Tafseer-e-Mazhari - Maryam : 63
تِلْكَ الْجَنَّةُ الَّتِیْ نُوْرِثُ مِنْ عِبَادِنَا مَنْ كَانَ تَقِیًّا
تِلْكَ : یہ الْجَنَّةُ : جنت الَّتِيْ : وہ جو کہ نُوْرِثُ : ہم وارث بنائینگے مِنْ : سے ۔ کو عِبَادِنَا : اپنے بندے مَنْ : جو كَانَ : ہوں گے تَقِيًّا : پرہیزگار
یہی وہ جنت ہے جس کا ہم اپنے بندوں میں سے ایسے شخص کو وارث بنائیں گے جو پرہیزگار ہوگا
تلک الجنۃ التی نورث من عبادنا من کان تقیا۔ یہ جنت ایسی ہے کہ ہم اپنے بندوں میں سے اس کا مالک ایسے لوگوں کو بنائیں گے جو خدا سے ڈرنے والے ہوں۔ نُوْرِثُیعنی ہم جنت کو ان کے تقوے کا ثمرہ بنا کر ان کے لئے باقی رکھیں گے ‘ جیسے مورث کا مال وارث کے لئے باقی رہتا ہے (مطلب یہ کہ وارث کرنے سے مراد ہے باقی رکھنا ‘ یہ مطلب نہیں کہ پہلے جنت کا کوئی اور مالک تھا اس کے مرنے کے بعد نیک بندوں کو اس کا وارث بنایا گیا۔ وارث بنانے سے مراد مالک بنانا بھی ہوسکتا ہے ‘ محاورات عربیہ اور بعض آیات اس کی شاہد ہیں اس وقت کسی تاویل کی ضرورت نہیں۔ (مترجم) ۔ وراثت کا لفظ (بجائے تملیک کے) اس لئے اختیار کیا کہ ملکیت و استحقاق کا سب سے قوی ذریعہ وراثت ہی ہے نہ مورث اس کو فسخ کرسکتا ہے نہ وارث اس سے واپس لینے کا امکان ہے نہ اس کو رد کیا جاسکتا ہے نہ اس کا اسقاط ممکن ہے۔ بعض علماء نے کہا مؤمنوں کو جنت کے اندر بعض ایسے مکان بھی ملیں گے جو واقع میں ان دوزخیوں کے لئے تھے کہ اگر وہ کفر نہ کرتے تو ان مکانوں کے مالک و قابض ہوتے لیکن ان کے دوزخ میں جانے کے بعد اللہ ان کے مساکن پر مؤمنوں کو قابض بنا دے گا۔ ابن ماجہ اور بیہقی نے بسند صحیح حضرت ابوہریرہ ؓ : کی روایت سے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تم میں سے ہر ایک کے لئے دو گھر ہوں گے ایک جنت کے اندر ایک دوزخ کے اندر جب کوئی مرنے کے بعد دوزخ میں چلا جائے گا تو اس کے جنت والے گھر کے وارث اہل جنت ہوجائیں گے یہ ہی اللہ کے قول (اُولٰءِکَ ہُمُ الْوَارِثُوْنَ ) کا مفہوم ہے۔ حضرت انس ؓ : کی روایت سے ابن ماجہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جو شخص اپنے وارث کو میراث دینے سے بھاگے گا ‘ اللہ جنت کے اندر اس کی (موجود) میراث کو کاٹ دے گا۔ حضرت ابن عباس ؓ کی روایت سے بخاری نے بیان کیا کہ ایک بار رسول اللہ ﷺ نے حضرت جبرئیل ( علیہ السلام) سے فرمایا ہماری ملاقات سے روکنے والی آپ کے لئے کیا چیز ہے (یعنی کیا وجہ کہ آپ ہمارے پاس نہیں آئے) اس پر آیت ذیل نازل ہوئی۔
Top