Tafseer-e-Mazhari - Al-Baqara : 223
نِسَآؤُكُمْ حَرْثٌ لَّكُمْ١۪ فَاْتُوْا حَرْثَكُمْ اَنّٰى شِئْتُمْ١٘ وَ قَدِّمُوْا لِاَنْفُسِكُمْ١ؕ وَ اتَّقُوا اللّٰهَ وَ اعْلَمُوْۤا اَنَّكُمْ مُّلٰقُوْهُ١ؕ وَ بَشِّرِ الْمُؤْمِنِیْنَ
نِسَآؤُكُمْ : عورتیں تمہاری حَرْثٌ : کھیتی لَّكُمْ : تمہاری فَاْتُوْا : سو تم آؤ حَرْثَكُمْ : اپنی کھیتی اَنّٰى : جہاں سے شِئْتُمْ : تم چاہو وَقَدِّمُوْا : اور آگے بھیجو لِاَنْفُسِكُمْ : اپنے لیے وَاتَّقُوا : اور دوڑو اللّٰهَ : اللہ وَاعْلَمُوْٓا : اور تم جان لو اَنَّكُمْ : کہ تم مُّلٰقُوْهُ : ملنے والے اس سے وَبَشِّرِ : اور خوشخبری دیں الْمُؤْمِنِيْنَ : ایمان والے
تمہاری عورتیں تمہارای کھیتی ہیں تو اپنی کھیتی میں جس طرح چاہو جاؤ۔ اور اپنے لئے (نیک عمل) آگے بھیجو۔ اور خدا سے ڈرتے رہو اور جان رکھو کہ (ایک دن) تمہیں اس کے روبرو حاضر ہونا ہے اور (اے پیغمبر) ایمان والوں کو بشارت سنا دو
نِسَاۗؤُكُمْ حَرْثٌ لَّكُمْ ۠ ( تمہاری عورتیں تمہاری کھیتی ہیں) یعنی تمہارے کھیتوں کی جگہ ہیں کھیتیوں کے ساتھ انہیں اس لیے تشبیہ دی ہے کہ ان کے رحموں میں جو نطفے ڈالے جاتے ہیں وہ تخموں کے مشابہ ہیں غرض اس سے یہ ہے کہ عورتوں سے صحبت کرنا محص نسل باقی رکھنے کے لیے تمہارے واسطے مباح کردیا گیا ہے۔ فَاْتُوْا حَرْثَكُمْ ( پس تم اپنی کھیتیوں میں آؤ) یعنی ان کی فرجوں میں صحبت کرو گویا یہ آیت فاتوھن من حیث امر کم اللہ کا بیان ہے۔ اَنّٰى شِئْتُمْ ( جہاں سے چاہو) یعنی جس طرح تم چاہو کیونکہ کلمہ انی کیف اور این کے معنی میں مشترک ہے اور اینکے معنی یہاں بن نہیں سکتے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ جگہ کے عام ہونے پر دلالت کرے گا۔ حالانکہ کھیتی کی جگہ ایک ہی ہے اس لیے یہاں کیف ہی کے معنی معین ہوں گئے اس آیت کے شان نزول میں جو ایک تحقیق ہم عنقریب بیان کریں گے۔ اس کا مقتضی بھی یہی ہے ‘ واللہ اعلم۔ عورتوں کی دبر میں وطی کرنے کی جو ہم نے حرمت بیان کی ہے امام ابوحنیفہ (رح) اور امام احمد اور جمہور اہل سنت کا یہی قول ہے امام مالک سے اس کے جواز کا فتویٰ نقل کیا گیا ہے لیکن امام مالک کے شاگرد امام مالک کی طرف جواز کے انتساب کے منکر ہیں۔ صحیح بات یہ ہے کہ پہلے ان کا یہ مذہب تھا پھر انہوں نے اس سے رجوع کرلیا اور امام شافعی (رح) کے اس میں دو قول ہیں پہلا قول جو ابن عبد الحکم نے نقل کیا ہے یہ ہے کہ اس کی حرمت اور حلت میں رسول اللہ سے کچھ ثابت نہیں ہے اور قیاس بھی یہی (چاہتا) ہے کہ یہ حلال ہو گویا انہوں نے اس فعل کو اس پر قیاس کیا ہے کہ کوئی شخص اپنا ذکر اپنی بی بی کے ہاتھ میں یا ران سے لگا کر حاجت پوری کرے۔ حاکم نے سند کے ساتھ ابن عبد الحکم سے نقل کیا ہے کہ اس مسئلہ میں میں نے امام شافعی سے گفتگو کی تھی انہوں نے یہ جواب دیا کہ محمد بن حسن نے بھی ( اس بارے میں) مجھ سے پوچھا تھا تو میں نے ان سے یہ کہا کہ اگر تم اس بارے میں محض جھگڑا کرنا اور روایتوں کو صحیح کرنا چاہتے ہو ( اگرچہ اس کی بابت روایت کوئی بھی صحیح نہیں ہے) تو تم خود واقف اور جاننے والے ہو اور اگر منصفانہ بحث کرتے ہو تو میں موجود ہوں انہوں نے کہا کہ نہیں منصفانہ ہی گفتگو کرنی چاہتا ہوں تب میں نے اس سے پوچھا کہ تم اس فعل کو کس دلیل سے حرام کہتے ہو کہ اللہ عزوجل نے فرمایا فاتوھُنَّ مِنْ حَیْثُ اَمْرُکُمُ اللہ فاتوا حرثکم انّیٰ شِءْتُم اور کھیتی فقط فرج ہی میں ہوتی ہے۔ میں نے پوچھا کیا اس جگہ کے سوا اور سب جگہیں اس آیت سے حرام ہوجائیں گی کہا ہاں میں نے پوچھا کہ اس میں تم کیا کہتے ہو کہ کوئی شخص اپنی بی بی کی پنڈلیوں کے بیچ میں یا بغل میں وطی کرلے یا اپنا ذکر اس کے ہاتھ میں دیدے کیا اس میں بھی کوئی کھیتی ہے کہا نہیں میں نے کہا کیا یہ فعل حرام ہے کہا نہیں تب میں نے کہا کہ ایسی آیت کو اپنی دلیل کیوں بناتے ہو جو کسی طرح دلیل نہیں ہوسکتی کہنے لگے (دوسری جگہ) اللہ نے فرمایا ہے : وَالَّذِیْنَ ھُمْ لِفُرُوْجِھِمْ حَافِظُونَ ( یعنی جو اپنی فرجوں کی حفاظت کرنے والے ہیں) تو اس میں فرج کو نام لے کر کہا ہے میں نے کہا کہ یہی دلیل ہے جس سے علما اس کے جواز پر حجت لاتے ہیں۔ کیونکہ یہاں اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کی تعریف کی ہے جنہوں نے اپنی بی بی اور اپنی لونڈی کے علاوہ اوروں سے اپنی شہوت پوری کرنے کو روکا اور اس کے تو تم بھی قائل ہو۔ میں کہتا ہوں کہ جب ہم نے یہ بیان کردیا کہ عورتوں سے بد فعلی کرنے کی حرمت کا سبب پلیدی ہی ہے اور یہ پلیدی اس صورت میں منتفی ہے کہ جب کوئی عورت کی پنڈلیوں وغیرہ میں وطی کرے تو اسے امام شافعی کے قیاس کا ضعیف ہونا صاف معلوم ہوگیا امام موصوف نے اسی وجہ سے اپنے اس قول سے رجوع کرلیا ہے ( اب ان کا یہ قول نہیں ہے) ۔ حاکم کہتے ہیں شاید امام شافعی (رح) اس ( کے جواز) کے پہلے قائل ہوں گے ورنہ اب ان کا یہ قول نہیں ہے اب تو ان سے بھی اس کی حرمت ہی مشہور ہے۔ ربیع کہتے ہیں کہ ابن عبد الحکم نے ( جو امام شافعی سے یہ روایت کی ہے اس نے) صریح جھوٹ بولا قسم ہے اس ذات کی جس کے سوا اور کوئی معبود نہیں کہ امام موصوف نے اپنی سنن میں اس کی حرمت کی خوب تشریح کردی ہے اور ان سے بہت سے علما نے اسے نقل بھی کیا ہے منجملہ ان کے ماوردیؔ نے حاوی میں اور ابو نصر بن صباحؔ نے شامل میں اور ان کے علاوہ اوروں نے بھی شیخ ابن حجر عسقلانی فرماتے ہیں ہ ربیع کیا بن عبد الحکم کی تکذیب کرنے سے کوئی فائدہ نہیں نکلتا کیونکہ وہ اس بارے میں اکیلے ہی راوی نہیں بلکہ ان کے بھائی عبد الرحمن نے بھی اس میں ان ہی کی موافقت کی ہے۔ تحقیقی بات یہ ہے کہ اس بارے میں امام شافعی کے دو قول ہیں اخیر قول یہ ہے کہ اس سے انہوں نے رجوع کرلیا ہے وہ اس کی حرمت میں جمہور کے موافق ہیں اس بد فعلی کی حرمت میں بہت سی حدیثیں وارد ہیں ابن جوزی کہتے ہیں کہ صحابہ ؓ کی ایک بڑی جماعت سے یہ مروی ہے جنہوں نے رسول اللہ ﷺ سے اس کو روایت کیا ہے منجملہ ان کے عمر بن خطاب ؓ ، علی بن ابی طالب، خزیمہ بن ثابت، ابوہریرہ، ابن عباس، عبد اللہ بن عمرو بن عاص، ابن مسعود، عقبہ بن عامر، براء بن عازب، طلق بن علی، ابو ذرجابر بن عبد اللہ ؓ بھی اسی کے راوی ہیں۔ میں کہتا ہوں کہ حضرت عمر ؓ کی حدیث نسائی اور بزار نے زمعہ بن صالح کی سند سے روایت کی ہے زمعہ نے طاؤس سے ‘ انہوں نے اپنے باپ سے ‘ انہوں نے ہادی سے ‘ انہوں نے عمر ؓ سے اور زمعہ ضعیف ہیں احمد اور ابو حاتم نے ان کا ضعیف ہونابیان کیا ہے اور ذہبی کہتے ہیں کہ یہ صالح الحدیث ہیں لیکن ان پر موقوف اور مرفوع ہونے میں اختلاف ہے باقی رہی حضرت علی ؓ کی حدیث اس کو ترمذی، نسائی، ابن ماجہ نے ان لفظوں سے نقل کیا ہے : ان اللہ لا یستحیی من الحق لا تاتوا النساء فی اعجارھن ( یعنی اللہ حق بات بیان کرنے سے نہیں شرماتا تم عورتوں سے بد فعلی ( یعنی دبر میں وطی) نہ کیا کرو) اور خزیمہ ابن ثابت کی حدیث کہ نبی ﷺ سے ایک آدمی نے عورتوں کی دبر میں وطی کرنے کو پوچھا تو حضور ﷺ نے فرمایا کہ جائز ہے جب وہ پشت پھیر کے چلنے لگا تو آپ ﷺ نے پھر بلا کے فرمایا تم نے کیا پوچھا تھا آیا یہ پوچھتے تھے کہ دونوں راستوں میں سے کون سے میں جائز ہے سوا گر پیچھے ہو کر فرج میں وطی کرے تو جائز ہے اور اگر پیچھے ہو کر دبر ہی میں کرنے لگے تو یہ ہرگز جائز نہیں ہے۔ بیشک اللہ تعالیٰ حق ( بات بیان کرنے) سے نہیں شرماتا تم لوگ عورتوں کی دبر میں وطی ہرگز نہ کیا کرو۔ یہ روایت امام شافعی امام احمد ترمذی ابن ماجہ دارمی نے نقل کی ہے اور اس میں عمرو بن اجنحہ راوی مجہول الحال ہیں اور یہی روایت وھب بن سوید بن ہلال کے طریق سے نسائی نے نقل کی ہے اس طرح کہ انہوں نے اپنے باپ سے انہوں نے علی ابن سائب سے انہوں نے حصین بن محصن سے انہوں نے ہر می بن عبد اللہ سے انہوں خزیمہ سے روایت کی ہے اور ہر می کے طریق سے بھی اسے امام احمد، نسائی، ابن حبان نے نقل کیا ہے اور ان کا حال بھی معروف نہیں ہے بزار کہتے ہیں مجھے اس بارے میں کوئی حدیث صحیح معلوم نہیں ہوتی اور جو خزیمہ بن ثابت سے روایت کی جاتی ہے وہ صحیح نہیں ہے اور اسی طرح حاکم نے حافظ ابو علی نیشاپوری سے نقل کیا ہے اور ایسا ہی نسائی سے مروی ہے اور انہوں نے کہا ہے کہ ان دونوں روایتوں کو امام بخاری نے تسلیم کرلیا ہے۔ رہی ابوہریرہ ؓ کی حدیث کہ نبی ﷺ نے فرمایا : ملعون من اتی امراۃ فی دبرھا ( یعنی جو عورت کی دبر میں وطی کرے وہ ملعون ہے) اور ایک روایت میں یہ ہے کہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ ایسے شخص کی طرف رحمت کی نگاہ سے نہیں دیکھے گا جو عورت کی دبر میں وطی کرے اس روایت کو امام احمد اور ابو داود نے نقل کیا ہے اور باقی اصحاب سنن نے سہل بن ابی صالح کے طریق سے انہوں نے حرث بن مخلد سے انہوں نے ابوہریرہ ؓ سے روایت کی ہے اور بزار (رح) نے بھی اسے نقل کیا ہے اور یہ کہا ہے کہ حارث بن مخلد مشہور نہیں ہیں اور ابن قطان (رح) کہتے ہیں کہ ان کا حال معروف (بین المحدثین) نہیں ہے اس کے علاوہ سہیل پر اس میں اختلاف بھی ہے چناچہ اسماعیل بن عیاش نے سہیل سے انہوں نے محمد بن منکدر سے انہوں نے جابر ؓ سے روایت کی ہے جسے دار قطنی اور ابن شاہین نے نقل کیا ہے اس کو عفرہ کے مولی عمر نے سہیل سے انہوں نے اپنے باپ سے انہوں نے جابر ؓ سے روایت کی ہے جو ابن عدی نے نقل کی ہے اور اس کی سند ضعیف ہے اور ابوہریرہ کی حدیث ایک اور سند سے بھی مروی ہے جسے امام احمد اور ترمذی نے حماد بن سلمہ کے طریق سے روایت کیا ہے حماد حکیم اثرم سے وہ ابو تمیمیہ سے وہ ابوہریرہ سے اسی طرح روایت کرتے ہیں کہ جس شخص نے ایام والی عورت سے یا عورت کی دبر میں وطی کی یا کسی نے کاہن (نجومی) کے کہنے کو سچا جانا اس نے محمد ﷺ پر نازل شدہ احکام کا کفر کیا۔ ترمذی کہتے ہیں یہ حدیث غریب ہے سوائے حکیم کے طریق کے اور کسی سند سے ہم اسے نہیں جانتے اور امام بخاری فرماتے ہیں کہ ابو تمیمہ کا ابوہریرہ ؓ سے سننا کچھ مشہور نہیں ہے بزار کا قول یہ ہے کہ یہ حدیث منکر ہے اور حکیم ( والی سند) دلیل بنانے کے لائق نہیں ہے اور جس سند میں وہی اکیلے ہوں ( کہ وہ اور روایت اور سند سے مروی نہ ہو) تو وہ تو کوئی چیز ہی نہیں ہے یہ حدیث ایک تیسرے طریق سے بھی مروی ہے جسے نسائی نے زہری کی روایت سے انہوں نے ابو سلمہ سے ‘ انہوں نے ابوہریرہ ؓ سے نقل کیا ہے حمزہ کتانی کہتے ہیں کہ یہ حدیث منکر ہے اور اس میں عبد المالک جو راوی ہیں ان کے بار میں دحیم اور ابو حاتم وغیرہ نے گفتگو کی ہے اور محفوظ یہی ہے کہ وہ روایت موقوف ہے اس حدیث کی روایت ایک چوتھے طریق سے بھی آئی ہے جسے نسائی نے بکر بن خنیس کے طریق سے انہوں نے لیث سے انہوں مجاہد سے انہوں نے ابوہریرہ ؓ سے ان لفظوں سے نقل کیا ہے کہ : من اتٰی شیئاً من الرجال والنساء فی الادبار فقد کفر (ترجمہ : جس شخص نے مرد یا عورت کے ساتھ دبر میں وطی کی اس نے کفر کیا) بکر اور لیث دونوں ضعیف ہیں یہی روایت پانچویں طریق سے بھی مروی ہے جسے عبد اللہ ابن عمر بن ابان نے مسلم بن خال زنجی سے انہوں نے علا سے انہوں نے اپنے باپ سے انہوں نے ابوہریرہ ؓ سے ان لفظوں سے روایت کیا ہے کہ : ملعون من اتی النساء فی ادبارھن ( یعنی وہ آدمی ملعون ہے جو عورتوں کی دبر میں وطی کرے) یہ روایت امام احمد اور نسائی نے نقل کی ہے اور نسائی وغیرہ نے مسلم (بن خالد) کو ضعیف کہا ہے ذہبی کہتے ہیں کہ یہ بہت سچا آدمی ہے۔ یحییٰ بن معین وغیرہ نے اسے معتبر راوی کہا ہے رہی ابن عباس ؓ کی دیث سو اس کو ترمذی نسائی ابن حبان امام احمدبزار نے کثیر بن عباس کے طریق سے روایت کیا ہے بزار کہتے ہیں ہم نہیں جانتے کہ وھب کی سند سے زیادہ اچھی سند کے ساتھ کسی نے اس کو ابن عباس ؓ سے روایت کیا ہے ابو خالد الاحمر اس کے اکیلے راوی ہیں جو ضحاک بن عثمان سے وہ محمد بن سلیمان سے وہ کریب سے روایت کرتے ہیں اور اسی طرح ابن عدی نے کہا ہے اور اسی کو نسائی نے ہناد سے انہوں نے وکیع سے انہوں نے ضحاک سے موقوفاً روایت کیا ہے اور ان کے نزدیک مرفوع سے یہی زیادہ صحیح بھی ہے۔ ابن عباس سے ایک اور طریقے سے بھی موقوفاً مروی ہے جسے بزار نے معمر سے انہوں نے ابن طاؤس سے انہوں نے اپنے باپ سے نقل کی ہے کہ ابن عباس سے ایک آدمی نے عورتوں کی دبر میں وطی کرنے کو پوچھا تو آپ نے فرمایا تو مجھ سے کفر کی بات کو پوچھتا ہے اسے نسائی نے ابن المبارک کی روایت سے انہوں نے معمر سے نقل کیا ہے اور اس کی سند قوی ہے۔ رہی عبد اللہ بن عمرو بن عاص کی حدیث سو اسے امام احمد نے عن عمرہ بن شعیب عن ابیہ عن جدہٖ کی سند کے ساتھ ان لفظوں سے نقل کیا ہے کہ کسی نے رسول اللہ سے مسئلہ پوچھا کہ مرد عورت کی دبر میں وطی کرے تو کیسا ہے ؟ حضور ﷺ نے فرمایا کہ یہ لواطت صغریٰ ہے ( یعنی جائز نہیں ہے) نسائی نے اسے نقل کیا ہے اور محفوظ یہ ہے کہ یہ عبد اللہ بن عمرو کا قول ہے عبد الرزاق وغیرہ نے اسی طرح بیان کیا ہے اور اس بارے میں حضرت انس ؓ سے بھی روایت ہے جو اسماعیل نے معجم میں نقل کی ہے لیکن اس میں یزید رقاشی، راوی) ضعیف ہیں اور ابی بن کعب سے بھی بہت ہی ضعیف سند کے ساتھ جزء الحسن بن عرفہ میں روایت ہے اور ابن مسعود ؓ سے بھی بہت واہی سند کے ساتھ ابن عدی کے ہاں روایت ہے علی ہذا القیاس۔ عقبہ بن عامر سے امام احمد کے ہاں اس میں ابن لھیعہ راوی ہیں اور یہ سب حدیثیں اگرچہ ضعیف ہیں لیکن ایک کی دوسری سے قوت ہوجانے کے باعث اس کا علم یقیناً ہوجاتا ہے کہ نبی ﷺ سے اس بارے میں ایسی نہی وارد ہے جو اب کسی طرح رد نہیں ہوسکتی لہٰذا اس کا قائل ہونا بیشک واجب ہے وا اللہ اعلم اور جو لوگ اس فعل کے مباح ہونے کے قائل ہیں انہوں نے ابن عمر ؓ کی روایت کو اپنی دلیل بنایا ہے جو ان سے بہت سے طریقوں کے ساتھ صحیح طور پر مروی ہے کہ عورتوں کی دبر میں وطی کرنے کی بابت انہوں نے فرمایا : نساؤکم حرث لّکم فاتو احرثکم انّیٰ شئتم ( یعنی تمہاری عورتیں تمہاری کھیتی ہیں اب تم اپنی کھیتی میں جہاں سے چاہوآؤ) اسے بخاری نے روایت کیا ہے اور اسی طرح طبرانی نے بہت عمدہ سند کے ساتھ ان سے روایت کی ہے کہ انہوں نے فرمایا یہ آیت دبر میں وطی جائز ہونے کے بابت نازل ہوئی ہے ابن عمر سے یہ بھی نقل کیا گیا ہے کہ نبی ﷺ کے زمانہ میں ایک آدمی نے عورت کی دبر میں وطی کرلی تھی لوگوں نے اسے برا بھلا کہا تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت : نساء کم حرث لکم [ الایۃ ] نازل فرمائی۔ اسی طرح ابن جریر ‘ ابو یعلی ابن مردویہ عبد اللہ بن نافع کی سند سے انہوں نے ہشام بن سعد سے انہوں نے زید بن اسلم سے انہوں نے عطا بن یسار سے انہوں نے ابو سعید خدری سے یہ روایت کی ہے کہ ایک آدمی نے ایک عورت کی دبر میں وطی کرلی تھی لوگوں نے اس پر لعنت ملامت کی تو اللہ تعالیٰ نے نساء کم حرث لکم آیت نازل فرمائی : میں کہتا ہوں کہ ابن عمر ؓ اور ابو سعید خدری دونوں کا یہ وہم ہے اس آیت کے معنی ہیں دونوں نے غلطی کھائی ہے اور اگر اس آیت کے نازل ہونے کا یہی سبب تھا (جو ان دونوں نے بیان کیا ہے) تو حکم واقعہ کے مطابق نہیں ہوتا اس لیے کہ : فاتوا حرثکم انی شئتما اللہ تعالیٰ کا فرمانا کھیتی میں جانے کا حکم ہے نہ کہ دبر میں وطی کرنے کا کیونکہ یہ کھیتی کا موقع ہی نہیں ہے لہٰذا دبر کے مباح کرنے پر یہ آیت حجت ہرگز نہیں بن سکتی۔ بعض علماء کا قول ہے کہ یہ وہم نافع کا ہے کیونکہ عبد اللہ بن حسن سے مروی ہے کہ وہ سالم بن عبد اللہ سے ملے اور ان سے کہا کہ اے ابو عمر وہ کیسی حدیث ہے جو نافع ابن عمر ؓ سے روایت کرتے ہیں کہ ابن عمر ؓ عورتوں کی دبر میں وطی کرنے میں کچھ برائی نہیں سمجھتے تھے انہوں نے فرمایا کہ نافع جھوٹ بولتا ہے اور اس کی غلطی ہے بلکہ اللہ کا حکم یہ ہے کہ عورتوں کے پیچھے سے ہو کر فرجوں ہی میں وطی کیا کرو۔ میں کہتا ہوں کہ یہ سالم کا قول بھی ٹھیک نہیں ہے کیونکہ ابن عمر سے اس کو روایت کرنے میں نافع ہی تنہا نہیں ہیں بلکہ اس کو زید بن اسلم عبید اللہ بن عبد اللہ بن عمر سعید بن یسار وغیرہ نے بھی ابن عمر سے روایت کیا ہے اس طرح شیخ ابن حجر عسقلانی نے ذکر کیا ہے پس صحیح یہ ہے کہ یہ وہم تو یقیناً ابن عمر ہی سے ہوا ہے اور ابن عمر ؓ سے اس وہم ہونے کا راس المفسرین حضرت ابن عباس ؓ نے بھی حکم کیا ہے ابو داؤد اور حاکم نے ابن عباس ؓ سے نقل کیا ہے وہ فرماتے تھے کہ ابن عمر ؓ کی خدا مغفرت کرے اس سے یہ غلطی ہوگئی اس کی وجہ یہ ہوئی کہ انصار کے ایک قبیلہ کے لوگ پہلے بت پرست تھے ان کا زیادہ میل جول ایک یہودی قبیلہ کے ساتھ تھا وہ اہل کتاب تھے۔ یہ (بیچارے) انصار علم میں انہیں اپنے سے افضل سمجھتے تھے اسی لیے ان کے افعال میں اکثر ان کا قتدا کرلیتے تھے اور اہل کتاب کی یہ عادت تھی کہ وہ عورتوں سے فقط ایک ہی طرف سے وطی کرتے تھے اور اس میں عورت کے لیے پردہ زیادہ رہتا ہے پس انصار کے اس قبیلہ نے ان ہی کا طریقہ لے لیا تھا قریش کے قبیلہ کے لوگ عورتوں کو خوب چرتے تھے اور کبھی سیدھی ‘ کبھی الٹی ‘ کبھی چت لٹا کے خوب ان سے مزے لیتے تھے۔ پھر جب مہاجرین مدینہ منورہ میں آئے تو ان میں سے ایک شخص کا نکاح انصار یہ عورت سے ہوگیا یہ مہاجر اس عورت کے ساتھ بھی ویسا ہی کرنے لگے اس عورت نے اس کو برا سمجھ کر انکا کردیا اور کہا ہمارے ہاں تو فقط ایک ہی طرح سے ہم بستری کی جاتی ہے پھر ان کا یہ قصہ سب لوگوں میں پھیل گیا اور رسول اللہ ﷺ کو بھی یہ خبر پہنچ گئی اس وقت اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی کہ نساء کم حرث لکم فاتوا حرثکم ان شئتم ( یعنی خواہ انہیں سیدھی خواہ الٹی خواہ چت لٹا کر کسی طرح کرو اور مراد اس سے ولادت ہی کی جگہ تھی (نہ کہ دبر) اس آیت کے شان نزول میں۔ اسی طرح بخاری ‘ ابو داؤد ‘ ترمذی نے جابر ؓ سے روایت کی ہے جابر ؓ کہتے ہیں کہ یہود کہا کرتے تھے کہ جس وقت عورت سے کوئی پیچھے سے صحبت کرے تو بھینگا بچہ پیدا ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو جھوٹا کیا اور فرمایا کہ نساؤ کم حرث لکم فاتو حرثکم انی شئتم یعنی پیشاب گاہ میں تو جس طرح چاہو کرلو اللہ تعالیٰ کا مقصود اس سے بچہ پیدا ہونے ہی کی جگہ ہے کہ وہ کھیتی کے لیے ہے اسی طرح امام احمد نے عبد الرحمن بن ثابت سے روایت کی ہے وہ کہتے ہیں میں عبد الرحمن کی بیٹی حفصہ کے پاس گیا میں نے کہا میں تم سے ایک مسئلہ پوچھنا چاہتا ہوں لیکن تم سے پوچھتے ہوئے مجھے شرم آتی ہے کہنے لگی کہ بھتیجے شرم نہ کرو ( پوچھو) میں نے کہا عورتوں کی دبر میں وطی کرنے کو پوچھتا ہوں فرمایا یہود کہا کرتے تھے کہ جو کوئی عورت کو پھیر کے وطی کرے تو اس کا بچہ بھینگا ہوگا۔ پھر جب مہاجر لوگ مدینہ منورہ میں ( مکہ سے ہجرت کرکے) آئے تو انصار کی عورتوں سے ان کی شادیاں ہونے لگیں اور انہوں نے عورتوں کو پھیر کے وطی کی تو ایک عورت نے اپنے میاں کا کہا ماننے سے انکار کردیا اس نے کہا کہ جب تک رسول اللہ نہ آجائیں ہم اس طرح نہ کرائیں گے پھر میں ام سلمہ کے پاس گئی اور ان سے یہ قصہ میں نے ذکر کیا وہ بولیں کہ بیٹھ جاؤ حضرت کو آنے دو (دریافت کرلیں گے) جب حضرت ﷺ شریف لائے تو اس انصاریہ کو تو آپ ﷺ سے دریافت کرتے ہوئے شرم آئی وہ تو نکل کے چلی گئی اور ام سلمہ ؓ نے حضرت ﷺ سے یہ قصہ بیان کیا آپ نے فرمایا اس انصاریہ کو بلا لو وہ بلائی گئی تو ( اس کے آنے پر) حضور ﷺ نے یہ آیت پڑھ کر اسے سنائی کہ (نساؤ کم حرث لکم فاتوا حرثکم انی شئتم ( یعنی راستہ تو ایک ہی ہے اور اس میں جس طرح چاہے کرلیا کرو) ۔ امام احمد اور ترمذی نے ابن عباس سے روایت کی ہے وہ کہتے ہیں کہ عمر ؓ آنحضرت ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے عرض کیا : یا رسول اللہ میں تو ہلاک ہوگیا۔ فرمایا : کیا سبب ؟ عرض کیا کہ رات میں نے ( صحبت کرتے ہوئے) اپنی بی بی کو پھیرلیا تھا اور اس نے کچھ انکار نہ کیا اسی وقت اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی : نساؤکم حرث لکم [ الایۃ ] تب حضور ﷺ نے فرمایا کہ جاؤ چت پٹ جس طرح چاہو کرلو لیکن دبر اور ایام کی حالت میں بچا کرو اس سے صاف ظاہر ہوگیا کہ آنحضرت ﷺ نے اس آیت کی تفسیر یہی فرمائی کہی چت پٹ جس طرح چاہو کرو لیکن دبر اور ایام کی حالت میں بچا کرو۔ اس سے صاف ظاہر ہوگیا کہ آنحضرت ﷺ نے اس آیت کی تفسیر یہی فرمائی ہے کہ چت پٹ جس طرح چاہو کرو لیکن دبر اور ایام کی حالت میں نہ کیا کرو جیسا کہ حضور ﷺ نے اللہ تعالیٰ کے قول : فاعتزلوا النساء فی المحیض کی (عورتوں سے بحالت حیض جدا رہو ‘ 12) کی تفسیر فرمائی تھی کہ اصنعوا کل شیء الا نکاح ( یعنی سوائے وطی کے سب کچھ کرلیا کرو) اگرچہ بظاہر یہ آیت اس پر دلالت نہ کرتی تھی کہ عورتوں کے کھانے پینے میں شریک رہنا جائز ہے پس اس سے اس روایت کا رد صاف ظاہر ہوگیا جو ابن عبد الحکم نے امام شافعی سے نقل کی ہے کہ یہ آیت دبر ( میں وطی کرنے) کو حرام کرنے والی نہیں ہے جیسا کہ یہ پنڈلی میں وطی کرنے کو حرام نہیں کرتی۔ وَقَدِّمُوْا لِاَنْفُسِكُمْ ( اور اپنے لیے ( اعمال صالحہ) آگے بھیجو) یعنی صحبت کرنے سے فقط اس وقت کی لذت ہی مقصود نہ رکھو بلکہ ان فائدوں کا قصد کرو جو دین کی طرف راجع ہوتے ہیں مثلاً حرام کاری سے بچنا نیک اولاد ہونا کہ تمہارے لیے دعا اور استغفار کرے اور مرجائے تو قیامت میں پیش خیمہ ہو کیونکہ مباح امور اگر خالص صحیح نیت کے زیر اثر ہوں تو عبادت بن جاتے ہیں آنحضرت ﷺ نے فرمایا تھا کہ تمہارے صحبت کرنے میں بھی ثواب ہے صحابہ ؓ نے عرض کیا یارسول اللہ ﷺ کیا ہم اپنی شہوت پوری کریں تو جب بھی ہمیں اجر ملتا ہے فرمایا تم ہی بتاؤ اگر کوئی حرام کاری کرے تو کیا اس کا اس کے ذمے گناہ نہیں ہوتا پس اسی طرح اگر کوئی حلال جگہ کرے گا تو اسے اجر بھی ملے گا۔ اس کو مسلم ؓ نے ابوذر ؓ کی حدیث میں نقل کیا ہے۔ اور حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جب آدمی مرجاتا ہے تو اس کے عمل سب ختم ہوجاتے ہیں سوائے تین چیزوں کے یا تو صدقہ جاریہ ہو یا علم ہو جس سے ( اسکے مرنے کے بعد) لوگ فائدہ اٹھائیں یا نیک اولاد ہو کہ اس کے حق میں دعا کرے یہ حدیث مسلم نے نقل کی ہے اور ابوہریرہ ؓ ہی سے یہ بھی مروی ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا جس مسلمان کے تین بچے مرجائیں تو اسے دوزخ کی آگ نہ چھوئے گی ہاں قسم پوری ہونے کے لیے یہ حدیث متفق علیہ ہے۔ حضرت ابوہریرہ ہی سے یہ بھی مروی ہے کہ آنحضرت ﷺ نے ایک انصاری عورت سے فرمایا تھا کہ تم میں سے جس کے تین بچے مرجائیں اور وہ ان پر صبر کرتی رہے تو ضرور بہشت میں جائے گی ایک عورت نے کہا : یا رسول اللہ ! یا دو ہوں فرمایا ہاں دو بھی اس کو بھی مسلم نے نقل کیا ہے اور ابن عباس ؓ سے مرفوعاً مروی ہے ( حضور ﷺ نے فرمایا) کہ میری امت میں سے جس کے دو بچے) بھی پیش خیمہ ہوں گے تو ان کی وجہ سے اللہ تعالیٰ اسے بہشت میں بھیج دے گا۔ حضرت عائشہ ؓ کہنے لگیں کہ آپ کی امت میں سے جس کا ایک بچہ ہی ہو فرمایا ایک والی کا بھی یہی حکم ہے۔ الحدیث یہ روایت ترمذی نے نقل کی ہے بعض مفسرین نے کہا ہے یہ بھی ہوسکتا ہے کہ و قدموا لانفسکم پلی آیت فاتوا حرثکم کے لیے عطف تفسیری ہو اور معنی یہ ہوں کہ تمہارے اپنی کھیتی میں جانے (یعنی اپنی بی بی سے ہم بستری کرنے) میں تمہارے لیے پیش خیمہ بنانا اور دعوات اور استغفارات کرانا ہے یعنی اگر نیک اولاد ہوجائے اس سے نکاح کی فضیلت ظاہر ہوتی ہے اگرچہ اس کی نیک نیتی نہ ہو۔ عطا اور مجاہد کہتے ہیں کہ اس وقدوما لانفسکم سے وطی کرتے وقتبسم اللہ اور دعا پڑھنی مراد ہے امام بخاری نے براویت ابن عباس ؓ بیان کیا ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا اگر تم میں سے کوئی اپنی عورت سے صحبت کرتے وقت یہ دعا پڑھ لیا کرے۔ اَللّٰھُمَّ جنبنا الشیطان و جنب الشیطان مَا رزقتنا تو اگر ان مردو عورت کے مقدر میں اس صحبت سے کوئی بچہ ہوگا تو اسے شیطان کبھی ضرر نہ دے گا۔ وَاتَّقُوا اللّٰهَ (اور اللہ سے ڈرو) یعنی گناہوں سے بچنے کے ساتھ۔ وَاعْلَمُوْٓا اَنَّكُمْ مُّلٰقُوْهُ ( اور جان لو کہ تمہیں ( ایک نہ ایک روز) اس سے ملنا ہے) پس وہ تمہیں تمہارے اعمال کی جزا دے گا اگر نیک عمل ہیں تو نیک جزاملے گی اور اگر برے عمل ہیں تو بری سزا ملے گی۔ وَبَشِّرِ الْمُؤْمِنِيْنَ (اور ( اے محمد) مسلمانوں کو خوشخبری سنا دو ) صہیب ؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا مسلمان کا عجیب حال ہے اگر اسے خوشی ہوتی ہے اور ( اللہ کا) شکریہ ادا کرتا ہے تب بھی اس کے لیے بہتری ہوتی ہے اور اگر کوئی تکلیف ہوجائے اور اس پر صبر کرلیتا ہے تب بھی اس کے لیے بہتری ہوتی ہے یہ حدیث مسلم نے نقل کی ہے۔ شان نزول۔ بغوی (رح) نے ذکر کیا ہے کہ عبد اللہ بن رواحہ اور انکے بہنوئی بشیر بن نعمان انصاری کے درمیان میں کوئی ایسی بات ہوگئی کہ عبد اللہ نے قسم کھالی کہ نہ بشیر کے پاس کبھی جاؤں گا اور نہ ان سے بولوں گا نہ ان کے اور ان کے مخالف کے درمیان میں کبھی صلح کراؤں گا۔ جب عبد اللہ سے اس کی بابت کوئی کچھ کہتا تو جواب دیدیتے کہ میں نے تو اللہ کی قسم کھائی ہے کہ میں ایسانہ کروں گا لہٰذا اب بلا قسم سے بری ہوئے مجھے یہ جائز نہیں ہے اس وقت اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔
Top