Tafseer-e-Mazhari - Al-Baqara : 241
وَ لِلْمُطَلَّقٰتِ مَتَاعٌۢ بِالْمَعْرُوْفِ١ؕ حَقًّا عَلَى الْمُتَّقِیْنَ
وَلِلْمُطَلَّقٰتِ : اور مطلقہ عورتوں کے لیے مَتَاعٌ : نان نفقہ بِالْمَعْرُوْفِ : دستور کے مطابق حَقًّا : لازم عَلَي : پر الْمُتَّقِيْنَ : پرہیزگار (جمع)
اور مطلقہ عورتوں کو بھی دستور کے مطابق نان و نفقہ دینا چاہیئے پرہیزگاروں پر (یہ بھی) حق ہے
وَلِلْمُطَلَّقٰتِ مَتَاعٌۢ بِالْمَعْرُوْفِ ( اور جن عورتوں کو طلاق دی گئی ہو ان کو دستور کے مطابق فائدہ پہنچانا) یعنی دولتمند پر اس کی حیثیت کے موافق اور تنگدست پر اس کی حیثیت کے موافق واجب ہے۔ حَقًّا عَلَي الْمُتَّقِيْنَ ( یہ ان لوگوں پر لازم ہے جو ( شرک سے) پرہیز کرنے والے ہیں) بعض کہتے ہیں کہ اس آیت میں متاع سے مراد ایام عدت کا نفقہ ہے اور یہی مراد اس سے پہلے اللہ تعالیٰ کے ارشاد : وصیۃ لازواجھم متاعا الی الحول میں ہے اور ان دونوں آیتوں کے ایک معنی مراد ہونے کی وجہ یہ ہے کہ ان دونوں صورتوں میں یعنی موت میں طلاق میں عورت شوہر کے حقوق کی وجہ سے مقید رہتی ہے اس لیے شوہر کے مال میں سے اس کو خرچ دینا واجب ہے۔ یہ حکم یعنی طلاق کی عدت میں عورت کا خرچ واجب ہونا اگر رجعی طلاق ہو تو اس پر سب کا اجماع ہے لیکن اگر طلاق بائنہ ہو تو اس آیت میں عام لفظ ہونے کی وجہ سے امام ابوحنیفہ (رح) کے نزدیک تب بھی یہی حکم ہے اور دوسری دلیل یہ آیت ہے : اسکنوھن من حیث سکنتم من وجدکم ابن مسعود کی قراءت میں اس طرح ہے : اسکنوھن من حیث سکنتم وانفقوا اعلیھن من وجدکم (یعنی ان ( مطلقہ عورتوں) کو وہیں رکھو جہاں تم رہتے ہو اور اپنی حسب حیثیت ان پر خرچ کر) تیسری دلیل جابر ؓ کی یہ حدیث ہے کہ حضور نے فرمایا : المطلقۃ ثلٰثا لھا السکنی والنفقۃ ( یعنی تین طلاق والی عورت کو ( رہنے کو) گھر اور خرچ دینا چاہئے) یہ حدیث دارقطنی نے نقل کی ہے اگر کوئی اعتراض کرے کہ ابن جوزی نے لکھا ہے کہ اس (حدیث کی سند) میں حارث بن ابو العالیہ (راوی) ہے اور یحییٰ بن معین کہتے ہیں کہ یہ ضعیف ہے ہم کہتے ہیں ذہبیء نے کہا ہے کہ حارث بن ابو العالیہ ابو معاذ عبد اللہ قواریری کا استاد ہے اس کو ضعیف کہنا بلا حجت ہے چوتھی دلیل یہ ہے کہ عورت کو خرچ ملنے کی جو وجہ وہاں ہے وہی یہاں بھی ہے اور وہ شوہر کے حقوق کی وجہ سے یا تو اس کا مقید رہنا ہے تاکہ رحم کا (بچہ سے) خالی ہونا ظاہر ہوجائے یا اس کے ساتھ مروت کرنا ہے اور اس کے مقابلہ میں کہ وہ شوہر کی جدائی میں سوگ کرتی اور صدمہ اٹھاتی ہے اس کو خرچ دیا جاتا ہے۔ پھر بیوہ کا نفقہ بالکل ہی منسوخ نہیں ہوا بلکہ خرچ دینے کے بدلے میں اس کے لیے میراث واجب ہوگئی اس لیے گویا یہ حکم منسوخ ہی نہیں ہوا امام مالک اور امام شافعی کا قول ہے کہ بیوہ کے لیے نفقہ واجب نہیں ہے ہاں (رہنے کو) گھردینا واجب ہے اور یہی ایک روایت امام احمد سے بھی ہے اور امام احمد کے نزدیک نہ اس کے لیے نفقہ ہے اور نہ گھر ہے انہوں نے فاطمہ بنت قیس کی حدیث سے دلیل لی ہے کہ ( ان کے شوہر) ابو عمرو بن حفص نے کہیں باہر جا کر انہیں بائنہ طلاق دیدی تھی اور اپنے وکیل کے ہاتھ تھوڑے سے جو (ان کے کھانے کے لیے) بھیج دیئے تھے فاطمہ ان پر بہت ناراض ہوئیں تو وکیل نے کہا کہ خدا کی قسم ہمارے پاس آپ کے لیے اور کچھ نہیں ہے یہ دوڑی ہوئی آنحضرت ﷺ کی خدمت میں آئیں اور یہ سارا ماجرا حضور ﷺ سے عرض کیا آپ نے بھی صاف فرمایا کہ : لیس لک نفقۃ ( تمہارے لیے نفقہ نہیں ہے) اور انہیں یہ حکم دیا کہ ام شریک کے گھر تم عدت گذار لو پھر خود ہی فرمایا کہ ام شریک کے ہاں تو میرا اکثر صحابہ آتے جاتے ہیں ( تمہیں پردہ وغیرہ کی تکلیف ہوگی) تم ابن ام مکتوم کے ہاں عدت پوری کرلو۔ یہ حدیث مسلم نے نقل کی ہے اور ایک روایت میں یہ ہے کہ فاطمہ کے شوہر نے انہیں تین طلاقیں دیدی تھیں وہ نبی ﷺ کی خدمت میں آئیں ( آپ ﷺ سے اس کا ذکر کیا) آپ نے فرمایا کہ تمہارے لیے نفقہ نہیں ہے ہاں اگر تم پیٹ سے ہوتیں ( تو نفقہ مل جاتا) امام احمد (رح) نے ابن عباس سے روایت کی ہے وہ کہتے ہیں مجھ سے فاطمہ بنت قیس نے یہ بیان کیا کہ رسول اللہ نے نہ مجھے ( رہنے کو) کوئی گھردلوایا تھا اور نہ کچھ خرچ دلوایا تھا اور اس حدیث ( کی سند) میں حجاج بن ارطاۃ ( راوی) ضعیف ہے امام احمد نے فاطمہ سے روایت کی ہے کہتی ہیں رسول اللہ نے فرمایا تھا کہ عورت کے لیے گھر اور نفقہ جب ہی تک ہے کہ اس کا شوہر اس سے رجعت کرسکے اور جب وہ اس سے رجعت نہیں کرسکتا تو نہ اس کے لیے نفقہ ہے اور نہ گھر ہے۔ پس اسی حدیث کی وجہ سے امام احمد (رح) فرماتے ہیں کہ اس کے لیے گھر بھی نہیں ہے لیکن امام شافعی اور ان کے ساتھی گھر کو اللہ تعالیٰ کے ارشاد : واسکنوھن کی وجہ سے واجب کہتے ہیں گویا انہوں نے ( بھی) اس حدیث پر من وجہ عمل چھوڑ دیا ہے ہماری طرف سے جواب یہ ہے کہ فاطمہ بنت قیس کی حدیث کتاب ( الٰہی) کے مخالف ہے اس لیے وہ متروک ہے اور اکثر صحابہ کی موجودگی میں حضرت عمر بن الخطاب ؓ نے ( بھی) اس پر عمل کرنا چھوڑ دیا تھا۔ ترمذی نے سند کے ساتھ مغیرہ سے انہوں نے شعبی سے روایت کی ہے وہ کہتے ہیں فاطمہ بنت قیس نے بیان کیا کہ رسول اللہ کے زمانہ میں میرے خاوند نے مجھے تین طلاقیں دیدی تھیں اور آنحضرت نے ( مجھ سے) فرمادیا تھا کہ تیرے لیے ( تیرے خاوند کے ذمہ) نہ گھر ہے اور نہ نفقہ ہے مغیرہ کہتے ہیں میں نے اس حدیث کا ابراہیم سے ذکر کیا وہ کہنے لگے کہ (فاطمہ کے جواب میں) حضرت عمر ؓ نے یہ فرمایا تھا کہ ایک عورت کے کہنے پر ہم اللہ کی کتاب اور اپنے نبی ﷺ کے طریقہ کو نہیں چھوڑتے ہمیں نہیں معلوم کہ اس کو خوب یاد ہے یا یہ کچھ بھول گئی ہے اور حضرت عمر ؓ ایسی عورت کو (رہنے کے لیے) گھر برابر دلاتے تھے ابن جوزی کہتے ہیں کہ ابراہیم نے حضرت عمر ؓ کا زمانہ نہیں پایا اور اکثر لوگوں نے اس حدیث کو اس طرح روایت کیا ہے کہ حضرت عمر ؓ نے یہ فرمایا تھا کہ ( اس کے کہنے سے) ہم اللہ کی کتاب کو نہیں چھوڑ سکتے اور نبی کے طریقہ کا ذکر نہیں کیا تھا اور یہی صحیح بھی ہے دوسرے یہ کہ جب کسی صحابی کے قول کے خلاف رسول اللہ ﷺ سے صحیح طور پر ثابت ہوجائے تو اس کے مقابلہ میں صحابی کا قول نہیں مانا جاتا ہم کہتے ہیں اگر ابراہیم نے حضرت عمر ؓ کا زمانہ نہیں پایا تو یہ حدیث مرسل ہے اور مرسل ہمارے نزدیک حجت ہے اور جب حضرت عمر کا یہ فرمانا کہ ہم اپنے نبی کے طریقہ کو نہیں چھوڑ سکتے ثابت ہوگیا تو یہی ان کی مرفوع روایت ہے اور اگر ہم اس کو تسلیم بھی کرلیں تو جب ابن جوزی نے حضرت عمر ؓ کے اس قول کے صحیح ہونے کا اقرار کرلیا کہ ہم اللہ کی کتاب کو نہیں چھوڑ سکتے تو ہمارے مدعا کے لیے کافی ہے کیونکہ حضرت عمر ؓ کا قول ابن مسعود ؓ کی قرأت کے صحیح ہونے پر دلالت کرتا ہے : انفقوھن من وجدکم۔ پس اسی سے مدعا ثابت ہوگیا اور اسی آیت کی تاویل میں بعض کا قول یہ ہے کہ متاع بالمعروف سے متعہ مراد ہے جو نفقہ کے سوا ہو اور وہ ( یعنی متعہ) تین کپڑے ہیں جیسا کہ اس عورت کے حق میں ہے کہ جسے بےہاتھ لگائے طلاق دیدی گئی ہو اس تاویل کے مطابق امام ابوحنیفہ (رح) کے نزدیک للمطلقات میں لام عہدخارجی کے لیے ہے اس پر وہ روایت دلالت کرتی ہے جو ابن جریر نے ابن زید سے نقل کی ہے وہ کہتے ہیں کہ جب آیت : ومتعوھن علی الموسع قدرہ و علی المقتر قدرہ متاعاً بالمعروف حقا علی المحسنین نازل ہوئی تو ایک آدمی نے کہا کہ اگر میں (اپنی جورو 1 ؂ پر) احسان کرنا چاہوں تو کردوں اور اگر نہ چاہوں تو نہ بھی کرو ( مطلب اس کا یہ تھا کہ اس کو دینا میرے ذمہ لازم نہیں ہے) اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی : و للمطلقات متاع بالمعروف حقا علی المتقین پس اس معنی پر متعہ اس عورت کے لیے ثابت ہوتا ہے جسے ہاتھ لگانے سے پہلے طلاق دیدی گئی ہو اور یہی قول امام ابوحنیفہ (رح) کا ہے۔ اگر کوئی یہ اعتراض کرے کہ اگر یہی تاویل ہے تو پھر امام ابوحنیفہ (رح) کے یہ فرمانے کی کیا وجہ ہے کہ متعہ اس عورت کو دینا مستحب ہے جسے ہاتھ لگانے کے بعد طلاق دی گئی ہو مہر مقرر ہوا ہو یا نہ ہو ہم کہتے ہیں کہ ہاتھ لگانے کے بعد طلاق دی ہوئی عورت کو متعہ دینے کا مستحب ہونا اس آیت سے ثابت نہیں ہوتا۔ بلکہ سورة احزاب میں اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد سے ثابت ہوتا ہے کہ : فتعالین امتعکن و اسرحکن سراحا جمیلا وا اللہ اعلم۔ امام شافعی فرماتے ہیں کہ لام (للمطلقات) میں استغراق کے لیے ہے اور اسی وجہ سے ان کے نزدیک ہر مطلقہ کے لیے متعہ واجب ہے سوائے اس عورت کے کہ جسے ہاتھ لگانے سے پہلے اور مہر مقرر کرنے کے بعد طلاق دی گئی ہو میں کہتا ہوں اگر تاویل اسی طرح ہے ( یعنی تم اس لام کو استغراق کے لیے لیتے ہو) تو پھر اس عورت کو استثنا کرنے کی بھی کوئی وجہ نہیں ہے کہ جسے ہاتھ لگانے سے پہلے طلاق دے دی گئی ہو۔ ہاں کوئی یہ کہہ سکتا ہے کہ استثنا کی یہ وجہ ہے کہ اس صورت میں متعہ وہ نصف مہر ہی ہے جیسا کہ پہلے ہم بیان کرچکے ہیں تو اب ہم کہتے ہیں امام شافعی نے جو یہ تاویل ذکر کی ہے یہ بھی ان ہی مذکورہ احتمالوں میں سے ایک احتمال ہے جیسا کہ تم پہلے سن چکے ہو لہٰذا ہر مطلقہ کے لیے متعہ واجب ہونے میں شک پڑگیا اور شک سے وجوب ثابت نہیں ہوتا اس لیے ان احتمالوں میں سے ایک احتمال پر عمل کرنے کے لیے ہم استحباب کے قائل ہیں۔ وا اللہ اعلم
Top