Tafseer-e-Mazhari - Maryam : 86
وَّ نَسُوْقُ الْمُجْرِمِیْنَ اِلٰى جَهَنَّمَ وِرْدًاۘ
وَّنَسُوْقُ : اور ہانک کرلے جائیں گے الْمُجْرِمِيْنَ : گنہ گار (جمع) اِلٰى : طرف جَهَنَّمَ : جہنم وِرْدًا : پیاسے
اور گنہگاروں کو دوزخ کی طرف پیاسے ہانک لے جائیں گے
ونسوق المجرمین الی جہنم وردا۔ اور مجرموں کو دوزخ کی طرف پیاسا ہانکیں گے۔ مجرمین سے مراد ہیں کافر۔ ورداً کا ترجمہ بغوی نے کیا پیدل۔ بعض نے کہا پیاسے کہ شدت پیاس سے گردنیں ٹوٹ رہی ہوں گی۔ وِرْد کہتے ہیں پانی پر اترنے والی جماعت کو۔ حضرت ابن عباس ؓ نے بھی اس کی تشریح میں پیاسے ہی فرمایا۔ میں کہتا ہوں اللہ نے اس جگہ دو گروہوں کے حشر کا تذکرہ فرمایا (1) کامل تقویٰ والے انبیاء ‘ عرفا وغیرہم۔ (2) مجرمین یعنی کفار عام مسلمانوں کا ذکر نہیں کیا نہ صالحین کا نہ گناہگاروں کا۔ حدیث میں آیا ہے کچھ لوگ پیادہ پا اٹھائے جائیں گے۔ یہ عام مؤمن ہوں گے (صالحین بھی اور گناہگار بھی) ۔ سورۂ بنی اسرائیل کی آیت یُحْشَرُوْنَ عَلٰی وُجُوْہِہِمْ عُمْیًا وَّبُکْمًا وَ صُمًاکی تفسیر میں حضرت ابوہریرہ ؓ کی اور حضرت معاویہ بن جبل کی روایت کردہ احادیث ہم نے نقل کردی ہیں۔ حضرت ابوذر ؓ : کی حدیث ہے کہ لوگوں کا حشر تین طرح سے ہوگا (یعنی تین فریق ہوں گے) سوار ‘ پیدل اور منہ کے بل۔ شیخین نے حضرت ابوہریرہ ؓ کی روایت سے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا لوگوں کا حشر تین طریقوں سے ہوگا (کچھ لوگ) راغب ہوں گے (کچھ) خوفزدہ ہوں گے اور ایک ایک اونٹ پر دو دو یا تین تین یا دس دس سوار ہوں گے آگ بھی ان کے ساتھ ہوگی جہاں وہ دوپہر کو ٹھہریں گے۔ آگ بھی ان کے ساتھ ٹھہرے گی جہاں وہ رات کو رہیں گے آگ بھی ان کے ساتھ رات کو رہے گی شیخ ابن حجر نے کہا راغبین راہبین وہ لوگ ہوں گے جو پہلے طریقہ پر ہوں گے یعنی عام مؤمن ‘ پھر اس حدیث میں ایک ایک اونٹ پر دو دو اور تین تین اور دس دس کے سوار ہونے کا تو ذکر ہے ایک اونٹ پر ایک کے سوار ہونے کا ذکر نہیں کیا اس سے اشارہ ان لوگوں کی طرف ہے جو ان سب سے اونچے درجہ والے ہوں گے یعنی ابرار (ابرار میں سے ہر شخص مستقل طور پر الگ اونٹ پر سوار ہوگا) بیہقی نے کہا (راغبین سے اشارہ ابرار کی طرف ہے اور راہبین سے ان مخلوط الحال لوگوں کی طرف اشارہ ہے جو امید و بیم کی درمیانی حالت میں ہیں اور جن کو آگ کھدیڑ کرلے جائے گی وہ کافروں کا گروہ ہوگا۔ حلیمی نے بھی حدیث کی یہی تشریح کی ہے اتنی بات زائد بیان کی ہے کہ ابرار وہی متقی ہوں گے جنت سے ان ہی (کی سواری) کے لئے اونٹنیاں لائی جائیں گی باقی وہ اونٹ جن پر مخلوط الحال لوگوں کو سوار کیا جائے گا تو ممکن ہے کہ قیامت کے دن وہ اونٹ پیدا کئے کردیئے جائیں اور مخلوط الحال لوگوں کو ان پر سوار کیا جائے۔ سیوطی نے کہا یہی قول زیادہ صحیح معلوم ہوتا ہے۔ کیونکہ مخلوط الحال لوگوں کا جنت سے لائے ہوئے اونٹوں پر سوار کیا جانا کچھ مناسب معلوم نہیں ہوتا۔ پھر اونٹوں پر سوار بھی ان مخلوط الحال گناہگاروں کو کرایا جائے گا جن کے گناہ حساب کے وقت معاف کردیئے گئے ہوں گے اور ان کو عذاب نہیں ہوگا رہے عذاب پانے والے لوگ تو ان کو پیدل چلایا جائے گا یہ بھی احتمال ہے کہ یہ لوگ شروع سے ہی پیدل چلائے جائیں ان کو سوار ہی نہ کیا جائے یا حشر سوار ہونے کی حالت میں ہو اور جب میدان حشر کے قریب پہنچیں تو پیدل ہوجائیں ‘ باقی کافروں کا حشر تو منہ کے بل ہوگا ہی۔ (ان کے سوار ہونے کا کو تو کوئی معنی ہی نہیں) ۔ طبرانی نے حضرت ابوہریرہ ؓ کی روایت سے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا قیامت کے دن انبیاء کو سواریوں پر لے جایا جائے گا یہاں تک کہ (اسی حالت میں وہ میدان حشر تک پہنچ جائیں گے حضرت صالح ( علیہ السلام) کو ان کی اونٹنی پر سوار ہونے کی حالت میں قبر سے) اٹھایا جائے گا اور مجھے براق پر (سوار) اٹھایا جائے گا اور میرے دونوں بیٹوں حسن و حسین کو جنت کے اوپر سے (آئی ہوئی) دو اونٹنیوں پر اٹھایا جائے گا اور بلال کو جنت کے اوپر سے (آئی ہوئی) اونٹنی پر اٹھایا جائے گا وہ اذان دیں گے ‘ خالص شہادت توحید کی اور جب اَشْہَدُ اَنَّ مُحَمَّدَ رَّسُوْل اللّٰہک ہیں گے تو اگلے پچھلے تمام مؤمن اس کی شہادت دیں گے پس جس کی شہادت قبول ہونی ہوگی قبول ہوجائے گی اور جس کی شہادت رد ہونی ہوگی رد ہوجائے گی۔ حلیمی اور غزالی نے یقین کے ساتھ کہا ہے کہ جو لوگ سوار کر کے لے جائے جائیں گے وہ قبروں سے سوار ہونے کی حالت میں اٹھائے جائیں گے لیکن اسماعیلی کا قول ہے کہ موقف تک تو پیدل جائیں گے پھر وہاں سے سوار ہوجائیں گے اسماعیلی نے یہ تفریق مختلف احادیث میں توفیق پیدا کرنے کے لئے کی صحیحین اور ترمذی کی حدیث حضرت ابن عباس ؓ کی روایت سے مذکور ہے کہ ایک روز رسول اللہ ﷺ (خطبہ دینے) کھڑے ہوئے اور فرمایا لوگو ! تم کو اللہ کی طرف اس حالت میں لے جایا جائے گا کہ تم ننگے پاؤں برہنہ بدن غیر مختون اور پیادہ پا ہو گے پھر حضور ﷺ نے آیت کَمَا بَدَأْنَا اَوَّلَ خَلْقٍ نُعِیْدُہٗپڑھی اور سب لوگوں سے پہلے حضرت ابراہیم ( علیہ السلام) کو لباس پہنایا جائے گا۔ اسی طرح شیخین نے حضرت عائشہ ؓ کی روایت سے اور طبرانی نے حضرت سودہ ؓ اور حضرت ام سلمہ ؓ اور حضرت سہل ؓ بن سعد اور حضرت حسن ؓ بن علی ؓ کی روایت سے اور بزار نے حضرت ابن مسعود ؓ : کی روایت سے یہ حدیث بیان کی ہے لیکن ان احادیث میں تلاوت آیت اور حضرت ابراہیم کو سب سے پہلے لباس پہنائے جانے کا ذکر نہیں ہے۔ بلکہ اتنا مزید مذکور ہے کہ ام المؤمنین میں سے حضور ﷺ : کی کسی بی بی نے کہا ہائے کیسی بری بات ہوگی کہ ہم میں سے ہر ایک دوسرے کو دیکھے گا ‘ حضور ﷺ نے فرمایا لوگوں کو اس کی طرف توجہ ہی نہیں ہوگی ‘ ہر شخص کو اس روز اپنی پڑی ہوگی۔
Top