Tafseer-e-Mazhari - Al-Baqara : 225
لَا یُؤَاخِذُكُمُ اللّٰهُ بِاللَّغْوِ فِیْۤ اَیْمَانِكُمْ وَ لٰكِنْ یُّؤَاخِذُكُمْ بِمَا كَسَبَتْ قُلُوْبُكُمْ١ؕ وَ اللّٰهُ غَفُوْرٌ حَلِیْمٌ
لَا يُؤَاخِذُكُمُ : نہیں پکڑتا تمہیں اللّٰهُ : اللہ بِاللَّغْوِ : لغو (بیہودہ) فِيْٓ : میں اَيْمَانِكُمْ : قسمیں تمہاری وَلٰكِنْ : اور لیکن يُّؤَاخِذُكُمْ : پکڑتا ہے تمہیں بِمَا : پر۔ جو كَسَبَتْ : کمایا قُلُوْبُكُمْ : دل تمہارے وَاللّٰهُ : اور اللہ غَفُوْرٌ : بخشنے والا حَلِيْمٌ : بردبار
خدا تمہاری لغو قسموں پر تم سے مواخذہ نہ کرے گا۔ لیکن جو قسمیں تم قصد دلی سے کھاؤ گے ان پر مواخذہ کرے گا۔ اور خدا بخشنے والا بردبار ہے
لَا يُؤَاخِذُكُمُ اللّٰهُ ( اللہ تم سے مواخذہ نہ کرے گا) یعنی آخرت میں عذاب کے ساتھ یہاں دونوں کلموں میں مواخذہ سے یہی مراد ہے۔ ( یہ کہنا ٹھیک نہیں ہے) کیونکہ کفارہ زکوٰۃ کی طرح خالص اللہ ہی کا حق ہوتا ہے اس کا دنیا میں مواخذہ نہیں ہوتا اور اسی وجہ سے ( یہ حکم ہے کہ) جو شخص مرجائے اور اس کے ذمہ زکوٰۃ یا کفارہ ہو اور اس نے وصیت نہ کی ہو تو وارثوں کے حق سے ان دونوں کو کوئی تعلق نہ ہوگا بخلاف بندوں کے قرض اور عشرہ اور خراج کے ( کہ یہ تینوں ورثہ کے حق میں سے لے لیے جائیں گے) اس کے علاوہ صرف قسم ( کھانے) سے کفارہ لازم نہیں ہوتا بلکہ قسم کے بعد اس کے توڑنے سے لازم آتا ہے پس قسم کے ساتھ کفارہ کے مواخذہ کو متعلق کرنا ہرگز خیال میں نہیں آتا لہٰذا مواخذہ سے مراد عذاب ہی ہے اور کفارہ اس مواخذہ کو رفع کرنے کے لیے مشروع کیا گیا ہے۔ بِاللَّغْوِ فِيْٓ اَيْمَانِكُمْ ( تمہاری قسموں میں بےہودہ پر) لغت میں لغو ایسی نکمی چیز کو کہتے ہیں جس کا اعتبار نہ کیا جاتا ہو کلام میں ہو یا اور کسی چیز میں۔ قاموس میں اسی طرح ہے یہاں اس سے وہ قسم مراد ہے جو زبان سے بلا خیال اور بلا قصد کے نقل جائے خواہ انشاء ہی ہو یا خبر میں، ماضی میں ہو یا مستقل میں یہی تفسیر حضرت عائشہ ؓ سے مروی ہے۔ امام شافعی (رح) نے نقل کیا ہے کہ حضرت عائشہ صدیقہ ؓ نے فرمایا کہ آدمی کی لغو قسم اس طرح کہنا ہے کہ : لا وا اللہ بلی وا اللہ۔ یہی روایت ابو داؤد نے مرفوعاً نقل کی ہے۔ شعبی اور عکرمہ بھی اسی طرح گئے ہیں امام شافعی (رح) کا قول بھی یہی ہے اور لغوی معنی مذکور کے یہی مناسب بھی ہے کیونکہ جب یہ بلا قصد ہے تو یہ اعتبار کرنے کے قابل نہیں ہے اور نہ اس سے اجماعاً گناہ ہوتا ہے اگر یہ اخبار میں ہو۔ اسی طرح امام شافعی (رح) کے نزدیک اس وقت قسم منعقد نہیں ہوتی جب اس طریق کی قسم انشاء میں ہو اور اس کو توڑ دے (یعنی اگر ایسی قسم کو توڑ دے) تو اس کے ذمہ کفارہ لازم نہیں آئے گا ان کی دلیل یہی آیت اس تفسیر کے ساتھ ہے۔ اور امام ابوحنیفہ کا قول یہ ہے کہ قسم منعقدہو جاتی ہے اور حانث ہوجانے پر کفارہ دینا لازم ہوگا کیونکہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا ہے کہ : ثلٰث جدھن جد و ھزلھن جدالنکاح والطلاق والیمین ( یعنی تین چیزیں ایسی ہیں کہ انکو سچ مچ کہنا تو سچ مچ ہوتا ہی ہے لیکن ان کو ہنسی سے کہنا بھی سچ مچ ہی ہوتا ہے ( وہ تینوں یہ ہیں) نکاح، طلاق، قسم۔ اسی طرح صاحب ہدایہ نے کہا ہے۔ یہ حدیث ہمیں حدیث کی کتابوں میں ٖ نہیں ملی ہاں ابوہریرہ ؓ کی حدیث ہمیں اس سند سے ملی ہے کہ عبد الرحمن بن حبیب نے عطا سے انہوں نے یوسف بن ماھک سے انہوں نے ابوہریرہ ؓ سے مرفوعاً روایت کی ہے کہ : ثلٰث جدھن جد و ہزلھن جد النکاح والطلاق والرجعۃ ( یعنی نکاح طلاق رجعت ان تینوں کا یہ حکم ہے جو پہلے مذکور ہوا) اس روایت کو امام احمد۔ ابو داؤد۔ ترمذی۔ ابن ماجہ۔ حاکم۔ دار قطنی نے نقل کیا ہے اور ترمذی نے کہا ہے کہ یہ حدیث حسن ہے حاکم نے صحیح کہا ہے۔ علامہ ابن جوزی (رح) فرماتے ہیں کہ یہ عطا عجلان کے بیٹے ہیں جو حدیث میں متروک ہیں۔ حافظ ابن حجر (رح) نے کہا یہ ابن جوزی کا وہم ہے کیونکہ وہ عطا ابی رباح کے بیٹے ہیں ( عجلان کے بیٹے نہیں ہیں) اور عبد الرحمن بن حبیب میں بھی محدثین کا اختلاف ہے۔ امام نسائی فرماتے ہیں کہ یہ منکر الحدیث ہیں لیکن اوروں نے ان کی توثیق بھی کی ہے کہ پس یہ حدیث حسن ہے۔ اور اسی کو ابن عدی نے کامل میں ان لفظوں سے نقل کیا ہے : ثلٰث لیس فیھا لعب من کلم بشئ منھا لاعبا فقد وجب ا لطلاق والعتاق والنکاح یعنی تین چیزیں ایسی ہیں جن میں ہنسی نہیں ہوتی جو شخصی انہیں ہنسی کے طور پر زبان سے نکال دے وہ اس کے ذمہ لازم ہوجائیں گے ( وہ یہ ہیں) نکاح، طلاق، عتاق۔ اس میں ابن لہیعہ راوی ضعیف ہیں اور عبد الرزاق نے حضرت عمر ؓ اور حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے موقوفاً روایت کی ہے ان دونوں نے فرمایا کہ تین چیزیں ایسی ہیں جن میں مزاح نہیں ہوتا نکاح، طلاق۔ عتاق۔ اور ایک روایت ان ہی دونوں سے یہ ہے کہ ایسی چار چیزیں ہیں اور نذر کا لفظ زیادہ کیا ہے۔ ابن ہمام فرماتے ہیں اس میں شک نہیں کہ قسم بھی نذر کے معنی میں ہے پس اس کو بھی نذر پر قیاس کرلیا جائے گا۔ میں کہتا ہوں کہ جو امام شافعی (رح) نے ذکر کیا ہے وہ مرفوع حدیث ہے جو آیت کے لیے تفسیر اور بیان ہوگیا ہے اور نص کے مقابلہ میں قیاس کا اعتبار نہیں ہوتا اس کے علاوہ مقیس علیہ فقط ایک موقوف اثر میں وارد ہے وہ مرفوع نہیں ہے۔ ابن ہمام (رح) فرماتے ہیں کہ اگر قسم کی حدیث ثابت بھی ہوجائے تو اس میں کوئی دلیل نہیں ہے کیونکہ اس میں تو فقط اتنا مذکور ہے کہ ہنسی سے قسم کھانے والا بمنزلہ جان بوجھ کر قسم کھانے والے کے شمار ہوگا اور ہنسی سے قسم کھانے والا ارادہ سے قسم کھانے والا ہے ہاں اس کے حکم سے راضی نہیں ہے پس ارادی تخلیق سبب کے بعد اس کے رضا مند نہ ہونے کا اعتبار نہ کیا جائے گا اور بھول کر کوئی بات کہنے والا تو کسی شئ کا قصد بھی نہیں کرتا اور نہ اس کو یہ خبر ہوتی ہے کہ میں کیا کرتا ہوں اور سی طرح غلطی سے کہہ دینے والا ہوتا ہے کہ وہ بھی اس کو زبان سے نکالنے کا ارادہ نہیں کرتا بلکہ اس کا ارادہ کوئی اور بات کہنے کا ہوتا ہے ( اور غلطی سے نکل کچھ جاتا ہے) پس یہ بھی ہنسی سے کہنے والے کے حکم میں نہیں ہے لہٰذا اس کے بارے میں کوئی نص ہے اور نہ قیاس ہے اس کے علاوہ لغو قسم کی تفسیر میں امام ابوحنیفہ کا قول یہ ہے کہ کوئی آدمی کسی شئے پر یہ سمجھ کر قسم کھالے کہ میں اس میں سچا ہوں پر اسے اس کے خلاف ظاہر ہو تو اس کو لغو قسم کہا جائے گا۔ زہری۔ حسن۔ ابراہیم نخعی کا یہی قول ہے اور قتادہ اور مکحول فرماتے ہیں کہ ایسی قسم میں نہ کفارہ ہے اور نہ کچھ گناہ ہے باوجودیکہ اس میں قسم کھانے والے کا رادہ قسم کا ضرور ہوتا ہے اگرچہ یہ گمان بھی اس کو ہوتا ہے کہ میں اس میں بری ہوں پس جس قسم کا کسی نے ارادہ ہی نہیں کیا بلکہ وہ مثل سونے والے کے تھا کہ کچھ اس کی زبان سے نکل گیا تو اس کی قسم کا اعتبار نہ کیا جانااولیٰ درجہ ہے۔ امام شافعی کا قول یہ ہے کہ جو قسم ارادہ کے ساتھ ہو اگرچہ سچ ہی ہونے کے گمان پر ہو اگر وہ نفس الامر کے خلاف ہوگی تو اس میں کفارہ دینا واجب ہوگا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کی تفسیر کے مطابق یہ قسم لغو قسم میں سے نہیں ہے بلکہ یہ قلبی کسب میں سے ہے۔ جیسے (یمین) غموس ہوتی ہے ہاں اتنا فرق ہے کہ وہ اپنے گمان کے باعث معذور ہے اس لیے اس میں گناہ نہیں ہوگا۔ میں کہتا ہوں کہ اگرچہ یہ قسم (لغو قسم) میں سے نہیں ہے لیکن نہ اس میں کفارہ ہے اور نہ گناہ ہے گناہ نہ ہونے کی دلیل تو اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد : و لیس علیکم جناح فیما اخطأتم بہ و لکن ما تعمدت قلوبکم ( یعنی جو تمہارے منہ سے غلطی نکل جائے اس میں تم پر گناہ نہیں ہے ہاں جس کا تم دل سے ارادہ کرکے کہو) اور کفارہ نہ ہونے کی دلیل یہ ہے کہ کفارہ کا دار و مدار تو گناہ ہی ہوتا ہے کیونکہ کفارہ گناہ رفع کرنے کے لیے ہے اور جب گناہ نہیں تو کفارہ بھی نہیں۔ دوسری دلیل یہ ہے کہ یہ قسم : فیما عقدتم الایمان میں داخل نہیں ہے حالانکہ کفارہ اسی طرف راجع ہوتا ہے اگر کوئی یہ اعتراض کرے کہ ( تمہارے کہنے کے مطابق) اگر کفارہ کا دارو مدار گناہ ہی پر ہے) تو ازروی اجماع و حدیث خطاء اور نسیان میں تو گناہ نہیں ہوتا پس ( اس قاعدہ کے مطابق) خطا سے قتل کردینے پر بھی کفارہ نہ ہوگا۔ ہم کہتے ہیں قتل کردینا بہت سخت کام ہے اس لیے اللہ تعالیٰ نے ( اس میں) دو گناہ مقرر کیے ہیں ایک گناہ تو اس جان کے مارنے ( یعنی خون کرنے) کا یہ کبیرہ گناہ ہے جو جان کے قتل کردینے میں ہوتا ہے او یہ کفارہ سے رفع نہیں ہوتا اس لیے اس میں کفارہ واجب ہونے کے ہم قائل نہیں ہیں اور خطا سے قتل کردینے میں یہ گناہ رفع ہوجاتا ہے اور دوسرا گناہ احتیاط نہ کرنے کا ہے اور اسی گناہ کی وجہ سے خطاء سے قتل کردینے میں کفارہ واجب ہوتا ہے سعید بن جبیرفرماتے ہیں کہ قسم لغو وہ ہے جو معصیت پر ہے اس میں حانث ہوجانے پر اللہ مواخذہ نہیں کرتا بلکہ اس میں حانث ہوجائے اور کفارہ دیدے اور اس قول پر لغو اور منعقدہ دونوں قسمیں ایک ہوجائیں گی۔ حالانکہ یہ آیت دونوں کے علیحدہ علیحدہ ہونے پر دلالت کرتی ہے جو شرکت کے بالکل منافی ہے اس کے علاوہ کفارہ واجب ہونے کا قائل ہونا مواخذہ نہ ہونے کے قائل ہونے کے منافی ہے کیونکہ کفارہ تو گناہ ہی پر مبنی ہوتا ہے اور مسروق فرماتے ہیں کی معصیت پر قسم کھانے میں کفارہ نہیں ہے کیا کہیں شیطانی لغزشوں پر بھی کفارہ دیا جاتا ہے اور شعبی نے ایک آدمی کے حق میں فرمایا تھا جس نے معصیت کرنے پر قسم کھالی تھی کہ اس کا کفارہ یہی ہے کہ اس معصیت سے توبہ کرلے میں کہتا ہوں کہ معصیت پر قسم کھالی تو اللہ تعالیٰ کے قول : ولٰکن یواخذ کم بما عقدتم الایمانکے عموم میں داخل ہے کیونکہ اس قسم میں تو اس کے پورا کرنے کا ارادہ یقینی ہوتا ہے پس وہ منعقدہ میں سے ہوئی نہ کہ لغو میں سے اور منعقدہ قسم کفارہ واجب کردیتی ہے ہاں اس کا معصیت پر ہونا اس کے توڑدینے کو واجب کرتا ہے اور یہ بعینہٖ آنحضرت ﷺ کے اس قول کا مقتضی ہے کہفَلْ یُکْفِرُوْا یَاتِ بِمَا ھُوُ خَیْرٍ وَا اللہ اَعْلَمُ ۔ وَلٰكِنْ يُّؤَاخِذُكُمْ بِمَا كَسَبَتْ قُلُوْبُكُمْ ( لیکن اس قسموں پر تم سے مواخذہ کرے گا جن کا تمہارے دلوں نے ارادہ کیا ہے) یعنی جس جھوٹی قسم کا تم نے قصد اور ارادہ کیا ہو اور قصد و ارادہ ہی سے معصیت کے مرتکب ہوئے ہو ہم نے یہ تفسیر مواخذہ کے قرینہ سے کی ہے۔ کیونکہ مواخذہ تو معصیت ہی پر ہوتا ہے پس اس قید سے سچی قسمیں سب نکل گئیں اور وہ قسمیں بھی جو سچی ہونے کے خیال سے ہوں اور اسی طرح اس قید سے منعقدہ (قسم) بھی نکل جاتی ہے کیونکہ اس میں بھی ( فقط قسم کھانے میں) معصیت نہیں ہوتی بلکہ قسم کھانے کے بعد حانث ہوجانے میں ہوتی ہے اگر کوئی کہے کہ سورة مائدہ میں یہ آیت ہے ولٰکن یواخذکم بِمَا عقدّتم الایمان ( یعنی اللہ تم سے ان پر ضرور مواخذہ کرے گا جن قسموں کا تم نے ارادہ کیا ہو) اور یہ معصیت ہونے اور اس پر مواخذہ ہونے پر دلالت کرتی ہے پر تم کیونکر کہتے ہو کہ اس سے منعقدہ قسم نکل گئی ‘ الی آخرہٖ ۔ میں کہتا ہوں وہاں تقدیر کلام کی یہ ہے لیکن اللہ تم سے ان قسموں پر مواخذہ کرے گا جن کا تم نے ارادہ کیا تھا اگر تم حانث ہوجاؤ اور یہاں یہ تقدیر نہیں ہے کیونکہ تقدیر بھی مجاز کی ایک قسم ہے اور حقیقت اور مجاز دونوں جمع نہیں ہوتے اور (یمین) غموس پر مواخذہ محض قسم کھانے سے ہوتا ہے پس اس آیت سے مرد فقط یمین غموس باقسامہ ہے اور یہاں وہ تقدیر نہیں ہے اور سورة مائدہ کی آیت سے مراد فقط منعقدہ قسم ہے اور اس میں یہ تقدیر ہے۔ وا اللہ اعلم اور امام شافعی کا قول یہ ہے کہ : بما کسبت قلوبکم اور بما عقدتم الایمان دونوں کا مطلب ایک ہی ہے اور وہ لغو (قسم) کی ضد ہے ( عرب) کہتے ہیں کہ قلب کا کسب عقد اور نیت ہے پس ماکسبت قلوبکم اور ما عقدتم الایمان دونوں (یمین) غموس (یمین) منعقدہ (یمین) مظنونہ سب کو شامل ہیں لہٰذا ان سب میں کفارہ دینا واجب ہوگا۔ ہم کہتے ہیں ایسا نہیں ہے بلکہ عقد یمین ( یعنی منعقدہ قسم) سے مراد یہ ہے کہ قسم کھا کر اپنے اوپر ایک چیز کو ایسا لازم کرلینا کہ اس کا پورا کرنا اس آیت کی وجہ سے واجب ہو : یا یھا الذین امنوا اوفوا بالعھود ( یعنی اے ایمان والو اپنے عقدوں کو پورا کیا کرو) اور اس میں نہ کوئی معصیت ہے اور نہ کچھ مواخذہ ہے ہاں حانث ہونے کے بعد اور کسب قلب حضرت عائشہ ؓ کی تفسیر کے مطابق لغو قسم کی ضد ہے پس وہ اس سے مطلقاً عام ہے لیکن مواخذہ کے قرینہ سے آیت میں بلا کسی قسم کی تقدیر کے ہم اسے اس معصیت پر حمل کرتے ہیں جو محض قسم کھانے سے حاصل ہو پس یہ فقط ( یمین غموس ہی ہے اور غموس میں کفارہ نہیں ہے کیونکہ اللہ کے قول : فکفارتہ کی ضمیر فقط ماعقدتم الایمان کی طرف راجع ہے دوسری دلیل یہ ہے کہ غموس محض کبیرہ گناہ ہے سپ اگر اس قسم پر کفارہ واجب ہوگا تو پھر یہ کفارہ غموس کی معصیت کے لیے یا تو اسے چھپانے اور زائل کرنے والا ہوگا یا نہ ہوگا اگر انہیں ہے تو کفارہ کفارہ نہ رہا اور اگر ہے تو پھر یہ بہت سی صورتوں کو شامل ہے۔ مثلاً کوئی جھوٹی قسم کھا کے کسی مسلمان کا مال دبالے پھر اس کا کفارہ دے دے ( تو تمہارے قول کے مطابق یہ بری ہوجائے گا) حالانکہ اس کا کوئی بھی قائل نہیں ہے اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے : ان تجتنبوا کبائر ما تنھون عنہ نکفرعنکم سیئاتکم ( یعنی اگر تم ان کبیرہ گناہوں سے بچتے رہو گے جن سے تمہیں منع کیا گیا ہے تو ہم تمہارے گناہ معاف کردیں گے) اور فرمایا : ان الحسنات یذھبن السیأت آنحضرت ﷺ کا ارشاد ہے کہ پانچوں نمازیں اور جمعہ دوسرے جمعہ تک اور رمضان دوسرے رمضان تک اپنے درمیانی گناہوں کا کفارہ ہوجاتے ہیں جب تک کہ آدمی کبیرہ گناہوں سے بچتا رہے پس اس سے صاف معلوم ہوگیا کہ طاعات صغیرہ ہی گناہوں کے کفارہ ہوتے ہیں کبیرہ کے نہیں ہوتے باقی رہے کبیرہ گناہ سو ان سے خلاصی ہونے کی صورت سوائے استغفار کے اور کوئی نہیں ہے ہاں اگر اللہ اپنی رحمت سے اسے چھپالے اور اسکی مغفرت کردے اور شاید اللہ تعالیٰ نے اپنے اس آئندہ قول سے اسی طرف اشارہ کیا ہو کہ۔ وَاللّٰهُ غَفُوْرٌ حَلِيْمٌ ( اور اللہ بخشنے والا بردبار ہے) اگر وہ چاہے تو توبہ سے یا بلا توبہ بھی کبیرہ گناہوں کو بخش دیتا ہے اور یہ مغفرت اور بردباری کا وعدہ بظاہر اس آیت کی طرف راجع ہے کہ لا یواخذکم اللہ باللغو فی ایمانکم کیونکہ رفتار کلام لغو قسم ہی کی بابت ہے اور یمین غموس اس کے تابع ہونے کے طور پر ذکر کردی گئی ہے اس پر بخاری کی وہ روایت جو انہوں نے حضرت عائشہ ؓ سے نقل کی ہے دلالت کرتی ہے کہ انہوں نے فرمایا : لا یؤاخذکم اللہ باللغو فی ایمانکم ایسے شخص کے بارے میں نازل کی گئی ہے جو کہتا تھا لا وا اللہ و بلی وا اللہ وا اللہ اعلمجاننا چاہئے کہ یمین کے معنی اصل میں قوت کے ہیں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ : لاخذنا منہ بالیمین ( یعنی بیشک ہم نے اسے قوت کے ساتھ پکڑ لیا) اور بائیں ہاتھ کے خلاف عضو کو ( یعنی سیدھے ہاتھ کو) بھی اس کی قوت ہی کی وجہ سے یمین کہتے ہیں اور قسم کو بھی یمین اسی لیے کہا جاتا ہے کہ اللہ کا نام بول کر اس میں کلام کی تقویت ہوجاتی ہے قسم دو طرح کی ہوتی ہے اوّل قسم یہ کہ بلا ارادہ زبان سے نکل جائے خواہ وہ گذشتہ خبر کے متعلق ہو آئندہ کے متعلق صادق ہو یا کاذب ہو یا انشاء میں ہو اسی کا نام لغو یمین ہے اور اس کا کچھ اعتبار نہیں ہوتا نہ اس کے ساتھ کوئی حکم متعلق ہوتا ہے سوائے اس کے جو ہم بیان کرچکے ہیں انشاء میں امام ابوحنیفہ کا خلاف ہے دوسری قسم وہ جو ارادہ سے ہو اور اس کی بھی دو قسمیں ہیں یا تو خبر میں ہو یا انشاء میں اگر خبر میں ہے تو وہ خبر اگر فی الواقع اور متکلم کے گمان میں بھی سچی ہے مثلاً تم نے یہ کہا قسم ہے اللہ کی محمد بیشک اللہ کے رسول ہیں اور قیامت یقیناً آنے والی ہے اس میں کوئی شک نہیں اور آفتاب یقیناً نکلا ہوا ہے تو اس میں کسی قسم کا کلام نہیں ہے کہ ایسی قسم بیشک عبادت ہے اسی واسطے اللہ کے سوا اور کسی کی قسم کھانی جائز نہیں ہے حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا بیشک اللہ تعالیٰ تمہیں منع کرتا ہے کہ تم اپنے باپ دادوں کی قسمیں کھایا کرو جسے قسم کھانی ہو وہ اللہ ہی کی قسم کھائے ورنہ خاموش رہے یہ حدیث متفق علیہ ہے ابن عمرہی سے یہ بھی مروی ہے کہ رسول اللہ سے میں نے خود سنا کہ جس نے اللہ کے سوا اور کسی کی قسم کھائی اس نے شرک کیا یہ حدیث ترمذی نے نقل کی ہے حضرت ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ تم اپنے باپ دادوں اور ماؤں اور بتوں کی قسمیں ہرگز نہ کھایا کرو اور اللہ کی بھی قسم نہ کھاؤ ہاں اگر تم سچے ہو یہ حدیث ابو داؤد اور نسائی نے نقل کی ہے اور اگر وہ خبر فی الواقع جھوٹی ہے اور متکلم اسے اپنے گمان میں سچ سمجھ رہا ہے تو پھر دیکھنا چاہئے کہ اگر اس کا گمان کسی ظنی دلیل پر مبنی ہے۔ جیسے خبر واحد کہ اس میں کسی راوی نے جھوٹ بول دیا ہے یا اس کے معنی میں غلطی کردی ہو یا کسی سلف صالح کا اثر ہو یا حس وغیرہ میں غلطی ہوگئی ہو اور اس کے جھوٹ پر کوئی یقینی دلیل وہاں نہ ہو تو امام ابوحنیفہ (رح) کی تفسیر کی مطابق اسی کا نام یمین مظنون اور یمین لغو ہے اور اس کا حکم ہم بیان کرچکے ہیں اور اگر اس کا گمان کسی دلیل پر مبنی نہیں ہے۔ مثلاً کوئی بلا جانے بلا دیکھے ‘ بلا کسی کے خبر دیدئے یہ کہہ دے کہ زید کھڑا ہے یا اب کھڑا ہوگا) تو اس کا نام یمین غموس ہے جس سے منع کیا گیا ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : ولا تقف ما لیس لک بہ علم ( اور نہ در پے ہو اس چیز کے جس کا تجھے علم نہ ہو) ۔ اور اگر کسی کے جھوٹ پر دلیل بھی قائم ہو تو وہ بطریق اولیٰ یمین غموس ہوگی جیسا کہ کفار کہتے ہیں کہ مسیح اللہ تعالیٰ کے بیٹے ہیں اور قبروں والوں کو ( زندہ کرکے) اللہ تعالیٰ نہیں اٹھائے گا اور اگر وہ خبر فی الواقع سچی اور متکلم کے گمان میں جھوٹی ہے جیسے رسول اللہ سے منافق لوگ کہتے تھے کہ آپ بیشک اللہ کے رسول ہیں یا وہ خبر فی الواقع بھی جھوٹی اور متکلم کے گمان میں بھی جھوٹی ہے جیسے یہود کا قول ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کسی بشر پر کوئی شے نہیں نازل کی اور کہتے ہیں کہ جو مرگیا اللہ اسے نہیں اٹھائے گا اور جیسے قرض دار ( قرض خواہ سے) کہا کرتا ہے کہ میرے ذمہ تیرا کچھ نہیں ہے پس اس کا نام یمین غموس ہے اس کے قریب جانا (یعنی ارادہ کرنا) بھی جائز نہیں ہے اور یہ کبیرہ گناہوں میں سے ہے۔ حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ کہتے ہیں رسول اللہ نے فرمایا کہ کبیرہ گناہ یہ ہیں اللہ کے ساتھ شریک ماننا۔ والدین کی نافرمانی کرنا۔ خون کردینا اور یمین غموس۔ یہ حدیث بخاری نے نقل کی ہے ابن مسعود کہتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ جس نے یمین پر حلف کیا تاکہ اس کے ذریعہ سے کسی مسلمان آدمی کا مال دبا لے حالانکہ ہے اس میں جھوٹا تو قیامت کے دن اللہ تعالیٰ پیشی کے وقت اس پر سخت ناراض ہوگا پھر اس کی تصدیق میں اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی : ان الذین یشترون بعھد اللہ و ایمانھم ثمناً قلیلا [ الایۃ ] یہ حدیث متفق علیہ ہے۔ ابو امامہ کہتے ہیں رسول ﷺ اللہ نے فرمایا کہ جس نے اپنی قسم سے کسی مسلمان کا حق چھین لیا تو اس کے لیے اللہ تعالیٰ نے دوزخ واجب کردی اور جنت اس پر حرام کردی۔ یہ حدیث مسلم نے نقل کی ہے عبد اللہ بن انیس کہتے ہیں کہ انحضرت ﷺ نے فرمایا کہ سب سے بڑے کبیرہ گناہ یہ ہیں اللہ تعالیٰ کے ساتھ شریک ماننا۔ والدین کی نافرمانی کرنا اور یمین غموس یہ حدیث ترمذی نے نقل کی ہے۔ خریم بن فاتک نے مرفوعاً تین مرتبہ کہا کہ جھوٹی شہادت اللہ کے ساتھ شریک کرنے کے برابر ہے پھر یہ آیت پڑھی : فاجتنبوا الرجس من الاوثان واجتنبوا قول الزور۔ یہ روایت ابو داؤد اور ابن ماجہ نے نقل کی ہے ہے اور اگر وہ خبر انشاء میں ہے اس طرح پر کہ متکلم اپنے اوپر کوئی شے لازم کرتا ہے یا کسی شے سے اپنے آپ کو روکتا ہے تو اس کا نام یمین منعقدہ ہے اور سوۂ مائدہ میں اللہ تعالیٰ کے اس قول سے یہی مراد ہے : ولٰکن یؤاخذکم بما عقدتم الایماناس کا حکم انشاء اللہ تعالیٰ یہاں ہم عنقریب ذکر کریں گے۔
Top