Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Tafseer-e-Mazhari - Al-Israa : 7
اِنْ اَحْسَنْتُمْ اَحْسَنْتُمْ لِاَنْفُسِكُمْ١۫ وَ اِنْ اَسَاْتُمْ فَلَهَا١ؕ فَاِذَا جَآءَ وَعْدُ الْاٰخِرَةِ لِیَسُوْٓءٗا وُجُوْهَكُمْ وَ لِیَدْخُلُوا الْمَسْجِدَ كَمَا دَخَلُوْهُ اَوَّلَ مَرَّةٍ وَّ لِیُتَبِّرُوْا مَا عَلَوْا تَتْبِیْرًا
اِنْ
: اگر
اَحْسَنْتُمْ
: تم نے بھلائی کی
اَحْسَنْتُمْ
: تم نے بھلائی کی
لِاَنْفُسِكُمْ
: اپنی جانوں کے لیے
وَاِنْ
: اور اگر
اَسَاْتُمْ
: تم نے برائی کی
فَلَهَا
: تو ان کے لیے
فَاِذَا
: پھر جب
جَآءَ
: آیا
وَعْدُ الْاٰخِرَةِ
: دوسرا وعدہ
لِيَسُوْٓءٗا
: کہ وہ بگاڑ دیں
وُجُوْهَكُمْ
: تمہاری چہرے
وَلِيَدْخُلُوا
: اور وہ گھس جائیں گے
الْمَسْجِدَ
: مسجد
كَمَا
: جیسے
دَخَلُوْهُ
: وہ گھسے اس میں
اَوَّلَ مَرَّةٍ
: پہلی بار
وَّلِيُتَبِّرُوْا
: اور برباد کر ڈالیں
مَا عَلَوْا
: جہاں غلبہ پائیں وہ
تَتْبِيْرًا
: پوری طرح برباد
اگر تم نیکوکاری کرو گے تو اپنی جانوں کے لئے کرو گے۔ اور اگر اعمال بد کرو گے تو (اُن کا) وبال بھی تمہاری ہی جانوں پر ہوگا پھر جب دوسرے (وعدے) کا وقت آیا (تو ہم نے پھر اپنے بندے بھیجے) تاکہ تمہارے چہروں کو بگاڑ دیں اور جس طرح پہلی دفعہ مسجد (بیت المقدس) میں داخل ہوگئے تھے اسی طرح پھر اس میں داخل ہوجائیں اور جس چیز پر غلبہ پائیں اُسے تباہ کردیں
اِنْ اَحْسَنْتُمْ اَحْسَنْتُمْ لِاَنْفُسِكُمْ ۣوَاِنْ اَسَاْتُمْ فَلَهَا (ہم نے کہہ دیا کہ) اگر بھلائی کرو گے تو اپنے لئے بھلائی کرو گے (یعنی اگر اللہ کے احکام پر) چلو گے تو خود تمہارے لئے سود مند ہوگا ثواب پاؤ گے اللہ کو تو تمہاری اطاعت سے کوئی فائدہ نہیں) اور اگر برائی کرو گے تب بھی اپنی جانوں کے لئے برائی کرو گے (خود ہی سزا پاؤ گے اپنا نقصان کرو گے اللہ کا کچھ ضرر نہ ہوگا) ۔ فَاِذَا جَاۗءَ وَعْدُ الْاٰخِرَةِ لِيَسُوْۗءٗا وُجُوْهَكُمْ وَلِيَدْخُلُوا الْمَسْجِدَ كَمَا دَخَلُوْهُ اَوَّلَ مَرَّةٍ وَّلِــيُتَبِّرُوْا مَا عَلَوْا تَتْبِيْرًا پھر جب پچھلی مرتبہ (کی سزا) کا وعدہ (مقررہ وقت) آپہنچا (تو ہم نے کچھ لوگوں کو مسلط کردیا) کہ وہ تمہارے چہروں کو اداس کردیں اور مسجد (بیت المقدس اور اس کے اطراف) میں اسی طرح گھس جائیں جس طرح پہلی مرتبہ گھسے تھے اور جس مقام پر غلبہ پائیں اس کو کامل طور پر تباہ کردیں۔ لِیَسُوْءُ وُجُوْہَکُمْ سے یہ مراد ہے کہ تمہارے چہروں کی ایسی حالت کردیں جس سے برائی اور خرابی کے آثار واضح طور پر نمایاں ہوں۔ بغوی نے لکھا ہے کہ اللہ نے ایرانیوں اور رومیوں کو اور خردوش و ٹیٹس کو بنی اسرائیل پر مسلط کردیا۔ حملہ کرنے والوں نے بنی اسرائیل کو قتل کیا قید کیا اور جلاوطن کیا (اس طرح دوبارہ بنی اسرائیل تباہ ہوگئے 1 ) ۔ مَا عَلَوْا جس جگہ پر غلبہ پائیں یا جتنی مدت غالب رہیں۔ بغوی نے محمد بن اسحاق کا بیان نقل کیا ہے کہ بنی اسرائیل برابر نافرمانیاں اور گناہ کرتے رہتے تھے اور اللہ ان سے درگزر فرماتا تھا اور اپنے احسانات سے نوازتا رہتا تھا گناہوں کی پاداش میں سب سے پہلے جو مصیبت ان پر آئی وہ تھی جس کا اظہار (اللہ نے اپنے پیغمبر موسیٰ : ( علیہ السلام) کی زبان سے کرا دیا تھا کہ بنی اسرائیل میں ایک بادشاہ ہوا جس کا نام صدیقہ تھا اس زمانہ میں اللہ کی طرف سے یہ ضابطہ جاری تھا کہ بادشاہ کو ہدایت کرنے اور سیدھے راستے پر چلانے کے لئے اس کے ساتھ اللہ ایک پیغمبر کو بھی مبعوث فرما دیا کرتا تھا ‘ ان پیغمبروں پر کوئی جدید کتاب نازل نہیں ہوتی تھی بلکہ توریت کے احکام پر چلنے کی ہدایت ہر پیغمبر کرتا تھا۔ صدیقہ بادشاہ ہوا تو اس کی رہنمائی کے لئے اللہ نے شعیا بن امضیا کو پیغمبر بنا کر بھیج دیا ‘ شعیا کی بعثت حضرت زکریا و یحییٰ سے پہلے تھی شعیا نے ہی حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) اور حضرت محمد ﷺ کی بشارت دی تھی اور کہا تھا ‘ اے یروشلم تجھے بشارت ہو اب تیرے پاس ایک گدھے پر سوار ہونے والا اور دوسرا شتر سوار آئے گا۔ غرض مدت تک صدیقہ بیت المقدس اور بنی اسرائیل کا بادشاہ رہا جب اس کا دور حکومت ختم ہونے کا وقت آگیا تو اللہ نے سخاریب شاہ بابل کو (عراق سے) بھیج دیا سخاریب کے ساتھ چھ لاکھ جھنڈے تھے سخاریب چلتا چلتا بیت المقدس کے اطراف تک پہنچ گیا۔ اس زمانہ میں صدیقہ کی پنڈلی میں پھوڑا تھا ‘ شعیا نبی نے صدیقہ سے کہا ‘ اے شاہ اسرائیل سخاریب شاہ بابل چھ لاکھ پھریرے اڑاتا آپہنچا لوگ ڈر کے مارے بھاگ گئے تو ہوشیار ہوجا ‘ صدیقہ کو یہ بات سن کر بڑی فکر ہوئی ‘ کہنے لگا اے اللہ کے نبی کیا آپ کے پاس اللہ کی طرف سے اس واقعہ کے متعلق کوئی وحی آئی ہے کہ ہمارا اور سخاریب کا فیصلہ کیا ہوگا ‘ حضرت شعیا نے فرمایا وحی تو کوئی نہیں آئی ‘ یہ کہہ ہی رہے تھے کہ شعیا کے پاس وحی آگئی اور حکم ملا کہ شاہ اسرائیل کے پاس جا کر اس کو حکم دے دو کہ تیرا وقت آگیا اب تو اپنے گھر والوں میں سے جس کو چاہے وصیت کر دے اور اپنا جانشین بنا دے۔ حضرت شعیا نے صدیقہ سے جا کر کہہ دیا کہ اللہ کی طرف سے میرے پاس وحی آئی ہے جس میں مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں تجھ سے کہہ دوں کہ تیرے مرنے کا وقت آگیا ہے اب تو جو کچھ وصیت کرنا ہو کر دے اور اپنے گھر والوں میں سے جس کو چاہے اپنی جگہ بادشاہ بنا دے صدیقہ یہ پیام سن کر قبلہ رو ہو کر نماز کو کھڑا ہوگیا دعا کی اور اللہ کے سامنے رویا اور زاری کی اور خلوص قلب کے ساتھ گڑگڑا کر عرض کیا۔ اے اللہ ! رب الارباب اے تمام معبودوں کے معبود اے وہ ذات جو تمام عیوب سے پاک اور تمام نقائص سے مبرا ہے اے رحمان اے مہربانی کرنے والے جس کو نہ اونگھ آتی ہے نہ نیند اے اللہ میں نے جو کام کئے جو عمل مجھ سے ہوئے اور بنی اسرائیل پر انصاف کے ساتھ میں نے جو حکومت کی وہ سب کچھ تیری توفیق سے ہوا تو مجھ سے زیادہ اس سے واقف ہے میرا ظاہر و باطن تیرے سامنے ہے (مجھ پر رحم فرما) صدیقہ اللہ کا نیک بندہ تھا اللہ نے اس کی دعا قبول فرما لی اور شعیا کے پاس وحی بھیجی کہ جا کر صدیقہ سے کہہ دو اللہ نے تیری دعا قبول کرلی تجھ پر رحم فرمایا ‘ تجھے تیرے دشمن سخاریب سے نجات دے دی اور تیری میعاد زندگی پندرہ سال بڑھا دی ‘ شعیا نے آکر صدیقہ کو یہ پیام پہنچادیا۔ یہ سنتے ہی صدیقہ کے دل سے دشمن کا خوف جاتا رہا ‘ رنج و فکر دور ہوگیا اور سجدے میں گر کر اس نے دعا کی اے میرے اور میرے باپ دادا کے معبود میں تجھے ہی سجدہ کرتا ہوں ‘ تیری پاکی کا اقرار کرتا ہوں ‘ تجھے بڑا جانتا ہوں تیری تعظیم کرتا ہوں ‘ تو ہی جس کو چاہتا ہے حکومت دیتا ہے اور جس سے چاہتا ہے نکال لیتا ہے تو ظاہر باطن کو جانتا ہے تو ہی اوّل تو ہی آخر تو ہی ظاہر اور تو ہی پوشیدہ ہے تو ہی رحم کرتا اور بےقراروں کی دعا قبول کرتا ہے تو نے ہی میری دعا قبول فرمائی اور میری زاری پر رحم کیا جب سر اٹھایا تو اللہ نے شعیا نبی کے پاس وحی بھیجی بادشاہ صدیقہ سے کہہ دو کہ اپنے خادموں میں سے کسی کو حکم دے کر انجیر کا پانی منگوا کر اپنے پھوڑے پر لگائے ‘ اللہ صبح تک شفا دے دے گا۔ صدیقہ نے حکم کی تعمیل کی اور اللہ نے اس کو تندرست کردیا۔ بادشاہ نے حضرت شعیا سے عرض کیا اپنے رب سے یہ دعا کر دیجئے کہ اللہ ہم کو بتادے ہمارے اس دشمن کا کیا ہوگا اللہ اس کے ساتھ کیا معاملہ کرے گا۔ اللہ نے شعیا سے فرمایا بادشاہ سے کہہ دو کہ میں نے تمہارے دشمن کو تم سے روک دیا اور تم کو اس سے بچا لیا ‘ صبح تک سب مرجائیں گے صرف سخاریب اور اس کے پانچ اہل کار بچیں گے (تم ان کو پکڑ لینا) صبح ہوئی تو کسی پکارنے والے نے چیخ کر شہر کے دروازے پر کہا اے بنی اسرائیل کے بادشاہ اللہ نے تیرا کام پورا کردیا ‘ تیرے دشمن کو تباہ کردیا ‘ باہر نکل کر دیکھ لے ‘ سخاریب اپنے ساتھیوں سمیت ہلاک ہوگیا ‘ بادشاہ باہر نکالا ‘ مردوں میں سخاریب کو تلاش کرایا گیا مگر اس کی لاش نہیں ملی بادشاہ نے اس کی طلب میں آدمی دوڑائے آخر اس دوش نے ایک غار میں سخاریب کو اور اس کے پانچ اہلکاروں کو جا پکڑا ان میں بخت نصر بھی تھا سب کو زنجیروں میں باندھ کر صدیقہ کے پاس لے آئے فوراً بادشاہ سجدہ میں گرپڑا اور طلوع آفتاب کے بعد سے عصر تک سجدہ میں پڑا رہا پھر سخاریب سے کہا ‘ تم نے دیکھا ہمارے رب نے تمہارے ساتھ کیا کیا تم بیخبر تھے اور اس نے اپنی طاقت سے تم کو قتل کردیا۔ سخاریب نے کہا مجھے پہلے ہی معلوم ہوچکا تھا کہ تمہارا رب تمہاری مدد کرے گا اور تم پر رحمت نازل فرمائے گا۔ اپنے ملک سے نکلنے سے پہلے ہی مجھے اس کی اطلاع مل چکی تھی مگر میں نے صحیح رہنما کا کہنا نہیں مانا میری کم عقلی نے مجھے اس بدبختی میں مبتلا کردیا اگر میں راہنما کی بات سن لیتا یا سمجھ سے کام لے لیتا تو تم سے جنگ ہی نہیں کرتا۔ (تم پر چڑھائی نہ کرتا) صدیقہ نے کہا اللہ رب العزت کا شکر ہے کہ اس نے جس سے چاہا تم کو تباہ کر ادیا (اب جو تم اور تمہارے پانچ ساتھی بچ گئے ہیں تو یہ نہ سمجھنا کہ اللہ کے نزدیک تمہاری کوئی عزت ہے کہ اس نے تم کو باقی رکھا) اس نے تجھے اور تیرے ساتھیوں کو صرف اس لئے باقی رکھا ہے کہ دنیا میں تمہاری بدنصیبی اور آخرت میں تمہارا عذاب بڑھ جائے اور ہمارے رب نے جو کچھ تمہارے ساتھ کیا ہے اس کی اطلاع ان لوگوں کو بھی جا کر دے دو جو تمہارے ساتھ یہاں نہیں آئے اور اپنے پیچھے والوں کو بھی (ہمارے رب کے عذاب سے) ڈرا دو ۔ اگر یہ بات نہ ہوتی تو میں تم سب کو قتل کردیتا تیرا اور تیرے ساتھیوں کا خون اللہ کے نزدیک چچڑی کے خون سے بھی حقیر ہے اگر میں قتل کردیتا (تو میرے رب کو پروا بھی نہ ہوتی) پھر کو توال نے شاہ اسرائیل کے حکم سے ان لوگوں کی گردنوں میں زنجیریں ڈال کر ستر روز تک بیت المقدس اور ایلیا کے گرداگرد پھرایا۔۔ ان میں سے ہر شخص کو روزانہ جو کی دو روٹیاں کھانے کو دی جاتی تھیں ‘ سخاریب نے شاہ اسرائیل سے کہا تم جو سلوک ہمارے ساتھ کر رہے ہو اس سے تو قتل ہوجانا ہی بہتر ہے شاہ اسرائیل نے ان کو قتل خانہ کو بھجوا دیا اس کے بعد اللہ نے حضرت شعیا کے پاس وحی بھیجی کہ بادشاہ سے جا کر کہہ دو کہ سخاریب کو اور اس کے ساتھیوں کو رہا کر دے تاکہ وہ ان لوگوں کو جو ان سے پرے ہیں جا کر ڈرائیں بادشاہ کو چاہئے کہ سخاریب اور اس کے ساتھیوں کی عزت کرے اور عزت کے ساتھ سوار کر کے ان کے ملک کو بھیج دے۔ شعیا نے بادشاہ کو اللہ کا یہ حکم پہنچا دیا اور بادشاہ نے حکم کی تعمیل کی۔ سخاریب ساتھیوں سمیت بابل پہنچ گیا اور لوگوں کو جمع کر کے اپنے لشکر کی حالت بتائی۔ کاہنوں اور نجومیوں نے کہا بادشاہ سلامت ہم تو آپ کو پہلے بنی اسرائیل کے خدا کی خبر اور ان کے نبی کی کیفیت اور نبی کے پاس جو ان کے خدا کی طرف سے وحی آنے والی تھی ‘ اس کی اطلاع دے چکے تھے مگر آپ نے ہمارا کہنا نہ مانا بنی اسرائیل ایسی امت ہے کہ ان کا رب ان کے ساتھ ہے اور ان کے رب کی موجودگی میں کوئی ان سے لڑ نہیں سکتا۔ سخاریب کا واقعہ اس کی قوم کو ڈرانے کے لئے ہوا تھا ‘ اللہ نے اس واقعہ سے ان کو کافی نصیحت کردی ‘ اس کے بعد سخاریب سات برس زندہ رہا پھر مرگیا اور مرنے سے پہلے اس نے اپنا جانشین اپنے پوتے بخت نصر کو بنا دیا بخت نصر اپنے دادا کے راستہ پر چلا اور وہی کام کئے جو اس کے دادا نے کئے تھے اور سترہ سال حکومت کی۔ صدیقہ کے مرنے کے بعد بنی اسرائیل کی حکومت بگڑ گئی قوم میں گڑبڑ ہوگئی باہم حکومت کے لئے دوڑ شروع ہوگئی اور آپس میں خوب کشت و خون ہوا شعیا موجود تھے مگر ان کی نصیحت کوئی نہیں مانتا تھا جب قوم کی ابتری یہاں تک پہنچ گئی تو اللہ نے شعیا کے پاس وحی بھیجی تم اپنی قوم کے سامنے کھڑے ہو کر خطبہ دو میں تمہاری زبان پر اپنی وحی جاری کر دوں گا (جو کچھ میں کہلوانا چاہوں گا وہ تمہاری زبان پر آجائے گا) شعیا قوم کو خطاب کرنے کھڑے ہوگئے اور اللہ نے ان کی زبان پر (یہ الفاظ وحی) جاری کردیئے۔ اے آسمان سن لے اور اے زمین تو بھی کان ادھر لگا اللہ بنی اسرائیل کی حالت بیان کرنا چاہتا ہے ان کو اللہ نے اپنی نعمتیں دے کر پرورش کیا اپنے لئے ان کو منتخب کرلیا اپنی طرف سے خصوصی عزت عطا کی اور سب لوگوں پر ان کو برتری عنایت فرمائی یہ لوگ بھٹکی ہوئی بکریوں کی طرح تھے جن کا کوئی نگراں نگہبان نہ تھا اللہ نے ان منتشر بکریوں کو یکجا کیا۔ بھٹکی ہوئی بکریوں کو جمع کیا اور شکستہ کو جوڑا بیمار کو تندرست کردیا لاغر کو فربہی عطا کی اور فربہ کی فربہی کی حفاظت کی اللہ نے جب ان کے ساتھ یہ سلوک کیا تو یہ مغرور ہوگئے اور آپس میں ٹکرانے اور ایک دوسرے کے سینگ مارنے لگے ایک نے دوسرے کو قتل کردیا یہاں تک کہ ان میں کوئی بھی ایسا صحیح الحال شخص نہ رہا کہ کوئی شکستہ اعضاء والا اس کی پناہ میں آجاتا ہلاکت کو اس خطاکار امت کے لئے جس کو یہ بھی معلوم نہیں کہ ان کی موت کہاں سے آرہی ہے مقدر کردیا (یعنی یہ اتنا بھی جانتے کہ ان کی قومی موت کے اسباب کیا ہیں) اونٹ کو اپنا وطن یاد آتا ہے تو وہ وطن کو لوٹ آتا ہے گدھے کو اپنی خوید یاد آتی ہے جس سے وہ پیٹ بھرا کرتا تھا تو وہ خوید کی طرف لوٹ آتا ہے۔ بیل کو جب سبزہ زار یا دآتا ہے جس کو کھا کر وہ موٹا ہوا تھا تو وہ سبزہ زار کی طرف آجاتا ہے لیکن یہ قوم جو عقل و دانش والے ہیں ‘ بیل نہیں ہیں گدھے نہیں ہیں اس کے باوجود ان کو معلوم نہیں کہ ان کی موت کہاں سے آرہی ہے ان کی ایک مثال بیان کرتا ہوں تم ان سے کہہ دو کہ ایک ویران زمین تھی جو مدت تک ویران پڑی رہی۔ بےآب وگیاہ تھی اس میں کوئی عمارت نہ تھی لیکن اس کا مالک ایک صاحب قدرت اور حکمت والا شخص تھا۔ مالک نے اس زمین کو آباد کرنے کی طرف توجہ کی اس نے پسند نہیں کیا کہ لوگ کہیں اس زمین کا مالک قوت رکھتا ہے پھر بھی اس نے زمین کو ویران رکھ چھوڑا ہے یا یہ کہیں کہ اس کا مالک حکمت و دانش رکھتا ہے اس کے باوجود زمین کو اس نے برباد کردیا ہے یہ خیال کر کے اس نے زمین کی چاردیواری بنائی ‘ اندر ایک مضبوط محل تیار کیا ‘ نہریں جاری کیں ‘ زیتون ‘ انار ‘ کھجور اور رنگ برنگ کے پھلوں کے درخت بوئے اور ایک عقلمند باہمت طاقتور امانت دار محافظ کی نگرانی میں اس زمین کو دے دیا جب درختوں میں شگوفے نکلے تو ناکارہ شگوفے نکلے لوگ کہنے لگے یہ زمین خراب ہے مناسب یہ ہے کہ اس کی دیواریں گرا دی جائیں محل کو ڈھا دیا جائے ‘ نہریں پاٹ دی جائیں۔ نہروں کے دہانے بند کردیئے جائیں درختوں کو جلا دیا جائے اور جیسے پہلے زمین بنجر و ویران تھی ویسی ہی کردی جائے۔ تم ان سے کہہ دو کہ (ہر چہار سمت کی) دیوار میرا دین ہے محل میری شریعت ہے۔ نہر میری کتاب ہے نگران زمین میرا پیغمبر ہے اور درخت تم لوگ ہو اور ناکارہ شگوفے جو درختوں سے برآمد ہو رہے ہیں وہ تمہارے ناپاک اعمال ہیں جو فیصلہ تم نے اپنے لئے کیا ہے وہی فیصلہ میں نے تمہارے لئے جاری کردیا ہے۔ یہ ایک مثال ہے جو میں نے ان (کے حالات کو سمجھانے) کے لئے بیان کی ہے۔ یہ گائے بکریاں ذبح کر کے میری قربت چاہتے ہیں حالانکہ یہ گوشت نہ مجھے پہنچتا ہے کہ نہ میں اسے کھاتا ہوں ‘ ان کو اس بات کی دعوت دی جا رہی ہے کہ تقویٰ اختیار کریں اور جس کو قتل کرنا میں نے حرام کردیا ہے اس کو قتل کرنے سے باز رہیں اور اس طرح میرا تقرب حاصل کریں مگر ان کے ہاتھ خون ناحق سے رنگین ہیں اور کپڑے ناجائز خوں ریزی سے آلودہ ہیں۔ یہ لوگ میرے لئے مکان یعنی مسجدیں پختہ بناتے ہیں ان کے اندرونی حصوں کو پاک بھی رکھتے ہیں مگر اپنے دلوں کو ناپاک اور جسموں کو گندہ اور میلا رکھتے ہیں مسجدوں میں پردے لگاتے اور ان کو آراستہ کرتے ہیں مگر اپنی عقلوں کو ویران اور اخلاق کو تباہ کرتے ہیں مجھے ان مسجدوں کے پختہ کرنے کی کیا حاجت ہے میں تو ان میں رہتا نہیں اور ان میں پردے لٹکانے کی کیا مجھے کیا ضرورت ہے ‘ میں تو ان کے اندر آتا نہیں ‘ میں نے مسجدیں بلند کرنے کا حکم اس لئے دیا ہے کہ وہاں میری یاد کی جائے اور میری پاکی بیان کی جائے۔ یہ لوگ کہتے ہیں ہم روزے رکھتے ہیں لیکن ہمارے روزے اوپر نہیں اٹھائے جاتے ہم نمازیں پڑھتے ہیں مگر ہماری نمازیں نور نہیں پیدا کرتیں ہم خیرات کرتے ہیں مگر ہمارے صدقات ہم کو پاک نہیں کرتے ‘ ہم گدھوں کی آوازوں کی طرح (چیخ چیخ کر) دعا کرتے ہیں اور بھیڑیوں کی آوازوں کی طرح (دہاڑیں مار کر) روتے ہیں مگر ہماری کوئی چیز قبول نہیں کی جاتی۔ تم ان سے دریافت کرو۔ دعا قبول کرنے سے مجھے کون سی چیز روکتی ہے۔ کیا میں سب سے زیادہ سننے والا سب سے بڑھ کر دیکھنے والا اور قریب ترین جواب دینے والا اور ارحم الراحمین نہیں ہوں۔ میں ان کے روزوں کو کس طرح اوپر اٹھاؤں جب کہ روزوں میں یہ جھوٹ بولتے ہیں اور لقمۂ حرام کھاتے ہیں۔ میں ان کی نمازوں میں نور کیسے پیدا کروں جب کہ ان کے دل میرے دشمنوں اور میرے مخالفوں اور میری قائم کی ہوئی حدود کو توڑنے والوں کی طرف جھکے ہوئے ہیں۔ ان کے صدقات میرے ہاں کیسے بارآور ہوں وہ تو پرایا مال صدقہ میں دیتے ہیں ‘ میں تو خیرات کا اجر ان لوگوں کو دیتا ہوں جو معصوم اہل خیر ہوں۔ میں ان کی دعائیں کیسے قبول کرسکتا ہوں۔ ان کی دعا تو صرف قول بےعمل کی ہوتی ہے (کہتے ہیں عمل کچھ نہیں کرتے) ان کا عمل قول سے بہت دور ہوتا ہے میں تو دعا اس کی قبول کرتا ہوں جو صاحب اطمینان اور نرم دل ہو اور میں اس کی بات سنتا ہوں جو سوال سے بچنے والا مسکین ہو ‘ میری رضامندی کی نشانی مسکینوں کی رضامندی ہے۔ جب یہ لوگ میرا کلام سنتے ہیں اور میرا پیام تم ان کو پہنچاتے ہو تو کہتے ہیں یہ بنائی ہوئی باتیں اور وہی پارینہ قصے ہیں جو باپ دادا سے ہم سنتے چلے آئے ہیں اور جادوگرو کاہن جیسے (الفاظ کا) جوڑ لگاتے ہیں ویسا ہی یہ بھی جوڑا ہوا کلام ہے۔ ان کا دعویٰ ہے کہ اگر ہم چاہیں تو ایسا کلام ہم بھی پیش کرسکتے ہیں۔ شیطان ہمارے پاس بھی وحی لاتے ہیں اگر ہم چاہیں تو شیطانوں کی وحی کی وجہ سے ہم بھی غیب سے واقف ہوجائیں۔ سنو۔ میں نے جس روز آسمان و زمین کو پیدا کیا تھا اسی روز ایک فیصلہ (قیامت ہونے کا) کردیا تھا اور اپنے اوپر اس فیصلہ کو لازمی اور قطعی کرلیا تھا اور اس سے پہلے (دنیوی زندگی کی) ایک مقرر میعاد بنا دی تھی ‘ وہ فیصلہ ضرور واقع ہوگا اگر یہ لوگ غیب دانی کے دعوے میں سچے ہیں تو تم کو بتادیں کہ اس فیصلہ کو میں کب جاری کروں گا یا وہ کس زمانہ میں (ظاہر) ہوگا اور اگر ان میں اس امر کی قدرت ہے کہ جو کچھ چاہیں پیش کرسکتے ہیں تو ایسی قدرت کا مظاہرہ کریں۔ جس سے میں اس فیصلے (قیامت) کو نافذ کروں گا۔ میں بہرحال اس فیصلہ کو تمام مذاہب پر غالب کروں گا خواہ شرک کرنے والوں کو پسند نہ ہو اور اگر وہ جیسا چاہیں جوڑ سکتے ہیں۔ تو ایسی حکمت کے ساتھ تالیف کریں جس حکمت سے میں امر قضاء کو (نافذ کرنے کی) تدبیر کرتا ہوں اور میں نے آسمان و زمین کو پیدا کرنے کے دن ہی یہ طے کردیا تھا کہ نبوت جاری کروں گا اور حکومت نچلے طبقہ کے عوام کو دوں گا اور بےعزتوں کو عزت ‘ کمزوروں کو قوت ‘ محتاجوں کو دولت ‘ جاہلوں کو علم اور بےپڑھے لکھوں کو حکمت عطا کروں گا۔ تم ان سے دریافت کرو کہ اگر وہ جانتے ہوں۔ تو بتائیں ایسا کب ہوگا اور کون یہ کام کرے گا اور کون لوگ ان چیزوں کے کارگزار اور مددگار ہوں گے ‘ یہ یقینی امر ہے کہ میں ان کاموں کے لئے ایک نبی امی کو بھیجوں گا جو اکھڑ نہ ہوگا ‘ درشت مزاج نہ ہوگا ‘ بازاروں میں چیختا نہ پھرے گا ‘ فحش بات زبان پر نہ لائے گا اور بےحیائی کی باتیں نہ کرے گا۔ میں اس کو سیدھا چلاؤں گا تمام عمدہ اخلاق عطا کروں گا وقار کو اس کا لباس بناؤں گا۔ نیکی اور بھلائی کو اس کا شعار (اندرونی لباس) تقویٰ کو اس کا ضمیر حکمت کو اس کا علم ‘ سچائی اور وفاء عہد کو اس کا خمیر ‘ عفو وخیر کو اس کی عادت ‘ انصاف کو اس کی سیرت حق کو اس کی شریعت ‘ ہدایت کو اس کا امام اور اسلام کو اس کا مذہب بناؤں گا۔ اس کا نام احمد ہوگا میں اس کے ذریعہ سے گمراہوں کو ہدایت ‘ جاہلوں کو علم ‘ گمناموں کو بلندئ ذکر اور غیر معروف لوگوں کو شہرت عطا کروں گا۔ میں اس کے ذریعے سے قلیل کو کثیر ‘ ناداروں کو زردار بناؤں گا۔ پراگندہ لوگوں کو جمعیت منتشر دلوں میں ملاپ متفرق خواہشات رکھنے والوں میں باہم الفت اور متفرق جماعتوں میں اتحاد عنایت کروں گا ‘ میں اس کی امت کو خیر الامم بناؤں گا جو لوگوں کی ہدایت کے لئے پیدا کی جائے گی بھلائی کا حکم دے گی برائی سے روکے گی۔ وہ مجھے واحد مانے گی مجھ پر ایمان لائے گی اور میرے لئے (اپنے افکار و اعمال کو) خالص کرے گی ‘ وہ نمازیں پڑھے گی (نماز میں) قیام کرے گی قعود و رکوع اور سجود کرے گی وہ میری راہ میں صف در صف (یعنی صف بستہ ہو کر) لڑے گی اور دشمنوں پر ہجوم کرے گی وہ اپنے گھروں اور مالوں کو چھوڑ کر میری رضامندی کی طلب میں نکلے گی۔ میں ان کے دلوں میں ڈال دوں گا تکبیر توحید تسبیح تحمید ‘ مدح تمجید (یعنی اپنی بزرگی ‘ یکتائی ‘ پاکی ‘ حمد و ثنا اور بزرگی) کا اعتراف و اقرار اور اظہار ‘ سفر میں بھی ان کی مجلسوں میں بھی ‘ خوابگاہوں میں بھی آمدورفت کے راستوں میں بھی اور قیام گاہوں میں بھی۔ وہ تکبیریں کہیں گے ‘ تنہا میری الوہیت کا اظہار کریں گے اور میری پاکی بیان کریں گے ٹیلوں کی بلندیوں پر (چڑھ کر) چہروں اور ہاتھوں پاؤں کو میرے لئے پاک کریں گے اور کمر پر کپڑے باندھیں گے ان کے خون ان کی قربانیاں ہوں گے ان کے سینے ان کی انجیلیں (یعنی وہ قرآنی آیات کے مخزن) ہوں گے وہ راتوں میں راہب (اللہ سے ڈرنے والے شب زندہ دار) اور دن میں (دشمنوں کے مقابلے میں) شیر ہوں گے اور یہ میرا فضل ہے میں جس کو چاہتا ہوں دیتا ہوں اور میں بڑے فضل والا ہوں۔ جب حضرت شعیا اپنے خطبہ سے فارغ ہوئے تو آپ کو قتل کرنے کے لئے بنی اسرائیل نے آپ کے اوپر حملہ کردیا آپ بھاگ پڑے راستہ میں ایک درخت ملا (درخت سے آواز آئی اے اللہ کے نبی میرے اندر آجائیے) اور وہ درخت پھٹ گیا ‘ حضرت شعیا اس کے اندر داخل ہوگئے مگر شیطان نے پیچھے سے آپ کے کپڑے کا کونا پکڑ لیا (آپ کے اندر داخل ہوجانے کے بعد درخت جڑ کر ہموار ہوگیا مگر کپڑے کا کونا باہر رہ گیا) شیطان نے لوگوں کو وہ کونا دکھا دیا (اور کہا شعیا اس کے اندر ہیں ثبوت یہ ہے کہ ان کے لباس کا یہ کونا باہر رہ گیا ہے) لوگوں نے آرے سے درخت کے دو ٹکڑے کردیئے اور حضرت شعیا کو بھی چیر ڈالا۔ اس کے بعد اللہ نے ایک شخص کو جس کا نام ناشیہ بن آموص تھا ‘ بنی اسرائیل کا بادشاہ بنایا اور اس کی رفاقت و ہدایت کے لئے حضرت ہارون بن عمران کی اولاد میں سے ارمیا بن حلفیا کو نبی بنا کر مبعوث فرمایا۔ ابن اسحاق نے بیان کیا کہ یہ ہی خضر تھے جن کا نام ارمیا تھا اور خضر لقب کیونکہ آپ (ایک بار) خشک گھاس پر بیٹھے تھے اور اٹھے تو وہ سرسبز ہو کر لہلہانے لگی تھی ‘ اللہ نے حضرت ارمیا کو بادشاہ کی ہدایت اور سیدھے راستے پر چلانے کے لئے مامور فرمایا۔ کچھ مدت کے بعد بنی اسرائیل میں بڑی بڑی بدعتیں پیدا ہوگئیں معاصی کی کثرت ہوگئی اور ممنوعات کو انہوں نے حلال قرار دے لیا۔ اللہ نے حضرت ارمیا ( علیہ السلام) کو حکم دیا کہ اپنی قوم بنی اسرائیل کے پاس جاؤ۔ میں تم کو جو حکم دے رہا ہوں وہ ان سے بیان کرو میرے احسانات یاد دلاؤ اور جو بدعتیں ان کے اندر پیدا ہوگئی ہیں ‘ وہ بتاؤ ارمیا نے عرض کیا اے میرے رب اگر تیری طرف سے مجھے قوت عطا نہ ہو تو میں (بجائے خود) کمزور ہوں اگر تو مجھے (مقصد تک) نہ پہنچائے تو میں عاجز ہوں اور اگر تو میری مدد نہ کرے تو (میری مدد کہیں سے نہ ہوگی) میں بےیارومددگار ہوں اللہ نے فرمایا کی تم نہیں جانتے کہ تمام امور میری مشیت سے ہوتے ہیں تمام دل اور زبانیں میرے ہاتھ میں ہیں ‘ میں جس طرح چاہتا ہوں ان کو موڑ دیتا ہوں میں تمہارے ساتھ ہوں اور میری موجودگی میں کوئی دکھ تم کو نہیں پہنچ سکتا۔ الغرض ارمیا بنی اسرائیل کو خطاب کرنے کھڑے ہوگئے لیکن ان کو کچھ علم نہ تھا کہ کیا کہنا ہے اور کیا کہیں فوراً اللہ نے ان کے دل میں ایک بلیغ خطبہ القاء کردیا ‘ آپ نے لوگوں کو طاعت کا ثواب اور فرمانی کا عذاب کھول کر بتایا اور آخر میں (استغراقی حالت میں) اللہ کی زبان سے کہا ‘ میں نے اپنی عزت کی قسم کھائی ہے کہ ان (بنی اسرائیل) پر ایک بڑا فتنہ مسلط کروں گا جس کے اندر دانش مند بھی حیران ہوجائے گا (کوئی خلاصی کا راستہ سمجھ میں نہیں آئے گا) اور ایک ظالم سنگدل کو ان پر غالب کر دوں گا جس کو میں ہیبت کا لباس پہنا دوں گا (یعنی بڑا ہولناک ظالم ہوگا) اور اس کے سینے سے رحم کو نکال لوں گا اس کے ساتھ ایک لشکر ہوگا ‘ تاریک رات کی سیاہی کی طرح (ہر طرف ہر چیز پر چھا جانے والا) اس کے بعد اللہ نے ارمیا کو وحی بھیجی کہ میں یافث سے بنی اسرائیل کو تباہ کراؤں گا۔ یافث باشندگان اہل بابل تھے (شاید اہل بابل یافث بن نوح کی نسل میں سے ہوں) چناچہ اللہ نے بنی اسرائیل پر بخت نصر (بابلی) کو مسلط کردیا ‘ بخت نصر چھ لاکھ فوج لے کر نکلا اور مع لشکر بیت المقدس میں داخل ہوگیا۔ شام کو روند ڈالا بنی اسرائیل کو اتنا قتل کیا کہ فنا کردیا ‘ بیت المقدس کو تباہ کردیا اور ہر فوجی کو حکم دیا کہ اپنی ڈھال بھر کر مٹی بیت المقدس پر ڈال دے ‘ اس طرح بیت المقدس کو سپاہیوں نے خاک سے پاٹ دیا۔ پھر بخت نصر نے حکم دیا کہ بلاد بیت المقدس کے تمام باشندوں کو یکجا جمع کرلیا جائے چناچہ سب لوگوں کو فوج والے پکڑ کرلے گئے۔ بنی اسرائیل کے سب بچے بڑے بخت نصر کے سامنے یکجا جمع کردیئے گئے بخت نصر نے ان میں سے ستر ہزار بچے چھانٹ لئے (یعنی اپنی غلامی اور خدمت گاری کے لئے منتخب کر لئے) اور مال غنیمت فوج کو تقسیم کردینے کا حکم دے دیا سواروں نے کہا مال غنیمت تو کل آپ کا ہے آپ شاہی خزانہ میں داخل کرا دیجئے بنی اسرائیل کے یہ بچے جو آپ نے منتخب کئے ہیں یہ فوج کو تقسیم کر دیجئے۔ بخت نصر نے یہ بات مان لی اور بچوں کو بطور غلام سرداران فوج کو تقسیم کردیا ہر شخص کے حصے میں چار غلام آئے پھر باقی لوگوں کی تین جماعتیں کردیں بنی اسرائیل کی ایک تہائی جماعت کو تو شام میں ہی قائم رکھا گیا ‘ ایک تہائی کو قیدی بنا لیا گیا اور تہائی کو قتل کردیا گیا۔ ناشیہ کو اور ستر ہزار بچوں کو بخت نصر بابل لے گیا۔ بنی اسرائیل کی یہ پہلی تباہی تھی جو خود انہی کی بداعمالی کی وجہ سے ان پر آئی۔ آیت فَاِذَا جَآءَ وَعْدُ اُوْلاَہُمَا بَعَثْنَا عَلَیْکُمْ عِبَادًا لَّنَا اُولِی بَاْسٍ شَدِیْدٍ میں یہ ہی تباہی مراد ہے اور عباد سے مراد بخت نصر اور اس کے ساتھی ہیں۔ ایک مدت کے بعد بخت نصر نے ایک عجیب خواب دیکھا۔ کوئی چیز خواب میں دیکھی تھی لیکن اس کو یاد نہیں رہا کہ کیا دیکھا تھا۔ دانیال ‘ حنانیا ‘ عزاریا اور میشائیل قیدیوں میں موجود ہی تھے ‘ یہ سب انبیاء کی نسل سے تھے ‘ بخت نصر نے ان لوگوں کو بلوایا اور خواب دریافت کیا۔ ان بزرگوں نے کہا آپ خواب بیان کیجئے تو ہم اس کی تعبیر دیں بخت نصر نے کہا مجھے تو خواب یاد نہیں رہا ‘ تم ہی میرا خواب بتاؤ اور تم ہی اس کی تعبیر بیان کرو اگر ایسا نہ کرو گے تو میں شانوں سے تمہارے ہاتھ اکھڑوا لوں گا۔ یہ بےچارے (یہ ظالمانہ حکم سن کر) دربار سے باہر آئے اور اللہ کے سامنے بہت گریہ وز اری کی ‘ اللہ نے ان کو بادشاہ کے سوال کا جواب بتادیا جواب کا علم ہونے کے بعد یہ حضرات بادشاہ کے پاس پہنچے اور کہا آپ نے ایک مورت دیکھی تھی جس کے دونوں پاؤں اور پنڈلیاں پختہ مٹی کی تھیں اور زانو اور رانیں تانبے کی اور پیٹ چاندی کا اور سینہ سونے کا اور سر و گردن لوہے کے۔ بادشاہ نے کہا تم نے سچ کہا ان حضرات نے کہا آپ یہ دیکھ ہی رہے تھے اور آپ کو تعجب ہو رہا تھا کہ اللہ نے آسمان سے ایک پتھر اتارا پتھر نے مورتی کو ریزہ ریزہ کردیا یہ ہی وہ چیز ہے جو آپ بھول گئے تھے۔ بخت نصر نے کہا تم نے سچ کہا اب اس کی تعبیر دو ۔ انہوں نے جواب دیا آپ کو چند بادشاہوں کی حکومت دکھائی گئی ہے کسی کی حکومت تو نرم (کمزور) ہے اور کسی کی اس سے سخت اور کسی کی بہت ہی حسین اور کسی کی سب سے زیادہ سخت پختہ مٹی (ٹھیکرے) سب سے کمزور حکومت ہے پھر اس کے اوپر تانبا پہلی حکومت سے زیادہ سخت حکومت ہے پھر تانبے سے خوبصورت اور اعلیٰ چاندی ہے اور سونا چاندی سے زیادہ حسین اور برتر ہے سب کے اوپر لوہا آپ کی حکومت ہے جو پہلی حکومتوں سے زیادہ سخت اور مضبوط ہے اور وہ پتھر جو آسمان سے اترتا ہوا آپ نے دیکھا وہ اللہ کا غیبی حکم ہے جو اللہ کی طرف سے آکر اس ساری مورتی کو چکنا چور کر دے گا اور حکومت صرف اللہ کی رہ جائے گی۔ بنی اسرائیل کو اہل بابل کی خدمت میں رہتے رہتے جب مدت ہوگئی تو ایک روز بابل والوں نے بخت نصر سے کہا یہ غلام جو ہماری درخواست پر آپ نے ہم کو عنایت کئے تھے جب سے ہمارے ساتھ رہے ہیں ہم اپنی عورتوں کو کچھ بدلا ہوا پاتے ہیں ‘ عورتوں کے رخ ہماری طرف سے پھر کر ان کی طرف ہوگئے ہیں۔ آپ ان کو یہاں سے نکال دیجئے یا قتل کرا دیجئے۔ بخت نصر نے کہا ‘ تم کو اختیار ہے چاہو ان کو قتل کر دو ۔ چاہو نکال دو ۔ جب لوگوں نے ان کو قتل کرنے کا ارادہ کیا تو انہوں نے اللہ سے گریہ وزاری کی اور عرض کیا بارالٰہا ہم پر یہ مصیبت دوسروں کے گناہوں کی پاداش میں پڑی ہے (تو ہم پر رحم فرما) اللہ نے ان سے وعدہ فرمایا کہ تم کو زندہ رکھوں گا۔ آخر کچھ لوگ تو مارے گئے اور بخت نصر نے جن کو جیتا چھوڑ دیا وہ رہ گئے انہی میں سے دانیال ‘ حنانیا ‘ عزاریا اور میشائیل بھی تھے۔ بالآخر جب اللہ نے بخت نصر کو ہلاک اور غارت کردینے کا ارادہ کیا تو وہ خود ہی اپنی تباہی کا سبب بن گیا۔ جو بنی اسرائیل اس کے قبضے میں تھے ان سے ایک روز کہنے لگا۔ بتاؤ جو مکان میں نے تباہ کردیا وہ مکان کیسا تھا ؟ اور جن لوگوں کو میں نے وہاں قتل کیا وہ کون تھے ؟ بنی اسرائیل نے جواب دیا وہ اللہ کا گھر تھا اور وہ مقتول اس گھر کو آباد کرنے والے تھے۔ یہ لوگ نسل انبیاء سے تھے لیکن جب انہوں نے مظالم اور زیادتیاں کیں تو اللہ نے ان کی خطاکاریوں کی سزا میں آپ کو ان پر مسلط کردیا ان کے رب نے جو سارے جہان کا رب ہے ان کو عزت عطا فرمائی تھی اور معزز بنایا تھا لیکن جب انہوں نے وہ کام کئے جو نہایت برے تھے (یعنی مظالم اور نافرمانیاں) تو اللہ نے ان کو غارت کردیا اور دوسروں کو ان پر مسلط کردیا ‘ لیکن غالب آنے والا مغرور ہوگیا۔ اس نے خیال کیا کہ میں نے بنی اسرائیل کے ساتھ جو کچھ کیا وہ اپنے بل بوتہ پر کیا۔ بخت نصر نے کہا اچھا تو تم لوگ مجھے ایسی تدبیر بتاؤ کہ میں اونچے آسمان پر چڑھ جاؤں اور جو بھی وہاں ہو اس کو قتل کر کے اپنی حکومت وہاں قائم کرلوں زمین کی حکومت سے تو میں اب فارغ ہوگیا ہوں۔ بنی اسرائیل نے کہا کوئی مخلوق بھی ایسا نہیں کرسکتی ‘ کسی میں یہ طاقت نہیں ہے کہنے لگا تم کو ایسا کرنا تو ہوگا (آسمان پر چڑھنے اور اس کو فتح کرنے کی تدبیر بتانی ہوگی ورنہ میں تم سب کو قتل کر دوں گا ‘ یہ بات سن کر سب لوگ اللہ کے سامنے روئے اور گڑگڑائے اور عاجزی کے ساتھ دعا کی ‘ اللہ نے (ان کی مدد کی اور) اپنی قدرت سے ایک مچھر بھیج دیا جو بخت نصر کی ناک کے سوراخ میں گھس کر دماغ تک پہنچ گیا اور دماغ کی جھلی پر اس نے ڈنک مارا۔ بخت نصر بےتاب ہوگیا اس کو قرار ہی نہیں آتا تھا ‘ جب تک سر پر ضربیں نہ لگتی تھیں ‘ آخر اسی حالت میں مرگیا۔ مرنے کے بعد لوگوں نے سر چیر کر دیکھا تو ایک مچھر دماغ کی جھلی پر ڈنک مارتا نظر آیا جو بنی اسرائیل اس کے قبضہ میں باقی تھے اللہ نے ان کو نجات دی اور وہ شام کو چلے گئے وہاں پہنچ کر انہوں نے عمارتیں بنائیں ان کی تعداد بھی بہت ہوگئی اور جو حالت ان کی پہلے تھی اس سے بھی بہتر حالت ہوگئی لوگ کہتے ہیں کہ جو بنی اسرائیل قتل کردیئے گئے تھے اللہ نے ان کو بھی زندہ کردیا اور وہ بھی ان میں آکر شامل ہوگئے۔ جب بنی اسرائیل ملک شام میں آئے تو ان کے پاس اللہ کی کتاب باقی نہیں تھی۔ توریت جلا دی گئی تھی۔ حضرت عزیر بھی بابل کے قیدیوں میں تھے اور چھوٹ کر شام کو آئے تھے آپ تمام لوگوں سے الگ (کہیں جنگل میں جا کر) دن رات (توریت کے غم میں) روتے رہتے تھے۔ ایک روز کسی شخص نے ان سے پوچھا آپ اتنا روتے کیوں ہیں فرمایا للہ کی کتاب کو روتا ہوں ‘ اللہ کا وہ احکام نامہ جو ہمارے پاس تھا (جلا دیا گیا) نہ رہا اس کے بغیر نہ ہماری دنیا درست ہوسکتی ہے نہ آخرت اس شخص نے کہا اگر آپ چاہتے ہیں کہ توریت آپ کو دوبارہ مل جائے تو روزے رکھئے (نفس کو) پاک کیجئے اور کپڑے بھی پاک رکھئے اور کل کو اسی جگہ میں آپ سے ملوں گا حضرت عزیر نے روزہ بھی رکھا جسم اور کپڑوں کو بھی پاک کیا اور اسی مقررہ مقام پر اس شخص کا انتظار کرنے لگے۔ حسب وعدہ وہ شخص پانی سے بھرا ہوا ایک برتن لے کر آیا یہ شخص فرشتہ تھا ‘ اللہ نے اس کو بھیجا تھا۔ حضرت عزیر کو اس نے کچھ پانی پلایا۔ پانی پیتے ہی توریت آپ کے سینے میں منقش ہوگئی۔ جب بنی اسرائیل کے پاس لوٹ کر آئے اور توریت پیش کی تو بنی اسرائیل کو آپ سے اتنی محبت ہوگئی کہ کسی چیز سے ایسی محبت نہیں ہوئی تھی آپ محبوب قوم بن گئے پھر کچھ مدت کے بعد اللہ نے آپ کو بلا لیا اور بنی اسرائیل طرح طرح کی بدعتوں میں مبتلا ہوگئے اور اللہ بھی ان کو سزا دیتا رہا اور پیغمبروں کو ان کی ہدایت کے لئے بھیجتا رہا بنی اسرائیل کسی پیغمبر کی تو (صرف) تکذیب کرتے تھے اور کسی کو قتل کردیتے تھے (تصدیق نہیں کرتے تھے) سب کے آخر میں اللہ نے حضرت زکریا ‘ حضرت یحییٰ اور حضرت عیسیٰ (علیہم السلام) کو بھیجا یہ تینوں حضرت داؤد ( علیہ السلام) کی نسل سے تھے۔ حضرت زکریا انپی موت سے مرگئے۔ بعض نے کہا آپ کو شہید کردیا گیا۔ جب بنی اسرائیل نے حضرت یحییٰ کو شہید کردیا اور حضرت عیسیٰ کو اٹھا لیا گیا تو بابل کے ایک بادشاہ کو جس کو خردوش کہا جاتا تھا بنی اسرائیل پر مسلط کردیا خردوش نے بابل کا لشکر لے کر شام پر چڑھائی کی ملک میں داخل ہو کر تمام بنی اسرائیل پر مسلط ہوگیا۔ جب کامل تسلط پا لیا تو اپنے ایک فوجی سردار سے جس کا نام یبورزاذان تھا کہا ‘ میں نے اپنے معبود کی قسم کھائی تھی کہ بیت المقدس والوں پر جب مجھے فتح حاصل ہوگی تو میں ان کو اتنا قتل کروں گا کہ ان کا خون بہ بہ کر میرے لشکر کے وسطی حصہ تک آجائے ‘ ہاں اگر قتل کرنے کے لئے کوئی شخص باقی ہی نہ رہے تو مجبوری ہے تم میری اس قسم کو پورا کرو۔ یبورزاذان اس حکم کی تعمیل کے لئے کھڑا ہوگیا اور بیت المقدس میں داخل ہو کر قربان گاہ تک پہنچ گیا۔ وہاں پہنچ کر اس نے دیکھا کہ کچھ خون زمین سے ابل رہا ہے ‘ پوچھا یہ کیا بات ہے ‘ یہ خون کیسا ابل رہا ہے۔ بنی اسرائیل نے کہا اس جگہ ہم نے ایک قربانی ذبح کی تھی ‘ قربانی قبول نہیں ہوئی اور اس وقت سے برابر یہ خون ابل رہا ہے۔ ویسے آٹھ سو برس سے ہم قربانیاں کرتے چلے آئے ہیں اور سب کی سب قبول ہوتی رہی ہیں صرف یہ ہی قربانی قبول نہیں ہوئی یبورزاذان نے کہا تم نے مجھے سچ سچ نہیں بتایا کہنے لگے اگر پہلے جیسا وقت ہوتا تو ضرور یہ قربانی بھی قبول ہوجاتی مگر اب تو نہ ہماری حکومت رہی نہ سلسلۂ وحی و نبوت۔ اسی لئے یہ قربانی قبول نہیں ہوئی۔ اس کے بعد اسی مقام پر یبورزاذان نے بنی اسرائیل کے سرداروں کے سات سو ستر جوڑے ذبح کر ڈالے مگر خون جب بھی نہیں تھما یبورزاذان نے بنی اسرئیل کے سات سو لڑکے اور قتل کرا دیئے پھر بھی خون ٹھنڈا نہ ہوا یبورزاذان نے جب دیکھا کہ خون تھمتا ہی نہیں ہے تو بنی اسرائیل سے کہا کم بختو مجھے سچ سچ بتادو اور اپنے رب کے حکم پر صبر کرو ‘ ایک طویل مدت تک اس زمین پر تمہاری حکومت رہی ہے ‘ تم جو چاہتے تھے کرتے تھے ‘ میں تم میں سے کسی آگ پھونکنے والے مرد کو چھوڑوں گا نہ عورت کو ‘ سبھی کو قتل کر دوں گا۔ یہ وقت آنے سے پہلے مجھے سچ سچ بتادو۔ جب بنی اسرائیل نے قتل کی یہ شدت اور ناقابل برداشت مصیبت دیکھی تو سچی بات کہہ دی۔ کہنے لگے حقیقت میں یہ ایک پیغمبر کا خون ہے وہ ہم کو بہت سی باتوں سے منع کرتے تھے اور اللہ کے غضب سے ڈراتے تھے ‘ اگر ہم ان کا کہا مان لیتے تو یقیناً وہ راستہ ہمارے لئے بہت سیدھا راستہ تھا۔ انہوں نے ہم کو تمہارے متعلق بھی اطلاع دی تھی مگر ہم نے ان کو سچا نہ جانا اور بجائے تصدیق کے ان کو قتل کردیا یہ خون انہی کا ہے۔ یبورزاذان نے پوچھا ان کا نام کیا تھا۔ بنی اسرائیل نے کہا یحییٰ بن زکریا۔ یبورزاذان نے کہا اب تم نے سچی بات بتادی تم سے تمہارا رب اسی کا انتقام لے رہا ہے اس کے بعد یبورزاذان سجدے میں گرپڑا اور جو لوگ اس کے گرداگرد تھے ان کو حکم دیا کہ خردوش کے لشکر کے جو آدمی یہاں ہیں ان کو باہر کر دو اور شہر کے دروازے بند کر دو ۔ جب بنی اسرائیل کے ساتھ تنہا رہ گیا تو کہا اے یحییٰ بن زکریا آپ کے قتل کی وجہ سے جس مصیبت میں آپ کی قوم گرفتار ہوئی اور جتنے مارے گئے اس کو میرا اور آپ کا رب جانتا ہے۔ اب آپ اپنے رب کے حکم سے ٹھہر جائیں قبل اس کے کہ آپ کی قوم کے کسی شخص کو میں زندہ نہ چھوڑوں فوراً اللہ کے حکم سے خون تھم گیا اور یبورزاذان نے بنی اسرائیل کو قتل کرنے کا حکم منسوخ کردیا اور بولا بنی اسرائیل جس پر ایمان لائے ہیں میں بھی اس پر ایمان لایا اور مجھے یقین ہوگیا کہ اس کے سوا کوئی دوسرا رب نہیں پھر بنی اسرائیل سے کہا خردوش نے مجھے حکم دیا تھا کہ میں تم کو اتناقتل کروں کہ تمہارا خون بہ بہ کر اس کے لشکر کے وسطی حصہ تک پہنچ جائے اور میں اس کے حکم عدولی کی طاقت نہیں رکھتا۔ بنی اسرائیل نے کہا خردوش نے جو تم کو حکم دیا ہے اس کی تعمیل کرو۔ یبورزاذان نے ایک خندق کھودنے کا حکم دیا خندق تیار ہوگئی تو حکم دیا کہ بنی اسرائیل کے جتنے گھوڑے ‘ گدھے ‘ خچر ‘ اونٹ ‘ گائیں ‘ بھینسیں اور بکریاں بھیڑیں ہیں سب کو ذبح کر کے خندق میں ڈال دیا جائے۔ اس کی تعمیل بھی کردی گئی۔ یہاں تک کہ ان جانوروں کا خون لشکر گاہ کے وسط تک بہ کر پہنچ گیا اور ان جانوروں کے اوپر ان مقتولوں کی لاشوں کو ڈلوا دیا جن کو پہلے قتل کرا چکا تھا ‘ خردوش سمجھا کہ خندق کے اندر صرف لاشیں ہی بھری پڑی ہیں خون تو لشکرگاہ تک پہنچ ہی چکا تھا اس لئے خردوش نے یبورزاذان کو قتل بند کردینے کا حکم دے دیا ‘ پھر بابل کو واپس چلا گیا۔ اس حادثہ میں سارے بنی اسرائیل فنا ہوگئے یا فنا ہونے کے قریب پہنچ گئے۔ یہی وہ دوسرا واقعہ ہے جس کے متعلق اللہ نے فرمایا ہے۔ لَتُفْسِدُنَّ فِی الْاَرْضِ مَرَّتَیْنِپہلا واقعہ تو بخت نصر اور اس کے لشکر کا ہوا اور دوسرا واقعہ خردوش اور اس کی فوج کا۔ دوسرا واقعہ پہلے واقعہ سے زیادہ سنگین تھا اس کے بعد بنی اسرائیل کو استقلال نصیب نہیں ہوا شام اور علاقۂ شام کی حکومت رومیوں اور یونانیوں کے ہاتھ میں پہنچ گئی۔ ہاں جو بنی اسرائیل بچ گئے تھے ان کی نسل بکثرت ہوگئی اور بیت المقدس اور اس کے علاقہ میں ان کی ریاست قائم ہوگئی۔ مستقل حکومت نہ بن سکی۔ پھر بھی اللہ کی بڑی نعمتیں ان کو حاصل ہوئیں اور آسائش و آرام سے بسر کرنے لگے ‘ لیکن پھر انہوں نے طرح طرح کے جرائم کئے اور نافرمانیاں کیں تو اللہ نے ان پر ٹیٹس بن اسیانش رومی کو مسلط کردیا ٹیٹس نے ان کی بستیوں کو تباہ کردیا اور بیت المقدس سے ان کو نکال باہر کیا۔ ریاست ان سے چھین لی اور ایسی ذلت کی مار دی کہ آئندہ جس قوم میں یہ رہے ذلت کے ساتھ اور جزیہ ادا کر کے رہے اور بیت المقدس اجڑا پڑا رہا ‘ یہاں تک کہ حضرت عمر ؓ : کا دور خلافت آیا تو آپ کے حکم سے مسلمانوں نے اس کو آباد کیا۔ (اس آیت کی تفسیر کا بقیہ حصہ کتابی یا آن لائن نسخے سے ملاحضہ فرمائیں۔ طوالت کے باعث اس سے زیادہ نقل نہیں کیا جا رہا)
Top