Tafseer-e-Mazhari - Maryam : 30
قَالَ اِنِّیْ عَبْدُ اللّٰهِ١ؕ۫ اٰتٰىنِیَ الْكِتٰبَ وَ جَعَلَنِیْ نَبِیًّاۙ
قَالَ : بچہ نے اِنِّىْ : بیشک میں عَبْدُ اللّٰهِ : اللہ کا بندہ اٰتٰىنِيَ : اس نے مجھے دی ہے الْكِتٰبَ : کتاب وَجَعَلَنِيْ : اور مجھے بنایا ہے نَبِيًّا : نبی
بچے نے کہا کہ میں خدا کا بندہ ہوں اس نے مجھے کتاب دی ہے اور نبی بنایا ہے
قال انی عبداللہ اتنی الکتب کہا بلاشبہ میں اللہ کا بندہ ہوں اس نے مجھے کتاب عطا فرمائی ہے۔ عبداللہ کہنے میں اس طرف اشارہ ہے کہ میں بارگاہِ الٰہی میں معزز ہوں اس کا خاص بندہ ہوں اور چونکہ قوم منکر تھی اس لئے آپ نے پر زور طریقہ سے اپنی عبدیت کا اظہار کیا۔ وہب نے کہا جب حضرت مریم کی قوم سے گفتگو ہو رہی تھی تو حضرت زکریا ( علیہ السلام) آگئے اور حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) سے فرمایا اگر تجھے حکم دیا گیا ہے تو خود اپنی دلیل بیان کر اور بول اس پر حضرت عیسیٰ بول اٹھے اس وقت آپ چالیس دن کے تھے۔ مقاتل نے کہا پیدا ہوتے ہی آپ نے اپنی عبدیت کا اظہار کیا تھا اور سب سے پہلے یہی کلام کیا تھا تاکہ لوگ آپ کو الٰہ نہ سمجھنے لگیں۔ الکتاب سے حسن کے نزدیک توریت مراد ہے آپ ماں کے پیٹ ہی میں تھے کہ اللہ نے آپ کے دل میں توریت القاء کردی تھی ‘ اکثر علماء قائل ہیں کہ انجیل مراد ہے بچپن میں ہی آپ کو انجیل عطا کردی گئی تھی جب کہ آپ مردانہ عقل کی حد تک پہنچے بھی نہ تھے ‘ بعض علماء کے نزدیک ماضی بمعنی مستقبل ہے ‘ یعنی اللہ مجھے کتاب عطا فرمائے گا۔ وجعلنی نبیا۔ اور اس نے مجھے نبی بنایا ہے ‘ یعنی یقیناً آئندہ وہ مجھے نبی بنائے گا۔ بعض علماء نے کہا ‘ حضرت عیسیٰ نے تحریر لوح محفوظ کی اطلاع دی تھی (یعنی میں لوح محفوظ کی تحریر کے بموجب نبی بنایا جا چکا ہوں) جیسے رسول اللہ ﷺ سے جب دریافت کیا گیا کہ آپ نبی کب ہوئے تو آپ نے فرمایا میں اس وقت نبی تھا جب آدم روح اور جسم کے درمیان تھے (یعنی مٹی اور پانی سے آدم ( علیہ السلام) کے پتلے کا خمیر ہی بنا تھا ‘ روح پڑی بھی نہ تھی) رواہ ابن سعد وابو نعیم فی الحلیۃ عن میسرۃ بن سعد عن ابی الجدعاء والطبرانی عن ابن عباس۔
Top