Tafseer-Ibne-Abbas - Al-Baqara : 219
یَسْئَلُوْنَكَ عَنِ الْخَمْرِ وَ الْمَیْسِرِ١ؕ قُلْ فِیْهِمَاۤ اِثْمٌ كَبِیْرٌ وَّ مَنَافِعُ لِلنَّاسِ١٘ وَ اِثْمُهُمَاۤ اَكْبَرُ مِنْ نَّفْعِهِمَا١ؕ وَ یَسْئَلُوْنَكَ مَا ذَا یُنْفِقُوْنَ١ؕ۬ قُلِ الْعَفْوَ١ؕ كَذٰلِكَ یُبَیِّنُ اللّٰهُ لَكُمُ الْاٰیٰتِ لَعَلَّكُمْ تَتَفَكَّرُوْنَۙ
يَسْئَلُوْنَكَ : وہ پوچھتے ہیں آپ سے عَنِ : سے الْخَمْرِ : شراب وَالْمَيْسِرِ : اور جوا قُلْ : آپ کہ دیں فِيْهِمَآ : ان دونوں میں اِثْمٌ : گناہ كَبِيْرٌ : بڑا وَّمَنَافِعُ : اور فائدے لِلنَّاسِ : لوگوں کے لیے وَاِثْمُهُمَآ : اور ان دونوں کا گناہ اَكْبَرُ : بہت بڑا مِنْ : سے نَّفْعِهِمَا : ان کا فائدہ وَيَسْئَلُوْنَكَ : اور وہ پوچھتے ہیں آپ سے مَاذَا : کیا کچھ يُنْفِقُوْنَ : وہ خرچ کریں قُلِ : آپ کہ دیں الْعَفْوَ : زائد از ضرورت كَذٰلِكَ : اسی طرح يُبَيِّنُ : واضح کرتا ہے اللّٰهُ : اللہ لَكُمُ : تمہارے لیے الْاٰيٰتِ : احکام لَعَلَّكُمْ : تاکہ تم تَتَفَكَّرُوْنَ : غور وفکر کرو
(اے پیغمبر ﷺ لوگ تم سے شراب اور جوئے کا حکم دریافت کرتے ہیں کہہ دو کہ ان میں نقصان بڑے ہیں اور لوگوں کے لئے کچھ فائدے بھی ہیں مگر ان کے نقصان فائدوں سے کہیں زیادہ ہیں اور یہ بھی تم سے پوچھتے ہیں کہ (خدا کی راہ میں) کونسا مال خرچ کریں کہہ دو کہ جو ضرورت سے زیادہ ہو، اس طرح خدا تمہارے لئے اپنے احکام کھول کھول کر بیان فرماتا ہے تاکہ تم سوچو
(219) اگلی آیت حضرت عمر فاروق ؓ کے متعلق نازل ہوئی ہے، انہوں نے فرمایا تھا کہ یا الہ العالمین، شراب کے بارے میں کوئی صاف حکم بیان فرمادے، اللہ تعالیٰ نے رسول اکرم ﷺ کو خطاب کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ آپ سے شراب اور جوئے کے بارے میں پوچھتے ہیں، آپ فرما دیجیے کہ ان میں حرمت کے بعد بہت بڑا گناہ ہے اور حرمت سے پہلے کے لیے تجارت وغیرہ کے معمولی سے فوائد ہیں مگر تحریم سے پہلے جو اس میں نفع ہے اس سے بہت زیادہ حرمت کے بعد ان میں گناہ ہے پھر اس کے بعد دونوں صورتوں میں شراب حرام کردی گئی ، یہ آیت حضرت عمرو بن جموع ؓ کے بارے میں اتری ہے انہوں نے رسول اکرم ﷺ سے پوچھا تھا کہ ہم اپنے مال سے کیا صدقہ کریں تو اللہ تعالیٰ نے نبی کریم ﷺ سے فرمایا کہ آپ سے دریافت کرتے ہیں کہ ہم اپنے مال میں سے کیا صدقہ کریں، آپ کہہ دیں کہ جو اپنے کھانے اور بچوں کی پرورش سے بچ جائے، پھر اس کے بعد یہ حکم آیت زکوٰۃ سے منسوخ ہوگیا، اسی طرح اللہ تعالیٰ اوامرو نواہی اور دنیا کی ذلت کو بیان فرماتا ہے تاکہ تم جان لو کہ دنیا فنا ہونے والی ہے اور آخرت باقی رہنے والی ہے۔ شان نزول : (آیت) ”یسئلونک ماذا ینفقون“۔ (الخ) ابن ابی حاتم ؒ نے سعید یا عکرمہ ؒ کے ذریعہ سے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا ہے کہ جب فی سبیل اللہ خرچ کرنے کا حکم دیا گیا تو صحابہ کرام ؓ کی ایک جماعت رسول اکرم ﷺ کی خدمت میں آئی اور عرض کیا کہ ہمیں معلوم نہیں کہ کس قسم کے نفقہ کا ہمارے اموال میں حکم دیا گیا ہے سو ہم کیا خرچ کریں، اس پر یہ آیت نازل ہوئی (آیت) ”یسئلونک ماذا ینفقون“۔ اور ابن ابی حاتم ؒ نے یحییٰ ؒ سے روایت کیا ہے کہ ان تک بات پہنچی ہے کہ حضرت معاذ ؓ اور ثعلبہ ؓ حضور اکرم ﷺ کی خدمت میں آئے اور عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ ہمارے پاس غلام بھی ہیں اور گھر والے بھی ہیں تو ہم اپنے اموال میں سے کیا خرچ کریں، اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت مبارکہ اتاری۔ (لباب النقول فی اسباب النزول از علامہ سیوطی (رح)
Top