Tafseer-e-Mazhari - Maryam : 6
یَّرِثُنِیْ وَ یَرِثُ مِنْ اٰلِ یَعْقُوْبَ١ۖۗ وَ اجْعَلْهُ رَبِّ رَضِیًّا
يَّرِثُنِيْ : میرا وارث ہو وَيَرِثُ : اور وارث ہو مِنْ : سے۔ کا اٰلِ يَعْقُوْبَ : اولادِ یعقوب وَاجْعَلْهُ : اور اسے بنا دے رَبِّ : اے میرے رب رَضِيًّا : پسندیدہ
جو میری اور اولاد یعقوب کی میراث کا مالک ہو۔ اور (اے) میرے پروردگار اس کو خوش اطوار بنائیو
یرثنی ویرث من ال یعقوب واجعلہ رب رضیا۔ یعنی بیٹا ایسا مرحمت فرما دے جو میرا (یعنی میرے علم کا) اور یعقوب کے خاندان (کے علم) کا وارث ہوجائے اور اے میرے رب اس کو اپنا پسندیدہ بنانا۔ الْمَوَالِیَ (مولیٰ کی جمع) یعنی چچا کے بیٹے یا وہ لوگ جو میرے بعد میری امت کی درستگی کے متولی ہوں گے اور میرے جانشین بنیں گے مجھے اندیشہ ہے کہ وہ میری جانشینی اچھی طرح نہ کریں گے اور امت کے لئے دین کو بگاڑ دیں گے اور میری بیوی بانجھ ہے ناقابل تولید ہے (اور ضرورت ہے صحیح جانشین کی جو میری امت کو درست رکھ سکے) اس لئے تو محض اپنے فضل اور اپنی قدرت سے مجھے بیٹا عنایت فرما جو میرے بعد میرے کاموں کو درست رکھنے کا ذمہ دار اور متولی ہو اور خاندان یعقوب (کے علم و نبوت) کا بھی صحیح متولی ہو ‘ میراث سے مراد مالی میراث نہیں ‘ علم و نبوت مراد ہے۔ انبیاء کے مال کا وارث کوئی نہیں ہوتا۔ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا علماء انبیاء کے وارث ہیں اور انبیاء نے اپنی میراث میں درہم و دینار نہیں چھوڑے بلکہ علم کی میراث چھوڑی ہے اس میراث کو جس نے لیا اس نے بڑی میراث پائی (وہ بڑا خوش نصیب ہے) رواہ احمد وابو داؤد و ابن ماجۃ والدارمی من حدیث کثیر بن قیس۔ ترمذی نے راوی کا نام قیس بن کثیر لکھا ہے۔ حضرت سیدہ فاطمہ ؓ نے جب برشتۂ پدری رسول اللہ ﷺ : کی میراث حضرت ابوبکر صدیق ؓ سے طلب کی تو صدیق اکبر ؓ نے اسی (حدیث) کی بنا پر حضرت سیدہ کو رسول اللہ ﷺ : کی کوئی میراث نہیں دی۔ اجماع بھی اسی پر منعقد ہوگیا کہ رسول اللہ ﷺ : کا ترکہ میراث میں تقسیم نہیں کیا جاسکتا۔ بخاری نے صحیح میں حضرت عائشہ ؓ : کا بیان نقل کیا ہے کہ حضرت فاطمہ ؓ اور حضرت عباس ؓ و ابوبکر ؓ کے پاس آئے اور رسول اللہ ﷺ کے ترکہ سے اپنا میراثی حصہ طلب کیا ‘ حضرت ابوبکر نے جواب دیا میں نے خود سنا رسول اللہ ﷺ : فرما رہے تھے ‘ ہم میراث نہیں چھوڑتے جو کچھ ہم چھوڑیں گے وہ خیرات (کے طور پر مسلمانوں کا حق) ہوگا۔ یہ بھی بخاری کی روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ : کی وفات کے بعد امہات المؤمنین نے چاہا کہ رسول اللہ ﷺ کے ترکہ میں سے اپنی میراث طلب کرنے کے لئے حضرت عثمان ؓ : کو حضرت ابوبکر ؓ کے پاس بھیجیں حضرت عائشہ ؓ نے کہا کیا رسول اللہ ﷺ نے نہیں فرمایا تھا کہ ہم میراث نہیں چھوڑتے جو کچھ ہم چھوڑیں گے وہ خیرات ہے۔ بخاری کی روایت ہے کہ مالک بن اوس بن الحدثان نے کہا ‘ میں حضرت عمر ؓ کے پاس گیا ‘ میں آپ کے پاس موجود ہی تھا کہ آپ کے دربان یرفا نے آکر کہا (امیر المؤمنین) کیا حضرت عثمان ؓ حضرت عبدالرحمن ؓ حضرت زبیر ؓ اور حضرت سعد ؓ : کو داخلہ کی اجازت ہے ‘ حضرت عمر ؓ نے فرمایا ہاں یرفا نے سب حضرات کو بلا لیا پھر یرفا نے آکر کہا حضرت علی ؓ اور حضرت عباس ؓ : تشریف لائے ہیں ‘ کیا داخل ہونے کی اجازت ہے ‘ حضرت عمر ؓ نے فرمایا ہاں یہ دونوں بزرگ بھی تشریف لے آئے ‘ حضرت عباس ؓ نے فرمایا المؤمنین میرا اور ان کا تصفیہ کرا دیجئے ‘ حضرت عمر ؓ نے جماعت کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا میں آپ لوگوں کو اس اللہ کی قسم جس کے حکم سے آسمان و زمین قائم ہیں دے کر پوچھتا ہوں کیا آپ لوگ جانتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تھا ہم میراث نہیں چھوڑیں گے جو کچھ ہم چھوڑیں گے وہ (سب مسلمانوں کے لئے) خیرات ہوگا ‘ پوری جماعت نے کہا بیشک ایسا فرمایا تھا اس کے بعد حضرت عمر : ؓ حضرت علی ؓ اور حضرت عباس ؓ : کی طرف ملتفت ہوئے اور فرمایا کیا آپ دونوں حضرات بھی اس سے واقف ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے یہ فرمایا تھا (دونوں نے اقرار کیا) الحدیث۔ بخاری نے حضرت ابوہریرہ ؓ کی روایت سے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ‘ میرے وارث میراث میں ایک دینار بھی تقسیم نہ کریں اپنی بیبیوں کے خرچ اور کارندوں کی اجرت کے بعد اگر میں کچھ چھوڑ کر جاؤں تو وہ خیرات ہے۔ اس موضوع کی روایات حضرت حذیفہ بن یمان حضرت زبیر بن العوام اور حضرت ابو الدرداء سے بھی آئی ہیں شیعہ اس حدیث کا ہی انکار کرتے ہیں ‘ حالانکہ محمد بن یعقوب کلینی نے اپنی جامع میں حدیث مذکور حضرت ابو عبداللہ امام جعفر صادق کی روایت سے ان الفاظ کے ساتھ نقل کی ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا انبیاء نے میراث میں نہ کوئی درہم چھوڑا نہ دینار بلکہ میراث میں اپنی احادیث چھوڑی ہیں۔ الحدیث۔ آیت زیر تفسیر کی رفتار بھی یہی چاہتی ہے کہ یرثنی ویرث من آل یعقوب میں میراث سے مراد مالی میراث نہیں ہے کیونکہ تمام نسل یعقوب کا میراث کا وارث ہونا تو ممکن ہی نہیں تھا ‘ پھر حضرت زکریا نبی برحق تھے آپ کی شان سے بعید تھا کہ اپنے چچا کے بیٹوں کے پاس اپنے مال کے پہنچنے کا ان کو ایسا اندیشہ ہو کہ وہ اس اندیشہ سے بیٹا ہونے کی دعا کریں تاکہ چچا کے بیٹوں کو میراث میں ان کا مال نہ پہنچ جائے۔ وَاجْعَلْہُ رَبِّ رَضِیًّارضیاً بمعنی مَرْضِیاً یعنی تو اس کو اپنا پسندیدہ بنانا اس کے قول و عمل کو پسند فرمانا یا راضیاً کے معنی میں ہے یعنی تو اس کو ایسا کردینا کہ وہ دکھ سکھ ہر حال میں راضی رہے (تیرا شکوہ نہ کرنے لگے)
Top