Tafseer-e-Mazhari - Al-Baqara : 233
وَ الْوَالِدٰتُ یُرْضِعْنَ اَوْلَادَهُنَّ حَوْلَیْنِ كَامِلَیْنِ لِمَنْ اَرَادَ اَنْ یُّتِمَّ الرَّضَاعَةَ١ؕ وَ عَلَى الْمَوْلُوْدِ لَهٗ رِزْقُهُنَّ وَ كِسْوَتُهُنَّ بِالْمَعْرُوْفِ١ؕ لَا تُكَلَّفُ نَفْسٌ اِلَّا وُسْعَهَا١ۚ لَا تُضَآرَّ وَالِدَةٌۢ بِوَلَدِهَا وَ لَا مَوْلُوْدٌ لَّهٗ بِوَلَدِهٖ١ۗ وَ عَلَى الْوَارِثِ مِثْلُ ذٰلِكَ١ۚ فَاِنْ اَرَادَا فِصَالًا عَنْ تَرَاضٍ مِّنْهُمَا وَ تَشَاوُرٍ فَلَا جُنَاحَ عَلَیْهِمَا١ؕ وَ اِنْ اَرَدْتُّمْ اَنْ تَسْتَرْضِعُوْۤا اَوْلَادَكُمْ فَلَا جُنَاحَ عَلَیْكُمْ اِذَا سَلَّمْتُمْ مَّاۤ اٰتَیْتُمْ بِالْمَعْرُوْفِ١ؕ وَ اتَّقُوا اللّٰهَ وَ اعْلَمُوْۤا اَنَّ اللّٰهَ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِیْرٌ
وَالْوَالِدٰتُ : اور مائیں يُرْضِعْنَ : دودھ پلائیں اَوْلَادَھُنَّ : اپنی اولاد حَوْلَيْنِ : دو سال كَامِلَيْنِ : پورے لِمَنْ : جو کوئی اَرَادَ : چاہے اَنْ يُّتِمَّ : کہ وہ پوری کرے الرَّضَاعَةَ : دودھ پلانے کی مدت وَعَلَي : اور پر الْمَوْلُوْدِ لَهٗ : جس کا بچہ (باپ) رِزْقُهُنَّ : ان کا کھانا وَكِسْوَتُهُنَّ : اور ان کا لباس بِالْمَعْرُوْفِ : دستور کے مطابق لَا تُكَلَّفُ : نہیں تکلیف دی جاتی نَفْسٌ : کوئی شخص اِلَّا : مگر وُسْعَهَا : اس کی وسعت لَا تُضَآرَّ : نہ نقصان پہنچایا جائے وَالِدَةٌ : ماں بِوَلَدِھَا : اس کے بچہ کے سبب وَلَا : اور نہ مَوْلُوْدٌ لَّهٗ : جس کا بچہ (باپ) بِوَلَدِهٖ : اس کے بچہ کے سبب وَعَلَي : اور پر الْوَارِثِ : وارث مِثْلُ : ایسا ذٰلِكَ : یہ۔ اس فَاِنْ : پھر اگر اَرَادَا : دونوں چاہیں فِصَالًا : دودھ چھڑانا عَنْ تَرَاضٍ : آپس کی رضامندی سے مِّنْهُمَا : دونوں سے وَتَشَاوُرٍ : اور باہم مشورہ فَلَا : تو نہیں جُنَاحَ : گناہ عَلَيْهِمَا : ان دونوں پر وَاِنْ : اور اگر اَرَدْتُّمْ : تم چاہو اَنْ : کہ تَسْتَرْضِعُوْٓا : تم دودھ پلاؤ اَوْلَادَكُمْ : اپنی اولاد فَلَا جُنَاحَ : تو گناہ نہیں عَلَيْكُمْ : تم پر اِذَا : جب سَلَّمْتُمْ : تم حوالہ کرو مَّآ : جو اٰتَيْتُمْ : تم نے دیا تھا بِالْمَعْرُوْفِ : دستور کے مطابق وَاتَّقُوا : اور ڈرو اللّٰهَ : اللہ وَاعْلَمُوْٓا : اور جان لو اَنَّ : کہ اللّٰهَ : اللہ بِمَا : سے۔ جو تَعْمَلُوْنَ : تم کرتے ہو بَصِيْرٌ : دیکھنے والا ہے
اور مائیں اپنے بچوں کو پورے دو سال دودھ پلائیں یہ (حکم) اس شخص کے لئے ہے جو پوری مدت تک دودھ پلوانا چاہے۔ اور دودھ پلانے والی ماؤں کا کھانا اور کپڑا دستور کے مطابق باپ کے ذمے ہوگا۔ کسی شخص کو اس کی طاقت سے زیادہ تکلیف نہیں دی جاتی (تو یاد رکھو کہ) نہ تو ماں کو اس کے بچے کے سبب نقصان پہنچایا جائے اور نہ باپ کو اس کی اولاد کی وجہ سے نقصان پہنچایا جائے اور اسی طرح (نان نفقہ) بچے کے وارث کے ذمے ہے۔ اور اگر دونوں (یعنی ماں باپ) آپس کی رضامندی اور صلاح سے بچے کا دودھ چھڑانا چاہیں تو ان پر کچھ گناہ نہیں۔ اور اگر تم اپنی اولاد کو دودھ پلوانا چاہو تو تم پر کچھ گناہ نہیں بشرطیکہ تم دودھ پلانے والیوں کو دستور کے مطابق ان کا حق جو تم نے دینا کیا تھا دے دو اور خدا سے ڈرتے رہو اور جان رکھو کہ جو کچھ تم کرتے ہو خدا اس کو دیکھ رہا ہے
وَالْوَالِدٰتُ يُرْضِعْنَ اَوْلَادَھُنَّ ( اور مائیں اپنے بچوں کو دودھ پلالیں) بچوں کو ماؤں کی طرف اس لیے منسوب کردیا ہے تاکہ یہ ان کے مہربان ہونے اور دودھ پلانے کا باعث ہو اور یہ امر وجوب کے لیے ہے جو مبالغہ کی غرض سے جملہ خبریہ سے بیان کردیا گیا ہے لیکن یہ حکم اس صورت میں منسوخ ہے کہ جب ماں دودھ پلانے سے قاصر ہو یعنی اس میں قدرت نہ ہو اور باپ ( اناکو) نوکر رکھ لینے پر قادر ہو تو باپ بچے کو اور عورت سے پلوائے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے : فان تعاسرم فسترضع لہ اخری ( یعنی اگر تم آپس میں تنگی کرو تو دودھ اور عورت پلائے) یا یہ آیت اللہ تعالیٰ کے ارشاد : لا تضار والدۃ بولدھا سے مخصوص ہے اور اس کی ماسوا میں حکم اپنی اصل پر ہے اور اسی وجہ سے امام ابوحنیفہ (رح) نے فرمایا ہے کہ اگر مرد اپنی بیوی یا اپنی معتدہ کو دودھ پلانے کے لیے نوکر رکھے تو یہ جائز نہیں ہے اور امام شافعی کا قول ہے کہ اسے نوکر رکھ لینا جائز ہے اور ہماری دلیل یہ ہے کہ دودھ پلانا دیانتاً عورت کے ذمہ ہے مگر جب وہ باوجود انتہا درجہ کی محبت ہونے کے دودھ نہ پلائے تو اس کے معذور ہونے کے خیال سے قضاءً اس سے معذور سمجھ لیا گیا ہے پھر جب وہ اجرت پر پلانے کے لیے آمادہ ہوگئی تو اس سے (دودھ پلانے پر) اس کا قادر ہونا ظاہر ہوگیا اور یہ دودھ پلانا اس پر واجب تھا تو اب اسے اجرت لینی جائز نہیں ہے اگر کوئی یہ کہے کہ یہ دلیل چاہتی ہے کہ مطلقہ کی عدت پوری ہونے کے بعد اس کے بچہ کو دودھ پلانے کے لیے اسی کو نوکر رکھ لینا جائز نہ ہو حالانکہ یہ بالاتفاق جائز ہے ہم کہتے ہیں کہ عدت پوری ہونے کے بعد اس کو نوکر رکھ لینے کا جواز اللہ کے اس فرمان سے ثابت ہوا ہے۔ : فان ارضعن لکم فاتوھن اجورھن [ الایۃ ] پس اس سے معلوم ہوا کہ ماں پر دودھ پلانا واجب اس شرط سے ہے کہ باپ کے ذمہ آیت و علی المولود لہ رزقہن و کسوتھن سے اس کا نان نفقہ واجب ہو پس زوجہ ہونے اور عدت میں ہونے کی حالت میں وہ ایجاب اسے نان نفقہ دینے کی وجہ سے قائم ہے اور عدت کے بعد اس کے ذمہ نان نفقہ نہیں ہے اس لیے یہ اجرت اس کے قائم مقام ہوجائے گی۔ حَوْلَيْنِ كَامِلَيْنِ (پورے دو برس) صفت کمال سے اس لیے تاکید کردی ہے کہ ( اکثر مائیں وغیرہ) اس میں سستی کردیتی ہیں اس قید کا مقتضا یہ ہے کہ پورے دو برس تک دودھ پلانا واجب ہو لیکن اس کے بعد چونکہ اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا : فان ارادا فصالًا عن تراض منہما و تشاور فلا جناح علیہما تو اس سے معلوم ہوا کہ یہ قید فقط اس لیے ہے کہ دو برس کے بعد دودھ پلانا جائز نہیں ہے نیز دو برس کے بعد دودھ پلانے کے جواز کی نفی ہونی اپنی اصل پر ہے کیونکہ اصل یہی ہے کہ آدمی کی تعظیم کی وجہ سے اس کے اجزا سے فائدہ اٹھانا جائز ہے۔ اس کے علاوہ یہ نفی اللہ کے اس ارشاد سے بھی ظاہر ہوتی ہے : لِمَنْ اَرَادَ اَنْ يُّـتِمَّ الرَّضَاعَةَ (اس شخص کے لیے جو پوری مدت تک دودھ پلوانا چاہے) کیونکہ دودھ کی مدت پوری ہونے کے بعد اور کوئی چیز نہیں ہے اور یہ اس شخص کے لیے بیان ہے جس کی طرف وجوب کا حکم متوجہ ہوتا ہے یعنی یہ دو برس تک دودھ پلوانا اس شخص کے لیے ہے جو دودھ پلانے کی مدت پوری کرنا چاہئے یا یہ یرضعن کے متعلق ہے کیونکہ باپ کے ذمہ دودھ پلوانا مثل نان نفقہ کے واجب ہے اور ماں کے ذمہ دودھ پلانا واجب ہے اگر اسے تکلیف نہ ہو قتادہ فرماتے ہیں کہ اللہ نے پورے دو برس دودھ پلانا ماؤں پر فرض کیا تھا پھر اپنے قول : لمن ارد ان یتیم الرضاعۃ سے اس میں تخفیف کردی پس اس آیت سے ثابت ہوا کہ دودھ پلانے کی مدت دو برس ہے اس کے بعد جائز نہیں ہے اور نہ دو برس کے بعد دودھ پلانے سے محرم ہونا ( یعنی رضاعی ماں وغیرہ ہونا) ثابت ہوتا ہے اور یہ قول امام ابو یوسف۔ امام شافعی امام احمد کا ہے اور یہی حضرت ابن عباس ؓ اور حضرت عمر ؓ سے مروی ہے ان دونوں روایتوں کو دارقطنی نے نقل کیا ہے اور ابن مسعود اور حضرت علی سے (بھی) مروی ہے ان دونوں کو بن ابی شیبہ نے نقل کیا ہے۔ امام مالک کا قول یہ ہے کہ (دودھ پلانے کی مدت) دو برس سے کچھ زیادہ ہے اور اس زیادہ کی انہوں نے کوئی حد نہیں بیان کی امام ابوحنیفہ (رح) نے ( اس زیادہ کی حد) تین مہینے فرمائی ہے اور امام زفر نے تین برس فرمائے ہیں اور سب ائمہ نے دو برس سے زیادہ ہونے کو اللہ کے ارشاد کاملین سے لیا ہے کیونکہ کمال یہ چاہتا ہے کہ ان دو برس میں بچہ (اچھی طرح) کھاتا نہیں لہٰذا اتنی مدت ( اور) ہونی ضروری ہے کہ اس میں بچہ کو کھانا کھانے کی عادت ہوجائے اور اس زیادتی ( کی مدت) کو ہر ایک امام نے اپنی اپنی رائے سے مقرر کیا ہے اور امام مالک نے کوئی مدت مقرر نہیں کی ہم کہتے ہیں کہ کمال کا یہ تقاضا ہونا ممنوع ہے کہ دو برس میں بچہ کھانا نہیں کھاتا بلکہ کمال کو ( اللہ نے) اس لیے ذکر کیا ہے تاکہ لوگ سستی کرکے ان دو برس کو ان سے کم پر نہ حمل کریں ہمارے اس قول پر ابن عباس ؓ کی یہ حدیث دلالت کرتی ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا : لا رضاع الا ما کان فی حولین ( یعنی دودھ پلانا وہی ہے جو دو برس کے اندر ہو) اس حدیث کو ابن جوزی اور دارقطنی نے نقل کیا ہے۔ دارقطنی کہتے ہیں ابن عیینہ سے مروی ہے کہ اس حدیث کے سب راوی ٹھیک ہیں سوائے ہثیم بن جمیل کے اور یہ ( بھی) ثقہ ( اور) حافظ ہے اسی طرح امام احمد عجلی۔ ابن حبان وغیرہ نے اس کو ثقہ کہا ہے۔ وَعَلَي الْمَوْلُوْدِ لَهٗ (اور جس کا بچہ ہے اس پر) یعنی باپ پر کیونکہ بچہ اسی کی وجہ سے ہوتا ہے اور اسی کی طرف منسوب کیا جاتا ہے۔ عبارت کا تغیر اس معنی کی طرف اشارہ کرنے کے لیے ہے کہ دودھ پلوانے کا وجوب اور دودھ پلانے والی کا خرچہ باپ کے ذمہ ہے اور (لہٗ میں) لام اختصاص کے لیے ہے اور اسی وجہ سے ظاہر الروایت میں امام ابوحنیفہ کا قول یہ ہے کہ بالغ لڑکی اور بالغ لڑکے کا خرچ خاص باپ ہی کے ذمہ ہے ماں کے ذمہ نہیں ہے جیسا کہ چھوٹے بچہ کا اور خصاف اور حسن کی روایت میں امام موصوف سے یہ مروی ہے کہ یہ خرچ دونوں کے ذمہ ہے لیکن میراث کے قاعدہ کے موافق تین حصے کرکے ( یعنی دو حصے باپ کے ذمہ اور ایک حصہ ماں کے ذمہ) رِزْقُهُنَّ وَكِسْوَتُهُنَّ بالْمَعْرُوْفِ ( دستور کے مطابق ان ( ماؤں) کے کھانے اور کپڑے کی ذمہ داری ہے) اگر بچہ کی ماں اس ( کے باپ) کی بیوی ہے یا عدت میں ہے تو یہ کھانا اور کپڑے اس کے بیوی ہونے کے حکم کی وجہ سے جائز ہے اور اگر وہ عدت پوری ہونے کی وجہ سے اجنبی عورت ہوگئی ہے تو پھر یہ ( باپ کے ذمہ) اجرت کے طور پر واجب ہے چناچہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد : فاتوھن اجورھن دلالت کرتا ہے اور اس خرچہ کی مقدار بقدر وسعت ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ( آگے) فرمایا ہے : لَا تُكَلَّفُ نَفْسٌ اِلَّا وُسْعَهَا ( ہر شخص کو گنجائش ہی کے مطابق تکلیف دی جاتی ہے) اس میں اس مر کی دلیل ہے کہ گنجائش سے زیادہ تکلیف ( دی جانی) اگرچہ عقلاً جائز ہے لیکن شرعاً جائز نہیں ہے خاص کر اللہ تعالیٰ کی طرف سے لَا تُضَاۗرَّ وَالِدَةٌۢ بِوَلَدِھَا وَلَا مَوْلُوْدٌ لَّهٗ بِوَلَدِهٖ ۤ (نہ بچہ کی وجہ سے ماں کو تکلیف دی جائے اور نہ بچہ کی وجہ سے اسے جس کا بچہ ہے ( یعنی باپ کو) ابن کثیر یعقوب نے لا تضار کو رفع کے ساتھ پڑھا ہے اس وجہ سے کہ یہ لا تکلف سے بدل ہے پس یہ خبر بمعنی نہی ہے اور باقی قاریوں نے نہی کے صیغہ سے نصب کے ساتھ پڑھا ہے اور ان دونوں صورت میں یہ صیغہ معروف اور مجہول ہونے کا احتمال رکھتا ہے اور (ب) سببیت کے لیے ہے معنی یہ ہیں کہ نہ ماں اپنے بچہ کے سبب سے اپنے خاوند کو کوئی تکلیف دے یعنی اس سے نخرے کرے اور نفقہ یا اجرت میں اس سے زیادہ مانگے اور بچہ کی خبر گیری میں کمی کرکے اس کے دل کو پریشان کرے یا بچہ کے اپنے مانوس ہوجانے کے بعد اس سے کہے کہ اور انا لے آؤ وغیرہ وغیرہ اور نہ باپ اپنے بچہ کے سبب سے اپنی بیوی کو تکلیف دے اس طرح کہ اس سے بچہ چھین لیں حالانکہ وہ اسے اس اجرت پر دودھ پلانا چاہتی ہے جو کوئی غیر عورت لے یا اس کی اجرت میں کمی کرے یا اس سے زبردستی پلوائے باوجودیکہ اور انا مل سکتی ہے اور ماں دودھ نہیں پلا سکتی وغیرہ وغیرہ یہ معنی لا تضار کے معروف ہونے کی صورت میں ہیں اور مجہول ہونے کی صورت میں بھی یہی معنی ہیں لیکن عکس ترتیب کے ساتھ اور احتمال ہے کہ لا تضار کے معنی لا تضر کے ہوں اور ب زائد ہو یعنی نہ ماں اپنے بچہ کو تکلیف دے نہ باپ اپنے بچہ کو تکلیف دے اس طور پر کہ اس کی خبر گیری میں دودھ پلوانے میں اور اس پر خرچ کرنے میں کمی کرنے لگے اور ماں اسے باپ کو نہ دے یا ماں سے مانوس ہونے کے بعد باپ اسے چھین لے اور بچہ کو دونوں کی طرف منسوب کرکے اس لیے ذکر کیا ہے کہ دونوں کو اس سے محبت زیادہ ہوجائے۔ وَعَلَي الْوَارِثِ مِثْلُ ذٰلِكَ ( اور ایسا ہی اس کے وارث پر ہے) اس کا عطفو علی المولود لہ پر ہے اور جو کچھ ان دونوں کے درمیان ہے وہ معروف کی تفسیر اور معطوف اور معطوف علیہ کے درمیان جملہ معترضہ ہے۔ وارث کی تفسیر میں اختلاف ہے امام مالک اور اما شافعی فرماتے ہیں کہ یہاں وارث سے مراد وہ لڑکا ہی خود ہے جو اپنے باپ متوفی کا وارث ہے اس کے دودھ پینے کی اجرت اور اس کا خرچہ اس کے مال میں سے لیا جائے گا اور اگر اس کے پاس مال نہ ہو تو ماں کے ذمہ ہے اور بچہ کے خرچ کے لیے سوائے والدین کے اور کسی پر جبر نہیں ہوسکتا اور بعض کا قول یہ ہے کہ اس (وارث) سے مراد ہے یا باپ جو بھی زندہ ہو اس کے ذمہ دودھ پلانے کی اجرت اور روٹی کپڑا ایسا ہی ہے جیسا باپ کے ذمہ یہ قول بھی امام شافعی اور امام مالک کے مذہب کے موافق ہے پہلے قول پر یہ اعتراض وارد ہوتا ہے کہ بچہ کا خرچ اسی کے مال میں سے ہونا اس پر مقدم ہے کہ اس کا خرچہ اور کسی پر ہو خواہ وہ باپ ہو یا کوئی ہو۔ ہاں جس وقت یہ مان لیا جائے کہ بچہ کے پاس مال نہیں ہے۔ پس یہ کہنا ٹھیک نہیں ہے کہ بچہ کے ذمہ اس کا خرچہ ویسا ہی واجب ہے کہ جیسا اس کے باپ کے ذمہ تھا بلکہ یہ بات الٹی کہنی پڑے گی اور یہ کوئی کیونکر کہہ سکتا ہے ‘ یہ جان لینے کے بعد کہ بچہ کے پاس مال نہیں ہے اور دوسرے قول پر یہ اعتراض وارد ہوتا ہے کہ اگر فقط باپ زندہ ہے یا دونوں زندہ ہیں تو یہ حکم تو پہلے گذر چکا ہے کہ ماں کا کپڑا باپ کے ذمہ ہے اس کے دوبارہ بیان کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے بلکہ یہ آیت ان دونوں کے زندہ رہنے کی صورت میں یہ چاہتی ہے کہ نفقہ ان دونوں ہی کے ذمہ ہو اور یہ ما سبق کے منافی ہے اور اگر فقط ماں ہی زندہ ہو تو یہ معنی ہوں گے کہ ماں پر ماں کا رزق ہے اور اس وقت یہ لازم آئے گا کہ وہی مستحق ہو اور اسی پر استحقاق ہو۔ امام احمد ‘ اسحاق ‘ قتادہ ‘ ابن ابی لیلیٰ کا قول یہ ہے کہ الوارث سے مراد بچہ کا وارث ہے خواہ مرد ہو یا عورت ہو مطلب یہ ہے کہ ہر وارث سے بقدراس کی میراث کے زبردستی نفقہ لیا جائے وہ عصبہ ہو یا نہ ہو اور برابر ہے کہ وہ بچہ اس کا وارث ہوتا ہو یا نہ ہوتا ہو۔ مثلاً جس صورت میں کوئی لڑکی ہو کہ اس کے چچا کا بیٹا اور اس کا بھتیجے تو اس کے وارث ہوتے ہیں اور وہ ان کی وارث نہیں ہوتی اور ایک روایت میں امام احمد سے یہ بھی ہے کہ زبردستی اسی پر کی جائے کہ جہاں ان دونوں میں توارث بھی جاری ہو ( یعنی ایک دوسرے کا وارث بھی ہو) اور امام احمد کی پہلی روایت کے موافق امام ابوحنیفہ کا بھی یہی قول ہے اور آیت سے یہی ظاہر و متبادر بھی ہے اور اس میں کوئی خفا نہیں ہے ہاں امام ابوحنیفہ (رح) نے وارث میں ذی رحم محرم کی قید لگائی ہے۔ پس اس قید سے معتق اور چچا زاد بھائی وغیرہ نکل جائیں گے اور وجہ اس قید کے بڑھانے کی عبداللہ بن مسعود کی قراءت ہے کہ و علٰی الوارث ذی رحم المحرم مثل ذالک۔ پس امام ابوحنیفہ (رح) نے اپنے اصل قاعدہ پر عمل کیا کہ ابن مسعود ؓ کی قرأت سے کتاب (ا اللہ) کی تخصیص اور اس پر کچھ زیادتی کرنی جائز ہے اور بعض کا قول یہ ہے کہ وارث سے مرادعصبہ ہے پس بچہ کے عصبوں پر (نفقہ کے بارے میں) زبردستی کی جائے جیسے دادا۔ بھائی۔ بھتیجوں۔ چچا کا بیٹا بغوی کہتے ہیں یہی قول حضرت عمر بن خطاب کا ہے اور ابراہیم۔ حسن۔ مجاہد۔ عطا۔ سفیان بھی اسی کے قائل ہیں اور بعض ( مفسرین) کا قول یہ ہے کہ یہاں نفقہ مراد نہیں ہے بلکہ اس کا مفاد مراد ہے معنیٰ یہ ہیں کہ وارث پر مضرت کا ترک کردینا لازم ہے (یعنی وہ اس بچہ کو کسی طرح کی تکلیف نہ دے) بغوی کہتے ہیں یہی قول زہری اور شعبی کا ہے، میں کہتا ہوں یہ معنی ہرگز ٹھیک نہیں ہیں کیونکہ ترک مضرت کا واجب ہونا تو وارث ہی کے ساتھ خاص نہیں ہے بلکہ والدین کے بارے میں یہ اس لیے ذکر دیا گیا ہے کہ مضرت کا وہ وہم دفع ہوجائے جو مذکورہ آیت سے ہوتا تھا اس کے علاوہ وضع کے اعتبار سے ذالک کا لفظ بعید کے لیے ہے اور بعید وجوب نفقہ ہے نہ کہ قریب کے لیے جو مضرت ہے۔ وا اللہ اعلم اور اسی آیت کی وجہ سے امام ابوحنیفہ فرماتے ہیں کہ دولتمند پر ( اس کے) ہر زی رحم محرم کا نفقہ واجب ہے جس وقت کہ وہ زی رحم محرم صغیر ( سن) تنگ دست ہو یا بالعہ عورت تنگدست ہو یا مرد ہی لنگڑا لولا ہو یا اندھا تنگ دست ہو اور یہ قیدیں اس وجہ سے لگائیں ہیں کہ مورد نص تو صغیر ہے ( یعنی نص صغیر سن ہی کے بارے میں آئی ہے) اور صغر محتاجگی کے اسباب میں سے ہے پس جس ذی رحم محرم میں کوئی محتاجگی کا سبب ہوگا تو اس سبب کی وجہ سے (اس حکم میں) اسے صغیر کے ساتھ کردیا جائے گا۔ بخلاف اس تنگدست کے جو کمانے والا ہو کیونکہ وہ اپنے کمانے کی وجہ سے غنی ہے اس کو صغیر کے ساتھ نہیں ملا سکتے اور نہ اس کا کسی پر نفقہ واجب ہوتا ہے اور ( نفقہ میں) میراث کی مقدار کا اعتبار ہوگا ( یعنی جسے جس قدر ورثہ پہنچتا ہوگا اس پر اسی قدر نفقہ بھی واجب ہوگا) کیونکہ ایک حکم کو کسی مشتق کی طرف منسوب کرنا اس امر کی دلیل ہوتا ہے کہ ماخذ اشتقاق اس حکم کی علت ہے پس ماں پر اور دادے پر تہائی نفقہ لازم ہوگا اور اپاہج بھائی تنگدست کا نفقہ اس کی متفرق متمول بہنوں پر میراث کے موافق پانچواں پانچواں حصہ ہوگا علی ہذا القیاس۔ اور علماء کہتے ہیں کہ معتبر اہلیت وراثت ہے نہ کہ اس کا حاصل کرنا کیونکہ یہ تو مرنے کے بعد ہی معلوم ہوتا ہے پس ( اس قول کے مطابق) جب کسی تنگدست کے ایک ماموں اور ایک چچا زاد بھائی ہو تو اس کا نفقہ ماموں کے ذمہ ہوگا نہ کہ چچا زاد بھائی کے ذمہ اور باوجود اختلاف دین کے نفقہ واجب نہیں ہوتا ( یعنی اگر ایک کافر ہو دوسرا مسلمان ہو تو ان میں ایک کا دوسرے کے ذمہ نفقہ نہ ہوگا) کیونکہ ان میں اہلیت وراثت نہیں ہے اور (نفقہ کے) وجوب کی علت وہی ہے اور نہ تنگدست پر نفقہ واجب ہے کیونکہ یہ صلہ رحمی کرنے کے لیے واجب ہوتا ہے اور صلہ رحمی میں خود تنگدست ہی کا اوروں پر استحقاق ہے پس اس پر کسی کا استحقاق کیونکر ہوسکتا ہے لیکن ظاہر روایت میں جو امام ابوحنیفہ کا یہ قول ہے کہ ہر شخص پر اپنے والدین اور دادا دادی کو خرچ دینا واجب ہے جس وقت کہ وہ محتاج تنگ دست ہوں اگرچہ وہ کافر ہوں اور یہ کہ ان کا نفقہ اولاد ہی کے ذمہ ہے اور سب پر برابر ہے خواہ ( اولاد) مرد ہوں یا عورتیں ہوں تو یہ وراثت کے طریقہ پر نہیں ہے اس میں امام احمد کا اختلاف ہے وہ فرماتے ہیں کہ مرد اور عورتوں پر تہائی کے طور پر ہے (یعنی مرد کے ذمہ دو حصے اور عورت کے ذمہ ایک حصہ) اور یہی ایک روایت امام ابوحنیفہ (رح) سے بھی ہے تو ان کے اس قول کا مبنیٰ ( اور دلیل) یہ آیت نہیں ہے بلکہ وہ کہتے ہیں کہ ان کا نفقہ جزئیت (یعنی اولاد ہونے) کی وجہ سے واجب ہے نہ کہ وراثت کی وجہ سے والدین کافر کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے : و ان جاہداک علی ان تشرک بی ما لیس لک بہ علم فلا تطعھما و صاحبہما فی الدنیا معروفا ( یعنی اور اگر تیرے ماں باپ تجھے اس بات پر مجبور کریں کہ تو میرے ساتھ اس چیز کو شریک کر جس کا تجھے علم نہیں تو تو ان کی پیروی نہ کر اور دنیا میں ان کے ہمراہ اچھی طرح رہ) اور یہ تو اچھی طرح رہنا نہیں ہے کہ وہ دونوں بھوکے مرجائیں اور وہ دولتمند ہو اور آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ : انت ومالک لابیک ( یعنی تو اور تیرا مال سب تیرے باپ کی ملک ہے) اس حدیث کو نبی ﷺ سے صحابہ کی ایک جماعت نے نقل کیا ہے اور اصحاب سنن اربعہ نے حضرت عائشہ صدیقہ سے روایت کی ہے فرماتی ہیں رسول ﷺ اللہ نے فرمایا : ان اطیب ما اکل الرجل من کسب ولدہ و ان ولدہ من کسبہ ( یعنی مال طیب وہ ہے جو آدمی اپنی اولاد کی کمائی میں سے کھائے اور اس کی اولاد اس ( کی خود) کی کمائی میں سے ہے) اس حدیث کو ترمذی نے حسن کا ہے۔ ابو داؤد اور ابن ماجہ نے عمرو بن شعیب سے انہوں نے اپنے باپ سے اور ان کے باپ نے اپنے دادا سے روایت کی ہے کہ ایک آدمی نے آنحضرت کی خدمت میں عرض کیا میرے پاس مال ہے اور میرے والد ( کے پاس کچھ نہیں وہ) میرے مال کے محتاج ہیں (انہیں دوں یا نہیں) تو آنحضرت ﷺ نے فرمایا : انت ومالک لوالدک ان اولادکم من اطیب کسبکم کلوا من کسب اولادکم ( یعنی تم اور تمہارا مال تمہارے والد کا ہے۔ تمہاری اولاد تمہاری ہی اعلیٰ درجہ کی کمائی میں سے ہے لہٰذا تم اپنی اولاد کی کمائی میں سے کھایاکرو) ان حدیثوں کا مقتضی یہ ہے کہ بیٹے کے مال کا باپ مالک ہونا ہے لیکن اجماع اور آیت میراث کی دلالت وغیرہ کی وجہ سے یہ ظاہری مقتضی مراد نہیں لیا جاتا بلکہ اس سے یہ مراد ہے کہ ضرورت کے وقت باپ ( بیٹے کے مال کا) مالک بن سکتا ہے لہٰذا ماں باپ کا نفقہ بیٹے پر واجب ہے وارثوں میں سے اور کوئی شخص اس درجہ میں شریک نہیں اور جب یہ نفقہ وراثت کے طور پر ثابت نہ ہوا تو اس میں وراثت کا طریقہ بھی معتبر نہ ہوگا ہاں قیاس کی وجہ سے دادا دادی ماں باپ کے حکم میں ہیں اسی واسطے وہ دونوں ماں باپ (کے نہ ہونے کی صورت میں ان) کی میراث کو لے لیتے ہیں اور دادا نکاح میں ولی ہوجاتا ہے۔ عمرو بن شعیب اپنے دادا سے انکے دادا اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ ایک آدمی نے آنحضرت ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا کہ میں فقیر ہوں میرے پاس کچھ نہیں ہے اور ایک یتیم بچہ میرے پاس (پرورش کے لیے) ہے آپ نے فرمایا کہ اپنے یتیم کے مال میں سے کھاؤ (پیو) لیکن اسراف نہ کرنا اور نہ اپنے پاس جمع کرلینا۔ یہ حدیث ابو داؤد۔ نسائی۔ ابن ماجہ نے نقل کی ہے اور جب امام شافعی اور امام مالک نے وارث کی یہ تفسیر کی جو ہم بیان کرچکے ہیں تو اب امام مالک فرماتے ہیں کہ سوائے والدین اور صلبی اولاد کے اور کسی کے لیے ( نفقہ) واجب نہیں نہ دادوں کے لیے نہ دادیوں کے لیے نہ پوتوں کے لیے اور نہ نواسوں کے لیے اور امام شافعی فرماتے ہیں کہ اصول اور فروع (یعنی باپ ‘ دادا وغیرہ ادھر اور بیٹاپوتا وغیرہ ادھر) دونوں کے لیے (ان کے آپس میں) نفقہ مطلقاً واجب ہے ہاں نسب کے ان دونوں ستونوں سے تجاوز نہیں کرسکتا اور یہ بھی فرماتے ہیں کہ نفقہ کا بار خاص مردوں ہی پر ہے مثلاً دادا۔ بیٹا۔ پوتا عورتوں پر نہیں ہے اور امام مالک فرماتے ہیں کہ نفقہ کا بار صلبی اولاد پر برابر ہے جس وقت وہ دونوں دولتمند ہوں ( خواہ لڑکے ہوں یا لڑکیاں ہوں اور اگر ان میں ایک دولتمند ہے اور دوسرا فقیر ہے تو پھر فقط دولتمند ہی پر ہے۔ وا اللہ اعلم۔ فَاِنْ اَرَادَا فِصَالًا ( پھر اگر وہ دونوں (یعنی ماں باپ) دودھ چھڑانا چاہیں) یعنی دو برس سے پہلے) کیونکہ دو برس کے بعد چھڑانا تو واجب ہے چناچہ پہلے بیان ہوچکا ہے کہ دودھ پلانے کی انتہائی مدت دو برس ہے اس شخص کے لیے جو پوری مدت تک پلوانا چاہئے اگر کسی کو شبہ ہو کہ فان ارادا کی فا اس بات کو چاہتی ہے کہ دودھ چھڑانا دو سال کے بعدہو تو اس کا جواب یہ ہے کہ یہاں فا مطلق دودھ پلانے کی بعدیت کو بیان کرنے کے لیے ہے نہ دو سال کے بعد کو۔ اور مدارک میں کہا ہے کہ یہاں مطلق حکم بیان کیا گیا ہے خواہ دو برس سے زیادہ ہو یا کم ہو یہ ایک ( مدت اور) حد بیان کرنے کے بعد وسعت دینا اور (آسانی کرنا) صاحب مدارک نے یہ اس لیے کہا ہے تاکہ یہ آیت امام ابوحنیفہ (رح) کے مذہب کے موافق ہوجائے (کیونکہ امام اعظم کا مذہب ہے) کہ دو برس کے بعد اور چھ مہینے دودھ پلانا جائز ہے میں کہتا ہوں کہ اگر یہ آیت اس تہدید کے لیے ناسخ ہے اور یہ حکم مطلق ہے یا دو برس کے بعد کے ساتھ مقید ہے تو اس سے تین برس کے بعد بھی دودھ پلانے کا جواز لازم آئے گا اور یہ اجماع کے خلاف ہے اس کا کوئی بھی قائل نہیں ہے اور نہ ڈھائی برس وغیرہ کی مدت معین کرنے کی کوئی وجہ ہے اور حنفیہ نے جو یہ کہا ہے کہ ڈھائی برس تک دودھ پلانے کا ثبوت اللہ تعالیٰ کے ارشاد : و حملہ و فصالہ ثلٰاثون شہرا سے ہوتا ہے تو یہ کہنا ٹھیک نہیں ہے اور انشاء اللہ تعالیٰ ہم اس کو اس کے موقع پر یعنی سورة نساء میں اللہ تعالیٰ کے قول : و امہاتکم التی ارضعنکم کی تفسیر میں عنقریب بیان کریں گے اگر کسی کو شبہ ہو کر فصال ( دودھ چھڑانے) کو دو سال سے پہلے لینے کی صورت میں بھی تو دو سال کی مدت معین کرنے کا نسخ لازم آتا ہے ہم کہتے ہیں کہ پورے دو برس تک دودھ پلانے کے واجب ہونے میں اللہ کے اس قول کی قید ہے۔ لمن اراد ان یتم الرضاعۃ اور آیت دودھ چھڑانے کے مباح ہونے پر دلالت کرتی ہے جس وقت کہ ان کا یہ ارادہ آپس کی رضا مندی اور مشورہ سے ہو لہٰذا نہ یہاں منافاۃ ہے اور نہ نسخ ہے وا اللہ اعلم۔ عَنْ تَرَاضٍ مِّنْهُمَا وَتَشَاوُرٍ ( آپس کی رضا مندی اور مشور سے) یعنی اہل علم کے مشورہ سے تاکہ وہ بتلائیں کہ اسوقت میں دودھ چھڑانا اس بچہ کو کچھ مضر نہ ہوگا اور مشاورت کے معنی رائے زنی کرتا ہے۔ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْهِمَا ( تو ان پر ( اس میں) کوئی گناہ نہیں ہے) اور دونوں کی رضا مندی اس لیے معتبر رکھی گئی ہے تاکہ ان میں سے ایک کسی غرض وغیرہ کی وجہ سے ایسا نہ کر بیٹھئے کہ جس سے بچہ کو ضرر ہو اور اس سے معلوم ہوا کہ دونوں میں سے ایک کے لیے بغیر آپس کی رضا مندی اور رائے والوں سے مشورہ لینے کے دو برس سے پہلے دودھ چھڑانا جائز نہیں ہے۔ وَاِنْ اَرَدْتُّمْ اَنْ تَسْتَرْضِعُوْٓا اَوْلَادَكُمْ ( اے بچوں کے باپوں) اگر تم اپنی اولاد کو دودھ پلوانا چاہو) یعنی ان بچوں کی ماں کے سوا اور اناؤں سے جب کہ ان کی مائیں انہیں دودھ پلانے سے انکار کردیں یا تو اپنی کسی تکلیف کی وجہ سے یا دودھ نہ ہونے کی وجہ سے یا وہ نکاح کرنا چاہتی ہیں یا وہ اناؤں سے زیادہ تنخواہ مانگتی ہیں اور یہ قیود ہم نے اس لیے لگا دی ہیں کہ والدین میں سے ایک کے دوسرے کے ضرر نہ دینے کا ذکر پہلے ہوچکا ہے۔ مفعول اوّل کو استغنا کی وجہ سے حذف کردیا گیا ہے۔ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْكُمْ اِذَا سَلَّمْتُمْ مَّآ اٰتَيْتُمْ ( تو تم پر کچھ گناہ نہیں ہے جب کہ تم نے جو کچھ دینا مقرر کیا تھا وہ ان کے ( یعنی ان کی ماؤں کے) حوالے کردیا ہو۔ ما آتیتم سے یہ مراد ہے کہ جو کچھ تم نے ان کی ماؤں کے دودھ پلانے کی تنخواہ بقدر ان کے دودھ پلانے کے مقرر کردی ہو یا یہ مطلب ہے کہ جب تم اناؤں کی تنخواہیں ان کے حوالے کرچکے ( تو اب تم پر کچھ گناہ نہیں ہے) اور حوالے کردینا اجماعاً مستحب ہے جواز کی شرط نہیں ہے ابن کثیر نے یہاں اور سورة روم میں آتیتم الف مقصورہ کے ساتھ پڑھا ہے اور اس کے معنی ما فعلتم کے ہیں اور اس وقت تسلیم کے معنی اطاعت کرنے اور اعتراض نہ کرنے کے ہیں یعنی جب والدین میں سے ایک نے دوسرے کے فعل یعنی دودھ پلوانے کی اطاعت کرلی ( تو دونوں پر کچھ گناہ نہیں) بِالْمَعْرُوْفِ (دستور کے مطابق) یہ سلمتم کے متعلق ہے یعنی ایسے طریقہ پر جو شریعت میں مستحسن اور متعارف ہو اور شرط کا جواب محذوف ہے اس پر اس کا ما قبل دلالت کرتا ہے۔ وَاتَّقُوا اللّٰهَ ( اور اللہ سے ڈتے رہو 1 ؂) بچوں اور اناؤں کی بابت جو پہلے بیان کیا گیا ہے یہ آیت اس کی حفاظت کرنے ( اور اس پر کار بند ہونے) کی تاکید کیلئے ہے۔ وَاعْلَمُوْٓا اَنَّ اللّٰهَ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِيْرٌ ( اور جان لو کہ جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اسے دیکھ رہا ہے) یہ ترغیب اور تہدید ہے۔
Top