Tafseer-e-Mazhari - Al-Baqara : 137
فَاِنْ اٰمَنُوْا بِمِثْلِ مَاۤ اٰمَنْتُمْ بِهٖ فَقَدِ اهْتَدَوْا١ۚ وَ اِنْ تَوَلَّوْا فَاِنَّمَا هُمْ فِیْ شِقَاقٍ١ۚ فَسَیَكْفِیْكَهُمُ اللّٰهُ١ۚ وَ هُوَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُؕ
فَاِنْ : پس اگر اٰمَنُوْا : وہ ایمان لائیں بِمِثْلِ : جیسے مَا آمَنْتُمْ : تم ایمان لائے بِهٖ : اس پر فَقَدِ اهْتَدَوْا : تو وہ ہدایت پاگئے وَاِنْ : اور اگر تَوَلَّوْا : انہوں نے منہ پھیرا فَاِنَّمَا هُمْ : تو بیشک وہی فِي شِقَاقٍ : ضد میں فَسَيَكْفِيکَهُمُ : پس عنقریب آپ کیلئے ان کے مقابلے میں کافی ہوگا اللّٰہُ : اللہ وَ : اور هُوْ : وہ السَّمِيعُ : سننے والا الْعَلِيمُ : جاننے والا
تو اگر یہ لوگ بھی اسی طرح ایمان لے آئیں جس طرح تم ایمان لے آئے ہو تو ہدایت یاب ہو جائیں اور اگر منہ پھیر لیں (اور نہ مانیں) تو وہ (تمھارے) مخالف ہیں اور ان کے مقابلے میں تمھیں خدا کافی ہے۔ اور وہ سننے والا (اور) جاننے والا ہے
فَاِنْ اٰمَنُوْا بِمِثْلِ مَآ اٰمَنْتُمْ بِهٖ ( سو اگر ایمان لادیں وہ جس طرح تم ایمان لائے ہو) بِمثْلِ مَا اٖمَنْتُمْ میں باء زائد ہے جیسے جَزَاءُ سَیِّءَۃٍ بمثْلِھَا میں باء زائد ہے مطلب یہ ہے کہ اگر وہ تمہارے ایمان لانے کی طرح ایمان لاویں۔ یا یہ کہا جائے کہ مثل کا لفظ بیچ میں زائد ہے جیسے کہ آیت کریمہ : وَ شَھِدَ شَاھِدٌ مِّنْ بَنِیْ اِسْرَآءِیْلَ عَلٰی مِثْلِہٖ میں مثل کا لفظ زائد کہا گیا ہے اور ابن عباس ؓ کی قرأت فَاِنْ اٰمَنُوْا بِمَا اٰمَنْتُمْ بِہٖ اس اخیر توجیہ کی مؤید بھی ہے۔ فَقَدِ اھْتَدَوْا ۚ وَاِنْ تَوَلَّوْا فَاِنَّمَا ھُمْ فِيْ شِقَاقٍ ( تو بیشک ہدایت پائیں گے اور اگر انحراف کریں تو بس وہی ضد پر ہیں) یعنی جانب حق کے خلاف ہیں اور بعض نے شقاق کی تفسیر عداوت سے بھی کی ہے۔ فَسَيَكْفِيْكَهُمُ اللّٰهُ ( سو کافی ہے تمہاری طرف سے ان کو اللہ) (1) [ بطریق متعددہ مروی ہے کہ مصری لوگ حضرت عثمان غنی ؓ پر چڑھ کر آئے اور ان کا محاصرہ کرلیا اور حضرت عثمان کے پاس گھر میں پہنچے اس وقت ان کے سامنے قرآن شریف کھلا رکھا تھا، تلوار سے حضرت کے ہاتھ پر وار کیا خون جو جاری ہوا تو آیت : فسیکیفکم اللہ و ھوالسمیع العلیم پر گرا۔ حضرت عثمان غنی ؓ نے فرمایا اسلام میں یہ پہلا ہاتھ ہے جو ناحق قطع کیا گیا۔ کہا جاتا ہے کہ ان اشقیا میں سے کوئی اچھی حالت میں نہیں مرا۔ 12 منہ ] یہ مؤمنین کے لیے حفاظت اور نصرت کا وعدہ ہے چناچہ حق تعالیٰ نے اس وعدہ کو اس طرح پورا فرمایا کہ اہل کتاب میں سے بنو نضیر کو تو جلا وطن کرادیا اور قریظہ کو قتل کرادیا اور یہود و نصاریٰ پر جزیہ مقرر ہوگیا۔ وَھُوَ السَّمِيْعُ الْعَلِيْمُ ( اور وہ سننے والا واقف کار ہے) یعنی اللہ تعالیٰ مؤمنین اور کفار کے اقوال کو سننا اور ان کی نیتوں اور حالوں سے واقف ہے ہر ایک کو اس کے کئے کی جزا ملے گی۔
Top