Tafseer-e-Mazhari - Al-Baqara : 115
وَ لِلّٰهِ الْمَشْرِقُ وَ الْمَغْرِبُ١ۗ فَاَیْنَمَا تُوَلُّوْا فَثَمَّ وَجْهُ اللّٰهِ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ وَاسِعٌ عَلِیْمٌ
وَلِلّٰہِ : اور اللہ کے لیے الْمَشْرِقُ : مشرق وَالْمَغْرِبُ : اور مغرب فَاَيْنَمَا : سو جس طرف تُوَلُّوْا : تم منہ کرو فَثَمَّ : تو اس طرف وَجْهُ اللہِ : اللہ کا سامنا اِنَّ اللہ : بیشک اللہ وَاسِعٌ : وسعت والا عَلِیْمٌ : جاننے والا
اور مشرق اور مغرب سب خدا ہی کا ہے۔ تو جدھر تم رخ کرو۔ ادھر خدا کی ذات ہے۔ بے شک خدا صاحبِ وسعت اور باخبر ہے
وَلِلّٰهِ الْمَشْرِقُ وَالْمَغْرِبُ ( اور اللہ ہی کا ہے پورب اور پچھم) یعنی ساری زمین مشرق اور مغرب اسی کی ملک اور مخلوق ہیں اور تمام مخلوقات اس کے وجود کے مظاہر اور اس کے نور کے جلوہ گاہ ہیں اور وہی آسمانوں اور زمین کا نور اور تمام چیزوں کا تھامنے والا ہے اس لیے وہ کسی جگہ کے ساتھ خاص نہیں اور قبلہ کا مسئلہ تعبدی ہے اور تکلیف بقدر وسعت ہوا کرتی ہے اس لیے اے مسلمانو ! اگر تم فرائض میں بسبب کسی دشمن یا قبلہ کے دریافت نہ ہونے کے قبلہ کی طرف منہ کرنے پر قادر نہ ہو یا قبلہ کے بارے میں تم نے تحری کی اور اس میں غلطی ہوئی یا نوافل میں سواری سے اترنے میں تم اپنا حرج سمجھو کیونکہ نوافل میں فرائض سے زیادہ سہولت کی گئی ہے۔ فَاَيْنَـمَا تُوَلُّوْا ( تو جدھر تم اپنا منہ کرلو گے) فَاَیْنَمَا شرط ہے اور تُوَلُّوْا مجزوم ہے۔ فثم وجہ اللہ ( پس ادھر ہی خدا کا سامنا ہے) یعنی وہی جہت قبلہ ہے حسن اور مجاہد اور قتادہ اور مقاتل نے وجہ اللہ کی اسی طرح تفسیر کی ہے اور بعض مفسرین نے کہا ہے کہ وہی جہت اللہ کی رضا ہے اور بعض مفسرین نے کہا کہ یہ آیت متشابہات سے ہے جیسا کہ کل شئ ھالک الا وجہ اور آیت کریمہ ید اللہ فوق ایدیھم متشابہات سے ہیں۔ مسلم ترمذی اور نسائی نے ابن عمر ؓ سے روایت کیا ہے کہ جناب رسول اللہ ﷺ مکہ سے مدینہ آنے کے وقت اپنی سواری پر نوافل پڑھتے تھے سواری خواہ کسی طرف متوجہ ہوتی تھی۔ اس کے بعدا بن عمر ؓ نے بطور استدلال آیت : وَ اللہ المشرق والمغرب [ الایۃ ] پڑھی اور حاکم نے روایت کیا ہے کہ مجاہد ؓ نے فرمایا ہے کہ آیت کریمہ : فَاینما تولوا فثم وجہ اللہ کا مطلب یہ ہے کہ جس طرف تمہاری سواری کا رخ ہو ادھر ہی نفل پڑھو اور حاکم نے کہا ہے کہ یہ حدیث مسلم کی شرط کے موافق صحیح ہے اور ابن جریر اور ابن ابی حاتم نے ابن عباس ؓ سے نقل کیا ہے کہ جس وقت قبلہ تبدیل ہوا اور آیت : مَا وَلّٰھُمْ عَنْ قبلتِھمْ الَّتِیْ کَانوا علیھا ( کس چیز نے پھیر دیا ان کو ان کے قبلہ سے جس پر یہ تھے) نازل ہوئی تو اس کے جواب میں آیت کریمہ : واللہ المشرق والمغرب [ الایۃ ] نازل ہوئی اور سند اس حدیث کی قوی ہے۔ میں کہتا ہوں کہ اول روایت شان نزول میں سند اور معنی دونوں کے اعتبار سے زیادہ صحیح ہے کیونکہ مَا وَلّٰھُمْ کا جواب تو خود وہاں ہی قل اللہ المشرق والمغرب یھدی من یشاء الی صراط مستقیم سے مذکور ہے اور اس آیت کے شان نزول میں اور روایات بھی آئی ہیں لیکن وہ سب ضعیف ہیں منجملہ ان کے یہ ہے کہ ترمذی اور ابن ماجہ اور دار قطنی نے روایت کیا ہے کہ ربیعہ فرماتے ہیں کہ ہم ایک مرتبہ اندھیری رات میں بحالت سفر جناب رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ تھے نماز کے وقت یہ نہ جانا کہ قبلہ کس طرف ہے ہر شخص نے اپنے خیال کے موافق نماز ادا کی جب صبح کو جناب رسول اللہ ﷺ سے ہم نے اس کا ذکر کیا تو یہ آیت کریمہ نازل ہوئی اور بیہقی اور دار قطنی نے روایت کیا ہے کہ حضرت جابر ؓ فرماتے ہیں کہ جناب رسول اللہ ﷺ نے ایک مختصر لشکر کسی جگہ بھیجا۔ اس میں میں بھی تھا۔ راستے میں ہمیں تاریکی نے آگھیرا اور قبلہ کی پہچان نہ رہی سب نے اپنے خیال کے موافق نماز پڑھی اور جس طرف پڑھی خط کھینچ دیئے صبح کو دیکھا تو وہ سب خطوط قبلہ کی طرف تھے۔ جب ہم سفر سے واپس آئے تو یہ واقعہ حضور ﷺ سے ذکر کیا آپ نے سن کر سکون فرمایا۔ اس وقت اللہ تعالیٰ نے آیت وَ اللہ المشرق نازل فرمائی۔ ابن مردویہ نے ابن عباس ؓ سے بھی اس قصہ کو اسی طرح نقل کیا ہے اس میں اس قدر اور ہے کہ ابر کی وجہ سے قبلہ نہ ملا تھا۔ ابن جریر نے مجاہد ؓ سے روایت کیا ہے کہ جب آیت کریمہ : ادعونی استجب لکم ( مجھ سے دعامانگو میں تمہارے لیے قبول کرونگا) نازل ہوئی تو عرب نے کہ اللہ تعالیٰ کس طرف اور کہاں ہے کہ ہم دعا کریں۔ اسکے جواب میں آیت شریفہ واللہ المشرق [ الایۃ ] نازل ہوئی۔ اِنَّ اللّٰهَ وَاسِعٌ ( بیشک اللہ بڑی گنجائش والا) یعنی اللہ تعالیٰ اپنے نور سے تمام اشیاء اور مشارق و مغارب کو محیط ہے اور وہ احاطہ کسی خاص کیفیت پر نہیں اور نہ اس کی حقیقت دریافت ہوسکتی ہے۔ امام ربانی مجدد الف ثانی حضرت شیخ احمد سرہندی (رح) حقیقت الصلوٰۃ میں تحریر فرماتے ہیں کہ اس وسعت سے مراد ذاتی وسعت بلا کیفیت ہے اور اس کی کنہ مدرک نہیں ہوسکتی۔ عَلِيْمٌ ( خبردار ہے) یعنی اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے عذر اور ان کی مصلحتوں اور ان کی نیتوں کو خوب جانتا ہے۔
Top