Tafseer-e-Mazhari - Al-Baqara : 229
اَلطَّلَاقُ مَرَّتٰنِ١۪ فَاِمْسَاكٌۢ بِمَعْرُوْفٍ اَوْ تَسْرِیْحٌۢ بِاِحْسَانٍ١ؕ وَ لَا یَحِلُّ لَكُمْ اَنْ تَاْخُذُوْا مِمَّاۤ اٰتَیْتُمُوْهُنَّ شَیْئًا اِلَّاۤ اَنْ یَّخَافَاۤ اَلَّا یُقِیْمَا حُدُوْدَ اللّٰهِ١ؕ فَاِنْ خِفْتُمْ اَلَّا یُقِیْمَا حُدُوْدَ اللّٰهِ١ۙ فَلَا جُنَاحَ عَلَیْهِمَا فِیْمَا افْتَدَتْ بِهٖ١ؕ تِلْكَ حُدُوْدُ اللّٰهِ فَلَا تَعْتَدُوْهَا١ۚ وَ مَنْ یَّتَعَدَّ حُدُوْدَ اللّٰهِ فَاُولٰٓئِكَ هُمُ الظّٰلِمُوْنَ
اَلطَّلَاقُ : طلاق مَرَّتٰنِ : دو بار فَاِمْسَاكٌ : پھر روک لینا بِمَعْرُوْفٍ : دستور کے مطابق اَوْ : یا تَسْرِيْحٌ : رخصت کرنا بِاِحْسَانٍ : حسنِ سلوک سے وَلَا : اور نہیں يَحِلُّ : جائز لَكُمْ : تمہارے لیے اَنْ : کہ تَاْخُذُوْا : تم لے لو مِمَّآ : اس سے جو اٰتَيْتُمُوْھُنَّ : تم نے دیا ان کو شَيْئًا : کچھ اِلَّآ : سوائے اَنْ : کہ يَّخَافَآ : دونوں اندیشہ کریں اَلَّا : کہ نہ يُقِيْمَا : وہ قائم رکھ سکیں گے حُدُوْدَ اللّٰهِ : اللہ کی حدود فَاِنْ : پھر اگر خِفْتُمْ : تم ڈرو اَلَّا يُقِيْمَا : کہ وہ قائم نہ رکھ سکیں گے حُدُوْدَ اللّٰهِ : اللہ کی حدود فَلَاجُنَاحَ : تو گناہ نہیں عَلَيْھِمَا : ان دونوں پر فِيْمَا : اس میں جو افْتَدَتْ : عورت بدلہ دے بِهٖ : اس کا تِلْكَ : یہ حُدُوْدُ اللّٰهِ : اللہ کی حدود فَلَا : پس نہ تَعْتَدُوْھَا : آگے بڑھو اس سے وَمَنْ : اور جو يَّتَعَدَّ : آگے بڑھتا ہے حُدُوْدَ اللّٰهِ : اللہ کی حدود فَاُولٰٓئِكَ : پس وہی لوگ ھُمُ : وہ الظّٰلِمُوْنَ : ظالم (جمع)
طلاق (صرف) دوبار ہے (یعنی جب دو دفعہ طلاق دے دی جائے تو) پھر (عورتوں کو) یا تو بطریق شائستہ (نکاح میں) رہنے دینا یا بھلائی کے ساتھ چھوڑ دینا۔ اور یہ جائز نہیں کہ جو مہر تم ان کو دے چکے ہو اس میں سے کچھ واپس لے لو۔ ہاں اگر زن و شوہر کو خوف ہو کہ وہ خدا کی حدوں کو قائم نہیں رکھ سکیں گے تو اگر عورت (خاوند کے ہاتھ سے) رہائی پانے کے بدلے میں کچھ دے ڈالے تو دونوں پر کچھ گناہ نہیں۔ یہ خدا کی (مقرر کی ہوئی) حدیں ہیں ان سے باہر نہ نکلنا۔ اور جو لوگ خدا کی حدوں سے باہر نکل جائیں گے وہ گنہگار ہوں گے
اَلطَّلَاقُ مَرَّتٰنِ ۠ ( طلاق دو بار تک) ہے یعنی جس کے بعد رجعت ہوسکتی ہے کیونکہ تیسری کا ذکر اور دو کے بعد رکھنے کا حکم عنقریب آتا ہے۔ مروی ہے کہ نبی ﷺ سے کسی نے پوچھا کہ ( یہ تو دو ہی طلاقیں ہوئیں) تیسری کہاں ہے ؟ فرمایا اور تسریح باحسان (سے تیسری مراد ہے) یہ روایت ابو داؤد نے اپنی ناسخ میں اور سعید بن منصور نے اپنی سنن میں اور ابن مردویہ نے ابن رزین اسدی کی سند سے نقل کی ہے اور دارقطنی اور ابن مردویہ نے حضرت انس کی سند سے بھی نقل کی ہے بغوی کہتے ہیں کہ عروہ بن زبیر کہتے تھے کہ شروع اسلام میں لوگوں کی یہ حالت تھی کہ بےحد و حساب طلاقیں دیدیتے تھے کوئی یہ کرتا تھا کہ بیوی کو طلاق دیدی اور جب اس کی عدت ختم ہونے پر آئی تو اس سے رجعت کرلی پھر اسی طرح طلاق دے دی اسے ستانے کے رادہ سے پھر رجعت کرلی اس پر یہ حکم نازل ہوا : الطلاق مرتان اور جب کسی نے تیسری طلاق بھی دے دی تو اب کسی اور سے نکاح کیے بغیر یہ عورت اس کے لیے حلال نہیں ہوتی تھی اور اللہ تعالیٰ کے مرتان فرمانے اوثنتان نہ فرمانے میں اس امر کی دلیل ہے کہ ایک ہی دفعہ دو طلاقیں دے دینی مکروہ ہیں کیونکہ مرتان کا لفظ عبارۃ تو تفرق پر دلالت کرتا ہے اور اشارۃً عدد پر اور (الطلاق میں) لام جنس کے لیے ہے اور جنس کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے پس قیاس تو یہ چاہتا تھا کہ اکٹھی دو طلاقیں معتبر نہ ہوں اور جب دو طلاقیں معتبر نہ ہوئیں تو تین طلاقیں اکٹھی دیدینی تو بدرجہ اولیٰ معتبر نہ ہوں گی کیونکہ تین میں دو کے علاوہ اور زیادتی ہے۔ بعض کا قول یہ ہے کہ طلاق سے مراد تطلیق ہے اور معنی ( آیت کے) یہ ہیں کہ شرعی طلاق دینا یہ ہے کہ اطہار میں متفرق طور پر یکے بعد دیگرے طلاق دے نہ کہ اکٹھی اور اس وقت مرتین سے تثنیہ مراد نہ ہوگا بلکہ تکریر مقصور ہوگی جیسا کہ اللہ تعالیٰ کے اس قول میں ہے : ثم ارجع البصر کر تین یعنی کرۃً بعد کرۃٍ لیکن اس وقت اللہ تعالیٰ کے قول : فامساک بمعروف کا عطف ہونا مشکل ہوجائے گا اور اسی طرح : فان طلقھا فلا تحل لہٗ من بعد کا عطف بھی دشوار ہوگا کیونکہ اس تاویل پر الطلاق تینوں طلاقوں کو بھی شامل ہوسکتا ہے ان دونوں تاویلوں سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ دو طلاقیں یا تین طلاقیں ایک لفظ سے ہونی یا مختلف الفاظ سے ایک طہر میں اکٹھی دیدینی حرام۔ بدعت۔ باعث گناہ ہیں امام شافعی (رح) اس کے مخالف ہیں۔ انکا قول یہ ہے کہ اس میں کچھ ہرج نہیں ہے لیکن اس پر سب کا اتفاق ہے کہ جس نے اپنی بیوی سے یہ کہا کہ تجھے تین طلاقیں ہیں تو بالاجماع تینوں طلاقیں پڑجائیں گی۔ امامیہ کا قول ہے کہ اگر کسی نے ایک ہی دفعہ تین طلاقیں دیدیں تو اس آیت کی وجہ سے ایک بھی طلاق نہ پڑے گی اور بعض حنبلیوں کا قول یہ ہے کہ ایک ہی طلاق پڑے گی کیونکہ صحیحین میں مروی ہے کہ ابوالصہبا نے حضرت ابن عباس ؓ سے کہا کیا آپ کو یاد نہیں کہ رسول اللہ کے زمانہ میں حضرت ابوبکر ؓ کے زمانہ میں اور حضرت عمر ؓ کی خلافت میں بھی دو سال تک تین طلاقیں ایک شمار کی جاتی تھیں ابن عباس ؓ نے فرمایا کہ بیشک لوگوں نے ایسے امر میں جلدی کی جس میں انہیں تاخیر کرنی چاہئے تھی پس اگر اب اسے ان پر جاری کریں تو کرسکتے ہیں۔ ابن اسحاق نے عکرمہ سے انہوں نے ابن عباس ؓ سے روایت کی ہے وہ فرماتے تھے کہ رکا نہ بن عبد نے اپنی بیوی کو ایک ہی جگہ بیٹھے تین طلاقیں دیدی تھیں پھر انہیں اس پر بہت رنج ہوا بعد میں انحضرت ﷺ نے ان سے پوچھا کہ کس طرح طلاق دی ہے عرض کیا کہ ( حضور : ﷺ میں نے تو ایک ہی مجلس میں تین طلاقیں دیدی ہیں فرمایا یہ تو ایک ہی طلاق ہے۔ لہٰذا تم اس سے رجعت کرلو طاؤس اور عکرمہ سے منقول ہے وہ کہتے تھے جس نے تین طلاقیں دیں اس نے سنت کے خلاف کیا اس لیے وہ سنت کی طرف لوٹایا جائے گا۔ یہی قول ابن اسحاق کا ہے اور بعض علماء کا قول یہ ہے کہ : انت خالق ثلٰثا کہنے سے مدخول بہا کو تین طلاقیں ہوجائیں گی اور غیرمدخول بہا کو ایک طلاق ہوگی کیونکہ مسلم ابو داؤد نسائی نے روایت کی ہے کہ ابو الصہبان ابن عباس سے بہت پوچھنے والے آدمی تھے (ایک روز ابن عباس ؓ سے) انہوں نے کہا کیا آپ کو یاد نہیں کہ جب کوئی اپنی بیوی کو اکٹھی تین طلاقیں دیدیتا تھا تو صحابہ اس کو ایک شمار کیا کرتے تھے۔ ابن عباس ؓ نے فرمایا کہ یہ بات نہ تھی بلکہ جب کوئی اپنی بیوی کو دخول کرنے سے پہلے تین طلاقیں دے دیتا تھا تو اس کو آنحضرت ﷺ اور ابوبکر ؓ کے زمانہ میں اور حضرت عمر کی شروع خلافت میں صحابہ ایک ٹھہراتے تھے لیکن جب علماء نے یہ دیکھا کہ اکثر لوگ ایسا ہی کرنے لگے ہیں تو انہوں نے کہا کہ ان کے خلاف عورتوں کی تائید کرنی چاہئے۔ امام شافعی (رح) کا قول ہے کہ ایک کلمہ سے چند طلاقیں دینی جائز ہیں اور وہ بلا گناہ ہوئے پڑجاتی ہیں اس کی دلیل وہ روایت ہے جو سہل بن اسعد کی سند سے صحیحین میں مروی ہے کہ عویمر عجلی نے اپنی بیوی پر لعان کیا جب ( میاں بیوی) دونوں لعان کرچکے تو عویمر نے ( حضور کی خدمت میں) عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! اگر اب میں اس عورت کو رکھوں گا تو اس کی وجہ سے جھوٹا کہلاؤں گا لہٰذا میں نے اسے تین طلاقیں دیدیں اور ایک روایت میں یہ ہے کہ اسے تین طلاق ہیں اس پر نبی ﷺ نے بھی انہیں منع نہ کیا اور فاطمہ بنت قیس کی بعض روایتوں میں یہ ہے کہ میرے میاں نے مجھے تین طلاقیں دیدی تھیں پھر آنحضرت ﷺ نے نہ مجھے نان نفقہ دلوایا اور نہ ( رہنے کو) کوئی گھر دلوایا اور عبد الرحمن بن عوف نے اپنی بیماری میں تماظر کو طلاق دیدی تھی اور حسن بن علی نے اپنی بیوی شہباء کو تین طلاقیں دیدی تھیں جس وقت اس نے حضرت علی ؓ کے وصال کے بعد آپ کو خلافت کی مبارک باد دی۔ پس یہاں دو مقام ہیں ایک یہ کہ تین طلاقیں دینے کی صورت میں تین ہی طلاقیں پڑجاتی ہیں۔ دوسرا یہ کہ اس کے باعث آدمی گنہگار ہوتا ہے۔ ہماری دلیل حدیث اور اجماع دونوں ہیں حدیث تو وہی ابن عمر کہ کی انہوں نے اپنی بیوی کو حیض میں طلاق دیدی تھی پھر یہ چاہا کہ اور دو طلاقیں دو حیض کے وقت دیدیں۔ یہ خبر رسول اللہ کو بھی ہوگئی۔ حضور نے فرمایا اے ابن عمر کیا ہے کیا اللہ تعالیٰ نے تمہیں اسی طرح کرنے کا حکم دیا ہے بیشک تم نے سنت ( طریقہ) کو چھوڑ دیا۔ سنت ( طریقہ) یہ ہے کہ اوّل طہر ہونے دو پھر ہر حیض کے لیے طلاق دو ۔ ابن عمر کہتے ہیں میں نے حضور ﷺ کے حکم کے اس سے رجعت کرلی۔ پھر حضور ﷺ نے فرمایا کہ جب وہ پاک ہوجائے اس وقت یا تو طلاق دیدینا اور یا رکھ لینا میں نے عرض کیا یارسول اللہ ﷺ ! اگر میں اسے تین طلاقیں دیدوں تو پھر میرے لیے اس سے رجعت کرنی جائز ہے یا نہیں فرمایا نہیں وہ تم سے بائنہ ہوجائے گی اور یہ گناہ ہوگا۔ یہ روایت دارقطنی نے اور ابن ابی شیبہ نے اپنے مصنف میں حسن سے نقل کی ہے حسن کہتے ہیں ہم سے ابن عمر نے بیان کیا بیہقی نے اس روایت کو عطا خراسانی کی وجہ سے ضعیف کہا ہے وہ کہتے ہیں کہ عطا نے چند زیادتیاں بیان میں کی ہیں کہ کسی نے اس میں ان کی موافقت نہیں کی اور یہ خود ضعیف ہیں۔ جس روایت کو یہ اکیلے بیان کریں وہ مقبول نہیں ہوتی ابن ہمام کہتے ہیں کہ بیہقی کا اسے ضعیف کہنا مردود ہے کیونکہ عطاء کی موافقت سند اور تین دونوں شعیب بن رزیق نے کی ہے جسے طبرانی نے نقل کیا ہے اور جو ابن عباس ؓ کی حدیث ذکر کی جاتی ہے اس میں اس امر کی دلیل ہے کہ وہ حدیث منسوخ ہے کیونکہ بہت سے صحابہ کے سامنے حضرت عمر کا تین طلاقوں کو جاری کرنا اور اس پر عمل درآمد ہونا ان کے نزدیک ناسخ کے ثابت ہونے پر دلالت کرتا ہے اگرچہ حضرت عمر ؓ سے پہلے حضرت ابوبکر ؓ کی خلافت میں یہ مسئلہ مگھنم میں رہا۔ اور ابن عباس ؓ نے جو روایت کی ہے اس کے خلاف ان کا فتویٰ صحیح طور پر ثابت ہے ابو داؤد نے مجاہد سے نقل کیا ہے۔ مجاہد کہتے ہیں میں ابن عباس کے پاس موجود تھا کہ ان کے پاس ایک آدمی آیا ور اس نے یہ کہا کہ میں نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دیدی ہیں ( یہ سن کر) آپ خاموش ہوگئے یہاں تک کہ مجھے یہ خیال ہوا کہ اپ ان طلاقوں کو لوٹا دیں گے اتنے میں آپ نے فرمایا کہ تم لوگ طلاقیں دے کر حماقت پر سوار ہوجاتے ہو پھر کہتے ہو اے ابن عباس ( یہ ہوگیا اور وہ ہوگیا تم اللہ تعالیٰ سے نہیں ڈرتے) حالانکہ اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا ہے : و من یتق اللہ یجعل لہ مخرجًا (جو اللہ تعالیٰ سے ڈرے اللہ تعالیٰ اس کی خلاصی کی صورت کردیتا ہے) تو نے اپنے پروردگار کی نافرمانی کی اور عورت تجھ سے بائنہ ہوگئی۔ طحاوی نے ان لفظوں سے نقل کی ہے کہ ایک آدمی نے اپنی بیوی کو سو طلاقیں دیدی تھیں ( اس سے) ابن عباس نے فرمایا کہ تو نے اپنے پروردگار کی نافرمانی کی اور تیری بیوی تجھ سے بائنہ ہوگئی تو اللہ سے نہیں ڈرا کہ وہ تیری خلاصی کی صورت کردیتا۔ موطا امام مالک میں ہے کہ ایک آدمی نے ابن عباس ؓ سے کہا کہ میں نے اپنی بیوی کو سو طلاقیں دیدی ہیں آپ کی کیا رائے ہے ابن عباس ؓ نے فرمایا کہ تیری طرف سے تین طلاقیں تو اسے ہوگئیں اور باقی ستانوے کے ساتھ تو نے اللہ کی آیتوں کو کھیل بنایا اور تین طلاقیں پڑجانے پر اجماع منعقد ہوچکا ہے اور بڑے بڑے فقہاء صحابہ سے مروی ہے موطا امام مالک میں ہے کہ ایک آدمی ابن مسعود کے پاس آیا اور یہ کہا کہ میں نے اپنی بیوی کو آٹھ طلاقیں دیدی ہیں آپ نے پوچھا کہ تجھے علماء نے کیا جواب دیا کہا یہ جواب ملا ہے کہ وہ مجھ سے بائنہ ہوگئی آپ نے فرمایا انہوں نے سچ کہا۔ حکم یہی ہے جو انہوں نے کہا ہے اس سے بھی اس جواب پر اجماع ظاہر ہوتا ہے عبد الرزاق نے علقمہ سے روایت کی ہے وہ کہتے ہیں کہ ایک آدمی ابن مسعود ؓ کے پاس آیا اور یہ بیان کیا کہ میں نے اپنی بیوی کو ننانوے طلاقیں دی ہیں ابن مسعود نے اس سے فرمایا کہ اسے تو تین ہی طلاقوں نے بائنہ کردیا ہے اور باقی سب ( تمہاری) سرکشی میں داخل ہیں۔ سنن ابی داؤد اور موطا امام مالک میں محمد بن ایاس بن بکیر سے مروی ہے کہ ایک آدمی نے اپنی بیوی کو دخول سے پہلے تین طلاقیں دی تھیں۔ پھر اسے یہ خیال آیا کہ اس سے نکاح کرلوں اس خیال سے وہ فتویٰ پوچھنے جانے لگا تو میں بھی اس کے ساتھ ہولیا اس نے اس کی بابت اوّل ابن عباس ؓ اور ابوہریرہ ؓ سے دریافت کیا دونوں نے جواب دیا کہ جب تک وہ عورت اور کسی سے نکاح نہ کرلے تمہارے ساتھ اس کا نکاح جائز نہیں ہے وہ بولا کہ میں نے تو ایک ہی مرتبہ ( تین) طلاقیں دیدی تھیں اس پر ابن عباس نے فرمایا کہ بس جو کچھ تمہارے پاس بچا کھچا تھا تم نے سب ہی اپنے آگے کرلیا۔ مؤطا امام مالک میں ابن عمر سے بھی اسی طرح مروی ہے۔ وکیع نے اعمش سے انہوں نے حبیب بن ثابت سے روایت کیا ہے وہ کہتے ہیں کہ ایک آدمی حضرت علی ابن ابی طالب کے پاس آیا اور بیان کیا کہ میں نے اپنی بیوی کو ایک ہزار طلاقیں دیدی ہیں آپ نے فرمایا کہ وہ تو تجھ سے تین ہی طلاقوں سے بائنہ ( یعنی علیحدہ) ہوگئی تھی اور باقی طلاقوں کو تو اپنی اور بیبیوں پر تقسیم کردے۔ وکیع نے معاویہ بن ابی یحییٰ سے روایت کی ہے وہ کہتے ہیں ایک آدمی حضرت عثمان بن عفان ؓ کے پاس آیا اور کہا کہ میں نے اپنی بیوی کو ایک ہزار طلاقیں دیدی ہیں ( اب میرے لیے کیا حکم ہے) فرمایا وہ تو تین ہی طلاقوں سے تجھ سے بائنہ ہوچکی۔ عبد الرزاق نے عبادہ بن صامت سے سند کے ساتھ روایت کی ہے کہ انکے باپ نے اپنی ایک بیوی کو ایک ہزار طلاقیں دیدیں پھر عبادہ آنحضرت ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ ﷺ سے یہ مسئلہ پوچھا۔ حضور ﷺ نے فرمایا کہ باوجود خدا کی نافرمانی ہونے کے تین طلاقوں سے وہ عورت بائنہ ہوگئی اور باقی ستانوے طلاقیں سرکشی اور ظلم ٹھہریں۔ اگر اللہ چاہے گا عذاب کرے گا اور چاہے گا بخش دے گا۔ طحاوی نے حضرت انس ؓ سے ( اسی مسئلہ کی بابت) روایت کی ہے کہ وہ عورت بغیر دوسرے سے نکاح کیے اس کے واسطے حلال نہیں ہے، حضرت عمر ؓ کی خدمت میں جب کوئی ایسا آدمی آتا تھا جس نے اپنی بیوی کو ( یکبارگی) تین طلاقیں دی ہوتیں تو اس کی پشت پر آپ درّے لگوایا کرتے تھے حضرت انس نے حضرت عمر ؓ سے یہ بھی روایت کی ہے کہ آپ ﷺ نے اس شخص کی بابت فرمایا جس نے کنواری لڑکی سے نکاح کرکے اسے تین طلاقیں دیدی تھیں کہ بغیر دوسرے سے نکاح ہوئے یہ لڑکی اس کے لیے حلال نہیں ہے۔ مخالف نے جو حضرت ابن عباس کی حدیث ذکر کی ہے اس میں اس طرح تاویل ہوسکتی ہے کہ شروع اسلام میں تین مرتبہ اس طرح کہنے سے کہ تجھے طلاق ہے۔ تجھے طلاق ہے تجھے طلاق ہے ایک ہی طلاق ہوتی تھی کیونکہ اس زمانہ میں اس طرح کہنے سے ان لوگوں کا مقصود محض تاکید کرنی ہوتی تھی پھر جب وہ چند طلاقوں ہی کے قصد سے اس طرح کہنے لگے تو ان کا قصد معلوم ہونے پر ( شارع نے) ان کے ذمہ تین ہی طلاین لازم کردیں یا احتیاط کی غرض سے ایسا کیا گیا ہو۔ باقی رکانہ کی حدیث منکر ہے اور صحیح اس طرح ہے جو ابو داؤد ترمذی، ابن ماجہ نے روایت کی ہے کہ رکانہ نے اپنی بیوی کو بائنہ طلاق دیدی تھی لیکن حضور ﷺ نے یہ فرمایا کہ اس نے ایک ہی طلاق کا ارادہ کیا ہے اس لیے آپ نے اس سے رجعت کردی پھر رکانہ نے حضرت عمر ؓ کے زمانہ میں اسے دوسری طلاق دی اور حضرت عثمان ؓ کے زمانہ میں تیسری دی۔ ابو داؤد فرماتے ہیں کہ یہی روایت زیادہ صحیح ہے اور جس قدر حدیثیں اور آثار ہم نے ذکر کیے ہیں ان سے جیسا تین طلاقوں کا یکبارگی پڑجانا ثابت ہوتا ہے اسی طرح یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ یہ فعل بدعت اور گناہ ہے اور امام شافعی (رح) نے جو عویمر کے بارے میں یہ ذکر کیا ہے کہ انہوں نے لعان کرنے کے بعد تین طلاقیں دی تھیں تو یہ امام شافعی (رح) ہی پر حجت ہے اس طرح کہ آنحضرت ﷺ نے عویمر کو منع نہیں فرمایا پس یہ منع نہ فرمانے پر شہادت ہے لیکن دوسرے قصہ میں حضور کا منعفرمانا ثابت ہوجانے کے بعد اس کا کچھ اعتبار نہیں ہے اور شاید حضرت نے منع فرمایا ہو لیکن راوی نے اسے چھوڑ دیا یا آپ نے منع ہی نہ فرمایا ہو اس وجہ سے کہ لعان کے بعد عورت محل طلاق نہیں رہتی اور فاطمہ بنت قیس کی وہ روایت صحیح نہیں ہے جس میں تین طلاقوں کا ذکر ہے صحیح یہ ہے کہ ان کے شوہر نے انہیں بائنہ طلاق دے دی تھی اس کے علاوہ ان کا شوہر طلاق دینے کے وقت کسی لشکر میں تھا اپنی بیوی فاطمہ کے پاس موجود نہ تھا کہ اس کے کہنے کو سب سن لیتے۔ ہاں تین طلاقوں کا دینا ان کی طرف سے ( اوروں کی زبانی) ثابت ہوا اور نیز فاطمہ بنت قیس کی روایت کو حضرت عمر ؓ نے تسلیم نہیں کیا اور یہ فرمایا ہم نہیں جانتے کہ یہ سچ کہتی ہے یا جھوٹ بولتی ہے اور اسے یاد بھی ہے یا کہ بھول گئی اور عبد الرحمن بن عوف اور حسن کا اثر مرفوع حدیث کے مقابلہ میں حجت نہیں بن سکتا۔ مسئلہ یکبارگی تین طلاقیں دینی بدعت اور حرام ہے اور ہر طہر میں ایک ایک طلاق دینا۔ فان طلقھا [ الایۃ ] کی وجہ سے جائز اور مباح ہے اور ان سب سے بہتر طریقہ یہ ہے کہ جب آدمی اپنی بیوی کو طلاق دینے پر مجبور ہی ہوجائے تو ایک طلاق دے دے پھر اگر رجعت کرنے کا ارادہ نہ ہو تو اسے ویسے ہی رہنے دے یہاں تک کہ اس کی عدت پوری ہوجائے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک مباح چیزوں میں طلاق دینی سب سے زیادہ بری ہے اور ضرروت ایک ہی کے دینے سے پوری ہوجاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے جادو کی برائی میں فرمایا ہے : فیتعلمون منھما ما یفرقون بہ بین المرو زوجۃ ( یعنی لوگ ان دونوں ( ہاروت ماروت) سے ایسا جادو سیکھتے تھے جس سے میاں بیوی میں جدائی کرادیں) اس سے معلوم ہوا کہ میاں بیوی میں جدائی کرادینا بہت بری بات ہے۔ حضرت جابر ؓ کہتے ہیں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ ابلیس اپنا تخت پانی پر بچھا کر بیٹھ جاتا ہے اور اپنے گرگوں کو لوگوں میں فساد پھیلانے کے لیے بھیج دیتا ہے اور ان سب میں اس کا بڑا مقرب وہ ہوتا ہے جس نے فساد زیادہ پھیلا دیا ہو ایک آکر کہتا ہے کہ میں نے ایسا ایسا کیا ہے ابلیس کہتا ہے تو نے کچھ نہیں کیا دوسرا آکر کہتا ہے کہ میں ایک شخص کے ایسا پیچھے پڑا کہ اس کے اور اس کی بیوی کے درمیان میں جدائی کرا کے چھوڑی پس اس سے ابلیس کہتا ہے کہ ہاں بس کام تو تو نے کیا ہے۔ اعمش کہتے ہیں میرا خیال ہے کہ حضرت جابر ؓ نے یہ بھی فرمایا کہ ابلیس اس کو اپنے سینے سے لگالیتا ہے یہ حدیث مسلم نے نقل کی ہے ابن عمر نبی ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا حلال چیزوں میں اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ بری طلاق ہے یہ حدیث ابو داؤد نے نقل کی ہے۔ مسئلہ حیض کی حالت میں طلاق دینے سے بالاتفاق طلاق پڑجاتی ہے امامیہ اس کے مخالف ہیں وہ کہتے ہیں کہ بالکل طلاق نہیں پڑتی اور ہمارے نزدیک طلاق پڑجاتی ہے ہاں ( ایسا کرنا) حرام ہے اس کے بعد رجعت کرلینی واجب ہے اور ابن عمر ؓ کی حدیث جو پہلے گذر چکی ہے وہ طلاق پڑجانے اور حرام ہونے اور رجعت واجب ہونے تینوں پر دلالت کرتی ہے اس میں (ائمہ کا) اختلاف ہے کہ اگر کوئی شخص رجعت کرنے کے بعد سنت کے موافق طلاق دینی چاہئے تو کب دے ؟ امام ابوحنیفہ کا قول یہ ہے کہ جب وہ اس حیض سے پاک ہوجائے جس میں طلاق دی ہو اور پھر حیض آکر اس سے بھی پاک ہوجائے تو اس وقت اسے ( دوسری) طلاق دے۔ امام محمد بن مبسوط میں اسی طرح ذکر کیا ہے اور امام ابوحنیفہ کا اور صاحبین کا خلاف انہوں نے ذکر نہیں کیا۔ یہی قول امام مالک اور امام احمد کا ہے یہی مذہب امام شافعی کا مشہور ہے اور یہی ابن عمر کی اس حدیث سے نکلتا ہے جو صحیحین میں مذکور ہے کیونکہ حضرت ﷺ نے ( حضرت عمر ؓ سے) فرمایا کہ ابن عمر سے کہو کہ اس سے رجعت کرلے اور اپنے پاس رکھے یہاں تک کہ وہ پاک ہوجائے اور پھر ددوسرا حیض آکر اس سے بھی پاک ہوجائے پھر اگر اسے طلاق دینی ہی ہو تو اس طہر میں ہاتھ لگانے سے پہلے اسے طلاق دیدے۔ پس یہی عدت ( کا وقت) ہے جس کا اللہ عزوجل نے حکم دیا ہے اور ایک روایت میں یوں ہے یہاں تک کہ اس حیض کے سوا جس میں طلاق دی ہے اسے ایک اور حیض آلے ( تب طلاق دے) اور طحاوی نے امام ابوحنیفہ (رح) کا قول ذکر کیا ہے کہ اس طہر میں طلاق دے جو اس حیض کے بعد ہو جس میں پہلے طلاق دی تھی یہی قول امام شافعی کا بھی ہے۔ طحاوی کہتے ہیں کہ پہلا قول امام ابو یوسف کا ہے اور دوسرے قول کی دلیل ابن عمر کی گذشتہ حدیث میں سالم کی روایت ہے کہ ابن عمر سے کہو کہ اس سے ( اب تو) رجعت کرلے اس کے بعدطہر یا حمل کی حالت میں طلاق دیدے۔ یہ روایت مسلم اور اصحاب سنن نے نقل کی ہے لیکن بہتر پہلا ہی قول ہے کیونکہ وہ صحیح بھی اس سے زیادہ ہے اور تشریح بھی اس میں بہت ہے اس کے علاوہ اس میں زیادتی ( بیان) ہے اور زیادتی کو اختیار کرنا بہتر ہوتا ہے۔ ابن ہمام کہتے ہیں آنحضرت ﷺ کا ( ابن عمر کے حق میں) یہ فرمانا کہ اسے اپنے پاس رکھے یہاں تک کہ وہ پاک ہوجائے اس پر دلالت کرتا ہے کہ رجعت کا مستحب یا واجب ہونا اسی حیض کے ساتھ خاص ہے۔ جس میں طلاق دی ہے اگر اس میں رجعت نہ کی یہاں تک کہ وہ پاک ہوگئی تو پھر یہ گناہ ( اس کے ذمہ) ثابت ہوجاتا ہے۔ فَاِمْسَاكٌۢ بِمَعْرُوْفٍ ( پھر خوش خوئی (بھلائی ‘ 12) کے ساتھ رکھے) یعنی رجعت کرکے سلوک کے ساتھ رہے اور یہ یعنی دو طلاقوں کے بعد رکھنا بالاتفاق ثابت ہے جس وقت میاں بیوی دونوں آزاد ہوں اور اگر دونوں غلام لونڈی 1 ؂ ہوں تو پھر دو طلاقوں کے بعد بالاتفاق رجعت نہیں ہوسکتی اور اگر لونڈی آذاد مرد کے نکاح میں ہو یا آزاد عورت غلام کے نکاح میں ہو تو اس میں ائمہ کا اختلاف ہے۔ امام مالک ‘ امام شافعی ‘ امام احمد تینوں کا قول یہ ہے کہ اگر خاوند آزاد ہے تو اس کی تین طلاقیں ہیں۔ اگرچہ اس کے نکاح میں لونڈی ہو اور اگر غلام ہے تو دو طلاقیں ہیں اگرچہ اس کی بیوی آزاد ہو یہی قول حضرت عمر (رح) ، حضرت عثمان ؓ ، زید بن ثابت کا ہے۔ امام ابوحنیفہ (رح) اس کے برعکس فرماتے ہیں یعنی وہ طلاق کا اعتبار عورتوں پر کرتے ہیں یہی قول حضرت علی ؓ اور ابن مسعود کا ہے۔ ابن جوزی فرماتے ہیں کہ دونوں فریق ( کے قول) کی تائید میں بہت سی حدیثیں مروی ہیں لیکن سب ضعیف ہیں۔ ابن جوزی نے حضرت عائشہ صدیقہ سے روایت کی ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ غلام کی دو طلاقیں ہیں اور باندی کی عدت دو حیض ہیں۔ ابو داؤد ‘ ترمذی ‘ ابن ماجہ ‘ دارمی ‘ دارقطنی نے حضرت عائشہ ؓ سے روایت کی ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ باندی کے لیے دو طلاقیں ہیں اور اس کی عدت دو حیض ہیں۔ ابن جوزی کہتے ہیں کہ ان دونوں حدیثوں کی سند میں مظاہر بن اسلم ( راوی) ہے جس کی بابت یحییٰ بن سعید فرماتے ہیں کہ مظاہر کا کچھ اعتبار نہیں ہے۔ ابو حاتم کہتے ہیں کہ مظاہر منکر الحدیث ہے۔ ابن ہمام فرماتے ہیں کہ ابن حبان نے مظاہر کو معتبر کہا ہے اور حاکم کہتے ہیں کہ مظاہر اہل بصرہ کے استاد ہیں۔ ہمارے مشائخ متقدمین میں سے کسی نے ان کی نسبت جرح نہیں کی۔ ابن جوزی کہتے ہیں جن لوگوں نے طلاق میں مردوں کا اعتبار کیا ہے انہوں نے حضرت ابن عباس ؓ کی روایت سے بیان کیا کہ رسول اللہ نے فرمایا طلاق مردوں کے اعتبار سے ہوتی ہے اور عدت عورتوں کے اعتبار سے مگر واقع میں یہ کلام ابن عباس ؓ کا ہے۔ ابن جو زی نے دارقطنی کے طریق سے ابن عمر سے روایت کی ہے وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ باندی کے لیے دو طلاقیں ہیں اور اس کی عدت دو حیض ہیں۔ ابن جوزی کہتے ہیں یہ دونوں حدیثیں بھی ثابت نہیں ہیں پہلی تو اس لیے کہ اس ( کی سند) میں سلیم بن سالم ( راوی) ہے ابن مبارک اسے جھوٹا فرمایا کرتے تھے اور یحییٰ بن سعید کہتے ہیں کہ اس کی حدیث کا کچھ اعتبار نہیں ہے۔ سعدی (رح) کہتے ہیں کہ سلیم ثقہ نہیں ہے اور دوسری حدیث اس لیے ثابت نہیں کہ اس کو مرفوع روایت کرتے ہیں۔ عمرو بن شبیب تنہا ہے اور یہ راوی ضعیف ہے۔ یحییٰ بن سعید کہتے ہیں کہ عمرو بن سبیب کا اعتبار نہیں ہے۔ ابو ذرعہ کہتے ہیں کہ یہ واہی تباہی حدیثیں روایت کرتا ہے اور صحیح یہ ہے کہ یہ ابن عمر کا قول ہے۔ ( مرفوع حدیث نہیں ہے) امام ابوحنیفہ (رح) کے مذہب کو اس طرح ترجیح ہوسکتی ہے کہ پہلے ہم یہ ثابت کرچکے ہیں کہ طلاقوں کو طہروں پر بانٹ دیناضروری ہے پس طلاقوں کی تعداد بھی طہروں ہی کی تعداد کے موافق ہوگی اور اس پر سب ائمہ کا اتفاق ہے کہ لونڈی کی عدت دو حیض ہیں۔ پس اس سے ثابت ہوگیا کہ اس کی طلاقیں بھی دو ہیں۔ وا اللہ اعلم اور یہاں امام ابوحنیفہ (رح) کے مذہب پر ایک اشکال لازم آتا ہے وہ یہ ہے کہ امام موصوف کے قاعدہ کے موافق عام اپنے افراد کو یقیناً شامل ہوتا ہے ( اسی وجہ سے) قرآن شریف کے عام (لفظ) کی تخصیص خبر واحد یا قیاس سے جائز نہیں ہے نہ خبر واحد اور قیاس سے اس کا منسوخ ہونا جائز ہے حالانکہ آیت : والمطلقات یتربصن بانفسھن ثلٰثۃ قروء اور دوسری آیت : الطلاق مرتان یہ دونوں کی دونوں آزاد عورتوں اور لونڈیوں سب کو شامل ہیں ( یعنی ان آیتوں سے سب کے لیے ایک ہی حکم معلوم ہوتا ہے پھر آنحضرت ﷺ کے اس ارشاد : طلاق الامۃ ثنتان وعدتھا حیضتان سے ان دونوں آیتوں کی تخصیص کرلینا درست نہیں ہے کیونکہ یہ خبر واحد ہے۔ اگر کوئی یہ کہے کہ عام قطعی میں سے جس وقت کسی قطعی دلیل کے ساتھ اوّل کے ساتھ اوّل بعض افراد خاص کرلیے جائیں تو پھر وہ عام باقی افراد میں ظنی ہوجاتا ہے اور اس وقت اس کی تخصیص خبر واحد اور قیاس سے جائز ہوجاتی ہے اور اللہ کا قول : والمطلقات یتربصن پہلے چند آیتوں کے باعث مخصوص ہوچکا ہے ایک تو یہ آیت : واولات الاحمال اجلھن [ الایۃ ] دوسری یہ آیت : واللائی یئسن من المحیض[ الایۃ ] پس اس وقت اس کی تخصیص خبر واحد سے کر لینی جائز ہے ! تو یہ کہنا ٹھیک نہیں ہے۔ کیونکہ ہم کہتے ہیں مخصص وہ (حکم) ہوتا ہے جو اس کے متصل ہو اور جو متراخی ہو وہ ناسخ ہوتا ہے مخصص نہیں ہوتا اور یہ آیت جو تم نے پیش کی ہیں ان میں سے اس آیت کے کوئی متصل نہیں ہے بلکہ متراخی ہیں لہٰذا یہ اس کے لیے ناسخ ہوئیں اور عام کے بعض افراد سے حکم کا منسوخ ہونا اس عام کو باقی افراد میں ظنی نہیں کیا کرتا بلکہ باقی افراد میں وہ قطعی رہتا ہے جیسا کہ اس سے پہلے تھا ہاں اس اشکال سے چھوٹنے کی یہ صورت بن سکتی ہے کہ یہ کہا جائے کہ جب تمام امت کا اجماع اس پر (ہونا) ثابت ہوگیا کہ عدت کی آیت اور طلاق کی آیت دونوں آزاد عورتوں کے ساتھ مخصوص ہیں تو اس سے یہ بھی ظاہر ہوگیا کہ پہلے اجماع والوں نے ( جو صحابہ کرام ؓ ہیں) رسول اللہ ﷺ سے کوئی ایساقول سنا ہوگا جو ان کے حق میں قطعی تھا۔ اس قول سے انہوں نے ان آیتوں کی تخصیص کرلی اگرچہ ہم تک وہ قول تواتر کے ساتھ پہنچا اور اگر وہ اس بارے میں آنحضرت ﷺ سے کچھ نہ سنتے تو قطعی آیت کی تخصیص کرنے پر کبھی جرأت نہ کرتے اور گمراہی پر ان سب کا اتفاق نہیں ہوسکتا پھر تابعین نے بھی انہیں کا طریقہ اختیا کیا کیونکہ ان کا طریقہ چھوڑ کر اور طریقہ اختیار کرنا جائز نہیں ہے۔ اگر کوئی یہ اعتراض کرے کہ اس پر اجماع نہیں ہے کہ طلاق کا اعتبار مردوں کے ساتھ ہے یا کہ عورتوں کے ساتھ تو پھر یہ جواب یہاں کس طرح بن سکتا ہے۔ ہم کہتے ہیں اجماع سے یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ اللہ کے قول الطلاق مرتانکے عام معنی مراد نہیں ہیں اور یہ خلاف کچھ مضر نہیں ہے۔ وا اللہ اعلم اَوْ تَسْرِيْحٌۢ بِاِحْسَانٍ ( یا حسن سلوک کے ساتھ رخصت کردے) ۔ بعض مفسرین نے کہا ہے کہ اس سے مراد تیسری طلاق ہے۔ میں کہتا ہوں یہ کہنا ٹھیک نہیں ہے کیونکہ اس کا عطف : فامساک بمعروف پر ہے اس صورت میں مطلب یہ ہوگا کہ ان دونوں باتوں میں سے ایک کو اختیار کرے یا تو خوش خوئی کے ساتھ رکھے اور یا تیسری طلاق دے کر حسن سلوک کے ساتھ رخصت کردے حالانکہ ( حکم) اس طرح نہیں ہے بلک اسکے لیے جائز ہے کہ نہ رکھے اور نہ طلاق دے اور عدت پوری ہونے تک ویسے ہی رہنے دے۔ بعض کہتے ہیں تسریح باحسان سے یہ مراد ہے کہ اس سے رجعت نہ کرے یہاں تک کہ وہ عدت گذار کر علیحدہ ہوجائے اور اس قول پر بھی اعتراض واردہوتا ہے جو پہلے پر وارد ہوتا تھا۔ بغوی وغیرہ نے ان دونوں قولوں کو ذکر کیا ہے اور سب سے بہتر یہ ہے کہ اوتسریح باحسان کی یہ تفسیر کی جائے کہ اس سے عورت کو فقط علیحدہ کردینا مراد ہے خواہ تیسری طلاق دے کر یا عدت پوری کراکر اور معنی ( آیت کے) یہ ہوئے کہ پاس واجب یہ ہے کہ یا تو خوش خوئی کے ساتھ اسے رکھے یا حسن سلوک کے ساتھ علیحدہ کردے برابر ہے کہ تیسری طلاق دے یا نہ دے اس سے غرض یہ ہے کہ ( عورت کو) محض ستانے کے لیے خلاف دستور کے روکے رکھنا حرام ہے اور اس بنا پر آیت : فان طلقھا فلا تحل لہ من بعد اس کے دونوں احتمالوں میں سے ایک کی تفصیل ہے اور اگر تسریح سے علیحدہ طلاق مراد ہو تو پھر یہ چوتھی طلاق ہوجائے گی۔ اگر کوئی کہے مروی ہے کہ آنحضرت ﷺ سے کسی نے پوچھا کہ یا رسول اللہ ﷺ ! الطلاق مرتان ( کے بعد) تیسری طلاق کہاں مذکور ہے ؟۔ فرمایا : او تسریح باحسان یہ روایت ابو داؤد نے اپنے ناسخ میں اور سعید بن منصور نے اپنی سنن میں اور ابن مردویہ نے ابی رزین اسدی سے مرسلاً نقل کی ہے یہی روایت دارقطنی نے حماد بن سلمہ سے انہوں نے قتادہ سے انہوں نے انس سے متصل روایت کی ہے ابن قطان نے اسے صحیح کہا ہے۔ بیہقی کہتے ہیں کہ یہ روایت ٹھیک نہیں ہے اس کے علاوہ دار قطنی ‘ بیہقی نے نے عبد الواحد بن زیاد کی سند سے انہوں نے اسماعیل سے انہوں نے انس سے روایت کی ہے اور ان دونوں نے کہا ہے کہ اس کی عمدہ سند اس طرح ہے کہ اسماعیل نے ابی رزین سے انہوں نے نبی ﷺ سے مرسلاً روایت کی ہے۔ بیہقی کہتے ہیں کہ معتبر راویوں میں سے ( محدثین کی) ایک جماعت نے اس کو اسی طرح نقل کیا ہے۔ ابن قطان کہتے ہیں کہ یہ روایت مرفوع بھی صحیح ہے۔ ہم کہتے ہیں کہ تیسری طلاق کے سوال کے جواب میں آنحضرت ﷺ نے فرمایا : او تسریح باحساناس کا معنی یہ ہے کہ دونوں احتمالوں میں سے ایک احتمال یہ ہے۔ وا اللہ اعلم (اس آیت کی تفسیر کا بقیہ حصہ کتابی یا آن لائن نسخے سے ملاحضہ فرمائیں۔ طوالت کے باعث اس سے زیادہ نقل نہیں کیا جا رہا)
Top