Tafseer-e-Mazhari - Al-Baqara : 104
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَقُوْلُوْا رَاعِنَا وَ قُوْلُوا انْظُرْنَا وَ اسْمَعُوْا١ؕ وَ لِلْكٰفِرِیْنَ عَذَابٌ اَلِیْمٌ
يَا اَيُّهَا الَّذِیْنَ : اے وہ لوگو جو اٰمَنُوْا : ایمان لائے لَا تَقُوْلُوْا : نہ کہو رَاعِنَا : راعنا وَقُوْلُوْا : اور کہو انْظُرْنَا : انظرنا وَاسْمَعُوْا : اور سنو وَلِلْکَافِرِیْنَ ۔ عَذَابٌ : اور کافروں کے لیے۔ عذاب اَلِیْمٌ : دردناک
اے اہل ایمان! (گفتگو کے وقت پیغمبرِ خدا سے) راعنا نہ کہا کرو۔ انظرنا کہا کرو۔ اور خوب سن رکھو، اور کافروں کے لیے دکھ دینے والا عذاب ہے
يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَقُوْلُوْا رَاعِنَا وَقُوْلُوا انْظُرْنَا ( اے ایمان والو ! تم راعنا نہ کہا کرو بلکہ انظرنا کہا کرو۔ یعنی ہماری طرف نظر شفقت فرمائیے اور ہماری گذارش سماعت فرمائیے یا یہ معنی کہ ہمارا نتظار فرمائیے اور ذرا توقف فرمائیے تاکہ ہم آپ کا کلام سمجھ لیں۔ وَاسْمَعُوْا ( اور سنا کرو) یا تو یہ معنی کہ جو تم کو حکم کیا جاتا ہے اس کو سنو اور اطاعت کرو اور یا یہ مطلب کہ مجمع ہیں حضور ﷺ کا کلام اچھی طرح سن لیا کرو تاکہ دوسری مرتبہ پوچھنے کی ضرورت نہ رہے۔ وَلِلْكٰفِرِيْنَ ( اور کافروں کے لیے) کافرین سے مراد یہود ہیں جنہوں نے جناب رسول اللہ ﷺ کو برے کلمہ سے یاد کیا تھا۔ عَذَابٌ اَلِــيْمٌ ( درد ناک عذاب ہے) مسلمانوں کے جو یہود میں حلیف تھے ان سے مسلمان بطور خیر خواہی کہتے تھے کہ محمد ﷺ پر ایمان لے آؤ اور وہ جواب دیتے تم جس شے کی طرف ہمیں بلاتے ہو وہ ہمارے دین سے بہتر نہیں اگر بہتر ہوتا تو ہم ضرور اسے پسند کرتے انکی تکذیب کے لیے حق تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔
Top