Tafseer-e-Mazhari - Al-Baqara : 207
وَ مِنَ النَّاسِ مَنْ یَّشْرِیْ نَفْسَهُ ابْتِغَآءَ مَرْضَاتِ اللّٰهِ١ؕ وَ اللّٰهُ رَءُوْفٌۢ بِالْعِبَادِ
وَ : اور مِنَ : سے النَّاسِ : لوگ مَنْ : جو يَّشْرِيْ : بیچ ڈالتا ہے نَفْسَهُ : اپنی جان ابْتِغَآءَ : حاصل کرنا مَرْضَاتِ : رضا اللّٰهِ : اللہ وَاللّٰهُ : اور اللہ رَءُوْفٌ : مہربان بِالْعِبَادِ : بندوں پر
اور کوئی شخص ایسا ہے کہ خدا کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے اپنی جان بیچ ڈالتا ہے اور خدا بندوں پر بہت مہربان ہے
وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَّشْرِيْ نَفْسَهُ ( اور بعض لوگ ایسے بھی ہیں جو دیدتے ہیں اپنی جان) یعنی جہاد یا امر بالمعروف میں اپنی جان بیچ دیتے ہیں اور خرچ کر ڈالتے ہیں۔ ابو امامہ ؓ فرماتے ہیں کہ ایک شخص نے عرض کیا یا رسول اللہ کون سا جہاد افضل ہے ؟ فرمایا : افضل جہاد بادشاہ ظالم کے سامنے سچ بات کہنا ہے اس حدیث کو حضرت ابو سعید سے امام احمد اور ابن ماجہ اور طبرانی اور بیہقی نے روایت کیا ہے۔ ابْـتِغَاۗءَ مَرْضَات اللّٰهِ ( اللہ کی رضا جوئی میں) یعنی اللہ کی رضا طلب کرتا ہے گویا خدا کی رضا اس کی جان خرچ کردینے کا بدلہ ہے۔ وَاللّٰهُ رَءُوْفٌۢ بِالْعِبَادِ ( یعنی اللہ بندوں پر بہت ہی شفقت اور رحمت کرنے والے ہیں ( ایسی نفع کی تجارت کا طریقہ سکھایا۔ حارث بن ابی اسامہ اور ابن ابی حاتم نے سعید بن مسیب ؓ سے روایت کی ہے کہ صہیب ؓ ہجرت کرکے جناب رسول اللہ کی خدمت میں آرہے تھے کہ راہ میں قریش کے چند آدمیوں نے ان کا پیچھا کیا۔ حضرت صہیب ؓ سواری سے اتر پڑے اور ترکش میں سے تیر لے کر مستعد ہوگئے اور انکو خطاب کرکے کہا کہ اے قریش کے گروہ تم جانتے ہو کہ میں تم سب سے زیادہ تیر انداز ہوں اور قسم ہے اللہ کی جب تک میرے ترکش میں ایک تیر بھی ہے تم مجھ پر قابو نہیں پاسکتے اور تیروں کے ختم ہونے کے بعد جب تک تلوار کا کچھ حصہ بھی رہے گا شمشیر زنی کروں گا اس کے بعد پھر تم جو چاہے کیجیؤ اور اگر تم چاہو تو میں تم کو مکہ میں اپنا مال بتادوں تم اس پر جا کر قابض ہوجاؤ اور مجھے چھوڑ دو انہوں نے اس کو منظور کرلیا جب ان سے چھوٹ کر جناب رسول اللہ کی خدمت میں مدینہ آئے اور سارا قصہ عرض کیا تو حضور ﷺ بہت خوش ہوئے اور فرمایا کہ اے ابو یحییٰ تمہاری بیع خوب نافع ہوئی تمہاری بیع خوب نافع ہوئی اس کے بعد پھر آیت کریمہ : و من الناس من یشری الخ نازل ہوئی، حاکم نے مستدرک میں بھی اس قصہ کو ابن مسیب کے طریق سے خود صہیب ؓ سے اسی طرح روایت کیا ہے نیز حاکم نے اس قصہ کو حماد بن سلمہ سے اور انہوں نے ثابت ؓ سے اور انہوں نے حضرت انس ؓ سے روایت کیا ہے اور اس میں تصریح کی ہے کہ یہ آیت حضرت صہیب ؓ کے ہی بارے میں نازل ہوئی۔ حاکم نے یہ بھی کہا ہے کہ یہ حدیث شرط مسلم کے موافق صحیح ہے۔ ابن جریر نے عکرمہ ؓ سے روایت کی ہے کہ یہ آیت صہیب بن سنان رومی ؓ کے بارے میں نازل ہوئی ہے قصہ اس کا یوں ہوا تھا کہ ان کو مع چند مسلمانوں کے مشرکین نے پکڑ لیا تھا اور بہت تکلیف پہنچائی تو صہیب ؓ نے ان سے کہا کہ میں تو بوڑھا ضعیف ہوں اگر میں تم میں ہوں یا غیروں میں ہوں تمہارا کیا نقصان ہے اگر تمہاری رائے ہو تو میرا مال لے لو اور مجھے چھوڑ دو ۔ انہوں نے ایسا ہی کیا اس حدیث کا طرز کلام پہلی حدیث کے خلاف ہے اور اوّل ہی قصہ صحیح ہے۔ بعض مفسرین نے فرمایا ہے کہ یہ آیت رجیع کو جانے والے رستہ کے متعلق نازل ہوئی تھی چناچہ ابن اسحاق اور محمد بن سعد وغیرہم نے ذکر کیا ہے کہ قبیلہ بنی لحیان جو ہذیل میں سے تھا جب سفیان نبی ح ہذلی کو قتل کرچکے تو قبیلہ عضل اور قبیلہ قارہ کی طرف آئے اور ان سے کہا کہ تم لوگ جناب رسول اللہ کی خدمت میں چلو اور آپ ﷺ سے کچھ بات چیت کرلو۔ اس کے بعد چند صحابہ تمہارے پاس آکر دعوت اسلام کیا کریں گے اور دین کی باتیں بتائیں گے اور ہم تمہارے لیے کچھ مقرر کردیں گے انہوں نے اپنے جی میں کہا کہ جو لوگ وہاں سے آئیں گے ہم ان میں سے جس کو چاہیں گے قتل کرڈالیں گے اور جو رہ جائیں گے ان کو مکہ جا کر بیچ دیں گے کچھ روپیہ ہی ہاتھ آئے گا۔ القصہ عضل اور قارہ کے چند لوگوں نے جناب رسول اللہ کی خدمت اقدس میں آکر سلام کیا اور عرض کیا یا رسول اللہ ہمارے یہاں مسلمان ہیں آپ چند صحابہ کو ہمارے ہمراہ بھیج دیجئے تاکہ وہ دین کی باتیں ہم کو سکھائیں حضور نے خبیب بن عدی انصاری اور مرثد بن ابی مرثد غنوی اور خالد بن بکر اور عبداللہ بن طارق اور زید بن دثنہ ؓ کو بھیج دیا اور عاصم بن ثابت انصاری کو ان کا امیر مقرر فرمایا صحیح بخاری میں ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ دس آدمی بھیجے اور عاصم بن ثابت کو امیر بنا یا۔ القصہ ان کافروں نے بد عہدی کی اور چاروں سے تقریباً سو تیر انداز ان کے گرد شور و غل کرنے لگے ایک روایت میں دو سو آدمی آئے ہیں۔ میں کہتا ہوں کہ تیر انداز ان میں سو ہی ہوں گے جب حضرت عاصم اور ان کے ساتھیوں نے ان کو دیکھا تو ایک ٹیلے پر چلے گئے کافروں نے چاروں طرف سے احاطہ کرلیا اور کہا کہ ہم عہد و پیمان کرتے ہیں کہ ہم تم کو قتل نہ کریں گے اور نہ ہمارا ارادہ قتل کا ہے ہم تو تم کو اس لیے لائے ہیں کہ تم کو دے کر مکہ والوں سے کچھ مال لیں تم اتر آؤ حضرت عاصم ؓ نے فرمایا کہ میں تو کافر کی ذمہ داری پر اترتا نہیں اے اللہ میں آج تیرے دین کی حمایت کرتا ہوں تو میرے گوشت کی حفاظت کر اے اللہ اپنے رسول ﷺ کو ہماری خبر کردے چناچہ یہ دعا ان کی قبول ہوئی اور جناب رسول اللہ نے اس قصہ سے جس دن وہ قتل ہوئے مطلع فرمادیا۔ الغرض قتال شروع ہوگیا کفار نے تیر اندازی کی اور حضرت عاصم کو مع سات ساتھیوں کے شہید کردیا اور خبیب اور عبد اللہ بن طارق اور زید ؓ باقی رہ گئے جب حضرت عاصم مقتول ہوئے تو ہذیل نے ان کا سر (1) [ یہ اس لیے سر لینا چاہتے تھے کہ سلافہ بن سعد قبیلہ کی ایک عورت تھی اس کے ایک بیٹے کو حضرت عاصم نے احد کے دن قتل کیا تھا اس نے نذر کی تھی کہ اگر مجھے عاصم ؓ کا سر مل گیا تو اس کی کھوپڑی میں شراب پیوں گی۔ (معالم)] مبارک لینا چاہا اتفاقاً بہت سی بھیڑیں آگئیں اسی کی وجہ سے وہ سر کو ہاتھ نہ لگا سکے اسی دن سے حضرت عاصم کا لقب حمی الدبر (بھڑوں کی حفاظت کیے ہوئے) ہوگیا اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے ایک بدلی بھیج دی وہ اس قدر برسی کہ پانی خوب بہا اور حضرت عاصم کے سر مبارک کو بہا لے گیا۔ حضرت عاصم ؓ نے اللہ تعالیٰ سے یہ عہد کیا تھا کہ نہ میں کسی مشرک کو مَس کروں گا اور نہ مجھ کو کوئی مشرک مَس کرے گا اللہ تعالیٰ نے ان کی قسم کو پورا کردیا اب رہ گئے زید اور عبد اللہ اور خبیب ؓ ان کو مشرکوں نے قید کرلیا اور بیچنے کے خیال سے مکہ لے چلے جب ظہران میں پہنچے تو عبد اللہ بن طارق ؓ نے اپنا ہاتھ ہتھکڑی سے چھڑا لیا اور تلوار لے لی کفار نے جب یہ دیکھا تو ان کو پتھروں سے مار کر شہید کردیا اور ظہران ہی میں ان کو دفن کردیا اور زید اور خبیب کو مکہ میں لا کر بیچ دیا۔ ابن اسحاق اور ابن سعد نے کہا ہے کہ زید کو تو صفوان بن امیہ نے خریدا ( یہ صفوان آخر میں مسلمان ہوگئے تھے) انہوں نے اس لیے خریدا تھا کہ اپنے بیٹے امیہ بن خلف کے بدلہ میں ان کو قتل کرے۔ الغرض صفوان نے ان کو خرید کر اپنے غلام نسطاس کے ہاتھ قتل کرنے کے واسطے تنعیم بھیجا اور قریش کی ایک جماعت جس میں ابو سفیان بھی شامل تھا جمع ہوگئی ابو سفیان نے کہا کہ زید میں تم کو اللہ کی قسم دیتا ہوں کیا تم یہ چاہتے ہو کہ محمد ﷺ تمہاری جگہ ہوں اور ( معاذ اللہ) ان کی گردن ماری جائے اور تم چین سے اپنے گھر جاؤ۔ حضرت زید ؓ نے فرمایا کہ قسم ہے اللہ کی میں ہرگز نہیں چاہتا کہ جناب رسول اللہ اس وقت میری جگہ ہوں اور ان کو کوئی کانٹا تک بھی ستائے اور میں اپنے گھر بیٹھا رہوں یہ سن کر ابو سفیان نے کہا مجھے نہیں معلوم کہ کسی کو کسی سے اس قدر محبت ہو جس قدر کہ اصحاب محمد کو محمد ﷺ سے ہے اس کے بعد نسطاس غلام نے حضرت زید کو شہید کردیا اب رہ گئے خبیب ؓ ان کو حارث کے بیٹوں نے خرید لیا کیونکہ بدر کے دن حضرت خبیب نے حارث کو قتل کیا تھا۔ حضرت خبیب ان کے یہاں قید رہے ایک روز حارث کی ایک بیٹی سے حضرت خبیب نے بال وغیرہ لینے کے لیے استرہ مانگا اس نے دے دیا۔ اتفاقاً اس کا ایک بچہ بھی جہاں خبیب تھے وہاں جا نکلا اور اس کی ماں کو خبر نہ تھی کچھ دیر بعد حارث کی اس بیٹی نے دیکھا کہ حضرت خبیب ؓ نے اس بچہ کو ران پر بٹھا رکھا ہے اور استرہ ہاتھ میں ہے وہ عورت یہ دیکھ کر چلائی۔ حضرت خبیب ؓ نے کہا کہ کیا تو اس بات سے ڈرتی ہے کہ میں اس کو قتل کردوں گا میں ہرگز ایسا نہ کروں گا بدعہدی ہم لوگوں کا شیوہ نہیں ہے۔ اس عورت کا بیان ہے کہ وا اللہ میں نے کوئی قیدی خبیب سے اچھا نہیں دیکھا۔ میں نے یہ بھی دیکھا خبیب انگور کا خوشہ کھا رہے ہیں حالانکہ وہ زنجیروں میں جکڑے ہوئے تھے اور مکہ مکرمہ میں بھی اس وقت انگور نہ تھا ضرور اللہ تعالیٰ نے ان کو اپنے پاس سے کھلایا اس کے بعد کفار نے ان کے قتل کا ارادہ کیا اور ان کر حرم سے نکال کر حل میں لائے اور سولی دینے کا ارادہ کیا حضرت خبیب نے فرمایا کہ مجھے ذرا سی دیر مہلت دو تاکہ میں دو رکعت پڑھ لوں کفار نے چھوڑ دیا۔ حضرت خبیب نے دو رکعتیں پڑھیں اور یہ نماز کا طریقہ حضرت خبیب ہی سے شروع ہوا کہ جب کوئی مسلمان اس طرح روک کر قتل کیا جائے وہ دو رکعتیں پڑھے پھر حضرت خبیب ؓ نے کفار سے کہا تم یہ گمان کرو گے کہ موت سے گھبراتا ہے اگر یہ گمان نہ ہوتا تو میں اور زیادہ نماز پڑھتا پھر کہا کہ اے اللہ ان کفار میں سے ایک ایک کو قتل اور تباہ کر اور ایک کو بھی باقی نہ رکھ اور یہ اشعار پڑھے ؂ و لسی ابالی حین اقتل مسلماً علی ای شق کان فی اللہ مصرعی و ذالک منی للالہ و ان یشاء بیارک فی اوصال شلو ممزع (یعنی جب میں اسلام کی حالت میں قتل کیا جاؤں تو مجھے اس امر کی پرواہ نہیں کہ اللہ کی راہ میں کس کروٹ گروں گا اور یہ قتل ہونا اللہ کی راہ میں ہے اور اگر اللہ چاہے گا۔۔ تو میرے پارہ پارہ اعضا کے جوڑوں پر برکت بھیجے گا) اس کے بعد کفار نے حضرت خبیب کو سولی پر چڑھا دیا اور ایک روایت میں ہے کہ حضرت خبیب ؓ نے فرمایا کہ اے اللہ اپنے رسول کو میرا سلام پہنچا دے اور بعض نے کہا ہے کہ مشرکین میں سے ایک شخض سلامان ابو میسرہ نامی تھا اس نے نیزہ حضرت خبیب کے سینہ پر رکھا حضرت خبیب نے اس سے کہا کہ اللہ سے ڈر اس کہنے سے وہ اور زیادہ بھڑکا اور نیزہ کو چیر کر آر پار کردیا۔ و اذا قیل لہ اتق اللہ [ الایۃ ] سے یہی مراد ہے۔ محمد بن عمرو بن مسلمہ نے روایت کی ہے کہ حصرت اسامہ بن زیدنے فرمایا ہے کہ ہم نے سنا کہ رسول اللہ فرماتے ہیں۔۔ کہ جبرائیل نے ابھی مجھ کو خبیب کا سلام پہنچایا ہے جب جناب رسول اللہ کو یہ قصہ معلوم ہوا تو حضور ﷺ نے اصحاب سے فرمایا کہ تم میں کوئی ایسا ہے کہ جو خبیب کو سولی پر سے اتار لائے جو لائے گا اس کے لیے جنت ہے۔ حضرت زبیر نے عرض کیا : یا رسول اللہ میں اور میرا ساتھی مقداد بن اسود اس کام کو کریں گے غرض یہ دونوں چلے رات کو چلتے اور دن کو مخفی رہتے چلتے چلتے تنعیم پہنچے دیکھا کہ سولی کے پاس چالیس مشرک ہیں انہوں نے جا کر اتارا دیکھا تو اسی طرح ترو تازہ تھے۔ حالانکہ چالیس روز کے بعد اتارا تھا۔ ہاتھ زخم پر تھا اور زخم میں خون ترو تازہ تھا اس کا رنگ خون کی طرح سرخ تھا مگر خوشبو مشک کی سی آرہی تھی۔ حضرت زبیر نے ان کو گھوڑے پر لادا اور دونوں چلے کفار بھی جاگ گئے دیکھا کہ خبیب نہیں ہیں قریش کو جا کر خبر دی اس وقت ستر سوار دوڑے جب قریب آگئے تو حضرت زبیر ؓ نے خبیب کو وہاں ہی گرا دیالاش گرتے ہیں زمین نگل گئی اس دن سے ان کو بیع الارض 1 ؂ کہتے ہیں زبیر اور مقداد دونوں رسول اللہ کی خدمت میں آئے اور اس وقت جبرئیل ( علیہ السلام) بھی آپ کے پاس آئے اور کہا کہ اے محمد ﷺ ملائکہ ان دونوں 2 ؂ پر بہت فخر کرتے ہیں پھر ان کے بارے میں آیت کریمہ : و من الناس من یشری نفسہٗ ۔۔ نازل ہوئی اس واقعہ کے مطابق یشری نفسہ کے معنی یہ ہوں گے کہ اپنے نفسوں کو خبیب کے اتارنے کے لیے بیچ ڈالا ‘ وا اللہ اعلم۔ ابن جریر نے عکرمہ (رح) سے روایت کیا ہے کہ یہود میں سے جو لوگ مسلمان ہوگئے تھے ان میں سے حضرت عبد اللہ بن سلام اور ثعلبہ اور ابن یامین اور اسد اسید کعب کے بیٹے اور سعید بن عمرو اور قیس بن زید نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ہم ہفتہ کے دن کی تعظیم کیا کرتے تھے اب بھی ہم کو آپ اجازت دیجئے کہ اس کی توقیر کیا کریں اور تورات بھی تو آخر کتاب الٰہی ہے۔ اس کو ہم رات کو کھڑے ہو کر پڑھا کریں۔ علامہ بغوی (رح) نے بھی اسی طرح بیان کیا ہے اور یہ بھی کہا ہے کہ بعد اسلام لانے کے بھی یہ لوگ اونٹ کے دودھ اور گوشت کو حرام جانتے تھے اس پر یہ آیت کریمہ ارشا دہوئی۔
Top