Tafseer-e-Mazhari - Al-Baqara : 208
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا ادْخُلُوْا فِی السِّلْمِ كَآفَّةً١۪ وَّ لَا تَتَّبِعُوْا خُطُوٰتِ الشَّیْطٰنِ١ؕ اِنَّهٗ لَكُمْ عَدُوٌّ مُّبِیْنٌ
يٰٓاَيُّهَا : اے الَّذِيْنَ اٰمَنُوا : جو لوگ ایمان لائے ادْخُلُوْا : تم داخل ہوجاؤ فِي : میں السِّلْمِ : اسلام كَآفَّةً : پورے پورے وَ : اور لَا تَتَّبِعُوْا : نہ پیروی کرو خُطُوٰتِ : قدم الشَّيْطٰنِ : شیطان اِنَّهٗ : بیشک وہ لَكُمْ : تمہارا عَدُوٌّ : دشمن مُّبِيْنٌ : کھلا
مومنو! اسلام میں پورے پورے داخل ہوجاؤ اور شیطان کے پیچھے نہ چلو وہ تو تمہارا صریح دشمن ہے
يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا ادْخُلُوْا فِي السِّلْمِ كَاۗفَّةً ۠ ( اے ایمان والو ! داخل ہوجاؤ اسلام میں پورے پورے) سلم کسرہ اور فتحہ سین سے صلح اور طاعت کو کہتے ہیں اور اسی واسطے اس کا اطلاق اسلام پر بھی آیا ہے اور یہاں مراد اسلام ہی سے ہے۔ نافع اور ابن کثیر اور کسائی نے السلم کو یہاں فتح سین سے اور باقی قراء نے کسرہ سے پڑھا ہے اور ابوبکر نے اسی لفظ کو سورة انفال میں کسرہ سے اور باقی قراء نے فتح سے پڑھا ہے کافہ کے معنی کل ہیں کیونکہ کف کہتے ہیں روکنے کو چونکہ کل بھی اجزائی پراگندگی سے مانع ہوجاتا ہے اس لیے اس کو کافہ کہنے لگے اور کافہ یا تو ادخلوا کے ضمیر سے اور یا اسلم سے حال ہے اسلم بھی اپنی ضد یعنی حرب کی طرح مؤنث آتا ہے معنی آیت کے یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے سب دل سے ظاہراً و باطناً منقاد اور مطیع ہوجاؤ۔ میں کہتا ہوں کہ ایسی ظاہری باطنی طاعت تو صوفیہ کے سوا اور کسی کو میسر نہیں آسکتی یا یہ معنی ہیں کہ اسلام میں پوری طرح داخل ہوجاؤ اس میں سوائے اسلام کے اور کچھ مت ملاؤ یا یہ مطلب ہے کہ اسلام کی تمام شاخوں میں اور احکام میں داخل ہوجاؤ اور کسی حکم میں خلل انداز مت ہو۔ حضرت حذیفہ بن الیمان ؓ نے اس آیت کی تفسیر میں فرمایا ہے کہ اسلام کے آٹھ سہام ہیں۔ نماز۔ روزہ۔ زکوٰۃ۔ حج۔ عمرہ۔ جہاد۔ امر بالمعروف 3 ؂ نہی عن المنکر 4 ؂ جس کے پاس ان میں سے ایک حصہ بھی نہیں وہ بےمراد اور محروم رہا۔ میں کہتا ہوں کہ حذیفہ نے جو کچھ ذکر فرمایا یہ بطور مثال کے ہے یہ مطلب نہیں کہ اسلام کے کل اجزا یہی ہیں اور آیت میں تو ہر مامور کا ماننا اور ممنوع سے باز رہنا مراد ہے یا یہ توجیہ کی جائے کہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر میں سب چیزیں آگئیں کیونکہ کسی کو بھلی بات بتانے کا تقاضا ہے کہ بتانے والا خود بھی اس کام کو کرتا ہے اور بری خصلت سے روکنا اس امر کو بتاتا ہے کہ وہ خود اس سے برکنار ہے۔ ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ جناب رسول اللہ نے فرمایا کہ ایمان کی کچھ اوپر ستّر شاخیں ہیں ‘ افضل ان میں سے : لا الٰہ الاّ اللہ کہنا اور ادنیٰ راستہ سے ایذا کی چیز ہٹانا ہے اور حیا بھی ایمان کی ایک شاخ ہے، اس حدیث ومسلم اور ابو داؤد اور نسائی اور ابن ماجہ نے روایت کیا ہے۔ وَلَا تَتَّبِعُوْا خُطُوٰتِ الشَّيْطٰنِ ( اور نہ چلو شیطان کے قدموں پر) خطوات میں جو اختلاف قراءت کا ہے وہ اوّل گذر چکا ہے۔ حاجت اعادہ نہیں۔ یعنی شیطان کے نشان قدم پر مت چلو مثلاً روز ہفتہ کی حرمت کرنے لگو اور اونٹ کو حرام کرلو حالانکہ یہ سب امور منسوخ ہوچکے۔ اِنَّهٗ لَكُمْ عَدُوٌّ مُّبِيْنٌ ( بیشک وہ تمہارا کھلا ہوا دشمن ہے) حضرت جابر بن عبد اللہ فرماتے ہیں کہ جناب رسول اللہ کی خدمت میں حضرت عمر آئے اور عرض کیا یا رسول اللہ ! ہم یہود سے ایسی باتیں سنتے ہیں جو ہم کو اچھی معلوم ہوتی ہیں اگر حضور کی رائے ہو تو ہم ان میں سے بعض باتیں لکھ لیا کریں۔ حضور ﷺ نے فرمایا کہ کیا تم بھی اسی طرح حد سے بڑھو گے جس طرح یہود اور نصاریٰ بڑھ گئے میں تو تمہارے واسطے صاف روشن شریعت لایا ہوں اگر موسیٰ ( علیہ السلام) بھی اس وقت زندہ ہوتے تو ان کو بھی سوائے میرے اتباع کے اور کچھ بن نہ پڑتا اس حدیث کو امام احمد نے اور بیہقی نے شعب الایمان میں روایت کیا ہے۔
Top