Tafseer-e-Mazhari - Al-Baqara : 227
وَ اِنْ عَزَمُوا الطَّلَاقَ فَاِنَّ اللّٰهَ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ
وَاِنْ : اور اگر عَزَمُوا : انہوں نے ارادہ کیا الطَّلَاقَ : طلاق فَاِنَّ : تو بیشک اللّٰهَ : اللہ سَمِيْعٌ : خوب سنے والا عَلِيْمٌ : جاننے والا
اور اگر طلاق کا ارادہ کرلیں تو بھی خدا سنتا (اور) جانتا ہے
وَاِنْ عَزَمُوا الطَّلَاقَ ( اور اگر انہوں نے طلاق کا ارادہ کرلیا ہو) امام مالک امام شافعی امام احمد فرماتے ہیں اس کے معنی یہ ہیں کہ اگر چار مہینے کے بعد انہوں نے رجوع نہ کیا اور طلاق دینے کا ارادہ کرکے طلاق دے دی۔ فَاِنَّ اللّٰهَ سَمِيْعٌ عَلِيْمٌ ( تو بیشک اللہ سننے والا ہے ( انکے طلاق دینے کو) جاننے والا ہے) ( ان کی نیتوں کو) اور اسی تاویل کی بنا پر انہوں نے کہا ہے کہ محض چار مہینے گذر جانے سے طلاق نہیں پڑے گی بلکہ طلاق کا پڑنا طلاق دینے پر موقوف رہے گا کیونکہ اگر طلاق دینے پر موقوف نہ رہے اور فقط چار مہینے ختم ہوتے ہی طلاق پڑجائے تو اس کے طلاق کا ارادہ کرنے کے کوئی معنی نہ ہوں گے اور نہ اس کے ذیل میں اللہ کا قول : ان اللہ سمیع مناسب رہے گا اس تاویل پر تردید نفی و اثبات میں دائر نہیں ہے بلکہ ایک تیسیر صورت اور ہے وہ یہ کہ نہ وہ رجوع کرے اور نہ طلاق دے اور اس صورت کے حکم سے یہاں سکوت ہے سو اس میں اس تاویل کے قائلین کا بھی قول مختلف ہے اکثر فقہاء کا قول یہ ہے کہ حاکم اسے طلاق دیدے کیونکہ جب ایلاء کرنے والا امساک بالمعروف سے رکا رہا تو تسریح بالاحسان میں حاکم اس کے قائم مقام ہوجائے گا جیسا کہ عنین کا حکم ہے اور ایک روایت میں امام شافعی اور امام احمد سے یہ بھی مروی ہے کہ حاکم اس پر زبردستی کرکے طلاق دلوادے۔ امام ابوحنیفہ فرماتے ہیں اس کے معنی یہ ہیں کہ اگر انہوں نے ارادتاً طلاق کی وجہ سے رجوع کو چھوڑے رکھا یہاں تک کہ وہ مدت ( چار مہینے کی) گذر گئی اور اس سے طلاق پڑگئی (تو اللہ سننے والا اور جاننے والا ہے) نیز علماء فرماتے ہیں کہ اگر اس سے طلاق نہیں پڑے گی تو اس کے لیے چار مہینے کے بعد رجوع کرلینا جائز ہوگا پھر رجوع کرنے کی قید جو ابن مسعود کی قرأت میں ان کے قول فیھن سے ہوتی ہے اس کے کوئی معنی نہ ہوں گے اور اگر ہم یہ کہیں کہ چار مہینے کے بعد رجوع کرنا جائز نہیں ہے اور طلاق دینا اس پر لازم ہے تو ( اس کہنے سے) اجماع مرکب کا خلاف لازم آئے گا کیونکہ اس کا کوئی بھی قائل نہیں ہے۔ اس کے علاوہ آیت میں جو تردید ہے وہ بھی اس کا انکار کرتی ہے اور اس تاویل پر اللہ تعالیٰ کے قول فان اللہ سمیع کے یہ معنی ہیں کہ اللہ اس لڑائی جھگڑے وغیرہ کو سننے والا ہے جو رجوع نہ کرنے کا سبب ہو جیسا کہ وہ شیطان کے وسوسہ کو سنتا ہے یا وہ اس ایلاء کو سننے والا ہے جو طلاق ہے اور بلا وطی کے چارمہینے گذر جانے پر موقوف رہتی ہے علیم جاننے والا ہے ان کے ظلم کو جو ہمیشہ اس پر رہتے ہیں اس تاویل پر آیت کا معنی وعید آمیز ہوگا اور آثار صحابہ اس بارے میں متعارض ہیں چناچہ حضرت عمر عثمان علی زید بن ثابت ابن مسعود۔ ابن عباس۔ ابن عمرؓ تو یہی فرماتے ہیں جو امام ابوحنیفہ کا قول ہے سوائے اس روایت کے جو حضرت عمر سے مروی ہے کہ وہ رجعی طلاق ہونے پر دلالت کرتی ہے۔ دارقطنی نے اسحاق سے نقل کیا ہے وہ کہتے ہیں مجھ سے مسلم بن شہاب نے بیان کیا اور وہ سعید بن مسیب اور ابوبکر بن عبد الرحمن سے نقل کرتے ہیں کہ حضرت عمر بن خطاب فرماتے تھے کہ چار مہینے گذر جائیں تو وہ ایک طلاق ہے اور جب تک عورت عدت میں رہے خاوند کو رجوع کرلینے کا پورا اختیار ہے عبد الرزاق نے نقل کیا ہے کہ ہم سے معمر نے ‘ انہوں نے عطاء خراسانی سے ‘ انہوں نے ابی سلمہ بن عبد الرحمن سے نقل کیا کہ عثمان بن عفان اور زید بن ثابت دونوں ایلاء کی بابت فرماتے تھے کہ جب چار مہینے گذر جائیں تو وہ ایک ہی طلاق ہے اور عورت اپنی جان کی زیادہ حقدار ہے وہ طلاق والی عورت کی طرح عدت پوری کرے اور عبد الرزاق ہی نے یہ بھی نقل کیا ہے کہ ہم سے معمر نے انہوں نے قتادہ سے نقل کیا کہ علی ؓ اور ابن مسعود ؓ دونوں فرماتے تھے کہ جب ( ایلاء کے) چار مہینے گذر جائیں تو وہ ایک طلاق ہوتی ہے اور عورت اپنی جان کی سب سے زیادہ حقدار ہے طلاق والی عورت کی طرح وہ بھی عدت گذارے اور عبد الرزاق ہی نے یہ بھی نقل کیا ہے کہ ہم سے معمر اور ابن عیینہ نے بیان کیا وہ ابی قلابہ سے نقل کرتے تھے ابو قلابہ کہتے ہیں کہ نعمان نے اپنی بیوی سے ایلاء کرلیا تھا آپ (ایک روز) ابن مسعود کے پاس بیٹھے ہوئے تھے ابن مسعود نے ان کی ران پر ہاتھ مار کر فرمایا کہ جب چار مہینے گذر جائیں تو تم ایک طلاق کا اقرار کرلینا ابن ابی شیبہ نے نقل کیا ہے کہ ہم سے ابو معاویہ نے انہوں نے اعمش سے انہوں نے حبیب سے انہوں نے سعید بن جبیر سے انہوں نے ابن عباس اور ابن عمر سے نقل کیا وہ دونوں فرماتے تھے کہ جب کسی نے ایلاء کرکے رجوع نہ کیا یہاں تک کہ چار مہینے گذر گئے تو یہ بائنہ طلاق ہے اور حضرت عثمان ؓ ، حضرت علی ؓ اور حضرت ابن عمر ؓ سے ایک ایسی روایت بھی ہے جو اس کے خلاف ہے اور امام شافعی (رح) کے مذہب کے موافق ہے اسی طرح ان کے علاوہ اور صحابہ سے بھی مروی ہے۔ دارقطنی نے روایت کی ہے کہتے ہیں ہم سے ابوبکر میمونی نے بیان کیا وہ کہتے تھے میں نے امام احمد بن حنبل کو عطاخراسانی کی حدیث سنائی جسے وہ حضرت عثمان سے روایت کرتے ہیں تو آپ نے فرمایا مجھے معلوم نہیں یہ کیسی ہے عثمان غنی سے تو اس کے خلاف مروی ہے کسی نے پوچھا اس کا روای کون ہے فرمایا حبیب ابن ثابت بروایت طاؤس از حضرت عثمان امام مالک نے موطا میں جعفر بن محمد سے انہوں نے اپنے باپ سے انہوں نے علی بن ابی طالب سے روایت کی ہے آپ فرماتے تھے کہ جب کسی نے اپنی بیوی سے ایلاء کرلیا تو اسے طلاق نہیں ہوئی پھر اگر چار مہینے گذر گئے تو اب انتظار کیا جائے کہ یا تو وہ طلاق دے دے یا رجوع کرلے۔ امام بخاری (رح) نے سند کے ساتھ ابن عمر سے نقل کیا ہے کہ آپ اس ایلاء کی بابت فرماتے تھے جس کا اللہ تعالیٰ نے نام لیا ہے کہ اس مدت گذرنے کے بعد عورت حلال نہیں رہتی ہاں یا تو خوش خوئی کے ساتھ رکھے یا طلاق کا ارادہ کرلے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے حکم کیا ہے اور امام بخاری کہتے ہیں مجھ سے اسماعیل بن اویس نے فرمایا کہ مجھ سے امام مالک نے انہوں نے نافع سے انہوں نے ابن عمر کا قول نقل کیا ہے کہ چار مہینے گذر جانے پر انتظار کرنا چاہئے تاکہ وہ طلاق دیدے۔ امام شافعی فرماتے ہیں ہم سے سفیان نے انہوں نے یحییٰ بن سعید سے انہوں نے سلیمان بن یسار سے روایت کی سلیمان فرماتے ہیں کہ دس سے کچھ اوپر صحابہ سے میں ملا ہوں وہ سب کے سب یہ فرماتے تھے کہ ایلاء کرنے والے کا انتظار کرنا چاہئے میں کہتا ہوں کہ صحابہ میں سے جو لوگ انتظار کی طرف گئے ہیں بغوی (رح) نے حضرت عمر ؓ اور ابی الدرداء کو بھی ان ہی میں ذکر کیا ہے ابن ہمام ؓ کہتے ہیں کہ جو روایت ہم نے حضرت عثمان ؓ اور زید بن ثابت ؓ سے نقل اللہ کی ہے وہ اس سے بہتر ہے جو امام احمد نے حضرت عثمان سے نقل کی ہے کیونکہ ہماری سند بہت قوی اور سلسلہ وار ہے، خلاف امام احمد کی روایت کے کہ اس میں حبیب تک چند راویوں کا حال کچھ معلوم نہیں اور نہ یہ کہیں معلوم ہوتا ہے کہ طاؤس ؓ نے حضرت عثمان ؓ سے حدیث سنی ہے اور محمد بن علی ؓ کی روایت جسے وہ علی ابن ابی طالب سے روایت کرتے ہیں مرسل ہے جیسے کہ قتادہ ؓ کی روایت حضرت علی ؓ سے مرسل ہے اور یہ دونوں ہم عصر بھی ہیں اور جو روایت ہم نے ابن عمر ؓ اور ابن عباس ؓ سے نقل کی ہے اس کے سب راویوں سے شیخین نے صحیحین میں حدیثیں نقل کی ہیں پس اس روایت پر اس روایت کو جو صحیح بخاری میں ابن عمر ؓ سے مروی ہے کسی طرح کی ترجیح نہیں ہے۔ بغوی کہتے ہیں کہ ( ایلاء میں) انتظار کرنے کی طرف تابعین میں سے سعید بن جبیر ؓ ، سلیمان بن یسارا ؓ و رمجاہد (رح) گئے ہیں اور اس کے خلاف کی طرف سفیان ثوری۔ سعید بن مسیب اور زہری گئے ہیں لیکن ان دونوں کا قول یہ ہے کہ ایک رجعی طلاق پر جائے گی۔ عبد الرزاق نے امام ابوحنیفہ (رح) کے مذہب کے موافق تابعین میں سے عطا۔ جابر بن یزید عکرمہ۔ سعید بن مسیب۔ ابوبکر بن عبد الرحمن و مکحول سے روایت کی ہے اور اسی طرح دارقطنی نے ابن حنفیہ ‘ شعبی ‘ نخعی ‘ مسروق ‘ حسن ‘ ابن سیرین ‘ قبیصہ ‘ سالم ‘ ابی سلمہ سے روایت کی ہے۔ اور ترجیح میں یہ کہا گیا ہے کہ اس میں شک نہیں کہ ظاہر میں قرأت متواترہ امام شافعی (رح) وغیرہ کے مذہب کی موئد ہے، امام ابوحنیفہ (رح) کا مذہب اس سے بلا ایسے تکلف کے مستفاد نہیں ہوتا کہ جس کی طرف بغیر سماعت کے رجوع کرنا جائز نہیں ہے۔ پس صحابہ میں سے جس نے یہ کہا کہ یہ ظاہر آیت کے مطابق ہے تو جان لیا جائے گا کہ یہ بات انہوں نے رائے سے کہی ہے اور جس نے امام ابوحنیفہ (رح) کی تاویل کے مطابق کہا اس کا قول سننے پر محمول کرلیا جائے گا ابن ہمام فرماتے ہیں کہ یہ ترجیح کا عام قاعدہ ہے وا اللہ اعلم اور یہاں اور بمعنی چند اختلاف ہیں ایک یہ کہ جب کسی نے بلا اللہ کی قسم کھائے ایلاء کیا تو وہ مولیٰ ( ایلاء کرنے والا) شمار ہوگیا یا نہیں جیسے کہ طلاق۔ عتاق۔ صدقہ اور عبادتوں کو واجب کرلے ( مثلاً کہے کہ اگر میں ایساکروں تو غلام آزاد یا میرے ذمہ حج واجب) اس بارے میں امام ابوحنیفہ کا قول یہ ہے کہ وہ شخص مولیٰ شمار ہوگا خواہ اس نے عورت کو فقط تکلیف میں رکھنے ہی کا ارادہ کیا ہو یا اس کی کوئی بہتری سمجھی ہو مثلاً وہ بیمار ہو یا اپنی بہتری سمجھی ہو کہ مثلاً خود بیمار ہو اور امام مالک کا قول یہ ہے کہ وہ مولی نہیں شمار ہوگا ہاں اسی صورت میں کہ غصہ میں یا عورت کو تکلیف دینے کے ارادے سے قسم کھالے اور امام احمد کا قول یہ ہے کہ فقط عورت کو تکلیف دینے کی صورت میں مولیٰ ہوگا اور امام شافعی (رح) سے دونوں (طرح کے) قول مروی ہیں لیکن ان میں سے صحیح امام ابوحنیفہ (رح) ہی کے قول کے مطابق ہے، دوسرا اختلاف یہ ہے کہ جس شخص نے اپنی بیوی کو تکلیف دینے کے لیے بلا قسم کھائے چار مہینے سے زیادہ تک وطی نہ کی تو وہ مولیٰ شمار ہوگا یا نہیں امام مالک اور امام احمد سے ایک روایت میں یہ ہے کہ ہاں ( مولیٰ ہوجائے گا) اور جمہور کا قول یہ ہے کہ نہیں، تیسرا اختلاف یہ ہے کہ غلام کے ایلاء کی مدت بھی عموم آیت کی وجہ سے امام شافعی اور امام احمد کے نزدیک چار ہی مہینے ہیں وہ کہتے ہیں کہ یہ آیت ایسے امر کے لیے بیان کی گئی ہے جس کا میلان طبیعت کی طرف ہے اور وہ یہ کہ اتنی مدت تک عورت کو بلا خاوند کے صبر کم ہوتا ہے پس اس میں غلام اور آزاد برابر ہیں جیسے کہ عنین کی مدت میں امام ابوحنیفہ (رح) اور امام مالک (رح) کے نزدیک غلام ہونے کی وجہ سے مدت نصف ہوجائے گی ہاں امام ابوحنیفہ (رح) کے نزدیک عورت کی رقیت ( یعنی باندی ہونے) کا اعتبار ہوگا اور امام مالک (رح) کے نزدیک خاوند کے غلام ہونے کا یہ اختلاف ان دونوں کے طلاق ہونے پر مبنی ہے چوتھا اختلاف یہ ہے کہ جب کوئی وطی کرنے سے معذور ہوجائے تو وہ رجوع کس طرح کرے ؟ امام ابوحنیفہ کا قول یہ ہے کہ اتنا کہہ دے کہ میں نے رجوع کرلیا ( اس سے رجوع ہوجائے گا) پھر اگر وہ اس مدت کے گذرنے سے پہلے وطی پر قادر ہوجائے گا تو وطی کرنی اس پر واجب ہوجائے گی پھر اگر وہ اس مدت کے گذرنے سے پہلے وطی پر قادر ہوجائیگا تو وطی کرنی اس پر واجب ہوگی اور امام شافعی کے نزدیک بلا وطی کے رجوع نہیں ہوسکتا کیونکہ قسم کی خلاف ورزی بھی اس کے بغیر نہیں ہوتی۔
Top