Tafseer-e-Mazhari - Maryam : 23
فَاَجَآءَهَا الْمَخَاضُ اِلٰى جِذْعِ النَّخْلَةِ١ۚ قَالَتْ یٰلَیْتَنِیْ مِتُّ قَبْلَ هٰذَا وَ كُنْتُ نَسْیًا مَّنْسِیًّا
فَاَجَآءَهَا : پھر اسے لے آیا الْمَخَاضُ : دردِ زہ اِلٰى : طرف جِذْعِ : جڑ النَّخْلَةِ : کھجور کا درخت قَالَتْ : وہ بولی يٰلَيْتَنِيْ : اے کاش میں مِتُّ : مرچکی ہوتی قَبْلَ ھٰذَا : اس سے قبل وَكُنْتُ : اور میں ہوجاتی نَسْيًا مَّنْسِيًّا : بھولی بسری
پھر درد زہ ان کو کھجور کے تنے کی طرف لے آیا۔ کہنے لگیں کہ کاش میں اس سے پہلے مرچکتی اور بھولی بسری ہوگئی ہوتی
فاجآء ہا المخاض الی جذع النخلۃ پھر درد زہ ان کو کھجور کے ایک درخت کی طرف لے آیا۔ اَجَاءَ (باب افعال کا ماضی) جَاءَ (ثلاثی مجرد) بہ زیادتی ہمزہ متعدی بنایا گیا ہے لیکن اس کا ترجمہ فقط لانا نہیں بلکہ مجبور کر کے زبردستی لانا ہے یعنی درد ولادت نے اس کو مجبور کیا اور مجبور کر کے اس کو ایک درخت کے تنا کی طرف لے آیا۔ مخاض مصدر ہے۔ مَخَضَتِ الْمَرْأْۃُعورت کے پیٹ کے اندر بچہ نے باہر نکلنے کے لئے حرکت کی ‘ مخاض کی طرف لانے کی نسبت بطور مجاز فی الاسناد ہے یعنی مخاض کے وقت اللہ اس کو لے آیا ‘ یہ مطلب ہے کہ مخاض کے سبب سے وہ آگئی درخت کے پاس۔ الی جذع النخلۃ درخت کے تنا کی طرف مریم آگئیں پردہ کرنے کی غرض سے بھی اور سہارا لینے کی غرض سے بھی ‘ جذع کسی درخت کی رگیں گدھے (تنہ) یہ درخت الگ صحرا میں خشک کھڑا تھا۔ بقول ابن ابی حاتم ابو روق نے بیان کیا کہ مریم ایسے درخت کھجور کے تنہ کے پاس پہنچیں جس کے سر پر کوئی پتہ نہ تھا ‘ مریم ( علیہ السلام) نے اس کو ہلایا تو چوٹی پر شاخیں بھی پتوں کے ساتھ نکل آئیں اور کھجوریں بھی۔ بیضاوی نے لکھا ہے اللہ نے یہ بات حضرت مریم کے دل میں ڈال دی تھی کہ وہ درخت کے پاس جائیں ‘ اللہ کو ایسی نشانیاں دکھانی تھیں جن سے مریم کا خوف جاتا رہے اور کھانے کو کھجوریں بھی مل جائیں عورتوں کے لئے کھجور بڑی اچھی (مرغوب) غذا ہے۔ قالت یالیتنی مت قبل ہذا و کنت نسیاً منسیا۔ (گھبرا کر) کہنے لگیں کاش میں اس سے پہلے ہی مرگئی ہوتی اور بھولی بسری ہوجاتی۔ حضرت مریم کو لوگوں کی شرم تھی قوم والوں کے ملامت کرنے کا خوف تھا ‘ اس لئے انہوں نے تمنائے موت۔ نسیان بھول جانا یا نہ ہونا محفوظ نہ رکھنا خواہ ضعف قوت حافظہ کی وجہ سے ہو یا غفلت کی وجہ سے یا قصداً بالارادہ دل سے فراموش کردیا گیا ہو۔ جس نسیان کی اللہ نے مذمت فرمائی (اور قابل مواخذہ قرار دیا) وہ وہی نسیان ہے جو قصداً بالارادہ ہو (خود اپنے اوپر فراموشی طاری کرلی گئی ہو) اللہ نے فرمایا فَذُوْقُوا بِمَا نَسِیْتُمْ لِقَآءَ یَوْمِکُمْ ہٰذَا اور جس نسیان کو قابل قبول عذر قرار دیا وہ بےاختیار نسیان ہے ‘ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا میری امت کی بھول چوک اٹھا لی گئی (معاف کردی گئی) ہے۔ لیکن اگر نسیان کی نسبت اللہ کی طرف کی جائے تو اس سے مراد ہوتا ہے کسی چیز کو قابل اہانت قرار دے کر ترک کردینا اللہ نے فرمایا ہے نَسُوا اللّٰہَ فَنَسِیَہُمْوہ اللہ کو بالقصد بھول گئے ‘ پس اللہ نے بھی تحقیر کرنے کے لئے ان کو ترک کردیا۔ نسیٌ عربی لغت کے اعتبار سے فراموش شدہ چیز کو کہا جاتا ہے جیسے نقض وہ جس کو توڑا جائے (ریزے) عرف عام میں نسیٌ اس چیز کو کہتے ہی جس کی طرف التفات نہ کی جائے۔ ناقابل التفات چیز ‘ یعنی فراموش کردیئے جانے کے قابل چیز جو التفات و توجہ کے قابل نہ ہو۔ نسئی بالفتح بھی نسئی کا ہم معنی ہے جیسے وتر اور وتر اور جنس اور جنس۔ بعض کے نزدیک بالفتح مصدر ہے بمعنی مفعول۔ آیت میں لغوی معنی مراد ہے لیکن عرفی معنی کا احتمال تھا اس لئے نسیاً کی تاکید منسیاً کے لفظ سے کردی تاکہ عرفی معنی کا احتمال باقی نہ رہے (اب ترجمہ ہوگیا ‘ بھولی بسری) بغوی نے لکھا ہے نسیٌ وہ چیز جو پھینک دی گئی ہو حقیر ہونے کی وجہ سے ذکر کے قابل نہ ہو اور منسیاً کا ترجمہ ہے ترک کردہ ‘ متروک۔ قتادہ نے کہا نسیاً یعنی ایسی چیز جو ذکر نہ کی جائے اور نہ اس کو کوئی جانے ‘ عکرمہ ‘ ضحاک اور مجاہد نے کہا مردار جو پھینک دیا گیا ہو۔ بعض نے کہا کنت نسیاً کا مطلب یہ ہے کہ کاش میں پیدا ہی نہ ہوتی۔ ایک شبہ حضرت مریم ( علیہ السلام) نے موت کی تمنا کی حالانکہ کسی دکھ یا مصیبت کی وجہ سے موت کی تمنا جائز نہیں۔ سورة بقرہ کی آیت فَتَمَنَّوُا الْمَوْتَ اِنْ کُنْتُمْ صٰدِقِیْنَکی تفسیر میں اس کی تفصیل گزر چکی ہے۔ ازالہ شبہ شریعت بنی اسرائیل میں تمناء موت کی ممانعت بعد کو ہوئی اور یہ واقعہ پہلے کا تھا ‘ یا بےاختیاری کی حالت میں بلا ارادہ حضرت مریم ( علیہ السلام) کی زبان سے یہ الفاظ نکل گئے ‘ یا حضرت مریم ( علیہ السلام) کو اپنے دین کی تباہی کا خیال پیدا ہوگیا اور یہ الفاظ دینی تحفظ کے پیش نظر انہوں نے کہہ دیئے۔ رسوائی کے اندیشے سے انسان کبھی جھوٹ بولتا ہے جس سے اس کی دینی تباہی ہوجاتی ہے۔ سورة بقرہ میں ہم لکھ چکے ہیں کہ فتنہ کے خوف سے موت کی تمنا جائز ہے ‘ اس میں کوئی گناہ نہیں۔
Top