Tafseer-e-Mazhari - Al-Baqara : 102
وَ اتَّبَعُوْا مَا تَتْلُوا الشَّیٰطِیْنُ عَلٰى مُلْكِ سُلَیْمٰنَ١ۚ وَ مَا كَفَرَ سُلَیْمٰنُ وَ لٰكِنَّ الشَّیٰطِیْنَ كَفَرُوْا یُعَلِّمُوْنَ النَّاسَ السِّحْرَ١ۗ وَ مَاۤ اُنْزِلَ عَلَى الْمَلَكَیْنِ بِبَابِلَ هَارُوْتَ وَ مَارُوْتَ١ؕ وَ مَا یُعَلِّمٰنِ مِنْ اَحَدٍ حَتّٰى یَقُوْلَاۤ اِنَّمَا نَحْنُ فِتْنَةٌ فَلَا تَكْفُرْ١ؕ فَیَتَعَلَّمُوْنَ مِنْهُمَا مَا یُفَرِّقُوْنَ بِهٖ بَیْنَ الْمَرْءِ وَ زَوْجِهٖ١ؕ وَ مَا هُمْ بِضَآرِّیْنَ بِهٖ مِنْ اَحَدٍ اِلَّا بِاِذْنِ اللّٰهِ١ؕ وَ یَتَعَلَّمُوْنَ مَا یَضُرُّهُمْ وَ لَا یَنْفَعُهُمْ١ؕ وَ لَقَدْ عَلِمُوْا لَمَنِ اشْتَرٰىهُ مَا لَهٗ فِی الْاٰخِرَةِ مِنْ خَلَاقٍ١ؕ۫ وَ لَبِئْسَ مَا شَرَوْا بِهٖۤ اَنْفُسَهُمْ١ؕ لَوْ كَانُوْا یَعْلَمُوْنَ
وَ اتَّبَعُوْا : اور انہوں نے پیروی کی مَا تَتْلُوْ : جو پڑھتے تھے الشَّيَاطِیْنُ : شیاطین عَلٰى : میں مُلْكِ : بادشاہت سُلَيْمَانَ : سلیمان وَمَا کَفَرَ : اور کفرنہ کیا سُلَيْمَانُ : سلیمان وَلَٰكِنَّ : لیکن الشَّيَاطِیْنَ : شیاطین کَفَرُوْا : کفر کیا يُعَلِّمُوْنَ : وہ سکھاتے النَّاسَ السِّحْرَ : لوگ جادو وَمَا : اور جو أُنْزِلَ : نازل کیا گیا عَلَى : پر الْمَلَکَيْنِ : دوفرشتے بِبَابِلَ : بابل میں هَارُوْتَ : ہاروت وَ مَارُوْتَ : اور ماروت وَمَا يُعَلِّمَانِ : اور وہ نہ سکھاتے مِنْ اَحَدٍ : کسی کو حَتَّی : یہاں تک يَقُوْلَا : وہ کہہ دیتے اِنَّمَا نَحْنُ : ہم صرف فِتْنَةٌ : آزمائش فَلَا : پس نہ کر تَكْفُر : تو کفر فَيَتَعَلَّمُوْنَ : سو وہ سیکھتے مِنْهُمَا : ان دونوں سے مَا : جس سے يُفَرِّقُوْنَ : جدائی ڈالتے بِهٖ : اس سے بَيْنَ : درمیان الْمَرْءِ : خاوند وَ : اور زَوْجِهٖ : اس کی بیوی وَمَا هُمْ : اور وہ نہیں بِضَارِّیْنَ بِهٖ : نقصان پہنچانے والے اس سے مِنْ اَحَدٍ : کسی کو اِلَّا : مگر بِاِذْنِ اللہِ : اللہ کے حکم سے وَيَتَعَلَّمُوْنَ : اور وہ سیکھتے ہیں مَا يَضُرُّهُمْ : جو انہیں نقصان پہنچائے وَلَا يَنْفَعُهُمْ : اور انہیں نفع نہ دے وَلَقَدْ : اور وہ عَلِمُوْا : جان چکے لَمَنِ : جس نے اشْتَرَاهُ : یہ خریدا مَا : نہیں لَهُ : اس کے لئے فِي الْاٰخِرَةِ : آخرت میں مِنْ خَلَاقٍ : کوئی حصہ وَلَبِئْسَ : اور البتہ برا مَا : جو شَرَوْا : انہوں نے بیچ دیا بِهٖ : اس سے اَنْفُسَهُمْ : اپنے آپ کو لَوْ کَانُوْا يَعْلَمُوْنَ : کاش وہ جانتے ہوتے
اور ان (ہزلیات) کے پیچھے لگ گئے جو سلیمان کے عہدِ سلطنت میں شیاطین پڑھا کرتے تھے اور سلیمان نے مطلق کفر کی بات نہیں کی، بلکہ شیطان ہی کفر کرتے تھے کہ لوگوں کو جادو سکھاتے تھے۔ اور ان باتوں کے بھی (پیچھے لگ گئے) جو شہر بابل میں دو فرشتوں (یعنی) ہاروت اور ماروت پر اتری تھیں۔ اور وہ دونوں کسی کو کچھ نہیں سکھاتے تھے، جب تک یہ نہ کہہ دیتے کہ ہم تو (ذریعہٴ) آزمائش ہیں۔ تم کفر میں نہ پڑو۔ غرض لوگ ان سے (ایسا) جادو سیکھتے، جس سے میاں بیوی میں جدائی ڈال دیں۔ اور خدا کے حکم کے سوا وہ اس (جادو) سے کسی کا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکتے تھے۔ اور کچھ ایسے (منتر) سیکھتے جو ان کو نقصان ہی پہنچاتے اور فائدہ کچھ نہ دیتے۔ اور وہ جانتے تھے کہ جو شخص ایسی چیزوں (یعنی سحر اور منتر وغیرہ) کا خریدار ہوگا، اس کا آخرت میں کچھ حصہ نہیں۔ اور جس چیز کے عوض انہوں نے اپنی جانوں کو بیچ ڈالا، وہ بری تھی۔ کاش وہ (اس بات کو) جانتے
وَاتَّبَعُوْا ( اور پیچھے پڑگئے) یعنی یہود نے جادو کے علم پر عمل کیا اسکو سیکھا اور آپس میں ایک دوسرے کو تعلیم دی واتََّبَعُوْا کا نَبَذَ پر عطف ہے حاصل یہ ہے کہ کتاب اللہ کو تو پس پشت ڈال دیا اور سحر و شعبدہ کی کتابوں کے پیچھے پڑگئے۔ میں کہتا ہوں کہ نَبَذَ پر عطف کرنا اس کا بظاہر صحیح نہیں کیونکہ نَبَذَ مقید ایک شرط ( رسول کے آنے) کے ساتھ ہے اور واتَّبَعُوْا ....... کا اس شرط سے تعلق سمجھ میں نہیں آتا اس لیے واتََّبَعُوا کا عطف جملہ شرطیہ وَلَمَّا جَاءَ ھُمْ پر ہونا مناسب ہے۔ مَا تَتْلُوا الشَّيٰطِيْنُ ( جو پڑھتے تھے شیطان) تَتْلُوْاگر چہ صیغہ مضارع کا ہے لیکن حال ماضیہ کی حکایت کے طور پر بمعنی ماضی ہے اور کلام عرب میں اکثر مضارع بمعنی ماضی اور ماضی بمعنی مضارع مجازاً مستعمل ہوتا ہے اور تَتْلُو کو یا تو تلاوت بمعنی قرأت ( پڑھنا) سے مشتق کہا جائے اور یاتلوا بمعنی تبعیت ( پیچھے پڑنا) سے لیا جائے۔ تقدیراوّل پر معنی آیت کے وہ ہوں گے جو ترجمہ میں اختیار کئے گئے ہیں اور تقدیر ثانی پر معنی یہ ہوں گے کہ یہود نے اس علم کا اتباع کیا جس کا شیطان ‘ سلیمان ( علیہ السلام) کے زمانہ میں اتباع کرتے تھے۔ عَلٰي مُلْكِ سُلَيْمٰنَ (سلطنت حضرت سلیمان ( علیہ السلام) یہ تَتْلُو کی مؤخر الذکر توجیہ سے متعلق ہے اگر تَتْلُوْ میں معنی افْتَراء کے بقاعدہ تضمین لے لیے جائیں گویا حاصل یہ ہوگا کہ اس علم کا اتباع کیا جس کو شیطان یہ سمجھ کر پڑھتے تھے کہ اس علم سے سلیمان ( علیہ السلام) کی سلطنت قائم ہے اس تفسیر پر وَ مَا کَفَرَ سُلِیْمَنٌ کو ما قبل سے پورا ارتباط ہوجائے گا اور یا علی کو بمعنی فی لے لیا جائے معنی علیٰ مُلْکِ سُْلَیْمٰنَ کے یہ ہوں گے کہ ” سلیمان ( علیہ السلام) کے عہد حکومت میں “ اس تقدیر پر تضمین وغیرہ کے تکلف سے نجات ہوگی۔ علامہ بغوی نے فرمایا ہے کہ سدی نے کہا ہے کہ زمانہ گزشتہ میں شیطان آسمان پر چڑھا کرتے اور ملائکہ جو آپس میں آئندہ واقعات کے متعلق گفتگو کرتے سنتے اور سن کر اس میں بہت سا اپنی طرف سے جھوٹ ملا کر کاہنوں سے کہتے اور کاہن لوگوں کو خبر دیتے لوگ ان اخبار کو لکھ لیتے تھے حتی کہ بنی اسرائیل میں یہ بات پھیل گئی تھی کہ جن علم غیب جانتے ہیں۔ یہ قصہ دیکھ کر سلیمان ( علیہ السلام) نے ایسی تمام کتابوں کو جمع کیا اور انہیں ایک صندوق میں رکھ کر اپنی کرسی کے نیچے دفن کردیا اور حکم دیا کہ خبردار آج کے بعد میں یہ بات کسی سے نہ سنوں کہ جن علم غیب جانتے ہیں اگر میں نے پھر کسی سے یہ بات سنی تو اس کی گردن ماروں گا جب سلیمان ( علیہ السلام) نے وفات پائی اور وہ علماء بھی رحلت کر گئے جو سلیمان کے اسرار اور اس دفن کے قصہ سے واقف تھے اور بعد کے لوگ پچھلوں کے جانشین ہوئے تو ایک شیطان آدمی کی صورت میں بنی اسرائیل کے چند آدمیوں کے پاس آیا اور کہا کہ میں تمہیں ایسا خزانہ نہ بتاؤں کہ جسے تم لوگ تمام عمر نہ کھا سکو اس کرسی کے نیچے سے کھود و لوگوں نے کھودنا شروع کیا اور وہ شیطان الگ جا کھڑا ہوا اس کی وجہ یہ تھی کہ کرسی کا یہ خاصہ تھا کہ جو شیطان اس کے پاس آتا فوراً جل جاتا تھا۔ لوگوں نے اس جگہ کو کھودا اور وہ کتب مدفو نہ نکالیں۔ شیطان نے کہا سلیمان ( علیہ السلام) جن و انسان اور پرند چرند کو اسی کے ذریعہ سے مسخر کرتے تھے۔ شیطان تو یہ بتا کر اڑ گیا اور لوگوں میں یہ بات پھیل گئی کہ سلیمان ( علیہ السلام) ساحر تھے اور بنی اسرائیل نے وہ کتابیں لے لیں۔ اسی واسطے اکثر یہود میں سحر پایا جاتا ہے۔ جب ہمارے پیغمبر ﷺ رونق افروز عالم ہوئے اللہ تعالیٰ نے سلیمان ( علیہ السلام) کی قرآن پاک میں برأت ظاہر فرمائی۔ میں کہتا ہوں بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ سلیمان ( علیہ السلام) نے جو دفن کیا تھا وہ سحر کی کتابیں تھیں اور جو شیطان کاہنوں کو ملائکہ سے روزانہ حوادث کے متعلق خبریں دیتے تھے وہ نہ تھیں کیونکہ سالہا سال گزرنے کے بعد وہ خبریں کیا مفید ہوسکتی ہیں اور کلبی فرماتے ہیں کہ شیطانوں نے سحر اور شعبدہ کی کتابیں آصف بن برخیا کی زبانی لکھیں پھر ان کو سلیمان ( علیہ السلام) کے مصلے کے نیچے دفن کردیا اور سلیمان ( علیہ السلام) کو اس کی خبر نہ ہوئی جب سلیمان ( علیہ السلام) کی وفات ہوئی تو شیطانوں نے ان کتابوں کو نکالا اور لوگوں سے کہا کہ سلیمان ( علیہ السلام) نے اسی کی بدولت تمہیں مسخر کیا تھا۔ یہ افسوں شیاطین کا عوام کالانعام پر تو چل گیا لیکن جو علماء صلحاء تھے انہوں نے کہا کہ توبہ توبہ یہ سلیمان ( علیہ السلام) کا علم نہ تھا عوام اور رذیل لوگ اس پر گرے اور اسے سیکھنا شروع کیا اور کتب الٰہیہ کو جو انبیاء (علیہ السلام) نے پہنچائی تھیں چھوڑ بیٹھے اور سلیمان ( علیہ السلام) ساحر مشہور ہوگئے حتی کہ قرآن پاک میں حق تعالیٰ نے ان کی برأت ان لفظوں میں بیان فرمائی۔ وَمَا كَفَرَ سُلَيْمٰنُ ( اور نہیں کفر کیا سلیمان نے) یعنی سلیمان ( علیہ السلام) نے سحر نہیں کیا کہ اس سے کافر ہوتے سحر کو کفر سے اس لیے تعبیر فرمایا تاکہ یہ معلوم ہوجائے کہ سحر کفر ہے اور نبی کفر سے معصوم ہوتا ہے۔ وَلٰكِنَّ الشَّيٰطِيْنَ كَفَرُوْا ( لیکن شیطانوں نے کفر کیا) ابن عامر اور حمزہ اور کسائی نے ولٰکن کو تخفیف نون اور شیاطین کے نون کو رفع سے پڑھا ہے اور باقی قراء نے نون مشدد اور شِیَاطِیْنَ کے نون کو نصب سے پڑھا ہے اور ایسا ہی اختلاف وَ لٰکِنَّ الْبِرَّ اور سورة انفال میں وَ لٰکِنَّ اللّٰہَ قَتَلَھُمْ اور وَ لٰکِنَّ اللّٰہَ رَمٰی میں ہے۔ يُعَلِّمُوْنَ النَّاس السِّحْرَ ( کہ سکھاتے تھے لوگوں کو جادو 1 ؂) یہ کَفَرُوْا کی ضمیر مستترھم سے حال ہے۔ سحر ایسے الفاظ اور اعمال کے جاننے کا نام ہے جن کے ذریعہ سے انسان کو شیاطین سے قرب ہوجاتا ہے اور شیاطین اس کے مسخر ہوجاتے ہیں اور اس کی منشا کے مطابق امداد کرتے ہیں اور وہ الفاظ آدمی کے نفس اور بدن میں مرض اور موت اور جنون کا اثر پیدا کردیتے ہیں اور کان اور آنکھ میں خلاف واقع امر کا خیال جما دیتے ہیں جس سے آدمی ایک شے کو دیکھتا ہے حالانکہ وہ شے کچھ اور شے ہوتی ہے جیسا کہ فرعون کے ساحروں نے رسیاں اور عصا ڈال کر موسیٰ ( علیہ السلام) اور حاضرین کے خیال میں جما دیا تھا کہ یہ چلتے سانپ بچھوں ہیں اور یہ جملہ تاثیرات حق تعالیٰ نے آزمائش کے لیے پیدا کردی تھیں۔ علامہ بغوی فرماتے ہیں کہ سحر کا وجود اہل سنت کے نزدیک حق ہے لیکن اس پر عمل کرنا کفر ہے اور شیخ ابو منصور فرماتے ہیں کہ مطلقاً یہ کہنا کہ سحر کفر ہے ٹھیک نہیں بلکہ یہ دیکھنا چاہئے کہ اس کی حقیقت کیا ہے ؟ اگر اس کے اندر کوئی ایسی بات ہو کہ جس سے کسی شرعی بات کی تردید ہوتی ہے تو البتہ کفر ہے ورنہ کفر نہیں۔ علامہ بغوی نے فرمایا ہے کہ امام شافعی (رح) سے منقول ہے کہ سحر کی تاثیرات عجیب ہیں خلاف واقع کو متخیل کردیتا ہے۔ تندرست کو مریض کردیتا ہے اور بسا اوقات اس کے اثر سے قتل تک نوبت پہنچ جاتی ہے حتی کہ جس نے اس کے ذریعہ سے کسی کو قتل کیا ہے اس پر قصاص واجب ہوجاتا ہے۔ ختم ہوا قول امام شافعی کا۔ امام شافعی کے اس قول سے بھی یہی معلوم ہوتا ہے کہ سحر کا بعض حصہ تو کفر اور بعض نہیں اور مدارک میں ہے کہ جو سحر کفر ہے اسے اگر کوئی مرد سیکھے تو حنفیہ کے نزدیک قتل کردیا جائے۔ عورت اگر سیکھے تو قتل نہ کی جائے جیسا کہ مرتد کے بارے میں یہی حکم ہے اور جو سحر کفر نہیں ہے لیکن ایسا ہے کہ اس سے کسی کو ہلاک کرسکتے ہیں تو ایسے سحر سیکھنے والوں کا حکم قاطع الطریق ( رہزن) کا سا ہے اس میں مرد اور عورت برابر ہیں۔ دونوں کو سزا دی جائے اور اگر ساحرتوبہ کرے تو توبہ اس کی قبول کی جائے گی خواہ وہ سحر کفر ہو یا نہ ہو۔ جس نے یہ کہا ہے کہ ساحر کی توبہ مقبول نہیں اس نے غلطی کی دیکھو فرعون کے ساحروں کی توبہ مقبول ہوگئی حالانکہ وہ کفار تھے۔ میں کہتا ہوں کہ حق تعالیٰ شانہ نے جو سحر کو کفر سے تعبیر فرمایا ہے اور نیز فرمایا ہے : وَ مَا کَفَرَ سُلَیْمَانُ وَلٰکِنَّ الشَّیَاطِیْنَ کَفَرُوْا یُعَلِّمُوْنَ النَّاس السِّحْرَ ( اور نہیں کفر کیا سلیمان ( علیہ السلام) نے لیکن شیطانوں نے کفر کیا کہ لوگوں کو سحر سکھاتے تھے) اور آیت کریمہ : وَ لَقَدْ عَلِمُوْا لَمَنِ اشْتَرَاہُ مَالَہٗ فِی الْاٰخِرَۃِ مِنْ خَلَاقٍ ( اور بیشک وہ جان چکے تھے کہ جس نے اس سحر کو خریدا اس کے لیے آخرت میں کوئی حصہ نہیں، ان جملہ آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ سحر کے کل یا اکثر الفاظ و اعمال کفر کے موجب اور شرائط ایمان کے بالکل مخالف ہیں اور ایسا ہی ہونا بھی چاہئے کیونکہ شیطان آدمی سے جب ہی راضی ہوتا ہے جبکہ وہ کفر کرے اور بغیر راضی ہوئے اس کی تسخیر اور اس سے تقرب ممکن نہیں۔ رہا امام شافعی اور شیخ ابو منصور کا قول ( کہ سحر کے کل اعمال و الفاظ کفر نہیں ہیں) سو اس کی بنا احتمال عقلی پر ہے ( یعنی ممکن ہے کہ سحر کا کوئی فرد ایسا نکلے کہ اس کے الفاظ و اعمال کفر نہ ہوں) فائدہ جاننا چاہئے کہ جو شخص بذریعہ سیفی (تلوار ‘ 12) یا دعا یا بذریعہ اسماء جلالیہ ایسے آدمی کو قتل کر ڈالے کہ جس کا خون حلال نہیں یا اس کی نعمت بدنی یا مالی کو ضائع کردے تو وہ اگرچہ کافر نہیں لیکن فاسق قطعاً ہے اور اس کا حکم رہزنوں جیسا ہے۔ حق تعالیٰ فرماتا ہے : وَالَّذِینَ یُؤْذُوْنَ الْمُؤْمِنِیْنَ وَالْمُؤْمِنَاتِ بِغَیْرِ مَااکْتَسَبُوْا فَقَدِ احْتَمَلُوا بُھْتَانًا وَّ اِثْمًا مُّبِیْنًا ( جو لوگ مسلمان مرد اور مسلمان عورتوں کو بلا قصور ستاتے ہیں وہ بہتان اور صریح گناہ کا بوجھ اٹھاتے ہیں) اور جناب رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں : اَلْمُسْلِمُ مَنْ سَلِمَ المُسْلِمُوْنَ مِنْ لِّسَانِہٖ وَ یَدِہٖ ( یعنی مسلمان تو وہ ہے جس کے ہاتھ اور زبان سے مسلمان بچیں 1 ؂) اور بلعم بن باعور کا موسیٰ ( علیہ السلام) کے لیے بد دعا کرنا بھی اسی نوع سے ہے۔ بلعم بن باعور کا پورا قصہ سورة اعراف کی آیت : وَاتْلُ عَلَیْہِمْ نَبَأَ الَّذِیْالایۃ کی تفسیر میں آئے گا۔ وَمَآ اُنْزِلَ عَلَي الْمَلَكَيْنِ ( اور اس علم پر جو دو فرشتوں پر اترا تھا) اس کا یا تو السِّحْرَ پر عطف ہے یا مَا تَتْلُوْ پر اور معطوف و معطوف علیہ سے ایک ہی شے مراد ہے۔ عطف یا تو تغایر اعتباری کی وجہ سے ہے اور یا اس لئے کہ معطوف یعنی وَ مَا اُنْزِلَ سے اور نوع سحر کی مراد ہے جو پہلے سے زیادہ قوی ہے۔ بِبَابِلَ ( بابل میں) یا تو المَلَکَیْنِ کا ظرف ہے یا حال اور یا اُنْزِلَ کی ضمیر سے حال ہے۔ حضرت ابن مسعود ؓ فرماتے ہیں کہ بابل کوفہ کی زمین کا نام ہے بعض مفسرین کہتے ہیں کہ بابل جہل و ماوند ہے واللہ اعلم۔ اس آیت سے معلوم ہوا کہ منجملہ دیگر علوم آسمانیہ کے سحر بھی آسمانی علم ہے جو حق تعالیٰ کی طرف سے آزمائش کیلئے اترا ہے کیونکہ ھادی و مضل تو اللہ تعالیٰ ہی ہے۔ اس پر کوئی یہ کہے کہ حق تعالیٰ نے تو سحر سے بچنے کا حکم فرمایا ہے بھلا وہ اسے کس طرح نازل فرماتا۔ تو اس کا جواب یہء ہے کہ یہ کچھ ضرور نہیں کہ جو نازل ہو اور جس کا ارادہ ہو وہ شرعاً بھی مامور بہ ہو۔ ارادہ الٰہی جس کے متعلق ہوتا ہے وہ اور شئے ہے اور امرشرعی کا تعلق دوسری شے ہے۔ پس اللہ تعالیٰ نے بندوں کا اپنے دو فرشتوں کے ذریعہ سے امتحان فرمایا جو شقی ازلی تھا وہ سحر سیکھتا اور اللہ کے ساتھ کفر کرتا اور جو سعید ازلی تھا وہ ترک کردیتا اور ایمان پر باقی رہتا اور وہ دونوں فرشتے سحر کے بطلان کو ظاہر کردیتے اس سے بچنے کا حکم فرماتے۔ واللہ اعلم۔ بعض مفسرین نے فرمایا کہ : وَ مَا اُنْزِلَ میں ما نافیہ ہے اس تقدیر پر آیت کی توجیہ اس طرح ہوگی کہ یہود کہا کرتے تھے کہ سحر کا علم آسمان سے فرشتوں پر اترا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انکے زعم فاسد کو رد فرمایا اور معنی آیت کے یہ ہونگے کہ اللہ تعالیٰ نے سحر کو فرشتوں پر نازل نہیں فرمایا اور مَا اُنْزِلَ کا عطف اس تفسیر پر مَا کَفَرَ سُلَیْمَانُ پر ہوگا اور بِبَابِلَ ۔ یُعَلِّمُوْنَ النَّاسَ کے متعلق ہوگا۔ ھَارُوْتَ وَمَارُوْتَ ( ہاروت و ماروت پر) اَلْمَلَکَیْنِکا تقدیر اول پر عطف بیان ہے اور یہی ظاہر ہے اور ما کے نافیہ ہونے کی صورت میں الشَّیَاطِیْنَسے بدل البعض ہے۔ وَمَا يُعَلِّمٰنِ مِنْ اَحَدٍ ( اور نہ سکھاتے وہ ہاروت و ماروت کسی کو مِنْ اَحَدٍمیں مِنْ زائدہ ہے۔ حَتّٰى يَقُوْلَآ ( جب تک کہ ان سے یہ نہ کہہ دیتے) یعنی خیر خواہی کے طور پر وہ فرشتے کہتے۔ اِنَّمَا نَحْنُ فِتْنَةٌ (کہ ہم تو ذریعہ آزمائش ہیں) فَلَا تَكْفُرْ ( تو کافر مت ہو) یعنی سحر مت سیکھ تو اس کے سبب کافر ہوجائے گا نتیجہ ( کفر) کا اطلاق سبب ( سحر) پر کیا گیا ہے بعض مفسرین نے فرمایا ہے وہ فرشتے سیکھنے والے کو سات دفعہ یہی نصیحت کرتے تھے۔ عطا اور سدی فرماتے ہیں جب وہ کسی طرح نہ مانتا تو کہتے اچھا جا فلاں جگہ کی راکھ پر تو پیشاب کردے وہ پیشاب کرتا پیشاب کرتے ہی اس کے اندر سے ایک چمکتا ہو انور نکلتا اور آسمان کی طرف چلا جاتا یہ ایمان و معرفت تھی اور آسمان سے ایک سیاہ شے دھوئیں جیسی آتی اور کانوں کے ذریعہ اندر اتر جاتی اور یہ اللہ کا غضب اور کفرہوتا تھا نعوذ باللہ منہ اور تقدیر ثانی یعنی ما کے نافیہ ہونے کی صورت میں یہ معنی ہوں گے کہ شیطان اس سیکھنے والے کو سکھاتے نہ تھے جب تک یہ نہ کہ دیتے کہ ہم تو امتحان فتنہ میں پڑے ہوئے ہیں تو ہمارے جیسا کیوں ہوتا ہے۔ میں کہتا ہوں یہ کہنا نصیحت ہے اور شیطان سے اس کا صدور ممکن نہیں اس واسطے ہم نے کہہ دیا کہ تفسیر اول ظاہر ہے۔ فَيَتَعَلَّمُوْنَ ( پھر سیکھتے تھے) ضمیر ھم مستتر مِنْ اَحَدٍ سے جو عموم سمجھا گیا ہے۔ اس کی طرف راجع ہے۔ مِنْهُمَا ( ان دونوں سے یعنی ہاروت ماروت سے اور فَیَتَعلَّمُوْنَ کا عطف یا تو جملہ مقدر پر ہے اور تقدیر عبارت کی یہ ہے فَیَابُوْنَ فَیَتَعَلَّمُون یعنی وہ لوگ انکار کیے جاتے تھے اور یا یُعَلِّمُوْنَ النّاس السِّحْرَپر عطف ہے۔ مَا يُفَرِّقُوْنَ بِهٖ بَيْنَ الْمَرْءِ وَزَوْجِهٖ ( وہ باتیں کہ جدائی ڈال دیں ن کی وجہ سے میاں بی بی میں) یعنی سحر کی وہ قسم تعلیم کرتے تھے جس سے میاں بی بی میں بغض اور عداوت واقع ہوجائے۔ وَمَا ھُمْ بِضَاۗرِّيْنَ بِهٖ مِنْ اَحَدٍ اِلَّا بِاِذْنِ اللّٰهِ ( اور وہ نقصان نہیں پہنچا سکتے تھے اس سے کسی کو بغیر حکم خدا کے) ھم کی ضمیر یا تو ساحروں کی طرف اور یا شیاطین کی جانب راجع ہے۔ مِنْ اَحَدٍ میں من زائد ہے اِلَّا بِاِذْنِ اللّٰہِ ( یعنی ساحر یا شیطان سحر کے ذریعہ سے کسی کو نقصان نہیں پہنچا سکتے تھے مگر اللہ کی قضا اور قدر اور مشیت سے کیونکہ اسباب دنیاویہ سب کے سب عادی و ظاہر ہیں موثر بالذات نہیں عادۃ اللہ یونہی جاری ہے کہ جب ان اسباب کا وجود ہوتا ہے تو تاثیر ان کے بعد پیدا کردیتے ہیں۔ وَيَتَعَلَّمُوْنَ مَا يَضُرُّھُمْ ( اور سیکھتے تھے جو ان کو نقصان پہنچا وے) مَایَضُرُّھُمْ سے مراد سحر ہے اور ضرر اس کا ظاہر ہے کہ کفر تک نوبت پہنچ جاتی ہے۔ وَلَا يَنْفَعُھُمْ ( اور نفع نہ دے) اس طرف اشارہ ہے کہ علوم غیر نافعہ جیسے طبعی (1) [ طبعی علوم ہوں یا ریاضی یا الٰہی بہر حال غیر مفید اور بیکار علوم کی تحصیل کی عقل سلیم بھی اجازت نہیں دیتی۔ قاضی صاحب نے ایسے ہی علوم کی تحصیل کو شرعاً مکروہ قرار دیا ہے لیکن وہ طبیعات اور ریاضیات جو عمرانیات کی جان ہیں، ہندسہ، حساب، علم الاشکال، معن دنیا ت، ارضیات، نباتات، اور خواص کائنات عنصریہ۔ ان سب کی تحصیل اگر اصول اسلام کو توڑنے اور تعلیم اسلام کے خلاف دلائل قائم کرنے کے لیے ہو تو ظاہر ہے کہ حرام ہوگی اسلام کے خلاف کوئی کوشش جائز نہیں ہوسکتی۔ لیکن اگر اسلامی افکار و مسائل کی تنقیح اور اثبات کے لیے ہو تو نہ فقط یہ کہ مکروہ نہیں بلکہ مستحب، بلکہ بعض مواقع پر واجب ہوجاتی ہے علوم لسانیہ میں اور ان میں کوئی فرق نہیں۔ حلت و حرمت کی بنا اغراض و غایات کے اختلاف پر ہے جیسی غایت و غرض ویسا ہی حکم۔ رہے الٰہیات فلسفیہ تو ظاہر ہے کہ ان کی بناء بھی فساد علل پر ہے۔ اندھیرے میں پتھر پھینکنا لا حاصل غیر مفید بلکہ بعض وقت ضرر رساں ہوتا ہے۔ ہاں اگر افکار فلسفیہ کی تحصیل عقائد اسلامیہ کی صداقت ثابت کرنے کے لیے کی جائے اور منکرین اسلام کے اعتراضات کو دفع کرنا مقصود ہو تو ان کی تحصیل میں بھی کوئی گراہت نہ ہوگی۔ اسی لیے متکلمین اسلام نے مشائبہ اور اراقیہ کے فلسفہ کو حاصل کیا تھا تاکہ اس کو حاصل کرکے اس کی تردید کریں۔ چننچہ علم کلام کی وضع کی اصل وجہ یہی تھی۔ واللہ اعلم ] ریاضی وغیرہ کا سیکھنا سبب وقت برباد ہونے کے مکروہ ہے۔ اسی واسطے جناب رسول اللہ ﷺ اپنی دعا میں فرمایا کرتے تھے : اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَعُوذُ بِکَ مِنْ عِلْمٍ لَا یَنْفَعُ ( یعنی اے اللہ میں علم غیر نافع سے پناہ مانگتا ہوں۔ فائدہ علم غیر نافع کی دو قسمیں ہیں ایک قسم تو وہ ہے جو کسی کے لیے بھی نافع نہ ہو۔ کیونکہ اس سے نفع متصور ہی نہیں جیسے طبعی اور مثل اس کے اور دسری قسم وہ ہے کہ اس کا عالم جب اس پر عمل نہ کرے تو نافع نہ ہو واللہ اعلم اور جو علم ضرر کرنے والے ہیں جیسے سحر و شعبدہ اور فلاسفہ کے الٰہیات بلا دلیل صریح ان کی حرمت میں تو شک ہی نہیں۔ علامہ بغوی نے ابن عباس ؓ ، کلبی اور قتادہ ؓ سے ہاروت ماروت کے قصہ کو اس طرح نقل کیا ہے کہ جب فرشتوں نے دیکھا کہ اولاد آدم کے دفتر کے دفتر گناہوں کے آسمان پر جاتے ہیں تو بطور طعن کہا کہ دیکھو یہ کیسے بندے ہیں اپنے مالک حقیقی کی نافرمانی کرتے ہیں حق تعالیٰ نے فرمایا اگر میں تمہیں زمین پر اتار دوں اور جو قویٰ ان میں رکھے ہیں وہی اگر تم میں بھی پیدا کردوں تو تم بھی ایسے ہی گناہوں میں مبتلا ہوجاؤ۔ فرشتوں نے عرض کیا خداوندا تو پاک ہے ہم ہرگز تیری نافرمانی نہ کریں گے حکم ہوا کہ جو تم میں بہت اچھے ہیں انہیں منتخب کرلو۔ فرشتوں نے ہاروت اور ماروت اور عزرائیل کو منتخب کیا اللہ تعالیٰ نے ان میں شہوات کو پیدا کردیا اور حکم کیا زمین پر جاؤ اور لوگوں کے مقدمات عدل کے ساتھ فیصل کیا کرو اور شرک خون ناحق اور زنا اور شراب سے ان کو منع فرمایا۔ حسب ارشاد خداوندی تینوں فرشتے زمین پر آئے اور اپنی خدمات میں مصروف ہوئے۔ ایک مرتبہ عزرائیل کے قلب میں شہوت پیدا ہوئی۔ اسی وقت حق تعالیٰ سے معافی چاہی اور توبہ کرکے دعا کی خداوندا مجھے تو آسمان کی طرف اٹھا لیجئے اللہ تعالیٰ نے ان کی دعا قبول فرمائی اس کے بعد عزرائیل اس داعیہ معصیت کے کفارہ میں چالیس برس سجدہ میں پڑے رہے اور اب تک ندامت کی وجہ سے سر نگوں رہتے ہیں۔ اب رہے ہاروت و ماروت دونوں دن بھر تو لوگوں میں برابر حکومت کرتے رہتے شام کو اسم اعظم کے ذریعہ آسمان پر چلے جاتے ابھی ایک مہینہ بھی اس حالت میں نہ گزرا تھا کہ امتحان خداوندی پیش آیا۔ وہ یہ ہوا کہ ایک عورت مسماۃ زہرہ اور اس کے شوہر کا قصہ ان کے اجلاس میں پیش ہوا اور یہ زہرہ اہل فارس کی ملکہ نہایت حسینہ جمیلہ تھی یہ اسے دیکھتے ہی فریفتہ ہوگئے اور اس کو پھسلانا شروع کیا اس نے انکار کیا اور کہا جب تک تم بت پرستی اختیار نہ کرو اور میرے خاوند کو قتل نہ کرو اور شراب نہ پیو۔ میں تمہارے پاس نہیں آسکتی غرض کہ پہلے اس نے شراب پیش کی وہ انہوں نے پی۔ پھر ان سے قتل کرایا پھر ان کے ساتھ ہم بستر ہوئی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے زہرہ کو تو مسخ کر کے شہاب بنا دیا اور ان پر یہ گزری کہ جب شام ہوئی اور حسب معمول انہوں نے آسمان پر چڑھنا چاہا تو بازوؤں نے یاری نہ دی۔ اس زمانہ میں حضرت ادریس علی نبینا و (علیہ السلام) زمین پر نبی تھے یہ دونوں فرشتے ان کی خدمت میں آئے اور دعا اور شفاعت طلب کی بارگاہِ الٰہی سے حکم ہوا کہ ان معاصی پر تمہیں عذاب تو ضرور ہوگا لیکن اس قدر تخفیف کی جاتی ہے کہ دنیوی اور اخروی عذاب میں تمہیں اختیار دیا جاتا ہے جو چاہو پسند کرلو۔ فرشتوں نے دنیوی عذاب کو بہت سہل و آسان سمجھا کیونکہ یہاں کا عذاب تو عنقریب منقطع ہونے والا ہے۔ (معالم التنزیل ‘ ج 1) چناچہ اب تک وہ بابل میں الٹے ایک آگ بھرے کنوئیں لٹکے ہوئے ہیں۔ ابن راہویہ اور ابن مردویہ نے علی ؓ سے روایت کیا ہے جناب رسول ﷺ نے فرمایا کہ اللہ زہرہ پر لعنت کرے کہ اسی نے ہاروت ماروت دو فرشتوں کو فتنہ میں ڈالا۔ واللہ اعلم۔ میں کہتا ہوں کہ یہ قصہ اخبار احاد بلکہ روایات ضعیفہ شاذہ سے ہے اور قرآن پاک اس پر کسی طرح دلالت نہیں کرتا اور اس قصہ میں بعض روایت تو ایسی بےسروپا ہیں کہ عقل اور نقل دونوں کے خلاف ہیں مثلاً ربیعہ بن انس سے مروی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے زہرہ کو مسخ کرکے ستارہ بنا دیا تھا اور وہ اسم اعظم سیکھ کر آسمان پر چڑھ گئی اور ہاروت و ماروت باوجود اس کے کہ زہرہ کے معلم تھے اور ارتکاب معصیت میں اس کی برابر تھے بلکہ بوجہ سکر کے زہرہ سے معصیت میں کم تھے لیکن وہ آسمان پر نہ چڑھ سکے۔ واللہ اعلم محمد بن یوسف صالحی سبیل الرشاد میں بحوالہ شیخ کمال الدین فرماتے ہیں کہ علماء نے اس قصہ کو صحیح نہیں مانا اور نہ حضرت علی کرم اللہ وجہہٗ اور ابن عباس ؓ سے اس کی روایت کو ثابت سمجھا۔ شیخ کمال الدین فرماتے ہیں کہ اس قصہ کے متعلق تمام روایتیں سر تاپا موضوع ہیں اس بارے میں جناب رسول اللہ ﷺ سے کوئی روایت صحیح نہ سقیم مروی نہیں اور فرمایا کہ یہ روایتیں یہود کی گھڑت اور ان کی کتابوں سے ماخوذ ہیں۔ صالحی فرماتے ہیں کہ جب یہ قصہ محض بےاصل اور گھڑت ٹھیرا تو اس آیت کی تفسیر اس تقدیر پر کچھ اور ہونی چاہئے سو وہ یہ ہے کہ علماء نے اس کی تفسیر اس طرح کی ہے کہ جب سحر اور ساحروں کا شیوع ہوا اور معجزہ اور کرامات اور سحر میں اشتباہ ہوگیا تو حق تعالیٰ نے دو فرشتے اس غرض سے بھیجے کہ لوگوں کا امتحان کریں اور لوگوں کو سحر کی حقیقت بتادیں تاکہ حقیقۃ الامر معلوم ہوجائے اور سحر اور معجزہ و کرامات میں فرق معلوم ہو۔ چناچہ جو شخص ان کے پاس سحر سیکھنے آتا ہے۔ اس کو اول ڈراتے تھے اور کہتے تھے کہ ہم آزمائش کے لیے آئے ہیں چناچہ جو شخص اس غرض سے سیکھتا تھا کہ اس سے پرہیز کرے اور معجزہ و کرامات میں فرق معلوم کرے تو وہ حق تعالیٰ کے نزدیک پسندیدہ اور مقبول ہوتا تھا اور جو اس لیے نہ سیکھتا تو اس کی کفر تک نوبت پہنچتی اسی واسطے فرشتے اول ہی کہ دیتے تھے۔ اِنَّمَا نَحْنُ فِتْنَۃٌ فَلَا تَکْفُر ( ہم تو آزمانے کے لیے ہیں تو کافر نہ بن) پھر اسے بتاتے کہ جب ساحر فلاں کام کرتا ہے تو میاں بی بی میں عداوت اور بغض پیدا ہوجاتی ہے اس تفسیر کے موافق فرشتوں کا یہ فعل سراسر حق تعالیٰ کی طاعت ہوگی اور ملائکہ کی عصمت متفقہ کے خلاف نہ ہوگا۔ علامہ بیضاوی نے فرمایا ہے کہ یہ قصہ یہود سے لیا گیا ہے اور یہ بھی ممکن ہے کہ سلف صالحین کے رموز سے ہو اور اس کا حال ارباب بصیرت پر مخفی نہیں۔ میں کہتا ہوں کہ حل اس کا یہ ہے کہ مَلَکَیْنِ سے مراد قلب اور روح اور عالم امر کے تمام لطائف ہیں اور صرف دو کو یا تو اس لیے ذکر فرمایا کہ یہ بتانا منظور ہے کہ وہ لطائف متعدد ہیں ان کی تعداد بتانی مقصود نہیں اور یا اس واسطے کہ بعض سالکوں پر منجملہ لطائف ستہ یہ دو ہی منکشف ہوئے ہیں پس اس سالک نے لفظ ملکین سے اپنے مکشوف ( قلب اور روح) سے کنایہ کیا اور عورت جس کا نام زہرہ تجویز کیا ہے اس سے مراد نفس ہو جو کہ عناصر سے پیدا ہوا ہے اور وجہ اس کنایہ کی یہ ہے کہ جس طرح اس قصہ میں اس عورت نے ملکین کو گناہ کا حکم کیا تھا اسی طرح یہ نفس امارہ بھی برائی کا حکم کرتا ہے اور جب حق تعالیٰ نے اپنی حکمت بالغہ سے عالم امر کے لطائف کو نفس کے ساتھ مزدوج فرمادیا اور ان میں محبت اور عشق رکھ دیا تو یہ لطائف تاریک اور مکدر اور اپنے خالق سے غافل ہوگئے چناچہ اس تاریک قالب میں جو شہوات کی آگ سے بھرا ہوا ہے یہ لطائف محبوس اور اوندھے پڑے ہیں۔ بابل کے آگ بھرے ہوئے کنوے سے یہی مراد ہے پھر جب انسان مرجائیں گے اور قیامت قائم ہوگی تو اگر کچھ نور ایمان ہے تو ان لطائف کو اس قید خانہ سے نجات ہوجائے گی۔ اب رہا نفس سو اگر وہ نیک بندوں کا ہے تو لطائف کے قرب و مجاورت اور ریاضات تکلیفیہ اور اسم اعظم یعنی اللہ کے نام پاک کی بدولت آسمان پر ایسا پرواز کر جائے گا گویا چمکتا ہوا روشن سفید ستارہ ہے اور اسے اس طرح خطاب کیا جائے گا۔ یَااَیَّتُھَا النَّفْسُ الْمُطْمَءِنَّۃُ ارْجِعِیْٓ الیٰ رَبِّکِ رَاضِیَۃً مَّرْضِیَّۃً فَادْخُلِیْ فِیْ عِبَادِیْ وَادْخُلِیْ جَنَّتِی (اے نفس مطمئنہ اپنے رب کی طرف لوٹ چل تو اس سے راضی اور وہ تجھ سے راضی سو داخل ہو میرے خاص بندوں میں اور داخل ہو میری بہشت میں) نفس اگرچہ ابتداء میں خبیث اور شریر تھا لیکن اپنی قوت استعدادیہ کی بدولت جو کہ اس خاک دان میں رکھی ہے لطائف پر بھی فوق لیا گیا۔ جیسا کہ جناب رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے کہ جو لوگ جاہلیت میں اچھے ہیں وہ اسلام میں بھی اچھے ہیں جب کہ دینی سمجھ رکھتے ہوں اس حدیث کو امام مسلم نے ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا ہے۔ وَلَقَدْ عَلِمُوْا لَمَنِ اشْتَرٰىھُ ( اور بیشک وہ ( یہود) جان چکے تھے کہ جس نے اس ( سحر) کو خریدا) یعنی سحر کو کتاب اللہ کے عوض لیا۔ لَمَنِ اشْتَرَاہ میں لام ابتداء کا ہے اس لام نے علموا کو عمل سے معلق کردیا ہے۔ مَا لَهٗ فِي الْاٰخِرَةِ مِنْ خَلَاقٍ ڜ وَلَبِئْسَ مَا شَرَوْا بِهٖٓ اَنْفُسَھُمْ ۭ لَوْ كَانُوْا يَعْلَمُوْنَ ( اس کے لیے آخرت میں کوئی حصہ نہیں اور بیشک وہ شے بہت بری ہے جس کے عوض وہ اپنی جان بیچ رہے ہیں اگر جانتے ہوتے) ( تو نہ خریدتے) لو کا جواب محذوف ہے کلام سابق اس پر دال ہے۔ اگر کوئی بطور شبہ یہ کہے کہ اللہ تعالیٰ نے تو تاکید سے فرمادیا کہ وَلَقَدْ عَلِمُوْا ( بیشک جان چکے) تو پھر لو کانوا یعلَمُوْن (اگر جانتے) کے کیا معنی ہوں گے۔ اس شبہ کے علماء نے مختلف جواب دئیے ہیں۔ بعض نے یہ فرمایا ہے کہ جب انہوں نے اپنے علم پر عمل نہ کیا تو گویا جانا ہی نہیں اور بعض نے فرمایا ہے کہ جس علم کا اثبات کیا ہے وہ عقل طبعی اور اپنے فعل کی برائی اور اس پر عقاب کے مرتب ہونے کا علم اجمالی ہے اور جس کی نفی کی ہے وہ قیامت کے عذاب لاحق کی حقیقت کا علم ہے۔ میرے نزدیک عمدہ جواب یہ ہے کہ علم کی دو قسمیں ہیں ایک علم تو وہ جو سطحی ہو ظاہر قلب سے اس کا تعلق ہو اس علم کا مقتضیٰ عمل نہیں ہے اور یہود کا جناب رسول اللہ ﷺ کو اپنے بیٹوں کی طرف پہچاننا بھی اس قبیل سے تھا کہ یہ پہچان ان کو کچھ نافع نہ تھی ان کی بعینہ ایسے ہی مثال تھی جیسے گدھے پر دفتر لدے ہوں اور دوسرا علم وہ جو قلب کی تہ میں جا گھسے اور اس کو منور کردے اور نفس کے اندر اطمینان بخشے آیت کریمہ : اِنَّمَا ایَخْشَی اللّٰہَ مِنْ عِبَادِہٖ الْعُلٰمَاءُ ( اللہ سے تو اس کے بندوں میں سے علما ہی ڈرتے ہیں) میں یہی علم مراد ہے اور حدیث شریف میں جو آیا ہے کہ جناب سرورکائنات ﷺ نے فرمایا ہے کہ علماء انبیاء کے وارث ہیں آسمان والے ان کو دوست رکھتے ہیں اور جب وہ مرتے ہیں تو قیامت تک دریا کی مچھلیاں ان کے لیے استغفار کرتی ہیں تو اس حدیث کے مصداق اسی علم کے عالم ہیں۔ علم کی ان دونوں قسموں کی طرف جناب رسول اللہ ﷺ نے اشارہ بھی فرمایا ہے۔ فرمایا ہے کہ بہترین بندے علماء حق ہیں اور بدترین لوگ برے علماء ہیں اسی حدیث کو دارمی نے احوص بن حکیم ؓ سے روایت کیا ہے اور حسن بصری (رح) فرماتے ہیں کہ علم دو ہیں ایک علم دل میں ہے اور وہ نافع ہے اور دوسرا علم محض زبان پر ہے۔ یہ علم آدمی کے خلاف اللہ کی طرف سے حجت ہے اس کو بھی دارمی نے روایت کیا ہے۔
Top