Tafseer-e-Mazhari - Maryam : 69
ثُمَّ لَنَنْزِعَنَّ مِنْ كُلِّ شِیْعَةٍ اَیُّهُمْ اَشَدُّ عَلَى الرَّحْمٰنِ عِتِیًّاۚ
ثُمَّ : پھر لَنَنْزِعَنَّ : ضرور کھینچ نکالیں گے مِنْ : سے كُلِّ : ہر شِيْعَةٍ : گروہ اَيُّهُمْ : جو ان میں سے اَشَدُّ : بہت زیادہ عَلَي الرَّحْمٰنِ : اللہ رحمن سے عِتِيًّا : سرکشی کرنے والا
پھر ہر جماعت میں سے ہم ایسے لوگوں کو کھینچ نکالیں گے جو خدا سے سخت سرکشی کرتے تھے
ثم لننزعن من کل شیعۃ ایہم اشد علی الرحمن عتیا۔ پھر (ان کفار کے) ہر گروہ میں سے ان لوگوں کو علیحدہ کریں گے جو ان میں سب سے زیادہ اللہ سے سرکشی کرتا تھا کُلِّ شِیْعَۃٍیعنی ہر امت اور ہر مذہب والوں میں سے۔ شیعۃ جدا گروہ۔ متبعین مددگار ‘ اس لفظ کا اطلاق واحد پر بھی ہوتا ہے اور دو پر بھی اور جمع پر بھی مذکر پر بھی اور مؤنث پر بھی۔ اصل ماخذ شاع یَشِیْعُ (ضرب یضرب) ہے مصدر شَیْعًا شَیَعًا ‘ شُیوعًا مُشَاعًا ‘ شَیْعُوْعَۃً ہے شاعکا معنی ہے پھیل گیا ‘ مشہور ہوگیا (قاموس) میں کہتا ہوں متبعین اور انصار کو شیعہ اس لئے کہتے ہیں کہ شیوع اور پھیلاؤ کا لازمی نتیجہ تقویت اور مددگاروں کے پھیلاؤ سے بھی متبوع اور پیشوا کو قوت حاصل ہوتی ہے۔ شَاع القومقوم پھیل گئی ‘ اس کی تعداد بہت ہوگئی شَیَّعْتُ النَّار بالْحَطَبِمیں نے آگ کو لکڑیاں ڈال کر تیز کردیا ‘ کثرت متبعین سے بھی آدمی کو قوت حاصل ہوجاتی ہے۔ عِتِیًّا (مصدر ہے) بےجا غرور۔ معصیت میں حد سے آگے بڑھ جانا۔ (قاموس) یا طاعت سے سرکشی کرنا۔ بغوی نے حضرت ابن عباس کا قول نقل کیا ہے کہ عِتِیًّسے اس جگہ جرأت مراد ہے ‘ (یعنی اللہ کے مقابلہ میں بےباکی۔ مترجم) مجاہد نے اس کا ترجمہ فجور کیا۔ عِتِیًّا ضابطۂ نحو کے لحاظ سے تمییز ہے یعنی اَیُّہُمْ اَشَدُّ عَلَی الرَّحْمٰنِ عِتْوَۃً ۔ سیبویہ کے نزدیک لفظ ایہم مفعول ہونے کی بنا پر محل نصب میں ہے بیضاوی نے لکھا ہے کہ لفظ ایُّ موصولہ ہے اور دوسرے موصولات کی طرح اس کو مبنی ہی ہونا چاہئے لیکن لفظ بعض اور لفظ کل کی طرح یہ ہمیشہ مضاف ہوتا ہے پھر اس جگہ اس کے صلہ کا ابتدائی جزء محذوف بھی ہے (یعنی اَیُّہُمْ اَشَدُّ عَلَی الرَّحْمٰنِاصل میں اَیُّہُمْ ہُوَاَشَدُّ عَلَی الرَّحْمٰنتھا) اس جگہ لفظ ای مبنی نہیں ہے معرب ہے۔ سیبویہ کے نزدیک ایہممبتدا ہے اور اشد خبر ہے۔ مِنْ کُلّ میں مِنْ بمعنی بعض ہے یا زائد ہے۔
Top