Tafseer-e-Mazhari - Al-Israa : 11
وَ یَدْعُ الْاِنْسَانُ بِالشَّرِّ دُعَآءَهٗ بِالْخَیْرِ١ؕ وَ كَانَ الْاِنْسَانُ عَجُوْلًا
وَيَدْعُ : اور دعا کرتا ہے الْاِنْسَانُ : انسان بِالشَّرِّ : برائی کی دُعَآءَهٗ : اس کی دعا بِالْخَيْرِ : بھلائی کی وَكَانَ : اور ہے الْاِنْسَانُ : انسان عَجُوْلًا : جلد باز
اور انسان جس طرح (جلدی سے) بھلائی مانگتا ہے اسی طرح برائی مانگتا ہے۔ اور انسان جلد باز (پیدا ہوا) ہے
وَيَدْعُ الْاِنْسَان بالشَّرِّ دُعَاۗءَهٗ بالْخَيْر اور (بعض) آدمی برائی (یعنی عذاب) کی ایسی درخواست کرتا ہے جس طرح بھلائی کی درخواست۔ شر کی دعا کرنے سے مراد یہ ہے کہ غصہ میں اپنے لئے اپنے اہل و عیال اور مال کے لئے بددعا کرتا ہے یا یہ مراد ہے کہ بعض چیزوں کو اپنے لئے اچھا سمجھتے ہوئے ان کو حاصل کرنے کی اللہ سے دعا کرتا ہے ‘ حالانکہ وہ چیزیں اس کے لئے بری ہوتی ہیں۔ خیر کی دعا کرنے کا یہ مطلب ہے کہ وہ دنیا اور دین کی بھلائی کے لئے اور عذاب آخرت سے محفوظ رہنے کے لئے دعا کرتا ہے۔ پس اسی طرح وہ شر کا بھی طلبگار ہوتا ہے۔ اگر اللہ اس کی بددعا قبول فرما لے تو یقیناً وہ تباہ ہوجائے مگر اللہ اپنی مہربانی سے اس کی یہ بددعا قبول نہیں فرماتا (اور اس کے سوال کے مطابق تباہ نہیں کرتا) وَكَانَ الْاِنْسَانُ عَجُوْلًا : اور انسان بڑا جلد باز ہے۔ یعنی جو خیال دل میں آتا ہے چاہتا ہے فوراً پورا ہوجائے ‘ انجام پر غور نہیں کرتا اور یہ نہیں سوچتا کہ اگر اس کا خیال پورا کردیا جائے تو ایسا نتیجہ سامنے آجائے گا جو اس کو پسند نہ ہوگا ‘ ناگوار ہوگا۔ حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا صبر نہیں کرتا ‘ نہ اس کو دکھ پر قرار ہوتا ہے نہ سکھ پر ہر چیز سے اکتا جاتا ہے اور تنگدل ہو کر دعا کرتا ہے۔ بعض علماء نے کہا الانسان سے مراد حضرت آدم ( علیہ السلام) ہیں جب روح آپ کے بدن میں ڈالی گئی تو ناف تک ہی پہنچی تھی کہ اٹھنے لگے ‘ مگر گرپڑے اٹھ نہ سکے۔ ابن جریر نے حضرت ابن عباس ؓ کی طرف اس قول کی نسبت کی ہے۔ واقدی نے مغازی میں حضرت عائشہ ؓ کے کسی آزاد کردہ غلام کی وساطت سے بیان کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ ایک قیدی کو ساتھ لے کر حضرت عائشہ ؓ کے پاس تشریف لائے اور فرمایا اس کی بڑی نگرانی رکھنا (کہیں بھاگ نہ جائے) حضرت عائشہ : ؓ کسی عورت سے باتیں کرنے میں قیدی کی طرف سے غافل ہوگئیں ‘ قیدی بھاگ گیا ‘ رسول اللہ ﷺ : تشریف لائے اور قیدی کے متعلق دریافت فرمایا ‘ حضرت عائشہ ؓ نے کہا مجھے معلوم نہیں (وہ کہاں گیا) میں ذرا اس کی طرف سے غافل ہوئی کہ وہ نکل گیا ‘ حضور والا نے (ناراض اور غضبناک ہو کر) فرمایا اللہ تیرا ہاتھ کاٹ دے۔ یہ فرما کر باہر تشریف لے گئے اور ملزم کے پیچھے آدمیوں کو دوڑایا لوگ اس کو پکڑ لائے پھر آپ اندر تشریف لائے حضرت عائشہ ؓ : بستر پر (بیٹھی) اپنے ہاتھ کو الٹ پلٹ کر رہی تھیں ‘ فرمایا کیوں کیا بات ہے ؟ حضرت عائشہ ؓ نے عرض کیا میں آپ کی بددعا (کا اثر ظاہر ہونے) کا انتظار کر رہی ہوں۔ حضور : ﷺ نے اپنے ہاتھ اٹھائے اور دعا کی اے اللہ میں ایک انسان ہوں دوسرے انسانوں کی طرح مجھے بھی رنج ہوتا ہے اور غصہ آتا ہے ‘ میں جس مؤمن مرد یا مؤمن عورت کے لئے کوئی بد دعا کروں تو میری بددعا کو اس کے لئے (گناہوں سے) پاکی اور طہارت (کا سبب) بنا دے۔ واللہ اعلم۔ کلام کی رفتار بتارہی ہے کہ الانسان سے مراد کافر انسان ہے اور دعاء شر سے مراد عذاب کے فوراً آجانے کی دعا ہے کافر بطور استہزاء جلد عذاب آنے کی درخواست کرتے تھے۔ نضر بن حارث نے کہا تھا اے اللہ ! دونوں گروہوں میں جو فریق بہتر ہو اس کو فتح یاب کر اے اللہ ! اگر تیری طرف سے یہ (اسلام و قرآن) ہی حق ہے تو ہم پر آسمان سے پتھر برسا دے ‘ چناچہ بدر کے دن نضر بن حارث کی گردن ماری گئی۔
Top