Tafseer-e-Mazhari - Al-Baqara : 143
وَ كَذٰلِكَ جَعَلْنٰكُمْ اُمَّةً وَّسَطًا لِّتَكُوْنُوْا شُهَدَآءَ عَلَى النَّاسِ وَ یَكُوْنَ الرَّسُوْلُ عَلَیْكُمْ شَهِیْدًا١ؕ وَ مَا جَعَلْنَا الْقِبْلَةَ الَّتِیْ كُنْتَ عَلَیْهَاۤ اِلَّا لِنَعْلَمَ مَنْ یَّتَّبِعُ الرَّسُوْلَ مِمَّنْ یَّنْقَلِبُ عَلٰى عَقِبَیْهِ١ؕ وَ اِنْ كَانَتْ لَكَبِیْرَةً اِلَّا عَلَى الَّذِیْنَ هَدَى اللّٰهُ١ؕ وَ مَا كَانَ اللّٰهُ لِیُضِیْعَ اِیْمَانَكُمْ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ بِالنَّاسِ لَرَءُوْفٌ رَّحِیْمٌ
وَكَذٰلِكَ : اور اسی طرح جَعَلْنٰكُمْ : ہم نے تمہیں بنایا اُمَّةً : امت وَّسَطًا : معتدل لِّتَكُوْنُوْا : تاکہ تم ہو شُهَدَآءَ : گواہ عَلَي : پر النَّاسِ : لوگ وَيَكُوْنَ : اور ہو الرَّسُوْلُ : رسول عَلَيْكُمْ : تم پر شَهِيْدًا : گواہ وَمَا جَعَلْنَا : اور نہیں مقرر کیا ہم نے الْقِبْلَةَ : قبلہ الَّتِىْ : وہ کس كُنْتَ : آپ تھے عَلَيْهَآ : اس پر اِلَّا : مگر لِنَعْلَمَ : تاکہ ہم معلوم کرلیں مَنْ : کون يَّتَّبِعُ : پیروی کرتا ہے الرَّسُوْلَ : رسول مِمَّنْ : اس سے جو يَّنْقَلِبُ : پھرجاتا ہے عَلٰي : پر عَقِبَيْهِ : اپنی ایڑیاں وَاِنْ : اور بیشک كَانَتْ : یہ تھی لَكَبِيْرَةً : بھاری بات اِلَّا : مگر عَلَي : پر الَّذِيْنَ : جنہیں ھَدَى : ہدایت دی اللّٰهُ : اللہ وَمَا كَانَ : اور نہیں اللّٰهُ : اللہ لِيُضِيْعَ : کہ وہ ضائع کرے اِيْمَانَكُمْ : تمہارا ایمان اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ بِالنَّاسِ : لوگوں کے ساتھ لَرَءُوْفٌ : بڑا شفیق رَّحِيْمٌ : رحم کرنے والا
اور اسی طرح ہم نے تم کو امتِ معتدل بنایا ہے، تاکہ تم لوگوں پر گواہ بنو اور پیغمبر (آخرالزماں) تم پر گواہ بنیں۔ اور جس قبلے پر تم (پہلے) تھے، اس کو ہم نے اس لیے مقرر کیا تھا کہ معلوم کریں، کون (ہمارے) پیغمبر کا تابع رہتا ہے، اور کون الٹے پاؤں پھر جاتا ہے۔ اور یہ بات (یعنی تحویل قبلہ لوگوں کو) گراں معلوم ہوئی، مگر جن کو خدا نے ہدایت بخشی (وہ اسے گراں نہیں سمجھتے) اور خدا ایسا نہیں کہ تمہارے ایمان کو یونہی کھو دے۔ خدا تو لوگوں پر بڑا مہربان (اور) صاحبِ رحمت ہے
وَكَذٰلِكَ ( اور اسی طرح) اے امت محمد ﷺ ذالِکَکا مشارٌ الیہ یا تو پہلی آیت کا مضمون ہے اس صورت میں حاصل ہوگا کہ جس طرح ہم نے تم کو سیدھی راہ کی ہدایت کی اسی طرح تم کو امت معتدل اور بہتر بنایا اور یا آیت وَلَقَدِ اصْطَفَیْنَاہُ فِی الدُّنْیَا [ الایۃ ] کے مضمون کی طرف اشارہ ہے اس تقدیر پر یہ معنی ہوں گے کہ جس طرح ہم نے ابراہیم (علیہ السلام) کو برگزیدہ کیا اسی طرح تم کو بہتر امت بنایا جَعَلْنٰكُمْ اُمَّةً وَّسَطًا ( ہم نے تم کو بنایا ہے امت معتدل) یعنی ہم نے تم کو دوسروں سے بہتر اور عادل علم و عمل و معرفت سے آراستہ بنایا۔ امام احمد اور حاکم نے بروایت حضرت ابو سعید خدری ؓ مرفوعاً بیان کیا اور اس حدیث کو صحیح بھی قرار دیا کہ وَسَطًا کے معنی ہیں عدلاً ( معتدل) لفظ وَسَطْ ایسی درمیانی جگہ کو کہتے ہیں جس کے ہر جانب کا فاصلہ برابر ہو پھر خصائل محمودہ کے لیے مجازاً اس کا استعمال کیا جانے لگا کیونکہ اچھے خصائل افراط وتفریط کے درمیان ہی ہوتے ہیں جیسے جود اسراف اور بخل کے درمیانی درجہ کا نام ہے اور شجاعت تہور اور بزدلی کے بین بین ہے پھر اس کا اطلاق خود اس شخص پر ہونے لگا جو خصائل محمودہ سے آراستہ ہو۔ واحد و جمع مذکر اور مؤنث سب پر اس کا اطلاق آتا ہے چناچہ دوسرے مقام پر حق تعالیٰ فرماتا ہے : قَالَ اَوْسَطُھُمْ ( کہا اس شخص نے جو ان میں سے بہتر تھا) یہاں اوسط کا اطلاق واحد پر آیا ہے۔ کلبی کہتے ہیں کہ اس آیت میں مضاف محذوف ہے اور مضاف الیہ کو اس کے قائم مقام کردیا ہے۔ تقدیر آیت کی یہ ہے : جَعَلْنٰکم اھل دین وسط یعنی ہم نے تم کو دین وسط والا بنایا۔ اسلام کو دین وسط اس وجہ سے فرمایا کہ احکام شرعیہ میں نہ افراط ہے نہ تفریط علماء نے اس آیت کو اجماع امت محمدیہ کے احکام میں حجت ہونے کی دلیل ٹھہرایا ہے کیونکہ اگر مسئلہ اجماعی واجب القبول نہ ہو تو امت کا غیر عادل ہونا لازم آئے گا۔ اگر اعتراض کیا جائے کہ یہ مسلم ہے کہ مجتہد اگر اپنے اجتہاد میں خطا کرے تو اس سے اس کی عدالت میں کوئی نقصان نہیں ہوتا تو اب اگر خطا پر سب کا اتفاق ہوجائے تو اس سے یہ کیسے لازم آیا کہ ان کی عدالت میں کچھ نقصان ہے تو جواب اس کا یہ ہے کہ اوّل ہم کہہ چکے ہیں کہ لفظ وسط کا اطلاق مجازی اوّل خصائل حمیدہ پر ہوتا ہے پھر اس شخص پر اطلاق ہونے لگا جو ان خصائل کے ساتھ متصف ہو اور کلبی کے قول کے موافق وسط سے پہلے لفظ دین محذوف ہے بہر حال خواہ خود امت کو وَسَطَ کہا جائے یا ان کے دین کو وَسَطَ کہیں ہر حال میں اس آیت سے یہ صاف سمجھا جاتا ہے کہ اس دین کے احکام اور ان کے خصائل سب کے سب محمود ہیں تو اجماع میں خطا واقع ہونے سے اگرچہ وہ معذور قرار دیئے جائیں گے لیکن یہ ضرور سمجھا جائے گا کہ بعض خصائل ان کی مذموم ہیں تو تمام خصائل کا محمود ہوناجو آیت سے معلوم ہوتا ہے کس طرح ثابت ہوگا۔ حضرت ابو سعید خدری ؓ سے مروی ہے کہ ایک روز سرور عالم ﷺ بعد عصر کے کھڑے ہوئے اور جو کچھ قیامت تک واقعات ہونے والے تھے آپ ﷺ نے ایک ایک کا ذکر فرمایا حتیٰ کہ جب دھوپ درختوں کی چوٹیوں اور دیواروں کی منڈیروں پر چلی گئی تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ دنیا کی عمراب اتنی ہی باقی ہے جس قدر کہ یہ دن باقی ہے اور اسی قدر گزر چکی ہے جس قدر کہ دن گذر چکا ہے یاد رکھو کہ یہ امت ( یعنی امت محمدیہ) ستر امتوں کا کام دیتی ہے اور ان سب سے اللہ کے نزدیک یہ امت بہتر اور بزرگ ہے۔ اس حدیث کو علامہ بغوی نے روایت کیا ہے اور ترمذی، ابن ماجہ اور دارمی نے اس کو بروایت بہز بن حکیم بیان کیا ہے۔ دارمی نے یہ بھی نقل کیا ہے کہ حضرت ابن عباس نے کعب احبار سے دریافت کیا کہ رسول اللہ ﷺ کے اوصاف کا بیان تورات میں کس طرح ہے ؟ انہوں نے کہا ہم نے تورات میں لکھا پایا ہے کہ وہ محمد بن عبد اللہ ہیں مکہ میں پیدا ہوں گے اور طابہ (مدینہ) کی طرف ہجرت فرمائیں گے اور ملک شام ان کے قبضہ میں ہوجائے گا نہ وہ بد زبان ہوں گے اور نہ بازاروں میں شور مچانے والے اور برائی کے بدلہ میں برائی نہ کریں گے بلکہ در گذر کریں گے ان کی امت اللہ تعالیٰ کی حمد بہت کرنے والی ہوگی ہر سختی اور نرمی خوشی اور غم کی حالت میں اللہ کی حمد کرے گی بلند جگہ پر چڑھتے ہوئے تکبیر کہنے والی اور اپنے دست و پا کو وضو سے منور کرنے والی ہوگی وسط کمر پر تہ بند باندھیں گے نمازوں میں ایسی صف بندی کریں گے جیسے کہ لڑائی میں۔ مسجدوں میں ان کی آوازیں شہد کی مکھی کی آواز سی نرم اور پست ہوں گی لیکن نہ اتنی پست کہ دوسرا ( پاس والا) نہ سن سکے۔ لِّتَكُوْنُوْا شُهَدَاۗءَ عَلَي النَّاسِ ( تاکہ بنو تم گواہ لوگوں پر) یعنی قیامت کے روز امت محمدیہ حق تعالیٰ کے سامنے گواہی دے گی کہ انبیاء نے اپنی امت کو احکام پہنچا دئے یہی معنی گواہ ہونے کے ہیں اور لِتَکُوْنوا [ الایۃ ] امت محمدیہ ﷺ کے عادل بنانے کی علت ہے۔ اس آیت سے یہ بھی سمجھا جاتا ہے کہ شہادت کے لیے عدالت شرط ہے وَيَكُـوْنَ الرَّسُوْلُ عَلَيْكُمْ شَهِيْدًا (اور ہوجائے رسول تم پر گواہ) رسول سے مراد محمد ﷺ ہیں۔ رسول اللہ ﷺ کے گواہ ہونے کے یہ معنی ہیں کہ قیامت میں آپ ﷺ اپنی امت کے گواہ اور مز کی ہوں گے اور گواہ چونکہ مثل رقیب یعنی نگراں کے ہوتا ہے اور رقیب کا صلہ علیٰ آتا ہے اس لیے شہید کا صلہ بھی علیٰ لائے اگرچہ بظاہر لام لانا مناسب معلوم ہوتا تھا۔ علامہ محمد حسین بغوی فرماتے ہیں کہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اوّلین و آخرین کو ایک جگہ جمع کرے گا پھر گذشتہ امتوں کے کفار سے خطاب کرکے فرمائے گا کیا تمہارے پاس کوئی ڈرانے والا نہیں پہنچا ؟ وہ صاف انکار کردیں گے کہ ہمارے پاس کوئی نہیں آیا پھر اللہ تعالیٰ انبیاء سے دریافت فرمائے گا انبیاء متفق اللفظ ہو کر کہیں گے کہ اے اللہ ہم پیام پہنچا چکے یہ صریح جھوٹ بولتے ہیں۔ اللہ باوجودیکہ عالم الغیب ہے مگر اتمام حجت کے لیے انبیاء سے گواہ طلب فرمائے گا۔ اس وقت امت محمد ﷺ حاضر ہوگی اور گواہی دے گی کہ انبیا نے سب احکام انہیں پہنچا دیئے ہیں۔ کفار بولیں گے انہیں کیسے معلوم ہوا کہ پہنچا چکے یہ تو ہم سے برسوں بعد پیدا ہوئے ہیں امت محمدیہ ﷺ جواب دے گی کہ حق تعالیٰ نے ہمارے پاس رسول بھیجا اور اس پر کتاب نازل فرمائی اس میں ہم کو خبر دی کہ سب انبیاء نے اپنی اپنی امت کو احکام پہنچا دیئے ہیں اور اللہ تعالیٰ سب سچوں سے زیادہ سچا ہے اس کے بعد محمد ﷺ بلائے جائیں گے اور امت کی حالت ان سے پوچھی جائے گی آپ ان کی سچائی اور عدالت کی گواہی دیں گے۔ بخاری ‘ ترمذی اور نسائی نے ابو سعید خدری ؓ کی روایت سے بیان کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ قیامت کے دن نوح ( علیہ السلام) بلائے جائیں گے اور ان سے دریافت کیا جائے گا کیا تبلیغ کی ؟ نوح ( علیہ السلام) عرض کریں گے۔ پروردگار میں نے بیشک تیرا پیام پہنچا دیا اس کے بعد اللہ تعالیٰ ان کی امت سے دریافت فرمائے گا کہ تم کو نوح ( علیہ السلام) نے احکام پہنچائے وہ کہیں گے کہ ہمارے پاس تو کوئی آیا نہیں پھر نوح ( علیہ السلام) سے پوچھا جائے گا کہ تمہارا کوئی گواہ ہے نوح ( علیہ السلام) عرض کریں گے میرے گواہ محمد ﷺ اور ان کی امت ہے۔ حضور فرماتے ہیں کہ پھر تم وہاں آکر گواہی دو گے۔ پھر آپ نے آیت : وَ کَذٰلِکَ جَعَلْنَاکُمْ اُمَّۃً وَّسَطًا لِّتَکُوْنُوْا شُھَدَآءَ عَلَی النَّاسِ.... پڑھی اور فرمایا تم تو نوح ( علیہ السلام) کی تبلیغ کی گواہی دو گے اور میں تمہاری گواہی دوں گا۔ امام احمد نسائی اور بیہقی نے ابو سعید خدری ؓ کی روایت سے اس طرح بیان کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا قیامت کے دن ایک نبی آئیں گے کہ ان کے ساتھ صرف ایک ہی آدمی ان کا امتی ہوگا پھر ایک اور نبی آئیں گے ان کے ساتھ دو آدمی ہوں گے اسی طرح آتے رہیں گے اللہ تعالیٰ ان سب سے دریافت فرمائیں گے کہ تم نے تبلیغ کی سب کہیں گے کہ خدا وندا کی تھی پھر ان کی امتوں سے دریافت کیا جائے گا کہ انہوں نے تمہیں احکام پہنچائے ؟ وہ سب انکار کریں گے پھر انبیاء سے گواہ طلب کئے جائیں گے وہ امت محمد ﷺ کو پیش کریں گے پھر امت محمدیہ سے پوچھا جائے گا کہ تمہیں کس طرح معلوم ہوا عرض کریں گے ہمارے پاس نبی کتاب لے کر آئے اس میں یہ بھی تھا کہ انبیاء (علیہم السلام) نے اپنی امت کو احکام پہنچائے ہم نے اس کی تصدیق کی کہا جائے گا بیشک تم سچ کہتے ہو۔ وَمَا جَعَلْنَا الْقِبْلَةَ الَّتِىْ كُنْتَ عَلَيْهَآ ( اور انہیں بنایا تھا ہم نے وہ قبلہ جس پر آپ پہلے تھے) جَعَلَ یا تو ایک مفعول کی طرف متعدی ہے اس تقدیر پر التی اپنے ما بعد سے مل کر القبلہ کی صفت ہوگا اور مضاف محذوف ہوگا تقدیر عبارت کی اس طرح ہوگی : وَ مَا جَعَلْنَا تَحْوِیل القبِلَْۃَ الَّتِیْ کُنْتَ عَلَیْھَا (یعنی نہیں کی ہم نے تبدیل اس قبلہ کی جس پر آپ پہلے سے تھے مگر اس لیے .......) اور قبلہ سے مراد اس وقت بیت المقدس ہوگا یا دو مفعولوں کی طرف متعدی ہے اور مفعول ثانی مخذوف ہے اس صورت میں تقدیر آیت کی یہ ہوگی : وَ مَا جَعَلْنَا الْقِبْلَۃَ الَّتِیْ کُنْتَ عَلَیْھَا مَنْسُوْخَۃً ( یعنی نہیں کیا ہم نے اس قبلہ کو جس پر آپ پہلے سے تھے منسوخ مگر اس لیے۔۔ ) اور یہ بھی ممکن ہے کہ القبلہ۔ ما جعلنا کا مفعول اوّل ہو اور الجہۃ محذوف ہو اور الَّتِیْ اپنے ما بعد سے مل کر اسی محذوف لفظ کی صفت ہو۔ اس صورت میں حاصل آیت کا یہ ہوگا کہ اصل تو یہی تھا کہ قبلہ بیت اللہ ہو لیکن ہم نے جو اول بیت المقدس کو قبلہ بنا دیا تو وجہ اس کی یہ ہے ...... اور ہوسکتا ہے کہ معنی آیت کے یہ ہوں کہ نہیں بنایا ہم نے قبلہ اس قبلہ کو جس پر اس وقت آپ ہیں یعنی کعبہ کو مگر اس لیے۔۔ بعض مفسرین نے کہا ہے کہ معنی آیت کے یہ ہیں کہ نہیں بنایا ہم نے قبلہ اس وقت اس جہت کو جس پر آپ پہلے ہجرت سے تھے یعنی کعبہ کو مگر اس واسطے ........ اور یہ تفسیر اس پر مبنی ہے کہ یہ ثابت ہوجائے کہ حضور سرور عالم ﷺ نے قبل از ہجرت کعبہ کی طرف نماز پڑھی ہے اور اس تفسیر کے موافق یہ بھی لازم آتا ہے کہ نسخ قبلہ کا دو مرتبہ ہو۔ نیز آیت : سَیَقُوْلُ السُّفَھَآءُ..... کی رفتار اور طرز سے جو سمجھا جاتا ہے یہ تفسیر اس کے مخالف ہے یہاں اَلَّتِیْ کَانُوْا عَلَیْھَا سے مراد قطعاً بیت المقدس ہے اس کے موافق اس آیت میں اَلَّتِیْ کُنْتَ عَلَیْھَا سے بھی بیت المقدس ہی ہونا چاہئے۔ قیاس مقتضی تھا کہ عبارت اس طرح ہو وَ مَا جَعَلْنَا الَّتِیْ کُنْتَ عََلَیْھَا قِبْلَۃً یعنی الَّتِیْ کُنْتَ عَلَیْھَا مقدم ہوا اور قبلۃً موخر لیکن اظہار اہمیت کے لیے قبلہ کو اوّل مفعول بنایا یوں کہو کہ یہ عبارت باب قلب سے ہے۔ اِلَّا لِنَعْلَمَ مَنْ يَّتَّبِـــعُ الرَّسُوْلَ ( مگر اس واسطے کہ ہم معلوم کرلیں ان لوگوں کو جو پیروی کریں رسول کی) یعنی تبدیل قبلہ اس غرض سے ہوئی ہے تاکہ ہم اس شخص کو جان لیں جو نماز میں رسول اللہ ﷺ کا اتباع کرتا ہے کہ جس طرف آپ بحکم الٰہی توجہ فرماتے اسی طرف متوجہ ہوجاتا ہے اور ایسا شخص ان لوگوں میں سے جو الٹے پاؤں پھرجائیں یعنی اطاعت نہ کریں متمیز ہوجائے۔ مِمَّنْ يَّنْقَلِبُ عَلٰي عَقِبَيْهِ ( الگ ان لوگوں سے جو پھرجائیں الٹے پاؤں) اس سے مراد وہ لوگ ہیں جو تحویل قبلہ کے بعد مرتد ہوگئے تھے۔ چناچہ حدیث میں وارد ہوا ہے کہ جب قبلہ کی تحویل واقع ہوئی تو مسلمانوں میں سے ایک قوم یہودی بن گئی اور یہ کہا کہ محمد ﷺ پھر اپنے باپ دادا کے دین پر ہوگئے۔ اِلَّا لِنَعْلَمَ ۔ علَم یا تو بمعنی معرفت ہے اور مَنْ یَّتَّبِعُ ۔ لِنَعْلَمَ کا مفعول ہے اور مِمَّنْ یَنْقَلِبُ ۔ لِنَعلم کے متعلق ہے اور مَنْ کے اندر جو معنی استفہام کے ہیں اس کے متعلق ہے یا مَنْ کو موصولہ اور لنعلم کا مفعول کہا جائے اور مِمَّنْ یَنْقَلِبُ کو مفعول ثانی قرار دیا جاوے۔ اس صورت میں معنی یہ ہوں گے تاکہ ہم اس شخص کو جو رسول کی پیروی کرتا ہے جدا جان لیں اس شخص سے جو الٹے پاؤں پھرے “ اس مقام پر ایک سوال مشہور ہے وہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کا علم قدیم تحویل قبلہ کی غایت کس طرح بن سکتا ہے وہ تو پہلے ہی سے ہر شخص کی حالت جانتا ہے اس کے مختلف جواب دیئے گئے ہیں ایک جواب یہ ہے کہ اہل معافی نے کہا ہے کہ لام تعلیل کے لیے ہے غایت کا نہیں ہے اور صیغہ مضارع کا بمعنی ماضی ہے جیسے فَلِمَ تَقْتُلُوْنَ اَبْبِیَاء اللّٰہمیں مضارع بمعنی ماضی ہے تو اس جواب کے معنی اس طرح ہوں گے کہ ” تحویل قبلہ اس وجہ سے ہوئی کہ پہلے سے ہم رسول کی پیروی کرنے والے کو غیر مطیع اور الٹے پھرجانے والے سے ( الگ) جانتے ہیں یعنی ہم اوّل سے جانتے تھے کہ تحویل قبلہ ایک قوم کی ہدایت کا سبب ہے اور ایک قوم کی گمراہی کا سبب ہے۔ بعض (1) [ اللہ کا علم ازلی قدیم محیط کل ہے وہ ہر چیز کو اس پیدائش سے بہت پہلے ازل میں ہی جانتا تھا یہ علم زمانہ اور زمانیات سے پاک ہے اور اجمالی ہے لیکن اجمالی ہے لیکن اجمالی ناقص نہیں۔ ہمارا اجمالی علم ناقص ہوتا ہے البتہ اللہ کا اجمالی علم ناقص نہیں ہوتا ( جمالی کہنے کی صرف یہ وجہ ہے کہ ہر چیز کے وجود سے پہلے بحیثیت مجموعہ انکشاف ہوتا ہے اس کا تعلق حدوث شئ سے نہیں ہوتا یعنی شئ کے وجود بالفعل پر موقوف نہیں اس لیے یہ اللہ کی صفت کمالیہ ہے لیکن اللہ کو ایک دوسرا علم بھی ہوتا ہے جس کو تمیز یا ظہور فعلی کہہ سکتے ہیں یہ علم حادث ہوتا ہے شۂ کے وجود کے بعد ہوتا ہے اسی لیے یہ اللہ کی صفت کمالیہ نہیں۔ حضرت مؤلف نے دونوں طرح کے علم کی طرف اشارہ کردیا اور دوسری شق میں علم حادث کی طرف ] نے یہ جواب دیا ہے کہ علم سے مراد تمیز ہے جو علم کا سبب ہے سبب کا نام مسبب کو دیدیا اس تقدیر پر یہ معنی ہوں گے تاکہ ہم حق پرست کو اہل باطل سے متمیز کرلیں “ اور بعض کہتے ہیں کہ مضاف محذوف ہے اور معنی یہ ہیں تاکہ ہمارے رسول اور اولیاء جان لیں “ تو اس صورت میں علم رسول اور اولیاء کی صفت ہوگا اور مجازاً اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول اور اولیاء کے اظہار شرف کے لیے اپنی ذات کی طرف منسوب کردیا ہے جیسا کہ حدیث قدسی میں وارد ہوا ہے کہ اللہ تعالیٰ ایک بندہ سے فرمائے گا کہ میں مریض ہوا تو نے میری عیادت نہ کی تو جس طرح اس حدیث میں بندہ کے مریض ہونے کو اپنا مریض ہونا قرار دیا اسی طرح یہاں بندوں کے علم کو اپنا علم قرار دیا یہ جس قدر تاویلات اور جوابات ہیں تکلف سے خالی نہیں۔ تحقیقی جواب یہ ہے کہ کہ شیخ ابو منصور ماتریدی (رح) کہتے ہیں معنی آیت کے یہ ہیں کہ جس شے کو ہم اوّل سے جانتے تھے کہ وہ موجود ہوگی اس کو ہم موجود جان لیں کیونکہ اللہ تعالیٰ ازل میں اس امر کو تو جانتا تھا کہ جس وقت ہم چاہیں گے فلاں شأ موجود ہوجائے گی اور ازل میں یہ کہنا صحیح نہ ہوگا کہ اللہ تعالیٰ اس وقت فلاں شأ کو جواب تک موجود نہیں ہوئی موجود جانتا ہے کیونکہ جو شے موجود نہیں ہوئی اس کو موجود کس طرح جان سکتا ہے یہ تو خلاف واقع ہے۔ اس صورت میں علم باری میں تغیر لازم نہیں آتا کیونکہ تغیر معلوم میں ہوا ہے نہ علم میں اور بعض نے اسی طرح تقریر کو ان الفاظ میں ادا کیا ہے کہ مراد علم سے علم کا تعلق حالی ہے جو مدار جزا کا ہے اور معنی لنعلم کے یہ ہیں تاکہ ” علم ہمارا اس کے وجود سے متعلق ہو۔ “ وَاِنْ كَانَتْ لَكَبِيْرَةً ( اور بیشک یہ شاق گذرا ہے) اِن مثقلہ سے مخففہ کرلیا ہے اور لَکَبِیْرَۃً کا لام ان شرطیہ اور ان میں فرق کرنے کے لیے آیا ہے۔ سیبویہ کہتے ہیں کہ ان تاکید کے لیے آیا ہے اور مشابہ قسم کے ہے اسی واسطے اس کے جواب پر لام آیا اور کو فیوں نے کہا ہے کہ ان نافیہ ہے اور لام بمعنی الا ہے اور وَ اِنْ کَانت کی ضمیروَ مَا جَعلْنَا القِبْلَۃَ میں جو جَعَلَ مفہوم ہوتا ہے یا تو اس کی طرف راجع ہے اور یا قِبْلَۃ یا تبدیل و تحویل کی طرف راجع ہے۔ اِلَّا عَلَي الَّذِيْنَ ھَدَى اللّٰهُ ۭ وَمَا كَان اللّٰهُ لِـيُضِيْعَ اِيْمَانَكُمْ ( مگر ان پر جن کو اللہ نے ہدایت دی اور اللہ ایسا نہیں کہ ضائع کردے تمہارے ایمان) ھَدَی اللہ میں مفعول ھُمْ محذوف ہے۔ لِیُضِیْعَ اِیْمَانَکُمْ میں اِیْمَان سے یا تو ایمان پر جمنا اور قائم رہنامراد ہے اور یا قبلہ منسوخ شدہ پر ایمان رکھنا مقصود ہے اور بعض مفسرین نے کہا ہے کہ مراد ایمان سے نماز ہے چناچہ مروی ہے کہ حیی بن اخطب یہودی اور اس کے رفیقوں نے مسلمانوں سے کہا تھا کہ تم نے جو اتنے زمانہ تک بیت المقدس کی طرف منہ کرکے نماز پڑھی ہے یہ ہدایت تھی یا گمراہی، اگر ہدایت تھی تو تم نے ہدایت سے روگردانی کی اور اگر گمراہی تھی تو تم نے گمراہی کے ساتھ اللہ کی عبادت کی۔ مسلمانوں نے جواب دیا کہ ہدایت وہ ہے جس کا اللہ تعالیٰ حکم فرمائے اور گمراہی وہ ہے جس سے منع کرے۔ جب تک بیت المقدس کی طرف منہ کرنے کا حکم رہا اس وقت تک وہ ہدایت تھا اور جب منع کردیا تو گمراہی ہے، تحویل قبلہ سے پہلے بنی النجار میں سے اسعد بن زرارہ اور بنی سلمہ میں سے براء بن معرور وفات پا گئے تھے اور یہ دونوں نقباء میں سے تھے اور بھی بہت سے لوگ اس سے پہلے انتقال کر گئے تھے تو ان کے عزیز و اقارب حضور سرور عالم ﷺ کی خدمت میں آئے اور عرض کیا یا رسول اللہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو تو قبلہ ابراہیمی کی طرف منہ کرنے کا حکم فرما دیا ہے اور ہمارے بھائی جو بیت المقدس کی طرف ہی نماز پڑھتے پڑھتے مرگئے ان کا کیا حال ہوگا۔ اللہ تعالیٰ نے آیت : وَ مَا کَانَ اللہ لیضِیْعَ اِیْمانَکُمْ نازل فرمائی یعنی اللہ تعالیٰ ایسا نہیں کہ تمہاری نماز کو جو بیت المقدس کی طرف تم نے پڑھی ہے ضائع فرمائے۔ صحیحین میں براء بن عازب ؓ سے مروی ہے کہ تحویل قبلہ سے قبل بہت سے آدمی مرگئے اور شہید ہوگئے تھے ہم کو کچھ علم نہ تھا کہ ان کے بارے میں کیا کہیں ( آیا ان کی نمازیں اکارت گئیں یا انہیں ثواب ملے گا) اس پر اللہ تعالیٰ نے آیت نازل فرمائی۔ اِنَّ اللّٰهَ بالنَّاسِ لَرَءُوْفٌ رَّحِيْمٌ ( بیشک اللہ لوگوں پر شفت رکھنے والا بڑا مہربان ہے) نافع ابن کثیر اور حفص نے لَرَُؤفٌ کو فعولٌ کے وزن پر ضمہ کو خوب ظاہر کرکے پڑھا ہے اور دیگر قراء نے فُعُلٌ کے وزن پر اختلاس حرکت (خفیف حرکت) سے پڑھا ہے۔ رأفۃ کے معنی شدت رحمت کے ہیں اور رحیم پر اس کو مقطع آیات کی رعایت کی وجہ سے مقدم کیا ہے۔
Top