Tafseer-e-Mazhari - Al-Baqara : 121
اَلَّذِیْنَ اٰتَیْنٰهُمُ الْكِتٰبَ یَتْلُوْنَهٗ حَقَّ تِلَاوَتِهٖ١ؕ اُولٰٓئِكَ یُؤْمِنُوْنَ بِهٖ١ؕ وَ مَنْ یَّكْفُرْ بِهٖ فَاُولٰٓئِكَ هُمُ الْخٰسِرُوْنَ۠   ۧ
الَّذِينَ : جنہیں اٰتَيْنَاهُمُ : ہم نے دی الْكِتَابَ : کتاب يَتْلُوْنَهٗ : اس کی تلاوت کرتے ہیں حَقَّ : حق تِلَاوَتِهٖ : اس کی تلاوت اُولٰئِکَ : وہی لوگ يُؤْمِنُوْنَ : ایمان رکھتے ہیں بِهٖ : اس پر وَ مَنْ : اور جو يَكْفُرْ بِهٖ : انکار کریں اسکا فَاُولٰئِکَ : وہی هُمُ الْخَاسِرُوْنَ : وہ خسارہ پانے والے
جن لوگوں کو ہم نے کتاب عنایت کی ہے، وہ اس کو (ایسا) پڑھتے ہیں جیسا اس کے پڑھنے کا حق ہے۔ یہی لوگ اس پر ایمان رکھنے والے ہیں، اور جو اس کو نہیں مانتے، وہ خسارہ پانے والے ہیں
اَلَّذِيْنَ اٰتَيْنٰھُمُ الْكِتٰبَ ( وہ لوگ جنہیں ہم نے کتاب دی ہے) یعنی قرآن۔ قتادہ اور عکرمہ نے فرمایا ہے کہ : اَلَّذِیْنَ اَتَینَاھُمْ الْکِتٰبَ سے صحابہ ؓ مراد ہیں اور بعض مفسرین نے کہا ہے کہ عام مؤمن مراد ہیں اور اہل کتاب کے مؤمن بھی مراد ہوسکتے ہیں اور حضرت ابن عباس ؓ نے اس کا شان نزول یوں بیان فرما ایا ہے کہ جعفر بن ابی طالب ؓ کے ہمراہ حبشہ سے چالیس آدمی آئے تھے بتیس تو ان میں سے حبشہ کے تھے اور آٹھ شام کے اور ان میں بحیرہ راہب بھی تھا ان سب کے بارے میں آیت کریمہ : الَّذین .... نازل ہوئی اور ضحاک نے فرمایا ہے کہ : اَلَذِیْنَ اَتَیْنَاھُمْ ..... سے مؤمنین یہود مراد ہیں انہی میں عبد اللہ بن سلام اور سعید بن عمرو اور تمام یہود اور اسید۔ اسد پسران کعب بن یامین اور عبد اللہ بن صور یا ؓ بھی شامل تھے۔ اس تقدیر پر اسم موصول عہد کے لیے ہوگا۔ يَتْلُوْنَهٗ حَقَّ تِلَاوَتِهٖ ( وہ اسے پڑھتے رہتے ہیں جو اس کے پڑھنے کا حق ہے) خطیب نے ایک سند سے جس میں راوی مجہول ہیں۔ امام مالک سے انہوں نے نافع سے انہوں نے حضرت ابن عمر سے انہوں نے نبی اکرم ﷺ سے روایت کی ہے کہ یَتْلَوْنَہٗ حَقَّ تِلَاوَتِہٖ کے یہ معنی ہیں کہ وہ اس کا اتباع کرتے ہیں پورا اتباع اور حضرت عمر ؓ سے یَتْلُوْنَہٗ حَقَّ تِلَاوَتِہٖ کا معنی یہ مروی ہے کہ جب کتاب اللہ میں جنت کا ذکر آئے تو اللہ تعالیٰ سے جنت کا سوال کرے اور جب دوزخ کا ذکر آئے تو پناہ مانگے۔ ضمیر ہ الکتاب کی طرف راجع ہے مطلب یہ ہے کہ قرآن شریف کو تحریر سے بچا کر تدبیر اور عمل کے ارادہ سے پڑھتے ہیں اور کلبی نے کہا کہ ضمیر ہ دونوں جگہ جناب رسول اللہ ﷺ کی طرف راجع ہے اور معنی یہ ہیں کہ مؤمنین اہل کتاب سے اگر کوئی محمد ﷺ کا حال دریافت کرتا ہے تو اس سے آپ کا حال جس طرح ان کی کتاب میں لکھا ہے بعینہٖ صحیح صحیح بتاتے ہیں اور یہ معنی جب ہی ہوں گے کہ الذین اسم موصول سے مؤمنین اہل کتاب مراد ہوں اور یَتْلُوْنَہٗ حَقَّ تِلَاوَتِہٖ یا تو حال مقدر ہو اور الذین کی خبر اس کے بعدہو اور یا خود الذین کی خبر ہو اور۔ اُولٰۗىِٕكَ يُؤْمِنُوْنَ بِهٖ ( وہی لوگ ایمان لاتے ہیں اس پر) خبر بعد خبر ہو اور بہٖ میں ضمیر ہ یا تو کتاب کی طرف اور یا محمد ﷺ کی طرف راجع ہو۔ وَمَنْ يَّكْفُرْ بِهٖ ( اور جو اس کا انکار کرتے ہیں) یعنی جو لوگ کتاب کے ساتھ کفر کرتے ہیں یعنی تحریف کرتے ہیں یا جس کی وہ تصدیق کرتی ہے اس کا انکار کرتے ہیں یا محمد ﷺ کے ساتھ کفر کرتے ہیں۔ فَاُولٰۗىِٕكَ ھُمُ الْخٰسِرُوْنَ ( وہی لوگ نقصان پانے والے ہیں) کیونکہ کفر کو ایمان کے عوض مول لیتے ہیں۔
Top