Tafseer-e-Mazhari - Al-Kahf : 78
قَالَ هٰذَا فِرَاقُ بَیْنِیْ وَ بَیْنِكَ١ۚ سَاُنَبِّئُكَ بِتَاْوِیْلِ مَا لَمْ تَسْتَطِعْ عَّلَیْهِ صَبْرًا
قَالَ : اس نے کہا ھٰذَا : یہ فِرَاقُ : جدائی بَيْنِيْ : میرے درمیان وَبَيْنِكَ : اور تمہارے درمیان سَاُنَبِّئُكَ : اب تمہیں بتائے دیتا ہوں بِتَاْوِيْلِ : تعبیر مَا : جو لَمْ تَسْتَطِعْ : تم نہ کرسکے عَّلَيْهِ : اس پر صَبْرًا : صبر
خضر نے کہا اب مجھ میں اور تجھ میں علیحدگی۔ (مگر) جن باتوں پر تم صبر نہ کرسکے میں ان کا تمہیں بھید بتائے دیتا ہوں
قال ہذا فراق بینی وبینک خضر نے کہا یہ (تیسرا اعتراض) میرے اور آپ کے درمیان جدائی (کا سبب) ہے۔ تیسرے اعتراض میں خواہش نفس کا کسی قدر دخل تھا جو سابق دونوں اعتراضوں میں نہ تھا اس لئے حضرت خضر نے تیسرے اعتراض کو موجب فراق قرار دیا۔ 1 ؂[1 ؂ بعض غالی صوفیا نے بھی یہی کہا ہے حضرت مفسر نے انہی کا اتباع کیا اور طلب اجرت کو خواہش نفس کی آمیزش قرار دیا ‘ لیکن صاحب کتاب جلیل القدر معصوم پیغمبر کی شان میں یہ غلط فہمی سوء ادب ہے۔ بعض اہل تفسیر کو بھی حضرت ابن عباس کے ایک اثر کی بنا پر یہ غلط فہمی ہوئی ہے اور تیسرے سوال میں انہوں نے حضرت موسیٰ : ( علیہ السلام) کی خواہش نفس کا دخل قرار دیا ہے۔ مگر صاحب روح المعانی نے اس کو ہی بےبنیاد قرار دیا ہے زمخشری مفسر کشاف نے ان اہل تفسیر کی تردید کی ہے جو تیسرے اعتراض کے اندر خواہش نفس کو دخیل سمجھتے ہیں۔ معتزلہ باجو ودی کہ عصمت انبیاء کے قائل نہیں لیکن زمخشری نے باوجود معتزلی ہونے کے اس جگہ خواہش نفس کے دخیل ہونے کی تردید کی ہے۔ واللہ اعلم۔] مطلب یہ ہے کہ اب میرے اور آپ کے درمیان جداء ہونے کا وقت آگیا ‘ کیونکہ آپ نے ایک ایسا اعتراض کیا جس میں خواہش نفس کا دخل ہے ‘ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ہٰذَا سے اشارہ اس فراق کی جانب ہو جس کی صراحت اِنْ سَاَلْتُکَ عَنْ شَی ئٍبَعْدَہَا فَلاَ تُصٰحِبْنِیْ میں کی گئی ہے۔ سانبئک بتاویل ما لم تستطع علیہ صبرا۔ اب میں آپ کو ان چیزوں کی اندرونی تشریح بتاتا ہوں جن پر آپ سے صبر نہ ہوسکا تھا۔ کیونکہ بظاہر وہ خلاف شریعت نظر آتی تھیں حالانکہ واقعہ میں مآل اور انجام کے لحاظ سے وہ بری اور غلط نہ تھیں۔ بغوی نے لکھا ہے بعض تفاسیر میں آیا ہے کہ حضرت موسیٰ نے حضرت خضر کا دامن پکڑ لیا اور کہا ان واقعات کا جو علم اللہ نے آپ کو دیا ہے جدا ہونے سے پہلے مجھے بھی بتائیے ‘ اس پر حضرت خضر نے کہا۔
Top