Tafseer-e-Mazhari - Maryam : 172
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا كُلُوْا مِنْ طَیِّبٰتِ مَا رَزَقْنٰكُمْ وَ اشْكُرُوْا لِلّٰهِ اِنْ كُنْتُمْ اِیَّاهُ تَعْبُدُوْنَ
يٰٓاَيُّهَا : اے الَّذِيْنَ : جو لوگ اٰمَنُوْا : ایمان لائے كُلُوْا : تم کھاؤ مِنْ : سے طَيِّبٰتِ : پاک مَا رَزَقْنٰكُمْ : جو ہم نے تم کو دیا وَاشْكُرُوْا : اور شکر کرو لِلّٰهِ : اللہ کا اِنْ كُنْتُمْ : اگر تم ہو اِيَّاهُ : صرف اسکی تَعْبُدُوْنَ : بندگی کرتے ہو
اے اہل ایمان جو پاکیزہ چیزیں ہم نے تم کو عطا فرمائیں ہیں ان کو کھاؤ اور اگر خدا ہی کے بندے ہو تو اس (کی نعمتوں) کا شکر بھی ادا کرو
يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا كُلُوْا مِنْ طَيِّبٰتِ مَا رَزَقْنٰكُمْ ( اے ایمان والو ہم نے جو تم کو رزق دیا ہے اس میں سے کھاؤ حلال اور ستھری چیزیں) ۔ حضرت ابوہریرہ ؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ خود پاک ہیں اس لیے پاکیزہ ہی چیز کو قبول کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ نے مؤمنین کو حلال کھانے کا حکم فرمایا جیسا کہ پیغمبروں کو بھی یہی حکم فرمایا ہے۔ چناچہ دوسری جگہ ارشاد ہے : یَاَیُّھَا الرُّسُلُ کُلُوْا مِنْ ﷲَ الطَیِّبَاتِ وَاعْمَلُوْا صَالِحًا ( اے پیغمبر و ! حلال چیزیں کھاؤ اور نیک عمل کرو) اور فرمایا : یَاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُلُوْا مِنْ طَیِّبَاتٍ مَا رَزَقْنٰکُمْ پھر فرمایا کہ آدمی سفر طویل کرتا ہے اور دعا کے لیے ہاتھ اٹھا کر اللہ تعالیٰ سے دعائیں مانگتا ہے اور بال پریشان اور غبار آلود ہیں یعنی سامان قبولیت دعا کے سارے مجتمع ہیں لیکن اسکا کھانا پینا اور پہننا سب حرام ہے اور حرام رزق سے اس کی غذا ہے پھر دعا کیسے قبول ہو۔ وَاشْكُرُوْا لِلّٰهِ اِنْ كُنْتُمْ اِيَّاهُ تَعْبُدُوْنَ ( اور شکر کرو اللہ کا اگر تم اسی کی عبادت کرتے ہو) مطلب یہ ہے کہ اگر تم خاص اللہ ہی کی پرستش کرنے والے ہو اور اسی کو مولاجانتے ہو تو اس کا شکر کرو۔ کیونکہ عبادت کی تکمیل بغیر شکر کے نہیں۔ سرور عالم ﷺ نے فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ میرا جن و انس کے ساتھ ایک بہت بڑا حیرت ناک واقعہ ہے وہ یہ ہے کہ ان کو پیدا تو میں کرتا ہوں اور وہ غیر کی عبادت کرتے ہیں اور میں رزق دیتا ہوں اور وہ اوروں کا شکر کرتے ہیں اس حدیث کو طبرانی نے نے مسندات شامیین میں اور بیہقی نے شعب الایمان میں اور دیلمی نے ابو الدرداء ؓ سے روایت کیا ہے۔
Top