرما دے تو اللہ نے فرمایا محمد۔ آپ نے عرض کیا میں حاضر ہوں اور سعادت اندوز ہوں اللہ نے فرمایا میرے ہاں حکم نہیں بدلا جاتا جیسے میں نے لوح محفوظ میں فرض کردیا ہے (وہی قائم رہے گا) ہر نیکی کا ثواب دس گنا مقرر ہے پس لوح محفوظ میں یہ پچاس نمازیں ہیں مگر تمہارے لئے پانچ ہیں۔ حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) نے پھر رسول اللہ : ﷺ سے کہا آپ پھر اپنے رب کے پاس لوٹ جائیں اور تخفیف کی درخواست کریں حضور ﷺ نے فرمایا میں نے بار بار اتنی مرتبہ آمدورفت کی کہ اب مجھے رب سے تخفیف کا سوال کرتے شرم آتی ہے راوی کا بیان ہے کہ اس کے بعد آپ جب بیدار ہوئے تو مسجد حرام میں ہی تھے۔ مسلم کی روایت میں جو فاسْتَیْقَظَ وَہُوَ فِی الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ کے الفاظ آئے ہیں ان سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ سارا معراجی واقعہ خواب کا تھا۔ لیکن صحیح متواتر احادیث سے ثابت ہے اور اسی پر اجماع بھی ہے کہ آیت سُبْحَانَ الَّذِیْ اَسْرٰی بِعَبْدِہٖ لَیْلاً میں شب معراج مراد ہے اور معراج بیداری کی حالت میں ہوئی تھی اور جسمانی ہوئی تھی یعنی مع جسم کے رسول اللہ ﷺ : کو لے جایا گیا تھا اگر خواب میں ہوتی تو قریش کو تعجب اور انکار ہی کیوں ہوتا خواب میں سیر آسمانی ہونا یا مسجد اقصیٰ تک جانا قابل تعجب چیز نہیں۔ ہمارے شیخ امام نے بیان کیا کہ بعض علماء حدیث کا قول ہے کہ صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں سوائے حدیث مذکور کے اور کوئی ایسی حدیث نہیں جس سے منامی معراج کا ثبوت ملتا ہو صرف یہی ایک حدیث ہے جس سے خواب کے اندر معراج ہونے کا ثبوت ملتا ہے لیکن اس روایت کا مدار شریک بن عبداللہ پر ہے اور شریک منکر الحدیث ہے۔ اس کے علاوہ یہ بات بھی قابل غور ہے کہ جس معراج کا اس حدیث میں ذکر کیا گیا ہے وہ تو وحی آنے سے پہلے واقع ہوئی تھی اور جس معراج کا آیت میں ذکر ہے (اور جو جسمانی طور پر بیداری میں ہوئی تھی) وہ آغاز وحی سے بارہ سال کے بعد یعنی ہجرت سے ایک سال پہلے ہوئی تھی ‘ حقیقت میں آغاز وحی سے پہلے رسول اللہ ﷺ نے خواب میں معراج کا واقعہ دیکھا تھا پھر اس کو محقق کرنے کے لئے ہجرت سے ایک سال پہلے اللہ نے بیداری کی حالت میں آپ کو معراج کر ادی جس طرح حدیبیہ کے سال یعنی 6 ھ ؁ میں آپ کو فتح مکہ دکھائی گئی تھی پھر 8 ھ ؁ میں عالم ظاہر میں مکہ کی فتح عنایت کردی گئی۔ بغوی نے لکھا ہے جب معراج سے واپسی میں رسول اللہ ﷺ مقام ذی طویٰ میں پہنچے تو فرمایا جبرئیل ( علیہ السلام) ! میری قوم والے اس کی تصدیق نہیں کریں گے حضرت جبرئیل ( علیہ السلام) نے فرمایا ابوبکر آپ کی تصدیق کریں گے اور وہ بڑے سچے ہیں۔ بغوی نے حضرت ابن عباس ؓ اور حضرت عائشہ ؓ : کی روایت سے لکھا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جس رات کو مجھے (معراج میں) لے جایا گیا اس کی صبح کو میں مکہ میں بیٹھا اپنے متعلق سوچ رہا تھا اور سمجھا ہوا تھا کہ میری قوم والے مجھے جھوٹا قرار دیں گے ایک گوشہ میں الگ تھلگ غمگین بیٹھا ہوا تھا اتنے میں اس طرف سے ابوجہل کا گزر ہوا اور مذاق کے لہجے میں اس نے کہا (کیسے بیٹھے ہو) کیا کوئی نئی چیز حاصل کی ہے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہاں مجھے آج رات لے جایا گیا تھا ابوجہل نے کہا ‘ کہاں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا بیت المقدس کو۔ ابوجہل بولا پھر صبح ہوئی تو تم ہمارے سامنے موجود ہو۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا۔ ہاں ابوجہل انکار نہ کرسکا اس کو اندیشہ ہوا کہ کہیں وہ بات اسی پر نہ پڑے۔ کہنے لگا تم نے جو بات میرے سامنے بیان کی ہے کیا اپنی قوم والوں کے سامنے بھی بیان کر دو گے ؟ حضور ﷺ نے فرمایا ہاں ‘ ابوجہل نے (پکار کر) کہا اے گروہ کعب بن لوی یہاں آؤ ‘ آواز پر لوگ ٹوٹ پڑے اور رسول اللہ ﷺ اور ابوجہل کے پاس آپہنچے ‘ ابوجہل بولا اب تم نے جو کچھ مجھ سے بیان کیا تھا اپنی قوم سے بھی بیان کرو۔ حضور ﷺ نے فرمایا ہاں مجھے آج رات لے جایا گیا ‘ لوگوں نے پوچھا کہاں ؟ فرمایا بیت المقدس کو۔ لوگوں نے کہا پھر صبح کو تم ہمارے سامنے بھی ہو۔ فرمایا ہاں۔ یہ سنتے ہی کچھ لوگ (مذاق سے) تالیاں بجانے لگے اور کچھ لوگوں نے تعجب سے اپنا سر پکڑ لیا اور کچھ لوگ جو ایمان لا چکے تھے اور حضور ﷺ کی نبوت کی تصدیق کرچکے تھے ‘ اسلام سے پھرگئے اور ایک مشرک دوڑا دوڑا حضرت ابوبکر ؓ کے پاس پہنچا اور کہنے لگا اب آپ کا اپنے ساتھی کے متعلق کیا خیال ہے ‘ وہ تو کہہ رہا ہے کہ رات مجھے بیت المقدس کو لے جایا گیا تھا۔ حضرت ابوبکر ؓ نے فرمایا کیا انہوں نے ایسا کہا ہے ؟ لوگوں نے کہا ہاں۔ حضرت ابوبکر ؓ نے فرمایا اگر انہوں نے ایسا کہا ہے تو سچ کہا ہے۔ لوگوں نے کہا ‘ کیا آپ اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ وہ رات میں بیت المقدس کو چلے بھی گئے اور صبح سے پہلے آ بھی گئے۔ حضرت ابوبکر ؓ نے فرمایا میں تو ان کی اس سے بھی بڑی بات کی تصدیق کرتا ہوں ان کے پاس جو صبح شام آسمان سے خبریں آتی ہیں میں تو ان کی تصدیق کرتا ہوں۔ حضرت ابوبکر کو صدیق اسی لئے کہا جانے لگا (کہ آپ نے بےتامل معراج کی تصدیق کردی اور رسول اللہ ﷺ : کی نبوت کو بھی آپ نے بےتامل مان لیا تھا) راوی کا بیان ہے کہ ان لوگوں میں بعض لوگ ایسے تھے جو بیت المقدس جا چکے تھے انہوں نے کہا کیا آپ ﷺ ہمارے سامنے بیت المقدس کا بیان کرسکتے ہیں۔ حضور ﷺ نے فرمایا ہاں ‘ حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا ‘ میں نے بیت المقدس کی کیفیت بیان کرنی شروع کی اور برابر بیان کرتا رہا یہاں تک کہ بعض حالات کا مجھ پر اشتباہ ہوگیا تو فوراً (نظروں کے سامنے سے پردے ہٹا دیئے گئے اور) بیت المقدس میری نظروں کے سامنے آگیا اور عقیل کے گھر سے بھی ورے لا کر اس کو رکھ دیا گیا اور میں مسجد کو اپنی نظر سے دیکھ دیکھ کر بیان کرنے لگا ‘ وہ لوگ کہنے لگے بیشک بیت المقدس کی جو حالت تم نے بیان کی ہے وہ صحیح ہے۔ پھر بولے محمد ﷺ ! ہمارے قافلے کی کچھ خبر بھی بیان کرو۔ ہمارے لئے وہ بہت ہی اہم ہے ‘ تم نے اس کو کہیں دیکھا تھا ‘ فرمایا ہاں فلاں قافلے کی صورت مقام روحاء میں میری نظر کے سامنے آئی تھی۔ اس کا ایک اونٹ گم ہوگیا تھا ‘ لوگ اس کی تلاش میں تھے۔ ان کے پڑاؤ (فرودگاہ) پر ایک پیالہ میں پانی رکھا تھا۔ مجھے پیاس لگی تھی ‘ میں نے وہ پانی پی لیا اور پیالہ کو اس کی سابق جگہ پر رکھ دیا ‘ تم اس قافلے والوں سے دریافت کرنا کہ جب وہ اپنے پڑآؤ پر واپس آئے تھے تو ان کو پیالہ میں پانی ملا تھا ؟ لوگوں نے کہا یہ ایک نشانی ہے جو (فیصلہ کن ہے) حضور ﷺ نے یہ بھی فرمایا تھا میں فلاں قبیلہ والوں کے قافلے کی طرف سے گزرا تھا ‘ فلاں فلاں دو آدمی ایک اونٹ پر سوار تھے۔ یہ واقعہ مقام ذی مر کا ہے ‘ مجھے دیکھ کر اونٹ ان دونوں سواروں سمیت بد کا ان دونوں شخصوں سے دریافت کرلینا لوگوں نے کہا یہ بھی (صداقت کو جانچنے کی) ایک نشانی ہے۔ لوگوں نے پوچھا ‘ اچھا ہمارے اونٹوں (کی تفصیل اور ان کی حالت) کے متعلق کچھ بتاؤ۔ فرمایا مقام تنعیم میں میں اونٹوں کی طرف سے گزرا تھا لوگوں نے کہا ان کی گنتی کیا تھی ‘ سامان جو ان پر لدا ہوا تھا وہ کیا تھا ان کی ہیئت کیا تھی ؟ فرمایا (اس وقت تو) مجھے ان باتوں کی طرف توجہ نہ تھی پھر مقام حرورہ میں وہ مکمل شکل کے ساتھ اپنے سامان اور ہیئت اور سواروں کے ساتھ میرے سامنے آ کھڑے ہوئے ان کی ہیئت ایسی ایسی تھی اور فلاں فلاں لوگ ان کے ساتھ تھے اور ایک خاکستری رنگ کا اونٹ ان کے آگے آگے تھا جس پر دو بوریاں سلی ہوئی لدی ہوئی تھیں۔ طلوع آفتاب کے وقت وہ قافلہ تمہارے سامنے آجائے گا۔ لوگوں نے کہا یہ بھی (سچائی جانچنے کی) ایک نشانی ہے۔ اس گفتگو کے بعد وہ لوگ فوراً دوڑتے ہوئے گھاٹی پر پہنچے اور کہنے لگے خدا کی قسم محمد ﷺ نے واقعہ تو واضح طور پر بیان کردیا ہے ‘ اس کے بعد کداء (مکہ کے باہر ایک پتھریلی زمین یا پہاڑی تھی) پر پہنچے اور وہیں بیٹھ کر طلوع آفتاب کا انتظار کرنے لگے تاکہ اگر قافلہ نہ پہنچے تو رسول اللہ ﷺ : کو جھوٹا قرار دے سکیں۔ انتظار ہی میں تھے کہ کسی نے اچانک کہا یہ آفتاب نکل آیا اور فوراً دوسرا آدمی بولا اور یہ اونٹ بھی سامنے آگئے جن کے آگے آگے خاکستری رنگ کا اونٹ ہے اور فلاں فلاں لوگ قافلے میں موجود ہیں یہ سب کچھ دیکھنے کے بعد وہ لوگ ایمان نہیں لائے اور کہنے لگے یہ بلاشبہ کھلا ہوا جادو ہے۔ مسلم نے حضرت ابوہریرہ ؓ کی روایت سے بیان کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا وہ منظر میری آنکھوں کے سامنے ہے کہ میں حجر (اسود) کے پاس موجود تھا اور قریش میرے رات کے جانے کے متعلق دریافت کر رہے تھے ‘ انہوں نے بیت المقدس کے متعلق بھی مجھ سے پوچھا تھا جو مجھے یاد نہ تھا اور اس کی وجہ سے مجھے ایسی بےچینی ہوئی تھی کہ اس سے پہلے کبھی نہیں ہوئی۔ لیکن اس وقت اللہ بیت المقدس کو اٹھا کر میرے سامنے لے آیا (یعنی درمیانی پردے ہٹ گئے اور بیت المقدس مجھے سامنے نظر آنے لگا) اب جو سوال بھی مجھ سے کرتے تھے ‘ میں دیکھ کر اس کو بتادیتا تھا۔ میں نے انبیاء کی جماعت کے ساتھ بھی اپنے آپ کو دیکھا تھا ‘ میں نے دیکھا کہ موسیٰ کھڑے نماز پڑھ رہے ہیں۔ وہ چھریرے بدن کے گھونگھریالے بالوں والے شخص تھے ‘ ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے قبیلۂ شنوءہ کا کوئی آدمی ہو ان کی مشابہت عروہ بن مسعود ثقفی ؓ میں سب سے زیادہ ہے ‘ میں نے ابراہیم ( علیہ السلام) کو بھی کھڑے نماز پڑھتے دیکھا۔ ابراہیم (علیہ السلام) کے ساتھ سب سے زیادہ مشابہت رکھنے والا تمہارا ساتھی ہے (یعنی میں) پھر نماز کا وقت آگیا تو میں نے انبیاء کی امامت کی نماز سے فارغ ہوا تو کسی کہنے والے نے کہا محمد ﷺ ! یہ مالک داروغۂ دوزخ ہیں ان کو سلام کرو۔ میں نے مالک کی طرف منہ موڑ کر دیکھا تو انہوں نے ہی مجھے پہلے سلام کیا۔ بخاری نے صحیح میں لکھا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جس رات کو مجھے (معراج میں) لے جایا گیا ‘ میری ملاقات موسیٰ ( علیہ السلام) سے ہوئی وہ چھریرے بدن کے گھونگریالے بالوں والے آدمی تھے ‘ معلوم ہوتا تھا کہ قبیلۂ شنوءہ کے کوئی آدمی ہیں۔ عیسیٰ ( علیہ السلام) سے بھی میری ملاقات ہوئی وہ درمیانی قد کے گٹھے بدن کے سرخ رنگ والے آدمی تھے معلوم ہوتا تھا کہ ابھی حمام سے نکل کر آئے ہیں۔ میں نے ابراہیم (علیہ السلام) کو بھی دیکھا ابراہیم (علیہ السلام) کی نسل میں سب سے زیادہ ان سے مشابہت رکھنے والا میں ہوں۔ میرے سامنے دو برتن لائے گئے ایک میں دودھ تھا دوسرے میں شراب۔ پھر مجھ سے کہا گیا ان دونوں میں سے جونسا چاہو لے لو۔ میں نے دودھ لے کر پی لیا ‘ اس شخص نے (یعنی جس شخص نے انتخاب کا اختیار دیا تھا) کہا تم کو فطرت کی راہ پر ڈال دیا گیا یا یہ کہا کہ تم نے فطرت کو پا لیا اگر شراب کو لے لیتے تو تمہاری امت گمراہ ہوجاتی۔ ہم نے سورة والنجم میں ساتوں آسمانوں اور سدرۃ المنتہیٰ کی سیر کا واقعہ مفصل لکھ دیا ہے (تفصیل وہاں دیکھی جائے)
Top