Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
177
178
179
180
181
182
183
184
185
186
187
188
189
190
191
192
193
194
195
196
197
198
199
200
201
202
203
204
205
206
207
208
209
210
211
212
213
214
215
216
217
218
219
220
221
222
223
224
225
226
227
228
229
230
231
232
233
234
235
236
237
238
239
240
241
242
243
244
245
246
247
248
249
250
251
252
253
254
255
256
257
258
259
260
261
262
263
264
265
266
267
268
269
270
271
272
273
274
275
276
277
278
279
280
281
282
283
284
285
286
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Tafseer-e-Mazhari - Al-Baqara : 232
وَ اِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَآءَ فَبَلَغْنَ اَجَلَهُنَّ فَلَا تَعْضُلُوْهُنَّ اَنْ یَّنْكِحْنَ اَزْوَاجَهُنَّ اِذَا تَرَاضَوْا بَیْنَهُمْ بِالْمَعْرُوْفِ١ؕ ذٰلِكَ یُوْعَظُ بِهٖ مَنْ كَانَ مِنْكُمْ یُؤْمِنُ بِاللّٰهِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِ١ؕ ذٰلِكُمْ اَزْكٰى لَكُمْ وَ اَطْهَرُ١ؕ وَ اللّٰهُ یَعْلَمُ وَ اَنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ
وَاِذَا
: اور جب
طَلَّقْتُمُ
: تم طلاق دو
النِّسَآءَ
: عورتیں
فَبَلَغْنَ
: پھر وہ پوری کرلیں
اَجَلَهُنَّ
: اپنی مدت (عدت)
فَلَا
: تو نہ
تَعْضُلُوْھُنَّ
: روکو انہیں
اَنْ
: کہ
يَّنْكِحْنَ
: وہ نکاح کریں
اَزْوَاجَهُنَّ
: خاوند اپنے
اِذَا
: جب
تَرَاضَوْا
: وہ باہم رضامند ہو جائیں
بَيْنَهُمْ
: آپس میں
بِالْمَعْرُوْفِ
: دستور کے مطابق
ذٰلِكَ
: یہ
يُوْعَظُ
: نصیحت کی جاتی ہے
بِهٖ
: اس سے
مَنْ
: جو
كَانَ
: ہو
مِنْكُمْ
: تم میں سے
يُؤْمِنُ
: ایمان رکھتا
بِاللّٰهِ
: اللہ پر
وَ
: اور
لْيَوْمِ الْاٰخِرِ
: یوم آخرت پر
ذٰلِكُمْ
: یہی
اَزْكٰى
: زیادہ ستھرا
لَكُمْ
: تمہارے لیے
وَاَطْهَرُ
: اور زیادہ پاکیزہ
وَاللّٰهُ
: اور اللہ
يَعْلَمُ
: جانتا ہے
وَاَنْتُمْ
: اور تم
لَا تَعْلَمُوْنَ
: نہیں جانتے
اور جب تم عورتوں کو طلاق دے چکو اور ان کی عدت پوری ہوجائے تو ان کو دوسرے شوہروں کے ساتھ جب وہ آپس میں جائز طور پر راضی ہوجائیں نکاح کرنے سے مت روکو۔ اس (حکم) سے اس شخص کو نصیحت کی جاتی ہے جو تم میں خدا اور روز آخرت پر یقین رکھتا ہے۔ یہ تمہارے لئے نہایت خوب اور بہت پاکیزگی کی بات ہے اور خدا جانتا ہے اور تم نہیں جانتے
وَاِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاۗءَ فَبَلَغْنَ اَجَلَهُنَّ فَلَا تَعْضُلُوْھُنَّ ( اور جب تم عورتوں کو طلاق دیدو اور وہ اپنی مدت کو پہنچ جائیں ( یعنی ان کی عدت پوری ہوجائے) تو تم انہیں نہ روکو) یعنی منع نہ کرو عضل کے معنی منع کرنے کے ہیں اور اصلی معنی اس کے ضیق اور شدت کے ہیں (چنانچہ) الداء العضال عرب میں اس بیماری کو کہتے ہیں جس کا علاج نہ ہو سکے۔ امام شافعی (رح) سے منقول ہے کہ دونوں کلاموں کے سیاق سے معلوم ہوتا ہے کہ دونوں جگہ بلوغ کے الگ الگ معنی ہیں۔ اَنْ يَّنْكِحْنَ اَزْوَاجَهُنَّ ( اس سے کہ وہ اپنے خاوندوں سے نکاح کریں) اس کے مخاطب ( عورت کے) اولیا ( یعنی ورثاء ہیں یہ آیت معقل بن یسار کی بہن جملاء بنت یسار کے بارے میں نازل ہوئی ہے بداح بن عاصم بن عجلان نے اسے طلاق دیدی تھی بخاری۔ ابو داؤد ترمذی وغیرہ نے معقل بن یسار سے روایت کی ہے وہ کہتے ہیں میں نے اپنی بہن کا نکاح ایک شخص سے کردیا تھا پھر اس نے اسے طلاق دیدی اور جب اس کی عدت پوری ہوگئی تو وہ پھر پیغام لے کر ائے میں نے اس سے یہ بات کہی کہ پہلے تو میں نے تم سے اس کا نکاح کردیا تھا تمہارا گھر بسا دیا تھا سب طرح تمہاری آبرو تھی لیکن تم نے اسے طلاق دیدی اور اب پھر پیغام لے کر آئے ہو۔ ایسا نہیں ہوسکتا خدا کی قسم اب وہ تمہارے ہاں ہرگز نہیں جاسکتی اور وہ آدمی کچھ برا نہ تھا اور میری بہن بھی پھر اس کے ہاں جانا چاہتی تھی اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی : فلا تعضلوھن ان ینکحن ازواجھن تب میں نے ( حضور کی خدمت میں) عرض کیا : یا رسول اللہ ﷺ ! اب میں ضرور کردوں گا۔ چناچہ پھر اسی سے نکاح کردیا ابن جریر نے بہت سے طریقوں سے بحوالہ سدی نقل کیا ہے کہ یہ آیت جابر بن عبد اللہ انصاری کے حق میں نازل ہوئی ان کی ایک چچا زاد بہن تھی اس کے خاوند نے اسے طلاق دیدی تھی اور جب اس کی عدت پوری ہوگئی تو پھر اس نے ان کی بہن سے نکاح کرنا چاہا تو جابر ؓ نے صاف انکار کردیا پہلا قول زیادہ صحیح اور قوی ہے اور شاید یہ دونوں ہی قصوں میں نازل ہوئی ہو۔ آیت کا سیاق یہ چاہتا ہے کہ یہ خطاب ان مردوں کو ہو جنہیں آیت : واذا طلقتم النساء میں خطاب کیا گیا ہے ( یعنی) جو اپنی بیویوں کو ان کی عدت پوری ہونے کے بعد دوسرے خاوندوں سے نکاح کرنے سے ظلماً روکتے تھے اور ہم نے جو بخاری وغیرہ کی روایت شان نزول میں ذکر کی ہے اس کا مقتضا یہ ہے کہ یہ خطاب اولیاء کو ہو کیونکہ وہ روکنا جملا کے بھائی معقل بن یسار کی جناب سے ہوا تھا پس میرے نزدیک بہتر یہ ہے کہ یہ خطاب سب لوگوں کو ہو کیونکہ ( یہ قاعدہ ہے کہ) جس وقت کوئی فعل ایک آدمی سے صادر ہوتا ہے تو اس کی نسبت ایک جماعت کی طرف کردی جایا کرتی ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد میں ہے کہ : لا تاکلو اموالکم بینکم بالباطل [ الایۃ ] ( ایک دوسرے کے مال نہ کھایا کرو) اور فرمایا : ولا تخرجوا انفسکم من دیارکم [ الایۃ ] ( تم خود ایک دوسرے کو ان کے گھروں سے نہ نکالو) اور اس وقت آیت کے سیاق اور شان نزول میں کوئی مزاحمت ( اور مخالفت) نہیں ہے اس وقت مطلب یہ ہوگا کہ جب تم میں کے کچھ مرد عورتوں کو طلاق دیدیں اور وہ اپنی عدت پوری کرلیں تو اے اولیا پہلے تم ان کو پہلے خاوندوں سے یا ان کے علاوہ اور کسی کے ساتھ نکاح کرلینے سے مت روکو لفظ ازواج کے بہر صورت مجازی معنی مراد ہیں کیونکہ اس موقع پر خاوند کہنا یا تو با عتبار گذشتہ کے ہے ( یعنی جو پہلے خاوند تھا اور یا با عتبارآئندہ کے ہے (یعنی جو نکاح کرنے کے بعد خاوند ہوجائیں گے) وا اللہ اعلم۔ شافعیہ نے اس آیت میں اولیاء کو مخاطب قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ آیت میں دلیل ہے اس امر کی کہ عورت خود اپنا نکاح نہیں کرسکتی کیونکہ اگر وہ خود ایسا کرسکتی تو پھر ولی کے روکنے کے کوئی معنی ہی نہیں ہیں۔ شافعیہ نے عورت کی طرف نکاح کی نسبت کرنے کو مجاز پر حمل کیا ہے اور کہا ہے کہ نکاح کی نسبت عورتوں کی طرف فقط اس سبب سے ہے کہ نکاح ان کی اجازت پر موقوف ہوتا ہے مگر یہ استدلال ضعیف ہے کیونکہ ولی اس صورت میں بھی روک سکتا ہے کہ جب نکاح عورت کا اختیاری فعل قرار دیا جائے۔ دیکھو آنحضرت ﷺ نے فرمایا : لا تمنعوا اماء اللہ عن مساجد اللہ ( یعنی اللہ کی لونڈیوں کو اللہ کی مسجدوں ( میں آنے) سے تم نہ روکا کرو) باوجودیکہ مسجدوں میں آنا عورت کا اختیاری فعل ہے بلکہ روکنا اور برانگیختہ کرنا اختیاری ہی فعل میں ہوتا ہے پس اس مسئلہ میں شافعیہ ( کو اگر استدلال کرنا ہی تھا تو ان) کے لیے اس آیت سے استدلال کرنا بہتر تھا کہ : ولا تنکحوا المشرکین حتی یؤمن ( کیونکہ اصل اسناد میں حقیقت ہی ہے ) ۔ مسئلہ کیا آزاد عاقلہ بالغہ عورت بغیرولی کے اپنا نکاح کرسکتی ہے ؟ امام ابوحنیفہ (رح) اور امام ابو یوسف فرماتے ہیں کہ عورت کو خود اپنی گفتگو کے ساتھ اپنا نکاح کرلیا جائز ہے اور اس کی رضا مندی سے اس کے وکیل کے ذریعہ سے بھی نکاح ہوجاتا ہے اگرچہ ولی اس پر رضا مند نہ ہوں برابر ہے کہ وہ خاوند اس کا کفو ہو یا نہ ہو ہاں کفو نہ ہونے کی صورت میں ولی اعتراض کرسکتا ہے اور ایک روایت میں ان سے یہ بھی مروی ہے کہ غیر کفو ( کی صورت) میں نکاح نہیں ہوتا اور امام محمد کے نزدیک کفوا اور غیر کفو دونوں سے نکاح ہوجاتا ہے لیکن ولی کی اجازت پر موقوف رہتا ہے امام مالک فرماتے ہیں کہ اگر عورت شریف زادی اور خوبصورت یا مالدار ہے کہ ایسی عورتوں سے نکاح کرنے کا ہر کوئی خواہاں ہوتا ہے تو اس کا نکاح بغیر ولی کے درست نہ ہوگا اور اگر عورت ایسی نہیں ہے تو اس کا نکاح اس کی رضا مندی سے کوئی اجنبی بھی کرسکتا ہے ہاں اس کی گفتگو سے نہیں ہوتا۔ امام شافعی اور امام احمد کا قول یہ ہے کہ بغیر ولی کے نکاح ہوتا ہی نہیں اور یہی ایک روایت امام ابو یوسف سے بھی ہے انہوں نے اسی (مذکورہ) آیت سے استدلال کیا ہے اور اس پر جو اعتراض ہے اس کو تم ابھی سن چکے ہو اور چند حدیثوں سے بھی استدلال کیا ہے منجملہ ان کے ایک حدیث حضرت عائشہ صدیقہ کی ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا : ایما امرأۃ نکحت بغیر اذن ولیہا فنکاحہا باطل فنکاحہا باطل فنکاحہا باطل فان دخل بہا فلھا المہر بما استحل من فرجہا فان اشتجروا فالسلطان ولی من لا ولی لہ ( یعنی جو عورت اپنے ولی کی اجازت کے بغیر اپنا نکاح کرلے تو اس کا نکاح باطل ہے تو اس کا نکاح باطل ہے اس کا نکاح باطل ہے پس اگر اس سے صحبت ہوجائے تو اس کی شرمگاہ کو حلال سمجھ لینے کی وجہ سے وہ مہر کی مستحق ہوگی اور اگر ان میں کچھ جھگڑا ہوجائے تو جس کا کوئی ولی نہ اس کا ولی سلطان ہے۔ ) یہ حدیث اصحاب سنن نے ابن جریج کی سند سے ‘ انہوں سلیمان بن موسیٰ سے انہوں نے زہری سے انہوں نے عروہ سے انہوں حضرت عائشہ سے نقل کی ہے اور ترمذی نے اسے حسن کہا ہے طحاوی کہتے ہیں ہم سے ابن ابی عمان نے یہ بیان کیا کہ مجھ سے یحییٰ بن معین بیان کرتے تھے انہوں نے ابن عتبہ سے اور ابن عتبہ نے ابن جریج سے روایت کی ہے ابن جریج کہتے ہیں کہ میں زہری سے ملا اور یہی حدیث میں نے انہیں سنائی تو انہوں نے اس کا (صاف) انکار کردیا (کہ مجھے معلوم نہیں) ابن جوزی نے اس کا یہ جواب دیا ہے کہ زہری نے سلیمان بن موسیٰ کی تعریف کی ہے لہٰذا زہری کا یہ انکار کردینا ان کے بھول کی وجہ سے ہوا ہے، نیز حضرت عائشہ کی دوسری حدیث ہے فرماتی ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا : لا نکاح الا بولی والسلطان ولیمن لا ولی لہٗ اس حدیث کو ترمذی۔ ابوداؤد ابن ماجہ نے نقل کیا ہے اور اس (کی سند) میں حجاج بن ارطاۃ (راوی) ضعیف ہے اور حضرت عائشہ ؓ ہی فرماتی ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا : لا نکاح الا بولی و شاہدی عدل ( یعنی ولی اور دو منصف گواہوں کے بغیر نکاح نہیں ہوتا) اس حدیث کو دارقطنی نے نقل کیا ہے اور اس کی سند میں یزید بن سنان اور اس کا باپ راوی ہیں جن کی نسبت دارقطنی نے کہا ہے کہ یہ اور اس کا باپ دونوں ضعیف ہیں اور نسائی نے کہا ہے کہ یہ متروک الحدیث ہے اور امام احمد نے بھی اس کو ضعیف ہی شمار کیا ہے، نیز حضرت عائشہ ہی سے مروی ہے فرماتی ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا : لا بد للنکاح من اربعۃ الولی والزوج و شاہدین ( یعنی نکاح کے لیے چار آدمیوں کا ہونا ضروری ہے۔ ولی۔ شوہر اور دو گواہ یہ حدیث دار قطنی نے روایت کی ہے اور اس کی سند میں نافع بن میسر ابو خطیب ( راوی) مجہول ہے اور ایک حدیث ابو بردہ کی ہے جو انہوں نے اپنے باپ ابو موسیٰ سے انہوں نے نبی ﷺ سے روایت کی ہے کہ نکاح بغیر ولی کے نہیں ہوتا یہ حدیث۔ امام احمد نے نقل کی ہے اور ایک مرفوع حدیث ابن عباس کی ہے کہ نکاح بغیر ولی کے نہیں ہوتا اور جس کا کوئی ولی نہ ہو اس کا ولی سلطان ہے یہ حدیث امام احمد نے حجاج بن ارطاۃ کی سند سے روایت کی ہے اور یہ ( راوی) ضعیف ہے اور یہی ایک اور سند سے بھی مروی ہے اس ( سند) میں عدی بن فضل اور عبد اللہ بن عثمان دونوں ضعیف ہیں اور ابن عباس کہتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ وہ عورتیں زنا کار ہیں جو اپنا نکاح خود کرلیں نکاح بغیر ولی اور دو گواہوں اور مہر کے نہیں ہوتا۔ مہر تھوڑا ہو یا بہت ہو۔ یہ حدیث ابن جوزی نے روایت کی ہے اور اس ( کی سند) میں ایک راوی تھ اس ہے یحییٰ نے کہا ہے کہ یہ راوی ضعیف ہے اور ابن عدی کہتے ہیں کہ راوی کسی قابل نہیں اور ایک حدیث ابن عمر اور ابن مسعود کی ہے دونوں کہتے ہیں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ نکاح بغیر ولی اور دو عادل گواہوں کے نہیں ہوتا ابن مسعود کی حدیث میں (ایک راوی) بکیر بن بکار ہے ( اسکی بابت) یحییٰ نے کہا ہے کہ یہ راوی کچھ نہیں اور ( ایک راوی) عبد اللہ بن محرز ہے جسے دارقطنی نے متروک کہا ہے اور ابن عمر کی حدیث میں ثابت بن زہیر (راوی) منکر الحدیث ہے اسی طرح ابو حاتم نے کہا ہے ابن حبان کہتے ہیں کہ اس کی حدیث قابل حجت نہیں ہوتی اور ایک حدیث ابوہریرہ کی ہے وہ کہتے ہیں رسول اللہ نے فرمایا کہ نہ عورت کسی عورت کا نکاح کرے اور نہ خود اپنا نکاح کرے کیونکہ وہ زنا کار عورت ہے جو اپنا نکاح آپ کرتی ہے یہ حدیث دارقطنی نے دو طریقوں سے نقل کی ہے ایک طریق میں جمیل بن حسن راوی ہے اور دوسرے میں مسلم بن ابی مسلم ہے۔ یہ دونوں مجہول ہیں اور ایک مرفوع حدیث جابر کی ہے کہ بغیر مرشد ولی اور دو عادل گواہوں کے نکاح نہیں ہوتا یہ حدیث ابن جوزی نے روایت کی ہے اس ( کی سند) میں محمد بن عبید اللہ عزرمی ہے۔ نسائی اور یحییٰ کہتے ہیں کہ یہ راوی متروک ہے اسکی حدیث لکھنے کے قابل نہیں اور اس میں قطر بن یسیر ( بھی) ضعیف ہے۔ اور ایک حدیث معاذ بن جبل کی ہے جو انہوں آنحضرت ﷺ سے روایت کی ہے آپ نے فرمایا کہ جو عورت بغیر ولی کے اپنا نکاح کرلے تو وہ زنا کار ہے یہ حدیث دارقطنی نے نقل کی ہے اور اس میں ابو عصمہ اسم بن ابی مریم (راوی) ہے جس کی بابت یحییٰ نے کہا ہے کہ یہ راوی کچھ نہیں اور دارقطنی نے کہا ہے کہ یہ متروک ہے۔ حنفیہ نے اللہ تعالیٰ کے ارشاد : حتیٰ تنکح زوجاً غیرہ اور ان ینکحن ازواجھن سے استدلال کیا ہے کیونکہ اصل اسناد میں حقیقت ہے یعنی یہ کہ عورت اپنا نکاح خود کرلے اور حضرت ابن عباس کی اس مرفوع حدیث سے بھی : الایم احق بنفسہا من ولیہا والبکر تستاذن فی نفسہا و اذنہا صماتہا (یعنی بیوہ اپنی جان کی اپنے ولی سے زیادہ حق دار ہے اور بن بیاہی کا نکاح کرنے میں اس سے اجازت لینی چاہئے اور اس کی اجازت اس کا خاموش ہوجانا ہے) یہ حدیث مسلم۔ امام مالک۔ ابو داؤد۔ ترمذی۔ نسائی نے روایت کی ہے اور اس سے استدلال کرنے کی یہ وجہ ہے کہ اولیاء کا سوائے نکاح کردینے کے اور کوئی حق نہیں ہے اور بیوہ عورت اپنے نفس کی اس سے زیادہ حقدار ہے تو پس یہ اپنا نکاح کرنے میں بھی اس سے اولیٰ ہوگی۔ اور ابو سلمہ بن عبد الرحمن کی حدیث سے ( بھی) استدلال کیا ہے وہ کہتے ہیں کہ ایک عورت رسول ﷺ اللہ کی خدمت میں آئی اور کہنے لگی کہ میرے باپ نے ایک آدمی سے میرا نکاح کردیا ہے اور میں راضی نہیں ہوں۔ حضور ﷺ نے اس کے باپ سے فرمایا کہ تمہیں نکاح کا اختیار نہیں اور اس عورت سے فرمایا کہ جا تو جس سے چاہے نکاح کرلے۔ یہ حدیث ابن جوزی نے روایت کی ہے شافعیہ نے کہا ہے کہ یہ حدیث مرسل ہے اور مرسل سے حجت نہیں ہوسکتی ہم کہتے ہیں ( ہمارے نزدیک مرسل ( حدیث) حجت ہے حضرت عائشہ کی ایک حدیث ہے کہ قتادہ ( نامی ایک عورت) ان کے پاس آئی اور کہا کہ میرے باپ نے اس کا حسب (نسب) بڑھانے کے لیے میرا نکاح اپنے بھتیجے سے کردیا ہے اور یہ نکاح مجھے ناپسند ہے حضرت عائشہ ؓ نے فرمایا بیٹھ جا اتنے میں آنحضرت بھی تشریف لے آئے اس عورت نے یہ قصہ پھر حضور سے بیان کیا آپ نے اس کے باپ کے پاس ایک آدمی بھیجا اور اس بارے میں اس عورت ہی کو اختیار دیدیا وہ بولی یا رسول اللہ میں اپنے باپ کے کیے ہوئے نکاح کو ایسے ہی رہنے دیتی ہوں۔ میں نے فقط یہ چاہا تھا کہ سب عورتوں کو یہ بات جتلادوں کہ باپوں کو اس بارے میں کچھ اختیار نہیں ہے۔ یہ حدیث نسائی نے روایت کی ہے یہاں استدلال کی یہ صورت ہے کہ اس حدیث میں اس عورت کے اس کہنے کو اس بارے میں باپوں کو کچھ اختیار نہیں ہے۔ آنحضرت ﷺ کا ثابت رکھنا (یعنی اس کا انکار نہ فرمانا) حضرت عائشہ ؓ کی مذکورہ حدیث کے اور حد یث : لا نکاح الا بولی کے معارض ہے حنفیہ کہتے ہیں کہ جب نصوص آپس میں متعارض ہوں تو ان میں ترجیح کا کوئی طریقہ نکالنا یا کچھ تاویل کرکے دونوں کو جمع کرنا ( یعنی دونوں کے معنی بنانا) واجب ہے۔ پس ترجیح کے طریقہ پر تو جو روایت مسلم نے نقل کی ہے وہ سند کی رو سے سب سے زیادہ صحیح اور قوی ہے بخلاف ان حدیثوں کے جو اور محدثین نے نقل کی ہیں کیونکہ وہ ضعف یا اضطراب سے خالی نہیں ہیں اور احادیث کا تعارض دور کرنے کے لیے ہم کہتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ کے قول : لا نکاح الا بولی کے یہ معنی ہیں کہ وہ نکاح مسنون طریقہ پر نہیں ہوتا یا یہ مطلب ہے کہ نکاح اسی شخص کے ساتھ ہوتا ہے جس کے لیے ولایت ہوتا کہ اس سے مسلمان عورت کے ساتھ کافر کے نکاح کرنے میں نفی ہوجائے علی ہذا القیاس نکاح فاسدہ میں سے محرم عورت کے ساتھ نکاح کرنے یا پہلے خاوند کی عدت میں نکاح کرنے وغیرہ کی بھی نفی ہوجائے اور حضرت عائہا کی حدیث کے یہ معنی ہیں کہ عورت غیر کفو سے نکاح کرلے ( وہ نکاح نہیں ہوتا) جو لوگ غیر کفو سے عورت کے نکاح کرنے کو بالکل ناجائز کتے ہیں ان کے قول پر باطل کے معنی حقیقی ہیں اور جو لوگ اسے درست کہتے ہیں اور نکاح فسخ کرنے میں ولی کے حق کو ثابت کرتے ہیں ان کے قول پر باطل حکماً مراد ہے اور نصوص کے اطلاقات میں یہ سب تاویلیں شائع ( ذائع) ہیں اور دفع تعارض کے لیے اس کا مرتکب ہونا واجب ہے یا ہم کہیں گے کہ حضرت عائشہ ؓ کی حدیث اس پر دلالت کرتی ہے کہ جب عورت اپنا نکاح اپنے ولی کی اجازت سے کرلے تو وہ نکاح جائز ہے امام شافعی کے قاعدہ پر تو اس لیے کہ وہ مفہوم کے قائل ہیں اور امام ابوحنیفہ (رح) کے قاعدہ پر اس لیے کہ یہ بطلان کے حکم میں داخل نہیں ہے اور اصل جواز ہے پس اس سے ثابت ہوا کہ عورت کا خود نکاح کرلینا ( نفس) نکاح میں خرابی نہیں لاتا بلکہ خرابی لانے والا ولی کا حق ہے جو آنحضرت ﷺ کے اس قول سے مستفاد ہوتا ہے کہ : الایم احق بنفسہا من ولیہا ” اور ولی کا حق غیر کفو ( سے نکاح کرلینے میں دفع عار کے لیے روک پیدا کرتا ہے۔ اِذَا تَرَاضَوْا بَيْنَهُمْ ( جب وہ باہم رضا مند ہوجائیں) یعنی پیغام دینے والے مرد اور عورتیں یہ ان ینکحن کے متعلق ہے باہم رضا مندی شرط ہونے کی بنا پر تمام فقہا کا اس پر اجماع ہے کہ بالغہ عورت جب بیوہ ہو اس پر زبردستی کرنی جائز نہیں ہے اور بن بیاہی بالغہ میں اختلاف ہے امام شافعی فرماتے ہیں کہ باپ اور دادا کے لیے ایسی لڑکی کا نکاح بغیر اس کی رضا مندی کے کردینا جائز ہے صرف باپ کے بارے میں یہی قول امام مالک کا ہے اور یہی ایک مشہور روایت امام احمد سے بھی ہے کیونکہ یہ آیت بیوہ عورتوں کے بارے میں ہے۔ ابن جوزی نے اس روایت کے مفہوم سے حجت کی ہے جو ابن عباس نے مرفوعاً ان لفظوں سے نقل کی ہے کہ : الثیب احق بنفسہا من ولیہما والبکر یستامر ہا ابو ہا فی نفسھا۔ ہم کہتے ہیں کہ یہ استدلال ایسے مفہوم سے ہے جو حدیث یا آیت سے مخالف ہے اور مفہوم ہمارے نزدیک حجت نہیں ہے اس کے علاوہ یہ حدیث اور آیت ہماری حجت ہے نہ کہ ہمارے مقابلہ میں کیونکہ یہ حدیث بکر سے اجازت لینے کے واجب ہونے پر صریح دال ہے اور اجازت لینا زبردستی کرنے کے بالکل منافی ہے اور اس آیت اللہ تعالیٰ کا ارشاد : ذلکم ازکٰی لکم واطہر [ الایۃ ] اس پر دلالت کرتا ہے کہ (عورتوں کو) روکنے کی حرمت اور رضا مندی کی شرط ان خرابیوں کے خلاف ہے جو روکنے اور زبردستی کرنے میں ہوتی ہیں جیسا کہ ہم عنقریب ذکر کریں گے اور یہ خرابیاں بکر اور بیوہ دونوں پر زبردستی کرنے میں برابر ہیں اگر کوئی اعتراض کرے کہ جب اختیار ہونے میں بکر اور بیوہ دونوں برابر ہیں تو پھر آنحضرت ﷺ کے ارشاد : الثیب احق بنفسہا من ولیہا اور والبکر یستامر میں فرق کرنے کی کیا وجہ ہے اور اسی طرح مسلم کی روایت کے مطابق : الایم احق کے بکرکو ذکر کرنے کی کیا وجہ ہے ؟ ہم کہتے ہیں فرق کی وجہ اس کی اجازت کی کیفیت بیان کرنی ہے کہ اِذْنُھا صماتھا (یعنی باکرہ کا اجازت دینا اس کا خاموش ہوجانا ہے) بخلاف بیوہ عورت کے کہ اس کا خاموش ہوجانا اجازت ہونے میں معتبر نہیں ہے بلکہ اس کے لیے ضروری ہے کہ پہلے سے ایک وکیل کردے یا صریح اجازت دے اور اس کے علاوہ باکرہ لڑکیاں اپنا نکاح اکثر خود نہیں کیا کرتیں اور اسی وجہ سے حضور انور نے عام طور پر فرما دینے کے بعد اس کو خصوصیت کے ساتھ فرمایا کہ لوگ اجازت لینے میں سستی نہ کرنے لگیں ابن جوزی (رح) نے اس روایت سے بھی حجت لی ہے جو حسن سے مرسلاً مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : لیستأمر الابکار فی انفسہن فان ابین اجبرن ( یعنی باکرہ لڑکیوں کے نکاح کرنے میں اس سے اجازت لینی چاہئے اگر وہ انکار کریں تو ان پر زبردستی کی جائے) اور یہ حدیث متن اور سند دونوں اعتبار سے ساقط ہے متن کے اعتبار سے تو اس لیے کہ اجازت لینے اور زبردستی کرنے میں صریح تناقض ہے کیونکہ اس وقت (یعنی جب اس پر زبردستی کرسکتے ہیں تو) اس سے اجازت لینے میں کوئی فائدہ نہیں ہے اور سند کے اعتبار سے اس لیے کہ اس کی سند میں عبد الکریم (راوی) ہے ابن جوزی نے ( اس کی بابت) کہا ہے کہ اس کے متہم ہونے پر سب محدثین کا اجماع ہے اور ہمارے موافق (بھی) بہت سی حدیثیں ہیں بعض ان میں سے وہ ہیں جو ہم نے ذکر کردی ہیں منجملہ ان کے ایک حدیث ابن عباس ؓ کی ہے کہ ایک باکرہ لڑکی نبی ﷺ کی خدمت میں آئی اور بیان کیا کہ میرے باپ نے میر انکاح کردیا ہے اور وہ مجھے ناپسند ہے اس پر حضور ﷺ نے اس کو اختیار دے دیا۔ یہ حدیث امام احمد۔ ابو داؤد۔ نسائی۔ ابن ماجہ نے متصل سند کے ساتھ اور صحیح راویوں سے نقل کی ہے اور بیہقی کا یہ کہنا کہ یہ مرسل ہے کچھ مضر نہیں ہوسکتا کیونکہ یہ بعض طریقوں سے مرسل ہے اور ہمارے نزدیک مرسل ( بھی) حجت ہے اور بعض صحیح طریقوں سے متصل ہے ابن قطان نے کہا ہے کہ ابن عباس کی یہ حدیث صحیح ہے اور یہ عورت خنساء بنت جذام نہیں ہے کہ جس کا نکاح اس کے باپ نے کردیا تھا اور وہ بیوہ تھی پھر اس کی مرضی نہ ہوئی تو آنحضرت ﷺ نے اس کا نکاح توڑ دیا، یہ روایت بخاری نے نقل کی ہے ابن ہمام کہتے ہیں مروی ہے کہ خنساء بھی باکرہ تھی نسائی نے اس کی حدیث روایت کی ہے اور اس میں یہ (ذکر) ہے کہ یہ باکرہ تھی لیکن ترجیح بخاری کی روایت کو ہے اور دارقطنی نے ابن عباس ؓ کی حدیث نقل کی ہے کہ رسول اللہ نے ایک باکرہ اور ایک بیوہ کا نکاح توڑ دیا تھا ان دونوں کا نکاح انکے باپ نے بغیر ان کی رضا مندی کے کردیا تھا دارقطنی نے ابن عمر ؓ سے روایت کی ہے کہ ایک شخص نے اپنی باکرہ لڑکی کا نکاح کردیا تھا وہ اس نکاح سے راضی نہ تھی تو آنحضرت ﷺ نے اس کا نکاح توڑ دیا اور ایک اور روایت میں ابن عمر ؓ سے مروی ہے کہتے ہیں کہ جو عورتیں اپنے باپوں کے نکاح کئے ہوئے کو پسند نہ کرتی تھیں تو آنحضرت ﷺ انہیں ان کے خاوندوں سے علیحدہ کرلیتے تھے خواہ وہ باکرہ ہوں یا بیوہ۔ دارقطنی نے جابر سے روایت کی ہے کہ ایک شخص نے اپنی باکرہ لڑکی کا نکاح بغیر اس کی اجازت کے کردیا تھا پھر وہ لڑکی حضور ﷺ کی خدمت میں آئی ( اور اس نے اپنی ناخوشی ظاہر کی) تو آپ ﷺ نے اس میں تفریق کرادی حضرت عائشہ ؓ سے مروی ہے فرماتی ہیں کہ قتادہ نبی ﷺ کی خدمت میں آئی۔ کہنے لگی کہ میرا باپ اچھا آدمی ہے اس نے میرا نکاح اپنے بھتیجے سے اس لیے کردیا ہے تاکہ اس کا رذیل پن جاتا رہے۔ یہ سنتے ہی حضور ﷺ نے نکاح کے بارے میں اسے اختیار دیدیا وہ بولی کہ میں نے اپنے باپ کے کیے ہوئے نکاح کو تو ویسے ہی رکھا ہے لیکن میں نے یہ چاہا تھا کہ سب عورتوں پر یہ بات ظاہر کردوں کہ اس بارے میں باپوں کو کچھ اختیار نہیں ہے۔ دارقطنی کہتی ہیں کہ حضرت ابن عباس ؓ ، جابر ؓ اور عائشہ ؓ تینوں کی حدیثیں مرسل ہیں اور ابن برید کا حضرت عائشہ سے سننا ثابت نہیں ہے اور جابر کی حدیث کا امام احمد نے ( بھی) انکار کیا ہے اور دارقطنی کہتے ہیں کہ صحیح یہی ہے کہ یہ حدیث عطا سے مرسل ہے اور اس کے مرفوع ( کرکے بیان) کرنے میں شعیب کو وہم ہوگیا ہے ابن جوزی کہتے ہیں کہ ابن عمر ؓ کی حدیث ثابت نہیں کیونکہ ابن ابی ذئب نے نافع سے کچھ نہیں سنا بلکہ عمر بن حسین سے سنا ہے اور اسی حدیث کی بابت کسی نے امام احمد سے پوچھا تھا کہ انہوں نے فرمایا تھا۔ یہ باطل ہے ہم کہتے ہیں کہ مرسل حدیث حجت ہیں خاص کر استشہاد اور تقویہ کے لیے اور ابن جوزی کا یہ کہنا کہ یہ حدیثیں اس صورت پر محمول ہیں کہ کوئی باکرہ بالغہ غیر کفو سے نکاح کرلے تو یہ بلا سبب خلاف ظاہر پر حمل کرنا ہے اس کے علاوہ حضرت عائشہ کی حدیث میں اس حمل کے ابطال پر یہ لفظ صریح ہیں کہ میرے باپ نے اپنے بھتیجے سے میرا نکاح کردیا ہے کیونکہ چچا کا بیٹا تو کفو ہوتا ہے اور یہ کہنا کہ یہ بھتیجے ان کی ماں کی طرف سے تھا تو یہ بھی احتمال بعید بلا دلیل ہے وا اللہ اعلم۔ مسئلہ اس پر سب (فقہاء) کا اتفاق ہے کہ باکرہ صغیرہ کے نکاح کردینے کا باپ کو اختیار ہے اور بیوہ صغیرہ میں اختلاف ہے امام مالک۔ امام شافعی۔ امام احمد فرماتے ہیں کہ بیوہ صغیرہ کا نکاح ہرگز جائز نہیں ہے کیونکہ بالغ ہونے سے پہلے اس کے اجازت دینے کا اعتبار نہیں ہوتا اس کی وجہ یہ ہے کہ اجازت عقل پر موقوف ہے اور بالغ ہونے سے پہلے عقل ( کا ہونا) معتبر نہیں ہے لہٰذا اس کا نکاح بغیر اس کی اجازت کے نہیں ہوتا اور بیوہ کا نکاح بغیر اس کی اجازت کے نہیں ہوتا پس اس کا نکاح بھی درست نہ ہوگا اس نتیجہ کا صغریٰ تو اجماع (ہونے) کے بعد بدیہی ہے ہاں کبریٰ آنحضرت ﷺ کے اس ارشاد سے ثابت ہوتا ہے کہ : الثیب احق بنفسہا اور یہ پہلے بیان ہوچکا ہے اور ابوہریرہ کی حدیث کہ بیوہ کا نکاح اس سے اجازت لیے بغیر نہ کیا جائے اسے ترمذی نے نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ حدیث صحیح ہے اور خنساء کی حدیث کہ میرے باپ نے میرا نکاح کردیا ہے اور میں رضا مند نہیں ہوں اور وہ بیوی تھی تو نبی ﷺ نے اس کا نکاح توڑدیا اس کو بخاری نے نقل کیا ہے اور ابن عباس ؓ کی حدیث کہ بیوہ کے ولی کو ( اس کا) کچھ اختیار نہیں ہے اسے دارقطنی نے نقل کیا ہے اور یہ حدیث ضعیف ہے دارقطنی نے اس میں نقص بیان کیا ہے اور جواب یہی ہے کہ خنساء بالغہ تھی کیونکہ اس پرا جماع ہے کہ بیوہ صغیر سے اجازت نہ لی جائے اور نہ اس کا اجازت دینا صحیح ہے اور اس پر بھی اجماع ہے کہ اسے خود نکاح کرلینا جائز نہیں ہے اور امام ابوحنیفہ کا قول یہ ہے کہ باپ کے لیے اس کا نکاح کردینا جائز ہے اگرچہ وہ رضا مند نہ ہو کیونکہ باکرہ صغیرہ میں ولایت کا سبب یا تو صغیرہ ہونا ہوتا ہے یا باکرہ ہونا اس کے سوا اور کوئی سبب نہیں ہے اور بالغہ میں بکارۃ معتبر نہیں ہے جسے ہم پہلے بیان کرچکے ہیں پس اسی طرح صغیرہ میں بھی اور اب فقط صغیرہ ہی ہونا (سبب) رہا اور وہ اس (مذکورہ صورت) میں بھی ہے بِالْمَعْرُوْفِ (دستور کے مطابق) یعنی جو شریعت میں معروف ہو اور شرافت ( بھی) اسے مستحسن سمجھے۔ بالمعروف فتراضوا کی ضمیر مرفوع سے حال ہے یا مصدر محذوف کی صفت ہے یعنی تراضیًا کائنًا بالمعروف اور اس میں اس امر کی دلیل ہے کہ غیر کفو کے ساتھ نکاح کرنے سے اور اس نکاح سے جو شریعت میں جائز نہیں ہے جیسے عدت میں نکاح کرنا اور اس کے علاوہ اور نکاح جو ممنوع ہیں اس سے روکنا جائز ہے اس آیت میں اس سے منع نہیں کیا گیا۔ ذٰلِكَ ( یہ) اشارہ اس طرف ہے جو ( عورتوں کو) روکنے سے پرہیز کرنا اور باہم رضا مندی کا خیال رکھنا پہلے بیان ہوچکا ہے یہ انفرادی خطاب ہر ایک کو ہے یا کاف محض خطاب کے لیے ہے مخاطب لوگوں کی تعیین نہیں ہے ایک ہو یا چند یا یہ خطاب آنحضرت ﷺ کو ہے جیسے : یا ایہا النبی اذا طلقتم النسائ میں۔ یا یہ کہا جائے کہ کاف کے لیے کچھ اعراب نہیں تو اس صورت میں یہ خیال ہوسکتا ہے کہ کاف نفس کلمہ کا ہے خطاب کے لیے نہیں ہے اسی بنا پر واحد ‘ تثنیہ ‘ جمع ‘ مذکر ‘ مؤنث میں عرب کاو منصوب اور موحد پڑھتے ہیں : يُوْعَظُ بِهٖ مَنْ كَانَ مِنْكُمْ يُؤْمِنُ باللّٰهِ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ ( اس شخص کو نصیحت کی جاتی ہے جو تم میں سے اللہ تعالیٰ اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتا ہے) یہ آیت اس کی دلیل ہے کہ احکام شریعت کے کفار مخاطب نہیں ہیں یا یہ کہا جائے کہ خاص انہی کو اس لیے ذکر کیا ہے کہ نصیحت حاصل کرنے والے اور نفع اٹھانے والے اس سے یہی لوگ ہیں۔ ذٰلِكُمْ ( یہ) سب لوگوں کو خطاب ہے۔ اَزْكٰى لَكُمْ وَاَطْهَرُ (تمہارے حق میں نفع دینے والی اور بڑی پاک کرنے والی ہے) یعنی گناہوں کی پلیدی سے کیونکہ اگر ( عورتوں) کو مطلق نکاح سے روکا جاتا تو وہ اکثر زنا ( کاری) میں پڑجاتیں اور اگر اس نکاح سے روکا جاتا جس سے وہ خود رضا مند ہوگئی ہیں اور ایسے شخص سے نکاح کرنے پر زبردستی کی جاتی جس سے وہ رضا مند نہیں ہیں تو اندیشہ تھا کہ یہ دونوں ( میاں بیوی) اللہ تعالیٰ کی حدود کو قائم نہ رکھیں اور خلع کرنے یا طلاق دینے کی نوبت آئے۔ وَاللّٰهُ يَعْلَمُ وَاَنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ ( اور اللہ تعالیٰ جانتا ہے ( اس کو جس میں نفع اور بہتری ہے) اور تم نہیں جانتے) یعنی اپنی کم عقلی اور انجام کار سے ناواف ہونے کے باعث۔
Top