Tafseer-e-Mazhari - Al-Baqara : 116
وَ قَالُوا اتَّخَذَ اللّٰهُ وَلَدًا١ۙ سُبْحٰنَهٗ١ؕ بَلْ لَّهٗ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ١ؕ كُلٌّ لَّهٗ قٰنِتُوْنَ
وَ : اور قَالُوْا : انہوں نے کہا اتَّخَذَ : بنا لیا اللہُ : اللہ وَلَدًا : بیٹا سُبْحَانَهٗ : وہ پاک ہے بَلْ : بلکہ لَهٗ : اسی کے لیے مَا : جو فِي : میں السَّمَاوَاتِ : آسمانوں وَ الْاَرْضِ : اور زمین كُلٌّ : سب لَهٗ : اسی کے قَانِتُوْنَ : زیر فرمان
اور یہ لوگ اس بات کے قائل ہیں کہ خدا اولاد رکھتا ہے۔ (نہیں) وہ پاک ہے، بلکہ جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے، سب اسی کا ہے اور سب اس کے فرماں بردار ہیں
وَقَالُوا اتَّخَذَ اللّٰهُ وَلَدًا ( اور وہ کہتے ہیں کہ اللہ اولاد رکھتا ہے) مدینہ کے یہود کہا کرتے تھے کہ عزیر اللہ کے بیٹے ہیں اور بخران کے نصاریٰ حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) کی نسبت کہتے تھے کہ اللہ کے بیٹے ہیں اور مشرکین عرب بکتے تھے کہ فرشتے اللہ کی بیٹیاں ہیں ان سب کے رد میں حق تعالیٰ نے یہ آیت کریمہ ارشاد فرمائی۔ سُبْحٰنَهٗ ( سبحان اللہ) کیا مہمل بات ہے) یعنی میں اللہ تعالیٰ کی اس امر سے پاکی اور تنزیہ بیان کرتا ہوں کیونکہ ولادت اس امر کو مقتضی ہے کہ مولود اور والد میں مشابہت ہو اور ولد والد کا جزء ہو اور ظاہر ہے کہ حق تعالیٰ اس سے پاک ہے ابن عباس ؓ سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ حق تعالیٰ فرماتا ہے : ابن آدم نے میری تکذیب کی اور اسے یہ بات شایاں نہ تھی اور ابن آدم نے مجھے سب و شتم کیا اور یہ بات اسے سزاوار نہ تھی “ تکذیب تو یہ ہے کہ وہ گمان کرتا ہے کہ میں اس کے مرنے کے بعد جیسا تھا اس طرح پر زندہ نہیں کرسکتا اور سب و شتم یہ ہے کہ وہ کہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ بیوی بچوں والا ہے حالانکہ میں اس سے بالکل پاک ہوں اور ابوہریرہ ؓ نے اسی مضمون کے قریب قریب روایت کی ہے اور اس میں یہ بھی ہے کہ بندہ کا مجھ کو جھٹلانا تو یہ ہے کہ وہ کہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ مجھ کو دوبارہ پیدا نہیں کرے گا ویسا جیسا کہ اوّل بار پیدا کیا۔ حالانکہ پہلی دفعہ پیدا کرنا دوبارہ پیدا کرنے سے میرے لیے سہل نہیں ( یعنی لوٹانا تو ابتداء سے بہت سہل ہے) اور سب و شتم یہ ہے کہ اللہ بچوں والا ہے حالانکہ میں احد صمد ہوں کہ نہ میں نے جنا نہ میں کسی سے جنا گیا اور نہ کوئی میرے برابر کا ہے۔ بَلْ لَّهٗ مَا فِي السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ( بلکہ اسی کا ہے جو کچھ آسمان اور زمین میں ہے) یعنی جو کچھ آسمان اور زمین میں ہے اسی کا ہے یعنی اسی کا پیدا کیا ہوا ہے اور اسی کی ملک ہے پھر بیٹے ہونے کا تعلق کہاں رہا کیونکہ باپ اور بیٹے میں تو کچھ مناسبت اور مجانست ضرور ہونا چاہئے اور یہاں کچھ بھی تعلق نہیں کہاں ممکن محتاج عاجز مخلوق اور کہاں واجب غنی مستقل خالق۔ كُلٌّ لَّهٗ قٰنِتُوْنَ ( سب اسی کے تابعدار ہیں) یعنی جو کچھ آسمان اور زمین میں ہے سب اس کی توحید کی شہادت دینے والے اور اس کے معبود ہونے کے مقر ہیں کیونکہ ممکن کا وجود بزبان حال شہادت دے رہا ہے کہ بندہ ایک ایسے خالق واجب کا محتاج ہے کہ کوئی اس کا مثل نہیں۔ اس تفسیر کے موافق یہ آیت آیہ کریمہ : و ان من شیء الا یسبح بحمدہ و لٰکن لا تفقہون تسبیحھم ( اور کوئی چیز نہیں جو اس کی حمد کے ساتھ تسبیح نہ کرتی ہو لیکن تم لوگ ان کی تسبیح سمجھتے نہیں) کی نظیر ہوگی۔ ان کی شہادت تحمید و تسبیح صاحب دل دل کے حواس سے سمجھتے ہیں اور ان ہی حواس سے ان کی حیات انہیں معلوم ہوتی ہے اور یا عقول متوسط والے بھی ان کی صفت احتیاج اور دیگر آثار سے استدلال کرتے ہیں۔ قنوت کا اصل معنی ہے قیام یعنی کھڑا ہونا چناچہ جناب رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے کہ افضل نماز وہ ہے جس میں طول قنوت ( یعنی زیادہ دیر کھڑا ہونا) ہو۔ اس حدیث کو مسلم احمد اور ترمذی نے روایت کیا ہے۔ یا یہ معنی ہیں کہ سب اس کے مطیع ہیں۔ چنانچہ احمد نے بسند حسن ابو سعید خدری ؓ سے روایت کیا ہے کہ جناب رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ قرآن میں جہاں کہیں بھی لفظ قنوت ہو اس سے مراد طاعت ہے۔ مطلب اس صورت میں یہ ہوگا کہ کوئی چیز اس کی مشیت وتکوین سے علیحدہ نہیں ہوتی اور جس کی یہ حالت ہو اسے واجب سے کچھ بھی مجانست نہیں اور حرف ما اس لیے لائے تاکہ غیر ذی عقل بھی شامل ہوجائے اور آگے قانتون صیغہ جمع مذکر سالم ( جو ذوی العقول کے لیے ہے) ذوی العقول کو غلبہ دے کر استعمال فرمایا اور یا اس لیے کہ قنوت ( قیام ( ذوی العقول کی خصوصیات میں سے ہے اس لیے جس صیغہ پر ذوی العقول کی جمع آتی ہے اسی کے موافق اسے بھی جمع کردیا۔ بعض مفسرین نے کہا ہے کہ اس آیت کے یہ معنی ہیں کہ جن کو یہ لوگ معبود سمجھتے ہیں مثلاً مسیح، عزیر اور فرشتے سب اللہ کے مطیع اور عبودیت کے مقر ہیں۔ اس تقدیر پر یہ آیت بعد دلیل کے الزام کے طور پر ہوگی۔
Top