Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
177
178
179
180
181
182
183
184
185
186
187
188
189
190
191
192
193
194
195
196
197
198
199
200
201
202
203
204
205
206
207
208
209
210
211
212
213
214
215
216
217
218
219
220
221
222
223
224
225
226
227
228
229
230
231
232
233
234
235
236
237
238
239
240
241
242
243
244
245
246
247
248
249
250
251
252
253
254
255
256
257
258
259
260
261
262
263
264
265
266
267
268
269
270
271
272
273
274
275
276
277
278
279
280
281
282
283
284
285
286
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Tafseer-e-Mazhari - Al-Baqara : 225
لَا یُؤَاخِذُكُمُ اللّٰهُ بِاللَّغْوِ فِیْۤ اَیْمَانِكُمْ وَ لٰكِنْ یُّؤَاخِذُكُمْ بِمَا كَسَبَتْ قُلُوْبُكُمْ١ؕ وَ اللّٰهُ غَفُوْرٌ حَلِیْمٌ
لَا يُؤَاخِذُكُمُ
: نہیں پکڑتا تمہیں
اللّٰهُ
: اللہ
بِاللَّغْوِ
: لغو (بیہودہ)
فِيْٓ
: میں
اَيْمَانِكُمْ
: قسمیں تمہاری
وَلٰكِنْ
: اور لیکن
يُّؤَاخِذُكُمْ
: پکڑتا ہے تمہیں
بِمَا
: پر۔ جو
كَسَبَتْ
: کمایا
قُلُوْبُكُمْ
: دل تمہارے
وَاللّٰهُ
: اور اللہ
غَفُوْرٌ
: بخشنے والا
حَلِيْمٌ
: بردبار
خدا تمہاری لغو قسموں پر تم سے مواخذہ نہ کرے گا۔ لیکن جو قسمیں تم قصد دلی سے کھاؤ گے ان پر مواخذہ کرے گا۔ اور خدا بخشنے والا بردبار ہے
لَا يُؤَاخِذُكُمُ اللّٰهُ ( اللہ تم سے مواخذہ نہ کرے گا) یعنی آخرت میں عذاب کے ساتھ یہاں دونوں کلموں میں مواخذہ سے یہی مراد ہے۔ ( یہ کہنا ٹھیک نہیں ہے) کیونکہ کفارہ زکوٰۃ کی طرح خالص اللہ ہی کا حق ہوتا ہے اس کا دنیا میں مواخذہ نہیں ہوتا اور اسی وجہ سے ( یہ حکم ہے کہ) جو شخص مرجائے اور اس کے ذمہ زکوٰۃ یا کفارہ ہو اور اس نے وصیت نہ کی ہو تو وارثوں کے حق سے ان دونوں کو کوئی تعلق نہ ہوگا بخلاف بندوں کے قرض اور عشرہ اور خراج کے ( کہ یہ تینوں ورثہ کے حق میں سے لے لیے جائیں گے) اس کے علاوہ صرف قسم ( کھانے) سے کفارہ لازم نہیں ہوتا بلکہ قسم کے بعد اس کے توڑنے سے لازم آتا ہے پس قسم کے ساتھ کفارہ کے مواخذہ کو متعلق کرنا ہرگز خیال میں نہیں آتا لہٰذا مواخذہ سے مراد عذاب ہی ہے اور کفارہ اس مواخذہ کو رفع کرنے کے لیے مشروع کیا گیا ہے۔ بِاللَّغْوِ فِيْٓ اَيْمَانِكُمْ ( تمہاری قسموں میں بےہودہ پر) لغت میں لغو ایسی نکمی چیز کو کہتے ہیں جس کا اعتبار نہ کیا جاتا ہو کلام میں ہو یا اور کسی چیز میں۔ قاموس میں اسی طرح ہے یہاں اس سے وہ قسم مراد ہے جو زبان سے بلا خیال اور بلا قصد کے نقل جائے خواہ انشاء ہی ہو یا خبر میں، ماضی میں ہو یا مستقل میں یہی تفسیر حضرت عائشہ ؓ سے مروی ہے۔ امام شافعی (رح) نے نقل کیا ہے کہ حضرت عائشہ صدیقہ ؓ نے فرمایا کہ آدمی کی لغو قسم اس طرح کہنا ہے کہ : لا وا اللہ بلی وا اللہ۔ یہی روایت ابو داؤد نے مرفوعاً نقل کی ہے۔ شعبی اور عکرمہ بھی اسی طرح گئے ہیں امام شافعی (رح) کا قول بھی یہی ہے اور لغوی معنی مذکور کے یہی مناسب بھی ہے کیونکہ جب یہ بلا قصد ہے تو یہ اعتبار کرنے کے قابل نہیں ہے اور نہ اس سے اجماعاً گناہ ہوتا ہے اگر یہ اخبار میں ہو۔ اسی طرح امام شافعی (رح) کے نزدیک اس وقت قسم منعقد نہیں ہوتی جب اس طریق کی قسم انشاء میں ہو اور اس کو توڑ دے (یعنی اگر ایسی قسم کو توڑ دے) تو اس کے ذمہ کفارہ لازم نہیں آئے گا ان کی دلیل یہی آیت اس تفسیر کے ساتھ ہے۔ اور امام ابوحنیفہ کا قول یہ ہے کہ قسم منعقدہو جاتی ہے اور حانث ہوجانے پر کفارہ دینا لازم ہوگا کیونکہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا ہے کہ : ثلٰث جدھن جد و ھزلھن جدالنکاح والطلاق والیمین ( یعنی تین چیزیں ایسی ہیں کہ انکو سچ مچ کہنا تو سچ مچ ہوتا ہی ہے لیکن ان کو ہنسی سے کہنا بھی سچ مچ ہی ہوتا ہے ( وہ تینوں یہ ہیں) نکاح، طلاق، قسم۔ اسی طرح صاحب ہدایہ نے کہا ہے۔ یہ حدیث ہمیں حدیث کی کتابوں میں ٖ نہیں ملی ہاں ابوہریرہ ؓ کی حدیث ہمیں اس سند سے ملی ہے کہ عبد الرحمن بن حبیب نے عطا سے انہوں نے یوسف بن ماھک سے انہوں نے ابوہریرہ ؓ سے مرفوعاً روایت کی ہے کہ : ثلٰث جدھن جد و ہزلھن جد النکاح والطلاق والرجعۃ ( یعنی نکاح طلاق رجعت ان تینوں کا یہ حکم ہے جو پہلے مذکور ہوا) اس روایت کو امام احمد۔ ابو داؤد۔ ترمذی۔ ابن ماجہ۔ حاکم۔ دار قطنی نے نقل کیا ہے اور ترمذی نے کہا ہے کہ یہ حدیث حسن ہے حاکم نے صحیح کہا ہے۔ علامہ ابن جوزی (رح) فرماتے ہیں کہ یہ عطا عجلان کے بیٹے ہیں جو حدیث میں متروک ہیں۔ حافظ ابن حجر (رح) نے کہا یہ ابن جوزی کا وہم ہے کیونکہ وہ عطا ابی رباح کے بیٹے ہیں ( عجلان کے بیٹے نہیں ہیں) اور عبد الرحمن بن حبیب میں بھی محدثین کا اختلاف ہے۔ امام نسائی فرماتے ہیں کہ یہ منکر الحدیث ہیں لیکن اوروں نے ان کی توثیق بھی کی ہے کہ پس یہ حدیث حسن ہے۔ اور اسی کو ابن عدی نے کامل میں ان لفظوں سے نقل کیا ہے : ثلٰث لیس فیھا لعب من کلم بشئ منھا لاعبا فقد وجب ا لطلاق والعتاق والنکاح یعنی تین چیزیں ایسی ہیں جن میں ہنسی نہیں ہوتی جو شخصی انہیں ہنسی کے طور پر زبان سے نکال دے وہ اس کے ذمہ لازم ہوجائیں گے ( وہ یہ ہیں) نکاح، طلاق، عتاق۔ اس میں ابن لہیعہ راوی ضعیف ہیں اور عبد الرزاق نے حضرت عمر ؓ اور حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے موقوفاً روایت کی ہے ان دونوں نے فرمایا کہ تین چیزیں ایسی ہیں جن میں مزاح نہیں ہوتا نکاح، طلاق۔ عتاق۔ اور ایک روایت ان ہی دونوں سے یہ ہے کہ ایسی چار چیزیں ہیں اور نذر کا لفظ زیادہ کیا ہے۔ ابن ہمام فرماتے ہیں اس میں شک نہیں کہ قسم بھی نذر کے معنی میں ہے پس اس کو بھی نذر پر قیاس کرلیا جائے گا۔ میں کہتا ہوں کہ جو امام شافعی (رح) نے ذکر کیا ہے وہ مرفوع حدیث ہے جو آیت کے لیے تفسیر اور بیان ہوگیا ہے اور نص کے مقابلہ میں قیاس کا اعتبار نہیں ہوتا اس کے علاوہ مقیس علیہ فقط ایک موقوف اثر میں وارد ہے وہ مرفوع نہیں ہے۔ ابن ہمام (رح) فرماتے ہیں کہ اگر قسم کی حدیث ثابت بھی ہوجائے تو اس میں کوئی دلیل نہیں ہے کیونکہ اس میں تو فقط اتنا مذکور ہے کہ ہنسی سے قسم کھانے والا بمنزلہ جان بوجھ کر قسم کھانے والے کے شمار ہوگا اور ہنسی سے قسم کھانے والا ارادہ سے قسم کھانے والا ہے ہاں اس کے حکم سے راضی نہیں ہے پس ارادی تخلیق سبب کے بعد اس کے رضا مند نہ ہونے کا اعتبار نہ کیا جائے گا اور بھول کر کوئی بات کہنے والا تو کسی شئ کا قصد بھی نہیں کرتا اور نہ اس کو یہ خبر ہوتی ہے کہ میں کیا کرتا ہوں اور سی طرح غلطی سے کہہ دینے والا ہوتا ہے کہ وہ بھی اس کو زبان سے نکالنے کا ارادہ نہیں کرتا بلکہ اس کا ارادہ کوئی اور بات کہنے کا ہوتا ہے ( اور غلطی سے نکل کچھ جاتا ہے) پس یہ بھی ہنسی سے کہنے والے کے حکم میں نہیں ہے لہٰذا اس کے بارے میں کوئی نص ہے اور نہ قیاس ہے اس کے علاوہ لغو قسم کی تفسیر میں امام ابوحنیفہ کا قول یہ ہے کہ کوئی آدمی کسی شئے پر یہ سمجھ کر قسم کھالے کہ میں اس میں سچا ہوں پر اسے اس کے خلاف ظاہر ہو تو اس کو لغو قسم کہا جائے گا۔ زہری۔ حسن۔ ابراہیم نخعی کا یہی قول ہے اور قتادہ اور مکحول فرماتے ہیں کہ ایسی قسم میں نہ کفارہ ہے اور نہ کچھ گناہ ہے باوجودیکہ اس میں قسم کھانے والے کا رادہ قسم کا ضرور ہوتا ہے اگرچہ یہ گمان بھی اس کو ہوتا ہے کہ میں اس میں بری ہوں پس جس قسم کا کسی نے ارادہ ہی نہیں کیا بلکہ وہ مثل سونے والے کے تھا کہ کچھ اس کی زبان سے نکل گیا تو اس کی قسم کا اعتبار نہ کیا جانااولیٰ درجہ ہے۔ امام شافعی کا قول یہ ہے کہ جو قسم ارادہ کے ساتھ ہو اگرچہ سچ ہی ہونے کے گمان پر ہو اگر وہ نفس الامر کے خلاف ہوگی تو اس میں کفارہ دینا واجب ہوگا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کی تفسیر کے مطابق یہ قسم لغو قسم میں سے نہیں ہے بلکہ یہ قلبی کسب میں سے ہے۔ جیسے (یمین) غموس ہوتی ہے ہاں اتنا فرق ہے کہ وہ اپنے گمان کے باعث معذور ہے اس لیے اس میں گناہ نہیں ہوگا۔ میں کہتا ہوں کہ اگرچہ یہ قسم (لغو قسم) میں سے نہیں ہے لیکن نہ اس میں کفارہ ہے اور نہ گناہ ہے گناہ نہ ہونے کی دلیل تو اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد : و لیس علیکم جناح فیما اخطأتم بہ و لکن ما تعمدت قلوبکم ( یعنی جو تمہارے منہ سے غلطی نکل جائے اس میں تم پر گناہ نہیں ہے ہاں جس کا تم دل سے ارادہ کرکے کہو) اور کفارہ نہ ہونے کی دلیل یہ ہے کہ کفارہ کا دار و مدار تو گناہ ہی ہوتا ہے کیونکہ کفارہ گناہ رفع کرنے کے لیے ہے اور جب گناہ نہیں تو کفارہ بھی نہیں۔ دوسری دلیل یہ ہے کہ یہ قسم : فیما عقدتم الایمان میں داخل نہیں ہے حالانکہ کفارہ اسی طرف راجع ہوتا ہے اگر کوئی یہ اعتراض کرے کہ ( تمہارے کہنے کے مطابق) اگر کفارہ کا دارو مدار گناہ ہی پر ہے) تو ازروی اجماع و حدیث خطاء اور نسیان میں تو گناہ نہیں ہوتا پس ( اس قاعدہ کے مطابق) خطا سے قتل کردینے پر بھی کفارہ نہ ہوگا۔ ہم کہتے ہیں قتل کردینا بہت سخت کام ہے اس لیے اللہ تعالیٰ نے ( اس میں) دو گناہ مقرر کیے ہیں ایک گناہ تو اس جان کے مارنے ( یعنی خون کرنے) کا یہ کبیرہ گناہ ہے جو جان کے قتل کردینے میں ہوتا ہے او یہ کفارہ سے رفع نہیں ہوتا اس لیے اس میں کفارہ واجب ہونے کے ہم قائل نہیں ہیں اور خطا سے قتل کردینے میں یہ گناہ رفع ہوجاتا ہے اور دوسرا گناہ احتیاط نہ کرنے کا ہے اور اسی گناہ کی وجہ سے خطاء سے قتل کردینے میں کفارہ واجب ہوتا ہے سعید بن جبیرفرماتے ہیں کہ قسم لغو وہ ہے جو معصیت پر ہے اس میں حانث ہوجانے پر اللہ مواخذہ نہیں کرتا بلکہ اس میں حانث ہوجائے اور کفارہ دیدے اور اس قول پر لغو اور منعقدہ دونوں قسمیں ایک ہوجائیں گی۔ حالانکہ یہ آیت دونوں کے علیحدہ علیحدہ ہونے پر دلالت کرتی ہے جو شرکت کے بالکل منافی ہے اس کے علاوہ کفارہ واجب ہونے کا قائل ہونا مواخذہ نہ ہونے کے قائل ہونے کے منافی ہے کیونکہ کفارہ تو گناہ ہی پر مبنی ہوتا ہے اور مسروق فرماتے ہیں کی معصیت پر قسم کھانے میں کفارہ نہیں ہے کیا کہیں شیطانی لغزشوں پر بھی کفارہ دیا جاتا ہے اور شعبی نے ایک آدمی کے حق میں فرمایا تھا جس نے معصیت کرنے پر قسم کھالی تھی کہ اس کا کفارہ یہی ہے کہ اس معصیت سے توبہ کرلے میں کہتا ہوں کہ معصیت پر قسم کھالی تو اللہ تعالیٰ کے قول : ولٰکن یواخذ کم بما عقدتم الایمانکے عموم میں داخل ہے کیونکہ اس قسم میں تو اس کے پورا کرنے کا ارادہ یقینی ہوتا ہے پس وہ منعقدہ میں سے ہوئی نہ کہ لغو میں سے اور منعقدہ قسم کفارہ واجب کردیتی ہے ہاں اس کا معصیت پر ہونا اس کے توڑدینے کو واجب کرتا ہے اور یہ بعینہٖ آنحضرت ﷺ کے اس قول کا مقتضی ہے کہفَلْ یُکْفِرُوْا یَاتِ بِمَا ھُوُ خَیْرٍ وَا اللہ اَعْلَمُ ۔ وَلٰكِنْ يُّؤَاخِذُكُمْ بِمَا كَسَبَتْ قُلُوْبُكُمْ ( لیکن اس قسموں پر تم سے مواخذہ کرے گا جن کا تمہارے دلوں نے ارادہ کیا ہے) یعنی جس جھوٹی قسم کا تم نے قصد اور ارادہ کیا ہو اور قصد و ارادہ ہی سے معصیت کے مرتکب ہوئے ہو ہم نے یہ تفسیر مواخذہ کے قرینہ سے کی ہے۔ کیونکہ مواخذہ تو معصیت ہی پر ہوتا ہے پس اس قید سے سچی قسمیں سب نکل گئیں اور وہ قسمیں بھی جو سچی ہونے کے خیال سے ہوں اور اسی طرح اس قید سے منعقدہ (قسم) بھی نکل جاتی ہے کیونکہ اس میں بھی ( فقط قسم کھانے میں) معصیت نہیں ہوتی بلکہ قسم کھانے کے بعد حانث ہوجانے میں ہوتی ہے اگر کوئی کہے کہ سورة مائدہ میں یہ آیت ہے ولٰکن یواخذکم بِمَا عقدّتم الایمان ( یعنی اللہ تم سے ان پر ضرور مواخذہ کرے گا جن قسموں کا تم نے ارادہ کیا ہو) اور یہ معصیت ہونے اور اس پر مواخذہ ہونے پر دلالت کرتی ہے پر تم کیونکر کہتے ہو کہ اس سے منعقدہ قسم نکل گئی ‘ الی آخرہٖ ۔ میں کہتا ہوں وہاں تقدیر کلام کی یہ ہے لیکن اللہ تم سے ان قسموں پر مواخذہ کرے گا جن کا تم نے ارادہ کیا تھا اگر تم حانث ہوجاؤ اور یہاں یہ تقدیر نہیں ہے کیونکہ تقدیر بھی مجاز کی ایک قسم ہے اور حقیقت اور مجاز دونوں جمع نہیں ہوتے اور (یمین) غموس پر مواخذہ محض قسم کھانے سے ہوتا ہے پس اس آیت سے مرد فقط یمین غموس باقسامہ ہے اور یہاں وہ تقدیر نہیں ہے اور سورة مائدہ کی آیت سے مراد فقط منعقدہ قسم ہے اور اس میں یہ تقدیر ہے۔ وا اللہ اعلم اور امام شافعی کا قول یہ ہے کہ : بما کسبت قلوبکم اور بما عقدتم الایمان دونوں کا مطلب ایک ہی ہے اور وہ لغو (قسم) کی ضد ہے ( عرب) کہتے ہیں کہ قلب کا کسب عقد اور نیت ہے پس ماکسبت قلوبکم اور ما عقدتم الایمان دونوں (یمین) غموس (یمین) منعقدہ (یمین) مظنونہ سب کو شامل ہیں لہٰذا ان سب میں کفارہ دینا واجب ہوگا۔ ہم کہتے ہیں ایسا نہیں ہے بلکہ عقد یمین ( یعنی منعقدہ قسم) سے مراد یہ ہے کہ قسم کھا کر اپنے اوپر ایک چیز کو ایسا لازم کرلینا کہ اس کا پورا کرنا اس آیت کی وجہ سے واجب ہو : یا یھا الذین امنوا اوفوا بالعھود ( یعنی اے ایمان والو اپنے عقدوں کو پورا کیا کرو) اور اس میں نہ کوئی معصیت ہے اور نہ کچھ مواخذہ ہے ہاں حانث ہونے کے بعد اور کسب قلب حضرت عائشہ ؓ کی تفسیر کے مطابق لغو قسم کی ضد ہے پس وہ اس سے مطلقاً عام ہے لیکن مواخذہ کے قرینہ سے آیت میں بلا کسی قسم کی تقدیر کے ہم اسے اس معصیت پر حمل کرتے ہیں جو محض قسم کھانے سے حاصل ہو پس یہ فقط ( یمین غموس ہی ہے اور غموس میں کفارہ نہیں ہے کیونکہ اللہ کے قول : فکفارتہ کی ضمیر فقط ماعقدتم الایمان کی طرف راجع ہے دوسری دلیل یہ ہے کہ غموس محض کبیرہ گناہ ہے سپ اگر اس قسم پر کفارہ واجب ہوگا تو پھر یہ کفارہ غموس کی معصیت کے لیے یا تو اسے چھپانے اور زائل کرنے والا ہوگا یا نہ ہوگا اگر انہیں ہے تو کفارہ کفارہ نہ رہا اور اگر ہے تو پھر یہ بہت سی صورتوں کو شامل ہے۔ مثلاً کوئی جھوٹی قسم کھا کے کسی مسلمان کا مال دبالے پھر اس کا کفارہ دے دے ( تو تمہارے قول کے مطابق یہ بری ہوجائے گا) حالانکہ اس کا کوئی بھی قائل نہیں ہے اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے : ان تجتنبوا کبائر ما تنھون عنہ نکفرعنکم سیئاتکم ( یعنی اگر تم ان کبیرہ گناہوں سے بچتے رہو گے جن سے تمہیں منع کیا گیا ہے تو ہم تمہارے گناہ معاف کردیں گے) اور فرمایا : ان الحسنات یذھبن السیأت آنحضرت ﷺ کا ارشاد ہے کہ پانچوں نمازیں اور جمعہ دوسرے جمعہ تک اور رمضان دوسرے رمضان تک اپنے درمیانی گناہوں کا کفارہ ہوجاتے ہیں جب تک کہ آدمی کبیرہ گناہوں سے بچتا رہے پس اس سے صاف معلوم ہوگیا کہ طاعات صغیرہ ہی گناہوں کے کفارہ ہوتے ہیں کبیرہ کے نہیں ہوتے باقی رہے کبیرہ گناہ سو ان سے خلاصی ہونے کی صورت سوائے استغفار کے اور کوئی نہیں ہے ہاں اگر اللہ اپنی رحمت سے اسے چھپالے اور اسکی مغفرت کردے اور شاید اللہ تعالیٰ نے اپنے اس آئندہ قول سے اسی طرف اشارہ کیا ہو کہ۔ وَاللّٰهُ غَفُوْرٌ حَلِيْمٌ ( اور اللہ بخشنے والا بردبار ہے) اگر وہ چاہے تو توبہ سے یا بلا توبہ بھی کبیرہ گناہوں کو بخش دیتا ہے اور یہ مغفرت اور بردباری کا وعدہ بظاہر اس آیت کی طرف راجع ہے کہ لا یواخذکم اللہ باللغو فی ایمانکم کیونکہ رفتار کلام لغو قسم ہی کی بابت ہے اور یمین غموس اس کے تابع ہونے کے طور پر ذکر کردی گئی ہے اس پر بخاری کی وہ روایت جو انہوں نے حضرت عائشہ ؓ سے نقل کی ہے دلالت کرتی ہے کہ انہوں نے فرمایا : لا یؤاخذکم اللہ باللغو فی ایمانکم ایسے شخص کے بارے میں نازل کی گئی ہے جو کہتا تھا لا وا اللہ و بلی وا اللہ وا اللہ اعلمجاننا چاہئے کہ یمین کے معنی اصل میں قوت کے ہیں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ : لاخذنا منہ بالیمین ( یعنی بیشک ہم نے اسے قوت کے ساتھ پکڑ لیا) اور بائیں ہاتھ کے خلاف عضو کو ( یعنی سیدھے ہاتھ کو) بھی اس کی قوت ہی کی وجہ سے یمین کہتے ہیں اور قسم کو بھی یمین اسی لیے کہا جاتا ہے کہ اللہ کا نام بول کر اس میں کلام کی تقویت ہوجاتی ہے قسم دو طرح کی ہوتی ہے اوّل قسم یہ کہ بلا ارادہ زبان سے نکل جائے خواہ وہ گذشتہ خبر کے متعلق ہو آئندہ کے متعلق صادق ہو یا کاذب ہو یا انشاء میں ہو اسی کا نام لغو یمین ہے اور اس کا کچھ اعتبار نہیں ہوتا نہ اس کے ساتھ کوئی حکم متعلق ہوتا ہے سوائے اس کے جو ہم بیان کرچکے ہیں انشاء میں امام ابوحنیفہ کا خلاف ہے دوسری قسم وہ جو ارادہ سے ہو اور اس کی بھی دو قسمیں ہیں یا تو خبر میں ہو یا انشاء میں اگر خبر میں ہے تو وہ خبر اگر فی الواقع اور متکلم کے گمان میں بھی سچی ہے مثلاً تم نے یہ کہا قسم ہے اللہ کی محمد بیشک اللہ کے رسول ہیں اور قیامت یقیناً آنے والی ہے اس میں کوئی شک نہیں اور آفتاب یقیناً نکلا ہوا ہے تو اس میں کسی قسم کا کلام نہیں ہے کہ ایسی قسم بیشک عبادت ہے اسی واسطے اللہ کے سوا اور کسی کی قسم کھانی جائز نہیں ہے حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا بیشک اللہ تعالیٰ تمہیں منع کرتا ہے کہ تم اپنے باپ دادوں کی قسمیں کھایا کرو جسے قسم کھانی ہو وہ اللہ ہی کی قسم کھائے ورنہ خاموش رہے یہ حدیث متفق علیہ ہے ابن عمرہی سے یہ بھی مروی ہے کہ رسول اللہ سے میں نے خود سنا کہ جس نے اللہ کے سوا اور کسی کی قسم کھائی اس نے شرک کیا یہ حدیث ترمذی نے نقل کی ہے حضرت ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ تم اپنے باپ دادوں اور ماؤں اور بتوں کی قسمیں ہرگز نہ کھایا کرو اور اللہ کی بھی قسم نہ کھاؤ ہاں اگر تم سچے ہو یہ حدیث ابو داؤد اور نسائی نے نقل کی ہے اور اگر وہ خبر فی الواقع جھوٹی ہے اور متکلم اسے اپنے گمان میں سچ سمجھ رہا ہے تو پھر دیکھنا چاہئے کہ اگر اس کا گمان کسی ظنی دلیل پر مبنی ہے۔ جیسے خبر واحد کہ اس میں کسی راوی نے جھوٹ بول دیا ہے یا اس کے معنی میں غلطی کردی ہو یا کسی سلف صالح کا اثر ہو یا حس وغیرہ میں غلطی ہوگئی ہو اور اس کے جھوٹ پر کوئی یقینی دلیل وہاں نہ ہو تو امام ابوحنیفہ (رح) کی تفسیر کی مطابق اسی کا نام یمین مظنون اور یمین لغو ہے اور اس کا حکم ہم بیان کرچکے ہیں اور اگر اس کا گمان کسی دلیل پر مبنی نہیں ہے۔ مثلاً کوئی بلا جانے بلا دیکھے ‘ بلا کسی کے خبر دیدئے یہ کہہ دے کہ زید کھڑا ہے یا اب کھڑا ہوگا) تو اس کا نام یمین غموس ہے جس سے منع کیا گیا ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : ولا تقف ما لیس لک بہ علم ( اور نہ در پے ہو اس چیز کے جس کا تجھے علم نہ ہو) ۔ اور اگر کسی کے جھوٹ پر دلیل بھی قائم ہو تو وہ بطریق اولیٰ یمین غموس ہوگی جیسا کہ کفار کہتے ہیں کہ مسیح اللہ تعالیٰ کے بیٹے ہیں اور قبروں والوں کو ( زندہ کرکے) اللہ تعالیٰ نہیں اٹھائے گا اور اگر وہ خبر فی الواقع سچی اور متکلم کے گمان میں جھوٹی ہے جیسے رسول اللہ سے منافق لوگ کہتے تھے کہ آپ بیشک اللہ کے رسول ہیں یا وہ خبر فی الواقع بھی جھوٹی اور متکلم کے گمان میں بھی جھوٹی ہے جیسے یہود کا قول ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کسی بشر پر کوئی شے نہیں نازل کی اور کہتے ہیں کہ جو مرگیا اللہ اسے نہیں اٹھائے گا اور جیسے قرض دار ( قرض خواہ سے) کہا کرتا ہے کہ میرے ذمہ تیرا کچھ نہیں ہے پس اس کا نام یمین غموس ہے اس کے قریب جانا (یعنی ارادہ کرنا) بھی جائز نہیں ہے اور یہ کبیرہ گناہوں میں سے ہے۔ حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ کہتے ہیں رسول اللہ نے فرمایا کہ کبیرہ گناہ یہ ہیں اللہ کے ساتھ شریک ماننا۔ والدین کی نافرمانی کرنا۔ خون کردینا اور یمین غموس۔ یہ حدیث بخاری نے نقل کی ہے ابن مسعود کہتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ جس نے یمین پر حلف کیا تاکہ اس کے ذریعہ سے کسی مسلمان آدمی کا مال دبا لے حالانکہ ہے اس میں جھوٹا تو قیامت کے دن اللہ تعالیٰ پیشی کے وقت اس پر سخت ناراض ہوگا پھر اس کی تصدیق میں اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی : ان الذین یشترون بعھد اللہ و ایمانھم ثمناً قلیلا [ الایۃ ] یہ حدیث متفق علیہ ہے۔ ابو امامہ کہتے ہیں رسول ﷺ اللہ نے فرمایا کہ جس نے اپنی قسم سے کسی مسلمان کا حق چھین لیا تو اس کے لیے اللہ تعالیٰ نے دوزخ واجب کردی اور جنت اس پر حرام کردی۔ یہ حدیث مسلم نے نقل کی ہے عبد اللہ بن انیس کہتے ہیں کہ انحضرت ﷺ نے فرمایا کہ سب سے بڑے کبیرہ گناہ یہ ہیں اللہ تعالیٰ کے ساتھ شریک ماننا۔ والدین کی نافرمانی کرنا اور یمین غموس یہ حدیث ترمذی نے نقل کی ہے۔ خریم بن فاتک نے مرفوعاً تین مرتبہ کہا کہ جھوٹی شہادت اللہ کے ساتھ شریک کرنے کے برابر ہے پھر یہ آیت پڑھی : فاجتنبوا الرجس من الاوثان واجتنبوا قول الزور۔ یہ روایت ابو داؤد اور ابن ماجہ نے نقل کی ہے ہے اور اگر وہ خبر انشاء میں ہے اس طرح پر کہ متکلم اپنے اوپر کوئی شے لازم کرتا ہے یا کسی شے سے اپنے آپ کو روکتا ہے تو اس کا نام یمین منعقدہ ہے اور سوۂ مائدہ میں اللہ تعالیٰ کے اس قول سے یہی مراد ہے : ولٰکن یؤاخذکم بما عقدتم الایماناس کا حکم انشاء اللہ تعالیٰ یہاں ہم عنقریب ذکر کریں گے۔
Top