Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
177
178
179
180
181
182
183
184
185
186
187
188
189
190
191
192
193
194
195
196
197
198
199
200
201
202
203
204
205
206
207
208
209
210
211
212
213
214
215
216
217
218
219
220
221
222
223
224
225
226
227
228
229
230
231
232
233
234
235
236
237
238
239
240
241
242
243
244
245
246
247
248
249
250
251
252
253
254
255
256
257
258
259
260
261
262
263
264
265
266
267
268
269
270
271
272
273
274
275
276
277
278
279
280
281
282
283
284
285
286
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Tafseer-e-Mazhari - Al-Baqara : 143
وَ كَذٰلِكَ جَعَلْنٰكُمْ اُمَّةً وَّسَطًا لِّتَكُوْنُوْا شُهَدَآءَ عَلَى النَّاسِ وَ یَكُوْنَ الرَّسُوْلُ عَلَیْكُمْ شَهِیْدًا١ؕ وَ مَا جَعَلْنَا الْقِبْلَةَ الَّتِیْ كُنْتَ عَلَیْهَاۤ اِلَّا لِنَعْلَمَ مَنْ یَّتَّبِعُ الرَّسُوْلَ مِمَّنْ یَّنْقَلِبُ عَلٰى عَقِبَیْهِ١ؕ وَ اِنْ كَانَتْ لَكَبِیْرَةً اِلَّا عَلَى الَّذِیْنَ هَدَى اللّٰهُ١ؕ وَ مَا كَانَ اللّٰهُ لِیُضِیْعَ اِیْمَانَكُمْ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ بِالنَّاسِ لَرَءُوْفٌ رَّحِیْمٌ
وَكَذٰلِكَ
: اور اسی طرح
جَعَلْنٰكُمْ
: ہم نے تمہیں بنایا
اُمَّةً
: امت
وَّسَطًا
: معتدل
لِّتَكُوْنُوْا
: تاکہ تم ہو
شُهَدَآءَ
: گواہ
عَلَي
: پر
النَّاسِ
: لوگ
وَيَكُوْنَ
: اور ہو
الرَّسُوْلُ
: رسول
عَلَيْكُمْ
: تم پر
شَهِيْدًا
: گواہ
وَمَا جَعَلْنَا
: اور نہیں مقرر کیا ہم نے
الْقِبْلَةَ
: قبلہ
الَّتِىْ
: وہ کس
كُنْتَ
: آپ تھے
عَلَيْهَآ
: اس پر
اِلَّا
: مگر
لِنَعْلَمَ
: تاکہ ہم معلوم کرلیں
مَنْ
: کون
يَّتَّبِعُ
: پیروی کرتا ہے
الرَّسُوْلَ
: رسول
مِمَّنْ
: اس سے جو
يَّنْقَلِبُ
: پھرجاتا ہے
عَلٰي
: پر
عَقِبَيْهِ
: اپنی ایڑیاں
وَاِنْ
: اور بیشک
كَانَتْ
: یہ تھی
لَكَبِيْرَةً
: بھاری بات
اِلَّا
: مگر
عَلَي
: پر
الَّذِيْنَ
: جنہیں
ھَدَى
: ہدایت دی
اللّٰهُ
: اللہ
وَمَا كَانَ
: اور نہیں
اللّٰهُ
: اللہ
لِيُضِيْعَ
: کہ وہ ضائع کرے
اِيْمَانَكُمْ
: تمہارا ایمان
اِنَّ
: بیشک
اللّٰهَ
: اللہ
بِالنَّاسِ
: لوگوں کے ساتھ
لَرَءُوْفٌ
: بڑا شفیق
رَّحِيْمٌ
: رحم کرنے والا
اور اسی طرح ہم نے تم کو امتِ معتدل بنایا ہے، تاکہ تم لوگوں پر گواہ بنو اور پیغمبر (آخرالزماں) تم پر گواہ بنیں۔ اور جس قبلے پر تم (پہلے) تھے، اس کو ہم نے اس لیے مقرر کیا تھا کہ معلوم کریں، کون (ہمارے) پیغمبر کا تابع رہتا ہے، اور کون الٹے پاؤں پھر جاتا ہے۔ اور یہ بات (یعنی تحویل قبلہ لوگوں کو) گراں معلوم ہوئی، مگر جن کو خدا نے ہدایت بخشی (وہ اسے گراں نہیں سمجھتے) اور خدا ایسا نہیں کہ تمہارے ایمان کو یونہی کھو دے۔ خدا تو لوگوں پر بڑا مہربان (اور) صاحبِ رحمت ہے
وَكَذٰلِكَ ( اور اسی طرح) اے امت محمد ﷺ ذالِکَکا مشارٌ الیہ یا تو پہلی آیت کا مضمون ہے اس صورت میں حاصل ہوگا کہ جس طرح ہم نے تم کو سیدھی راہ کی ہدایت کی اسی طرح تم کو امت معتدل اور بہتر بنایا اور یا آیت وَلَقَدِ اصْطَفَیْنَاہُ فِی الدُّنْیَا [ الایۃ ] کے مضمون کی طرف اشارہ ہے اس تقدیر پر یہ معنی ہوں گے کہ جس طرح ہم نے ابراہیم (علیہ السلام) کو برگزیدہ کیا اسی طرح تم کو بہتر امت بنایا جَعَلْنٰكُمْ اُمَّةً وَّسَطًا ( ہم نے تم کو بنایا ہے امت معتدل) یعنی ہم نے تم کو دوسروں سے بہتر اور عادل علم و عمل و معرفت سے آراستہ بنایا۔ امام احمد اور حاکم نے بروایت حضرت ابو سعید خدری ؓ مرفوعاً بیان کیا اور اس حدیث کو صحیح بھی قرار دیا کہ وَسَطًا کے معنی ہیں عدلاً ( معتدل) لفظ وَسَطْ ایسی درمیانی جگہ کو کہتے ہیں جس کے ہر جانب کا فاصلہ برابر ہو پھر خصائل محمودہ کے لیے مجازاً اس کا استعمال کیا جانے لگا کیونکہ اچھے خصائل افراط وتفریط کے درمیان ہی ہوتے ہیں جیسے جود اسراف اور بخل کے درمیانی درجہ کا نام ہے اور شجاعت تہور اور بزدلی کے بین بین ہے پھر اس کا اطلاق خود اس شخص پر ہونے لگا جو خصائل محمودہ سے آراستہ ہو۔ واحد و جمع مذکر اور مؤنث سب پر اس کا اطلاق آتا ہے چناچہ دوسرے مقام پر حق تعالیٰ فرماتا ہے : قَالَ اَوْسَطُھُمْ ( کہا اس شخص نے جو ان میں سے بہتر تھا) یہاں اوسط کا اطلاق واحد پر آیا ہے۔ کلبی کہتے ہیں کہ اس آیت میں مضاف محذوف ہے اور مضاف الیہ کو اس کے قائم مقام کردیا ہے۔ تقدیر آیت کی یہ ہے : جَعَلْنٰکم اھل دین وسط یعنی ہم نے تم کو دین وسط والا بنایا۔ اسلام کو دین وسط اس وجہ سے فرمایا کہ احکام شرعیہ میں نہ افراط ہے نہ تفریط علماء نے اس آیت کو اجماع امت محمدیہ کے احکام میں حجت ہونے کی دلیل ٹھہرایا ہے کیونکہ اگر مسئلہ اجماعی واجب القبول نہ ہو تو امت کا غیر عادل ہونا لازم آئے گا۔ اگر اعتراض کیا جائے کہ یہ مسلم ہے کہ مجتہد اگر اپنے اجتہاد میں خطا کرے تو اس سے اس کی عدالت میں کوئی نقصان نہیں ہوتا تو اب اگر خطا پر سب کا اتفاق ہوجائے تو اس سے یہ کیسے لازم آیا کہ ان کی عدالت میں کچھ نقصان ہے تو جواب اس کا یہ ہے کہ اوّل ہم کہہ چکے ہیں کہ لفظ وسط کا اطلاق مجازی اوّل خصائل حمیدہ پر ہوتا ہے پھر اس شخص پر اطلاق ہونے لگا جو ان خصائل کے ساتھ متصف ہو اور کلبی کے قول کے موافق وسط سے پہلے لفظ دین محذوف ہے بہر حال خواہ خود امت کو وَسَطَ کہا جائے یا ان کے دین کو وَسَطَ کہیں ہر حال میں اس آیت سے یہ صاف سمجھا جاتا ہے کہ اس دین کے احکام اور ان کے خصائل سب کے سب محمود ہیں تو اجماع میں خطا واقع ہونے سے اگرچہ وہ معذور قرار دیئے جائیں گے لیکن یہ ضرور سمجھا جائے گا کہ بعض خصائل ان کی مذموم ہیں تو تمام خصائل کا محمود ہوناجو آیت سے معلوم ہوتا ہے کس طرح ثابت ہوگا۔ حضرت ابو سعید خدری ؓ سے مروی ہے کہ ایک روز سرور عالم ﷺ بعد عصر کے کھڑے ہوئے اور جو کچھ قیامت تک واقعات ہونے والے تھے آپ ﷺ نے ایک ایک کا ذکر فرمایا حتیٰ کہ جب دھوپ درختوں کی چوٹیوں اور دیواروں کی منڈیروں پر چلی گئی تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ دنیا کی عمراب اتنی ہی باقی ہے جس قدر کہ یہ دن باقی ہے اور اسی قدر گزر چکی ہے جس قدر کہ دن گذر چکا ہے یاد رکھو کہ یہ امت ( یعنی امت محمدیہ) ستر امتوں کا کام دیتی ہے اور ان سب سے اللہ کے نزدیک یہ امت بہتر اور بزرگ ہے۔ اس حدیث کو علامہ بغوی نے روایت کیا ہے اور ترمذی، ابن ماجہ اور دارمی نے اس کو بروایت بہز بن حکیم بیان کیا ہے۔ دارمی نے یہ بھی نقل کیا ہے کہ حضرت ابن عباس نے کعب احبار سے دریافت کیا کہ رسول اللہ ﷺ کے اوصاف کا بیان تورات میں کس طرح ہے ؟ انہوں نے کہا ہم نے تورات میں لکھا پایا ہے کہ وہ محمد بن عبد اللہ ہیں مکہ میں پیدا ہوں گے اور طابہ (مدینہ) کی طرف ہجرت فرمائیں گے اور ملک شام ان کے قبضہ میں ہوجائے گا نہ وہ بد زبان ہوں گے اور نہ بازاروں میں شور مچانے والے اور برائی کے بدلہ میں برائی نہ کریں گے بلکہ در گذر کریں گے ان کی امت اللہ تعالیٰ کی حمد بہت کرنے والی ہوگی ہر سختی اور نرمی خوشی اور غم کی حالت میں اللہ کی حمد کرے گی بلند جگہ پر چڑھتے ہوئے تکبیر کہنے والی اور اپنے دست و پا کو وضو سے منور کرنے والی ہوگی وسط کمر پر تہ بند باندھیں گے نمازوں میں ایسی صف بندی کریں گے جیسے کہ لڑائی میں۔ مسجدوں میں ان کی آوازیں شہد کی مکھی کی آواز سی نرم اور پست ہوں گی لیکن نہ اتنی پست کہ دوسرا ( پاس والا) نہ سن سکے۔ لِّتَكُوْنُوْا شُهَدَاۗءَ عَلَي النَّاسِ ( تاکہ بنو تم گواہ لوگوں پر) یعنی قیامت کے روز امت محمدیہ حق تعالیٰ کے سامنے گواہی دے گی کہ انبیاء نے اپنی امت کو احکام پہنچا دئے یہی معنی گواہ ہونے کے ہیں اور لِتَکُوْنوا [ الایۃ ] امت محمدیہ ﷺ کے عادل بنانے کی علت ہے۔ اس آیت سے یہ بھی سمجھا جاتا ہے کہ شہادت کے لیے عدالت شرط ہے وَيَكُـوْنَ الرَّسُوْلُ عَلَيْكُمْ شَهِيْدًا (اور ہوجائے رسول تم پر گواہ) رسول سے مراد محمد ﷺ ہیں۔ رسول اللہ ﷺ کے گواہ ہونے کے یہ معنی ہیں کہ قیامت میں آپ ﷺ اپنی امت کے گواہ اور مز کی ہوں گے اور گواہ چونکہ مثل رقیب یعنی نگراں کے ہوتا ہے اور رقیب کا صلہ علیٰ آتا ہے اس لیے شہید کا صلہ بھی علیٰ لائے اگرچہ بظاہر لام لانا مناسب معلوم ہوتا تھا۔ علامہ محمد حسین بغوی فرماتے ہیں کہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اوّلین و آخرین کو ایک جگہ جمع کرے گا پھر گذشتہ امتوں کے کفار سے خطاب کرکے فرمائے گا کیا تمہارے پاس کوئی ڈرانے والا نہیں پہنچا ؟ وہ صاف انکار کردیں گے کہ ہمارے پاس کوئی نہیں آیا پھر اللہ تعالیٰ انبیاء سے دریافت فرمائے گا انبیاء متفق اللفظ ہو کر کہیں گے کہ اے اللہ ہم پیام پہنچا چکے یہ صریح جھوٹ بولتے ہیں۔ اللہ باوجودیکہ عالم الغیب ہے مگر اتمام حجت کے لیے انبیاء سے گواہ طلب فرمائے گا۔ اس وقت امت محمد ﷺ حاضر ہوگی اور گواہی دے گی کہ انبیا نے سب احکام انہیں پہنچا دیئے ہیں۔ کفار بولیں گے انہیں کیسے معلوم ہوا کہ پہنچا چکے یہ تو ہم سے برسوں بعد پیدا ہوئے ہیں امت محمدیہ ﷺ جواب دے گی کہ حق تعالیٰ نے ہمارے پاس رسول بھیجا اور اس پر کتاب نازل فرمائی اس میں ہم کو خبر دی کہ سب انبیاء نے اپنی اپنی امت کو احکام پہنچا دیئے ہیں اور اللہ تعالیٰ سب سچوں سے زیادہ سچا ہے اس کے بعد محمد ﷺ بلائے جائیں گے اور امت کی حالت ان سے پوچھی جائے گی آپ ان کی سچائی اور عدالت کی گواہی دیں گے۔ بخاری ‘ ترمذی اور نسائی نے ابو سعید خدری ؓ کی روایت سے بیان کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ قیامت کے دن نوح ( علیہ السلام) بلائے جائیں گے اور ان سے دریافت کیا جائے گا کیا تبلیغ کی ؟ نوح ( علیہ السلام) عرض کریں گے۔ پروردگار میں نے بیشک تیرا پیام پہنچا دیا اس کے بعد اللہ تعالیٰ ان کی امت سے دریافت فرمائے گا کہ تم کو نوح ( علیہ السلام) نے احکام پہنچائے وہ کہیں گے کہ ہمارے پاس تو کوئی آیا نہیں پھر نوح ( علیہ السلام) سے پوچھا جائے گا کہ تمہارا کوئی گواہ ہے نوح ( علیہ السلام) عرض کریں گے میرے گواہ محمد ﷺ اور ان کی امت ہے۔ حضور فرماتے ہیں کہ پھر تم وہاں آکر گواہی دو گے۔ پھر آپ نے آیت : وَ کَذٰلِکَ جَعَلْنَاکُمْ اُمَّۃً وَّسَطًا لِّتَکُوْنُوْا شُھَدَآءَ عَلَی النَّاسِ.... پڑھی اور فرمایا تم تو نوح ( علیہ السلام) کی تبلیغ کی گواہی دو گے اور میں تمہاری گواہی دوں گا۔ امام احمد نسائی اور بیہقی نے ابو سعید خدری ؓ کی روایت سے اس طرح بیان کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا قیامت کے دن ایک نبی آئیں گے کہ ان کے ساتھ صرف ایک ہی آدمی ان کا امتی ہوگا پھر ایک اور نبی آئیں گے ان کے ساتھ دو آدمی ہوں گے اسی طرح آتے رہیں گے اللہ تعالیٰ ان سب سے دریافت فرمائیں گے کہ تم نے تبلیغ کی سب کہیں گے کہ خدا وندا کی تھی پھر ان کی امتوں سے دریافت کیا جائے گا کہ انہوں نے تمہیں احکام پہنچائے ؟ وہ سب انکار کریں گے پھر انبیاء سے گواہ طلب کئے جائیں گے وہ امت محمد ﷺ کو پیش کریں گے پھر امت محمدیہ سے پوچھا جائے گا کہ تمہیں کس طرح معلوم ہوا عرض کریں گے ہمارے پاس نبی کتاب لے کر آئے اس میں یہ بھی تھا کہ انبیاء (علیہم السلام) نے اپنی امت کو احکام پہنچائے ہم نے اس کی تصدیق کی کہا جائے گا بیشک تم سچ کہتے ہو۔ وَمَا جَعَلْنَا الْقِبْلَةَ الَّتِىْ كُنْتَ عَلَيْهَآ ( اور انہیں بنایا تھا ہم نے وہ قبلہ جس پر آپ پہلے تھے) جَعَلَ یا تو ایک مفعول کی طرف متعدی ہے اس تقدیر پر التی اپنے ما بعد سے مل کر القبلہ کی صفت ہوگا اور مضاف محذوف ہوگا تقدیر عبارت کی اس طرح ہوگی : وَ مَا جَعَلْنَا تَحْوِیل القبِلَْۃَ الَّتِیْ کُنْتَ عَلَیْھَا (یعنی نہیں کی ہم نے تبدیل اس قبلہ کی جس پر آپ پہلے سے تھے مگر اس لیے .......) اور قبلہ سے مراد اس وقت بیت المقدس ہوگا یا دو مفعولوں کی طرف متعدی ہے اور مفعول ثانی مخذوف ہے اس صورت میں تقدیر آیت کی یہ ہوگی : وَ مَا جَعَلْنَا الْقِبْلَۃَ الَّتِیْ کُنْتَ عَلَیْھَا مَنْسُوْخَۃً ( یعنی نہیں کیا ہم نے اس قبلہ کو جس پر آپ پہلے سے تھے منسوخ مگر اس لیے۔۔ ) اور یہ بھی ممکن ہے کہ القبلہ۔ ما جعلنا کا مفعول اوّل ہو اور الجہۃ محذوف ہو اور الَّتِیْ اپنے ما بعد سے مل کر اسی محذوف لفظ کی صفت ہو۔ اس صورت میں حاصل آیت کا یہ ہوگا کہ اصل تو یہی تھا کہ قبلہ بیت اللہ ہو لیکن ہم نے جو اول بیت المقدس کو قبلہ بنا دیا تو وجہ اس کی یہ ہے ...... اور ہوسکتا ہے کہ معنی آیت کے یہ ہوں کہ نہیں بنایا ہم نے قبلہ اس قبلہ کو جس پر اس وقت آپ ہیں یعنی کعبہ کو مگر اس لیے۔۔ بعض مفسرین نے کہا ہے کہ معنی آیت کے یہ ہیں کہ نہیں بنایا ہم نے قبلہ اس وقت اس جہت کو جس پر آپ پہلے ہجرت سے تھے یعنی کعبہ کو مگر اس واسطے ........ اور یہ تفسیر اس پر مبنی ہے کہ یہ ثابت ہوجائے کہ حضور سرور عالم ﷺ نے قبل از ہجرت کعبہ کی طرف نماز پڑھی ہے اور اس تفسیر کے موافق یہ بھی لازم آتا ہے کہ نسخ قبلہ کا دو مرتبہ ہو۔ نیز آیت : سَیَقُوْلُ السُّفَھَآءُ..... کی رفتار اور طرز سے جو سمجھا جاتا ہے یہ تفسیر اس کے مخالف ہے یہاں اَلَّتِیْ کَانُوْا عَلَیْھَا سے مراد قطعاً بیت المقدس ہے اس کے موافق اس آیت میں اَلَّتِیْ کُنْتَ عَلَیْھَا سے بھی بیت المقدس ہی ہونا چاہئے۔ قیاس مقتضی تھا کہ عبارت اس طرح ہو وَ مَا جَعَلْنَا الَّتِیْ کُنْتَ عََلَیْھَا قِبْلَۃً یعنی الَّتِیْ کُنْتَ عَلَیْھَا مقدم ہوا اور قبلۃً موخر لیکن اظہار اہمیت کے لیے قبلہ کو اوّل مفعول بنایا یوں کہو کہ یہ عبارت باب قلب سے ہے۔ اِلَّا لِنَعْلَمَ مَنْ يَّتَّبِـــعُ الرَّسُوْلَ ( مگر اس واسطے کہ ہم معلوم کرلیں ان لوگوں کو جو پیروی کریں رسول کی) یعنی تبدیل قبلہ اس غرض سے ہوئی ہے تاکہ ہم اس شخص کو جان لیں جو نماز میں رسول اللہ ﷺ کا اتباع کرتا ہے کہ جس طرف آپ بحکم الٰہی توجہ فرماتے اسی طرف متوجہ ہوجاتا ہے اور ایسا شخص ان لوگوں میں سے جو الٹے پاؤں پھرجائیں یعنی اطاعت نہ کریں متمیز ہوجائے۔ مِمَّنْ يَّنْقَلِبُ عَلٰي عَقِبَيْهِ ( الگ ان لوگوں سے جو پھرجائیں الٹے پاؤں) اس سے مراد وہ لوگ ہیں جو تحویل قبلہ کے بعد مرتد ہوگئے تھے۔ چناچہ حدیث میں وارد ہوا ہے کہ جب قبلہ کی تحویل واقع ہوئی تو مسلمانوں میں سے ایک قوم یہودی بن گئی اور یہ کہا کہ محمد ﷺ پھر اپنے باپ دادا کے دین پر ہوگئے۔ اِلَّا لِنَعْلَمَ ۔ علَم یا تو بمعنی معرفت ہے اور مَنْ یَّتَّبِعُ ۔ لِنَعْلَمَ کا مفعول ہے اور مِمَّنْ یَنْقَلِبُ ۔ لِنَعلم کے متعلق ہے اور مَنْ کے اندر جو معنی استفہام کے ہیں اس کے متعلق ہے یا مَنْ کو موصولہ اور لنعلم کا مفعول کہا جائے اور مِمَّنْ یَنْقَلِبُ کو مفعول ثانی قرار دیا جاوے۔ اس صورت میں معنی یہ ہوں گے تاکہ ہم اس شخص کو جو رسول کی پیروی کرتا ہے جدا جان لیں اس شخص سے جو الٹے پاؤں پھرے “ اس مقام پر ایک سوال مشہور ہے وہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کا علم قدیم تحویل قبلہ کی غایت کس طرح بن سکتا ہے وہ تو پہلے ہی سے ہر شخص کی حالت جانتا ہے اس کے مختلف جواب دیئے گئے ہیں ایک جواب یہ ہے کہ اہل معافی نے کہا ہے کہ لام تعلیل کے لیے ہے غایت کا نہیں ہے اور صیغہ مضارع کا بمعنی ماضی ہے جیسے فَلِمَ تَقْتُلُوْنَ اَبْبِیَاء اللّٰہمیں مضارع بمعنی ماضی ہے تو اس جواب کے معنی اس طرح ہوں گے کہ ” تحویل قبلہ اس وجہ سے ہوئی کہ پہلے سے ہم رسول کی پیروی کرنے والے کو غیر مطیع اور الٹے پھرجانے والے سے ( الگ) جانتے ہیں یعنی ہم اوّل سے جانتے تھے کہ تحویل قبلہ ایک قوم کی ہدایت کا سبب ہے اور ایک قوم کی گمراہی کا سبب ہے۔ بعض (1) [ اللہ کا علم ازلی قدیم محیط کل ہے وہ ہر چیز کو اس پیدائش سے بہت پہلے ازل میں ہی جانتا تھا یہ علم زمانہ اور زمانیات سے پاک ہے اور اجمالی ہے لیکن اجمالی ہے لیکن اجمالی ناقص نہیں۔ ہمارا اجمالی علم ناقص ہوتا ہے البتہ اللہ کا اجمالی علم ناقص نہیں ہوتا ( جمالی کہنے کی صرف یہ وجہ ہے کہ ہر چیز کے وجود سے پہلے بحیثیت مجموعہ انکشاف ہوتا ہے اس کا تعلق حدوث شئ سے نہیں ہوتا یعنی شئ کے وجود بالفعل پر موقوف نہیں اس لیے یہ اللہ کی صفت کمالیہ ہے لیکن اللہ کو ایک دوسرا علم بھی ہوتا ہے جس کو تمیز یا ظہور فعلی کہہ سکتے ہیں یہ علم حادث ہوتا ہے شۂ کے وجود کے بعد ہوتا ہے اسی لیے یہ اللہ کی صفت کمالیہ نہیں۔ حضرت مؤلف نے دونوں طرح کے علم کی طرف اشارہ کردیا اور دوسری شق میں علم حادث کی طرف ] نے یہ جواب دیا ہے کہ علم سے مراد تمیز ہے جو علم کا سبب ہے سبب کا نام مسبب کو دیدیا اس تقدیر پر یہ معنی ہوں گے تاکہ ہم حق پرست کو اہل باطل سے متمیز کرلیں “ اور بعض کہتے ہیں کہ مضاف محذوف ہے اور معنی یہ ہیں تاکہ ہمارے رسول اور اولیاء جان لیں “ تو اس صورت میں علم رسول اور اولیاء کی صفت ہوگا اور مجازاً اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول اور اولیاء کے اظہار شرف کے لیے اپنی ذات کی طرف منسوب کردیا ہے جیسا کہ حدیث قدسی میں وارد ہوا ہے کہ اللہ تعالیٰ ایک بندہ سے فرمائے گا کہ میں مریض ہوا تو نے میری عیادت نہ کی تو جس طرح اس حدیث میں بندہ کے مریض ہونے کو اپنا مریض ہونا قرار دیا اسی طرح یہاں بندوں کے علم کو اپنا علم قرار دیا یہ جس قدر تاویلات اور جوابات ہیں تکلف سے خالی نہیں۔ تحقیقی جواب یہ ہے کہ کہ شیخ ابو منصور ماتریدی (رح) کہتے ہیں معنی آیت کے یہ ہیں کہ جس شے کو ہم اوّل سے جانتے تھے کہ وہ موجود ہوگی اس کو ہم موجود جان لیں کیونکہ اللہ تعالیٰ ازل میں اس امر کو تو جانتا تھا کہ جس وقت ہم چاہیں گے فلاں شأ موجود ہوجائے گی اور ازل میں یہ کہنا صحیح نہ ہوگا کہ اللہ تعالیٰ اس وقت فلاں شأ کو جواب تک موجود نہیں ہوئی موجود جانتا ہے کیونکہ جو شے موجود نہیں ہوئی اس کو موجود کس طرح جان سکتا ہے یہ تو خلاف واقع ہے۔ اس صورت میں علم باری میں تغیر لازم نہیں آتا کیونکہ تغیر معلوم میں ہوا ہے نہ علم میں اور بعض نے اسی طرح تقریر کو ان الفاظ میں ادا کیا ہے کہ مراد علم سے علم کا تعلق حالی ہے جو مدار جزا کا ہے اور معنی لنعلم کے یہ ہیں تاکہ ” علم ہمارا اس کے وجود سے متعلق ہو۔ “ وَاِنْ كَانَتْ لَكَبِيْرَةً ( اور بیشک یہ شاق گذرا ہے) اِن مثقلہ سے مخففہ کرلیا ہے اور لَکَبِیْرَۃً کا لام ان شرطیہ اور ان میں فرق کرنے کے لیے آیا ہے۔ سیبویہ کہتے ہیں کہ ان تاکید کے لیے آیا ہے اور مشابہ قسم کے ہے اسی واسطے اس کے جواب پر لام آیا اور کو فیوں نے کہا ہے کہ ان نافیہ ہے اور لام بمعنی الا ہے اور وَ اِنْ کَانت کی ضمیروَ مَا جَعلْنَا القِبْلَۃَ میں جو جَعَلَ مفہوم ہوتا ہے یا تو اس کی طرف راجع ہے اور یا قِبْلَۃ یا تبدیل و تحویل کی طرف راجع ہے۔ اِلَّا عَلَي الَّذِيْنَ ھَدَى اللّٰهُ ۭ وَمَا كَان اللّٰهُ لِـيُضِيْعَ اِيْمَانَكُمْ ( مگر ان پر جن کو اللہ نے ہدایت دی اور اللہ ایسا نہیں کہ ضائع کردے تمہارے ایمان) ھَدَی اللہ میں مفعول ھُمْ محذوف ہے۔ لِیُضِیْعَ اِیْمَانَکُمْ میں اِیْمَان سے یا تو ایمان پر جمنا اور قائم رہنامراد ہے اور یا قبلہ منسوخ شدہ پر ایمان رکھنا مقصود ہے اور بعض مفسرین نے کہا ہے کہ مراد ایمان سے نماز ہے چناچہ مروی ہے کہ حیی بن اخطب یہودی اور اس کے رفیقوں نے مسلمانوں سے کہا تھا کہ تم نے جو اتنے زمانہ تک بیت المقدس کی طرف منہ کرکے نماز پڑھی ہے یہ ہدایت تھی یا گمراہی، اگر ہدایت تھی تو تم نے ہدایت سے روگردانی کی اور اگر گمراہی تھی تو تم نے گمراہی کے ساتھ اللہ کی عبادت کی۔ مسلمانوں نے جواب دیا کہ ہدایت وہ ہے جس کا اللہ تعالیٰ حکم فرمائے اور گمراہی وہ ہے جس سے منع کرے۔ جب تک بیت المقدس کی طرف منہ کرنے کا حکم رہا اس وقت تک وہ ہدایت تھا اور جب منع کردیا تو گمراہی ہے، تحویل قبلہ سے پہلے بنی النجار میں سے اسعد بن زرارہ اور بنی سلمہ میں سے براء بن معرور وفات پا گئے تھے اور یہ دونوں نقباء میں سے تھے اور بھی بہت سے لوگ اس سے پہلے انتقال کر گئے تھے تو ان کے عزیز و اقارب حضور سرور عالم ﷺ کی خدمت میں آئے اور عرض کیا یا رسول اللہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو تو قبلہ ابراہیمی کی طرف منہ کرنے کا حکم فرما دیا ہے اور ہمارے بھائی جو بیت المقدس کی طرف ہی نماز پڑھتے پڑھتے مرگئے ان کا کیا حال ہوگا۔ اللہ تعالیٰ نے آیت : وَ مَا کَانَ اللہ لیضِیْعَ اِیْمانَکُمْ نازل فرمائی یعنی اللہ تعالیٰ ایسا نہیں کہ تمہاری نماز کو جو بیت المقدس کی طرف تم نے پڑھی ہے ضائع فرمائے۔ صحیحین میں براء بن عازب ؓ سے مروی ہے کہ تحویل قبلہ سے قبل بہت سے آدمی مرگئے اور شہید ہوگئے تھے ہم کو کچھ علم نہ تھا کہ ان کے بارے میں کیا کہیں ( آیا ان کی نمازیں اکارت گئیں یا انہیں ثواب ملے گا) اس پر اللہ تعالیٰ نے آیت نازل فرمائی۔ اِنَّ اللّٰهَ بالنَّاسِ لَرَءُوْفٌ رَّحِيْمٌ ( بیشک اللہ لوگوں پر شفت رکھنے والا بڑا مہربان ہے) نافع ابن کثیر اور حفص نے لَرَُؤفٌ کو فعولٌ کے وزن پر ضمہ کو خوب ظاہر کرکے پڑھا ہے اور دیگر قراء نے فُعُلٌ کے وزن پر اختلاس حرکت (خفیف حرکت) سے پڑھا ہے۔ رأفۃ کے معنی شدت رحمت کے ہیں اور رحیم پر اس کو مقطع آیات کی رعایت کی وجہ سے مقدم کیا ہے۔
Top