Tafseer-e-Mazhari - Al-Baqara : 125
وَ اِذْ جَعَلْنَا الْبَیْتَ مَثَابَةً لِّلنَّاسِ وَ اَمْنًا١ؕ وَ اتَّخِذُوْا مِنْ مَّقَامِ اِبْرٰهٖمَ مُصَلًّى١ؕ وَ عَهِدْنَاۤ اِلٰۤى اِبْرٰهٖمَ وَ اِسْمٰعِیْلَ اَنْ طَهِّرَا بَیْتِیَ لِلطَّآئِفِیْنَ وَ الْعٰكِفِیْنَ وَ الرُّكَّعِ السُّجُوْدِ
وَاِذْ : اور جب جَعَلْنَا : ہم نے بنایا الْبَيْتَ : خانہ کعبہ مَثَابَةً : اجتماع کی جگہ لِلنَّاسِ : لوگوں کے لئے وَاَمْنًا : اور امن کی جگہ وَاتَّخِذُوْا : اور تم بناؤ مِنْ : سے مَقَامِ : مقام اِبْرَاهِيمَ : ابراہیم مُصَلًّى : نماز کی جگہ وَعَهِدْنَا : اور ہم نے حکم دیا اِلٰى : کو اِبْرَاهِيمَ : ابراہیم وَاِسْمَاعِيلَ : اور اسماعیل اَنْ طَهِّرَا : کہ پاک رکھیں بَيْتِيَ : وہ میرا گھر لِلطَّائِفِينَ : طواف کرنے والوں کیلئے وَالْعَاكِفِينَ : اور اعتکاف کرنے والے وَالرُّکَعِ : اور رکوع کرنے والے السُّجُوْدِ : اور سجدہ کرنے والے
اور جب ہم نے خانہٴ کعبہ کو لوگوں کے لیے جمع ہونے اور امن پانے کی جگہ مقرر کیا اور (حکم دیا کہ) جس مقام پر ابراہیم کھڑے ہوئے تھے، اس کو نماز کی جگہ بنا لو۔ اور ابراہیم اور اسمٰعیل کو کہا کہ طواف کرنے والوں اور اعتکاف کرنے والوں اور رکوع کرنے والوں اور سجدہ کرنے والوں کے لیے میرے گھر کو پاک صاف رکھا کرو
وَاِذْ جَعَلْنَا (اور ( یاد کرو) جب ٹھہرایا ہم نے) ابو عمرو اور ہشام نے اِذ جَعَلْنَا میں اور جہاں کہیں ایسا موقع ہو ذ کو ج میں ادغام کیا ہے اور اسی طرح و اذ کے ذ کو وَ اِذْ زَیَّنَ کے ذ میں اور وَ اِذْ سَمِعْتُمُوْہُ کے س میں اور وَ اِذْ صَرَّفْنَا کے ص میں اور وَ اِذْ تَبَرَّاء کے ت میں اور وَ اِذْ دَخَلُوْا کی د میں اور اتمام کرکے پڑھا ہے اور ابن ذکوان نے صرف د میں تو ادغام کیا ہے اور کسی جگہ نہیں کیا اور خلف نے د اور ت میں کیا ہے اور خلاد اور کسائی نے ج کی صورت میں صرف اظہار کیا ہے اور نافع اور ابن کثیرا ور عاصم ان سب صورتوں میں اذ کی ذال کو اظہار کرتے ہیں۔ الْبَيْتَ ( بیت کو) اس سے مراد خانہ کعبہ ہے اگرچہ بیت عام ہے جیسے النجم کا اطلاق ثریا پر اکثر آتا ہے۔ مَثَابَةً لِّلنَّاسِ ( لوگوں کے لیے اجتماع کی جگہ) یعنی خانہ کعبہ کو ہم نے مرجع بنا دیا ہے کہ چاروں طرف سے لوگ وہاں آتے ہیں یا یہ کہ ثواب کی جگہ بنا دی کہ وہاں حج اور عمرہ اور نماز پڑھ کر ثواب حاصل کرتے ہیں چناچہ جناب رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے کہ مسجد حرام کی ایک نماز ایک لاکھ نمازوں کے برابر ہے اس حدیث کو ابن ماجہ نے روایت کیا ہے۔ وَاَمْنًا ( اور امن کا مقام) یعنی خانہ کعبہ کو ہم نے امن کی جگہ بنایا کہ وہاں مشرکین کی ایذا رسانی سے امن ہوتا ہے کیونکہ مشرکین اہل مکہ سے کچھ تعرض نہ کرتے اور کہتے کہ یہ لوگ اہل اللہ ہیں اور آس پاس کے لوگوں کو ایذائیں پہنچاتے تھے جیسا کہ دوسرے مقام پر اللہ تعالیٰ نے اس مضمون کو بیان فرمایا ہے : اَوَ لَمْ یَرَوْا اَنَّا جَعَلْنَا حَرَمًا اٰمِِنًا وَّ یُتَخَطَّفُ النَّاسُ مِنْ حَولِھِمْ ( کیا انہوں نے نہیں دیکھا کہ ہم نے بنایا ہے حرم کو امن کی جگہ اور لوگ اچکے جا رہے ہیں ان کے آس پاس سے) اور جناب سرور کائنات ﷺ نے فتح مکہ کے روز فرمایا کہ جس دن سے اللہ تعالیٰ نے آسمان اور زمین کو پیدا فرمایا ہے اس شہر ( مکہ) کو حرام فرمایا ہے اس لیے اللہ تعالیٰ کی حرمت سے وہ قیامت تک حرام ہے اور اس میں کسی کے لیے قتال حلال نہیں صرف میرے لیے دن کی ایک ساعت میں حلال ہوگیا تھا اس کے بعد پھر قیامت تک حرام ہے نہ اس کا کانٹا کاٹا جائے اور نہ شکار کو بھگایا جائے اور نہ یہاں کی گری پڑی چیز اٹھائی جائے مگر ہاں جو تعریف (تشہیر) کرے وہ لقطہ اٹھالے 1 ؂ اور نہ یہاں کی گھاس کاٹی جائے۔ حضرت عباس ؓ نے عرض کیا لیکن اذخر کو (مرچیا گند) مستثنیٰ فرما دیجئے کیونکہ وہ لوہاروں کے کام میں آتی ہے اور گھروں میں بہت کار آمد ہے حضور نے فرمایا ہاں اذخر مستثنیٰ ہے۔ اس حدیث کو بخاری و مسلم نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا ہے اور ابوہریرہ ؓ سے بھی اسی مضمون کی حدیث منقول ہے۔ وَاتَّخِذُوْا مِنْ مَّقَامِ اِبْرٰهٖمَ مُصَلًّى (اور ہم نے حکم دیا کہ) بنا لو ابراہیم کے کھڑے ہونے کی جگہ کو نماز کی جگہ) یعنی بناؤ مقام ابراہیم کو نماز کی جگہ اس نماز سے طواف کی دو رکعتیں مراد ہیں مسلم نے حدیث طویل میں حضرت جابر بن عبد اللہ ؓ سے روایت کی ہے کہ جب ہم جناب رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ بیت اللہ تک آئے تو حضور نے رکن کو بوسہ دیا اور تین مرتبہ رمل فرمایا اور چار مرتبہ معمولی چال سے چلے پھر مقام ابراہیم 1 ؂ کے پاس آئے اور آیۃ : وَاتَّخذوا مِنْ مََّقَامِ اِبْرَاھِیْمَ مَصَلّٰیتلاوت فرما کر نماز پڑھی اور مقام ابراہیم کو اپنے اور بیت اللہ کے درمیان کیا۔ واللہ اعلم ابراہیم نخعی نے فرمایا ہے کہ مقام ابراہیم سے مراد تمام حرم ہے اس کے موافق مِنْ مقام میں من تبعیضیہ ہے اور یا مقام اِبْرَاھِیْمَ سے مسجد حرام مراد ہے جیسا کہ ابن یمان کا خیال ہے یا حج کے تمام مشاہد جیسے عرفہ اور مزدلفہ وغیرہ مراد ہیں اور اگر مقام ابراہیم سے وہ پتھر مراد ہو جس کی طرف ائمہ نماز پڑھتے ہیں اور جس پر بیت اللہ بنانے کے وقت ابراہیم (علیہ السلام) کھڑے ہوئے تھے اور اس پر آپ کے پاؤں کی انگلیوں کا نشان تھا پھر لوگوں کے ہاتھ پھیرنے سے مٹ گیا تو اس صورت میں من ابتدائیہ ہوگا اور یہ قول صحیح ہے اور حدیث جابر ؓ جو اول گذر چکی ہے اس پر دلالت بھی کرتی ہے اس کے موافق معنی آیت کے یہ ہیں کہ مقام ابراہیم کے قریب مسجد یا حرم میں نماز کی جگہ بناؤ نافع اور ابن عامر نے واتخذوا کی خاء کو فتح سے بصیعہ ماضی جعلنا پر عطف کرکے پڑھا ہے اور دیگر قراء نے بصیغہ امر کسرہ خا سے پڑھا ہے صیغہ امر کی صورت میں واتخذوا میں امت محمدیہ ﷺ کو خطاب ہوگا۔ انس ؓ سے روایت ہے کہ عمر ؓ نے فرمایا کہ میری رائے اتفاقاً میرے رب سے تین باتوں میں موافق آگئی یا یوں فرمایا کہ تین باتوں میں میرے رب نے مجھ سے موافقت فرمائی ایک تو یہ کہ میں نے عرض کیا تھا یا رسول اللہ میں اگر مقام ابراہیم کو مصلے ٰ بناؤ تو بہتر ہو اسی وقت اللہ تعالیٰ نے آیت واتخذوا .... نازل فرمائی۔ دوسری بات یہ کہ میں نے عرض کیا تھا یا رسول اللہ ﷺ آپ کی خدمت میں نیک کار اور بد کار سب ہی طرح کے آدمی آتے ہیں آپ امہات المؤمنین ( یعنی اواج مطہرات ؓ کو اگر پردہ کا حکم فرمادیں تو اچھا ہو اسی وقت اللہ نے پردہ کی آیت نازل فرمائی اور تیسرے یہ کہ مجھے یہ بات معلوم ہوئی کہ حضور ﷺ نے بیویوں پر عتاب فرمایا ہے یہ سن کر میں گیا اور کہا کہ یا تو تم اپنی حرکتوں سے باز آجاؤ ورنہ اللہ تعالیٰ اپنے رسول کو تمہارے بدلے تم سے بہتر بیویاں عطا فرمائے گا اسی وقت اللہ تعالیٰ نے آیت : عَسٰی رَبُّہٗ اِنْ طَلَّقَکُنَّ اَنْ یُّبْدِلَہٗ اَزْوَاجًا خَیْرًا مِّنْکُنَّ [ الایۃ ] ( اگر پیغمبر تم کو طلاق دے دیں تو کچھ بعید نہیں کہ ان کا پروردگار ان کو تمہارے عوض ایسی بیواں مرحمت فرمائے جو تم سے بہتر ہوں) ۔ اس حدیث کو بخاری نے ذکر کیا ہے امام ابوحنیفہ اور امام مالک (رح) نے اس آیت سے استنباط کیا ہے کہ طواف کے ہر سات پھیروں کے بعد دو رکعت پڑھنا واجب ہیں کیونکہ صیغہ امر وجوب کے لیے ہوتا ہے اور اگر صیغہ ماضی ہو تو ثبوت اور وجوب پر زیادہ دال ہے اور قیاس تو مقتضی تھا کہ یہ دو رکعتیں فرض ہوں کیونکہ نص قطعی موجود ہے لیکن چونکہ اس آیت کا نزول خاص اس نماز کے اندر احادیث احاد سے معلوم ہوا ہے اس لیے ہم ان دو رکعتوں کی فرضیت کے قائل نہیں ہوئے۔ نیز ان دو رکعتوں کا وجوب جناب رسول اللہ ﷺ کے ہمیشہ پڑھنے سے بھی ثابت ہوا اور کبھی ایک دو مرتبہ بھی ترک ثابت نہیں اور یہ خود آپ نے حج میں فرمایا ہی تھا کہ مجھ سے) یعنی میرے افعال دیکھ کر) اپنے حج کے طریقے سیکھ لو۔ ابن عمر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب حج یا عمرہ میں طواف فرماتے تو اوّل آتے ہی تین مرتبہ لپک کر طواف کرتے اور چار مرتبہ معمولی چال سے چلتے پھر دو رکعت ادا فرماتے پھر صفا مروہ کے درمیان چکر لگاتے اس حدیث کو بخاری و مسلم نے روایت کیا ہے اور بخاری میں تعلیقاً ( بلا سند) مروی ہے کہ اسماعیل بن امیہ کہتے ہیں کہ میں نے زہری سے پوچھا کہ عطا کہتے ہیں کہ فرض نماز طواف کی دو رکعتوں کے بدلے کافی ہے عطا نے فرمایا کہ سنت کی اقتدا افضل ہے رسول اللہ ﷺ جب کبھی سات پھیرے طواف کے فرماتے تو دو رکعتیں ضرور پڑھتے اور امام احمد بن حنبل فرماتے ہیں کہ صیغہ امر واتخذوا استحباب کے لیے ہے اور مالک (رح) سے بھی ایک روایت یہی ہے اور شافعی (رح) کے دو قول ہیں لیکن ان ائمہ کا اس امر کو استحباب پر حمل کرنا جائز نہیں کیونکہ اصل تو وجوب ہے اگر وجوب نہ بنے تو استحباب وغیرہ پر حمل کریں گے۔ طواف کی یہ دو رکعتیں تمام مسجد میں بلکہ مسجد کے باہر بھی بالاتفاق جائز ہیں اور صحیحین میں ام سلمہ ؓ سے روایت ہے کہ جناب رسول اللہ ﷺ نے حضرت ام سلمہ ؓ سے فرمایا کہ جب صبح کی جماعت ہو اور لوگ نماز پڑھتے ہوں تو تم اپنے اونٹ پر چڑھ کر طواف کرلینا۔ امّ سلمہ فرماتی ہیں کہ میں نے ایسا ہی کیا اور بعد طواف کے نماز نہ پڑھی حتیٰ کہ مسجد سے نکل آئے اور بخاری نے تعلیقاً روایت کیا ہے کہ عمر ؓ نے طواف کی رکعتیں حرم سے باہر ذی طویٰ میں پڑھیں۔ میں (مفسر) کہتا ہوں اس کی وجہ یہ ہے کہ اگر اس نماز کو ایک خاص جگہ کے ساتھ مقید کردیتے تو اس میں سخت تنگی ہوتی اور بہت سے ضروری امور میں تنگی مقام کی وجہ سے سہولت نہ ہوتی دیکھو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : فَاعْبُدُوا اللّٰہَ مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْن [ الایۃ ] (اللہ کی عبادت کرو خالص اس کے فرمانبردار ہو کر) اور رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے کہ اعمال نیتوں سے ہیں تو اس آیت اور حدیث سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ اگر اخلاص نیت سے نہ ہوں تو یہ عبادات درست ہی نہ ہوں لیکن اس میں ظاہر ہے کہ تنگی ہے اس لیے نماز اور حج میں تو شروع ہی میں نیت کا ہونا کافی سمجھا گیا اور زکوٰۃ میں قدر واجب مال کو علیحدہ کرنے کے وقت نیت کا ہونا ضروری قرار پایا اور روزہ میں اگر طلوع فجر کے وقت نیت کو مشروط کردیتے تو چونکہ یہ وقت خواب اور غفلت کا ہے اس لیے بہت دشواری ہوتی اس واسطے روزہ میں رات ہی سے نیت کرلینا کافی ہے بلکہ امام ابوحنیفہ (رح) کے نزدیک تو چاشت تک نیت جائز ہے اسی طرح یہاں بھی قیاس اسی کو چاہتا تھا کہ یہ طواف کی نما زبھی مقام ابراہیم کے پاس ہی جائز ہوتی کیونکہ ظاہر آیت کا منشا یہی ہے لیکن اس میں دشواری تھی اس لیے یہ نماز مسجد میں بلکہ تمام حرم میں جائز قرار دی گئی اور حرم کو تو اللہ تعالیٰ نے مسجد ہی فرمایا ہے۔ چناچہ فرمایا ہے : المسجد الحرام الَّذی جعلناہ للناس سوَاء نِ العَاکِفِ فِیْہِ والباد اور فرمایا ذٰلک لِمَن لَّم یَکُن اھلہ حاضری المسجد الحرام اور حضرت عمر ؓ نے جو ذی طوٰی میں طواف کی دو رکعتیں ادا فرمائیں تو کسی ضرورت سے واجب کو ادا فرمایا یا تفسیر ہی : واتَّخِذُوا مِنْ مَّقَامِ اِبْرَاھِیْمَ مُصلَّی کی اسی طرح کی جائے کہ جس سے شبہ ہی واقع نہ ہو وہ یہ ہے کہ مقام ابراہیم کا ذکر اس لیے فرمایا کہ غالب یہی تھا کہ جب ازدحام نہ ہوتا تھا تو یہ رکعتیں مقام کے پاس ادا کی جاتی تھیں مقام کا ذکر تقیید اور تعیین کے لیے نہیں ہے جیسا کہ آیت کریمہ : وَ رَبَاءِبُکُمْ الّٰتِیْ فِیْ حُجُوْرِکُمْ میں فی حجوُْرکُمْ کی قیدباعتبار غالب عادت کے ہے پس اگر کوئی مانع نہ ہو تو غالب عادت یہی ہے کہ یہ نماز مقام کے پاس ہی ادا کی جائے جیسا کہ (ر بائب کا حجور ( گود) میں ہونا غالب ہے ضروری نہیں۔ واللہ اعلم علامہ بغوی نے نقل کیا ہے کہ سعید بن جبیر ؓ نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا ہے کہ جب ابراہیم (علیہ السلام) نے ہاجرہ اور اسماعیل ( علیہ السلام) کو مکہ میں چھوڑ دیا اور اس قصہ پر ایک مدت گذر گئی اور وہاں جرہمی لوگ آئے اور اسماعیل ( علیہ السلام) نے ایک جرہمیہ عورت سے نکاح کرلیا ایک روز ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنی بی بی سارہ ( علیہ السلام) سے ہاجرہ کے پاس آنے کی اجازت چاہی انہوں نے اجازت دے دی لیکن یہ شرط کرلی کہ وہاں اتریں نہیں ابراہیم (علیہ السلام) مکہ تشریف لائے اس وقت ہاجرہ ( علیہ السلام) کی وفات ہوگئی تھی آپ اسماعیل ( علیہ السلام) کے گھر پر تشریف لائے اور حضرت اسماعیل ( علیہ السلام) کی بی بی سے دریافت کیا تمہارے خاوند کہاں ہیں اس نے کہا شکار کو گئے ہیں اسماعیل ( علیہ السلام) کی عادت تھی کہ حرم سے شکار کرنے کے لیے باہر جاتے تھے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے پوچھا کہ تمہارے پاس کچھ کھانے پینے کی شے بھی ہے اس نے کہا میرے پاس کچھ نہیں پھر ابراہیم نے ان کے گذران کا حال دریافت فرمایا۔ اس عورت نے کہا کہ ہم تو بڑی تنگی اور سختی میں ہیں اور بہت شکایت کی ابراہیم (علیہ السلام) نے سن کر فرمایا جب تمہارا خاوند آئے تو میری طرف سے سلام کہنا اور کہنا کہ اپنے دروازہ کی دہلیز بدل دے یہ کہہ کر ابراہیم چل دیئے جب اسماعیل ( علیہ السلام) شکار سے آئے تو باپ کی خوشبو معلوم ہوئی۔ اپنی بی بی سے پوچھا کیا یہاں کوئی آیا تھا۔ اس نے مری سی زبان سے کہا کہ ہاں ایک بڈھا ایسی ایسی صورت کا آیا تھا اسماعیل نے پوچھا کیا انہوں نے کچھ فرمایا جو کچھ ابراہیم (علیہ السلام) نے کہا تھا اس نے کہہ دیا اسماعیل ( علیہ السلام) نے کہا وہ میرے پدر بزرگوار تھے اور تجھ سے علیحدہ ہونے کا حکم فرما گئے ہیں اس لیے اب تو اپنے گھر جا میں نے تجھے طلاق دی پھر آپ نے اسی قوم میں سے ایک دوسری عورت سے نکاح کرلیا ایک مدت کے بعد ابراہیم (علیہ السلام) حضرت سارہ سے اجازت لے کر پھر تشریف لائے اسماعیل ( علیہ السلام) اس وقت بھی گھر پر موجود نہ تھے اس نئی زوجہ سے پوچھا کہ تمہارا خاوند کہاں ہے کہا شکار کے لیے گئے ہیں اور اب انشاء اللہ تعالیٰ آرہے ہیں ہوں گے آپ تشریف رکھئے ابراہیم (علیہ السلام) نے دریافت کیا کہ کچھ کھانے پینے کی چیز بھی تمہارے پاس ہے ؟ کہا ہاں بہت اسی وقت دودھ اور گوشت لائی پھر ابراہیم (علیہ السلام) نے ان کی گذران کا حال دریافت فرمایا اس عورت نے کہا بفضل خدا ہم خوب فراخی میں ہیں ابراہیم (علیہ السلام) نے ان دونوں میاں بیوی کے لیے دعائے برکت فرمائی اگر وہ اس وقت گیہوں یا جو کی روٹی یا کھجوریں ابراہیم کے سامنے پیش کرتی تو آپ کی دعا کی برکت سے زمین میں گیہوں جو کھجوریں بہت ہوجاتیں پھر اسماعیل کی زوجہ نے عرض کیا کہ آپ سواری سے نیچے تشریف لائیے میں آپ کا سر مبارک دھودوں۔ لیکن آپ نہ اترے وہ فوراً ایک پتھر ( یعنی مقام ابراہیم) لائی اور اس کو دائیں طرف رکھا ابراہیم نے اس پر اپنا قدم مبارک رکھا اس نے سر کے دائیں جانب دھویا پھر پتھر کو بائیں طرف رکھا ابراہیم (علیہ السلام) نے اس پر اپنا قدم مبارک رکھا اس نے سر کے دائیں جانب دھویا پھر پتھر کو بائیں طرف رکھا آپ نے اس طرف جھک کر بائیں جانب دھویا اس پتھر پر آپ کے قدم مبارک کا نشان ہوگیا۔ پھر چلتے وقت فرمایا کہ جب تمہارا خاوند آئے تو میری طرف سے سلام کہنا اور کہہ دینا کہ تمہارے دروازے کی چوکھٹ اب خوب درست ہے اسے نہ اکھاڑنا جب اسماعیل ( علیہ السلام) گھر تشریف لائے تو باپ کی خوشبو معلوم کرکے پوچھا کوئی یہاں آیا تھا زوجہ نے عرض کیا ہاں ایک ضعیف سے آدمی بڑے خوبصورت اور بڑی خوشبو والے آئے تھے اور مجھ سے یہ یہ باتیں ہوئیں اور میں نے ان کا سر دھویا اور دیکھئے اس پتھر پر انکے قدم کا نشان ہوگیا۔ اسماعیل نے سن کر فرمایا وہ ابراہیم (علیہ السلام) میرے باپ تھے اور چوکھٹ سے مراد تو ہے یہ فرما گئے کہ اسے اپنے پاس رکھو۔ پھر چند روز کے بعد ابراہیم (علیہ السلام) تشریف لائے اس وقت اسماعیل ( علیہ السلام) زمزم کے قریب ایک درخت کے نیچے تیر تراش رہے تھے باپ کو دیکھتے ہی کھڑے ہوگئے اور آداب بجا لائے انہوں نے دعائے خیر کی پھر ابراہیم (علیہ السلام) نے فرمایا اسماعیل ! مجھے اللہ نے ایک بات کا حکم دیا ہے تو میری اس میں اعانت کیجئے اسماعیل نے عرض کیا میں ضرور امداد کروں گا ارشاد فرمایا اللہ تعالیٰ نے ایک گھر بنانے کا حکم دیا ہے یہ کہہ کر ابراہیم (علیہ السلام) مستعد ہوگئے اور خانہ کعبہ کی بنیادیں اٹھائیں اور اسماعیل پتھر لاتے تھے اور ابراہیم (علیہ السلام) بناتے تھے جب دیواریں بلند ہوگئیں تو اس پتھر یعنی مقام ابراہیم کو لائے ابراہیم (علیہ السلام) اس پر کھڑے ہو کر تعمیر کرتے اور اسماعیل ( علیہ السلام) بدستور پتھر پکڑاتے اور رَبَنَا تَقَبَّل منا انک انت السمیع العلیم پڑھتے جاتے حدیث شریف میں آیا ہے کہ رکن اور مقام جنت کے یاقوتوں میں سے دو یاقوت ہیں اس حدیث کو امام مالک نے انس ؓ سے مرفوعاً روایت کیا ہے اور ابن عمر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ رکن اور مقام یہ دونوں جنت کے یاقوت ہیں اللہ تعالیٰ نے ان کے نور کو سلب کردیا ہے اور اگر ان کا نور رہتا تو یہ مشرق سے مغرب تک کو روشن کردیتے۔ بزرگان دین یہاں سے یہ استنباط کرتے ہیں کہ جس جگہ اولیاء اللہ میں سے کوئی شخص ایک مدت تک رہے وہاں آسمان سے تبرکات اور سکینہ اترتی ہے اور اس کے سبب اللہ تعالیٰ کی طرف دل کھینچتے ہیں اور وہاں نیک کام پر جیسے اجر زیادہ ملتا ہے ویسے ہی وہاں گناہ کرنے پر عذاب بھی دوگنا لکھا جاتا ہے۔ وَعَهِدْنَآ اِلٰٓى اِبْرٰهٖمَ وَاِسْمٰعِيْلَ ( اور کہہ دیا ہم نے ابراہیم و اسماعیل سے) یعنی ہم نے ان دونوں کو حکم دیا اور ان کو نصیحت کی۔ اَنْ طَهِّرَا ( کہ پاک صاف رکھو) یہاں یا تو باء جارہ مقدر ہے اور یا اَنْ کو مفسرہ کہا جائے کیونکہ عہد بمعنی قول ہے۔ بَيْتِىَ ( میرے گھر کو) اللہ تعالیٰ نے خانہ کعبہ کو اپنی ذات پاک کی طرف اس کی فضیلت دینے کو نسبت فرمادیا ورنہ حق تعالیٰ ظاہر ہے کہ مکان سے پاک ہے معنی یہ ہیں کہ اس گھر کو طہارت اور توحید پر بناؤ اور سعید بن جبیر اور عطا نے فرمایا اس کے یہ معنی ہیں کہ بتوں اور جھوٹ اور بری باتوں سے اسے پاک رکھو اور بعض مفسرین نے فرمایا مطلب یہ ہے کہ اس میں خوشبو جلاؤ اور خوب پاک صاف رکھو۔ نافع، ہشام اور حفص نے یہاں اور سورة حج میں حفص نے سورة نوح میں بھی بیتی کی یا کو فتح سے پڑھا ہے۔ لِلطَّاۗىِٕفِيْنَ وَالْعٰكِفِيْنَ وَالرُّكَّعِ السُّجُوْدِ ( طواف کرنے والوں اور مجاہدہ کرنے والوں اور رکوع سجدہ کرنے والوں کے لیے) یعنی جو لوگ وہاں مقیم ہیں یا جو اس میں اعتکاف کرنے والے ہیں اور الرُّکَّعِ السُّسجُوْدِجمع ہے راکع اور ساجد کی اس سے مراد نما زپڑھنے والے ہیں۔
Top