Tafseer-e-Mazhari - Al-Baqara : 24
فَاِنْ لَّمْ تَفْعَلُوْا وَ لَنْ تَفْعَلُوْا فَاتَّقُوا النَّارَ الَّتِیْ وَ قُوْدُهَا النَّاسُ وَ الْحِجَارَةُ١ۖۚ اُعِدَّتْ لِلْكٰفِرِیْنَ
فَاِنْ : پھر اگر لَمْ تَفْعَلُوْا : تم نہ کرسکو وَلَنْ تَفْعَلُوْا : اور ہرگز نہ کرسکو گے فَاتَّقُوْا النَّارَ : تو ڈرو آگ سے الَّتِیْ : جس کا وَقُوْدُهَا : ایندھن النَّاسُ : آدمی وَالْحِجَارَةُ : اور پتھر أُعِدَّتْ : تیار کی گئی لِلْکَافِرِیْنَ : کافروں کے لئے
لیکن اگر (ایسا) نہ کر سکو اور ہرگز نہیں کر سکو گے تو اس آگ سے ڈرو جس کا ایندھن آدمی اور پتھر ہوں گے (اور جو) کافروں کے لیے تیار کی گئی ہے
فَاِنْ لَّمْ تَفْعَلُوْا ( اگر قرآن کا مثل نہ بنا سکے) زمانہ ماضی میں۔ وَلَنْ تَفْعَلُوْا ( اور ہرگز نہ بنا سکو گے) یہ جملہ شرط اور جزاء کے مابین جملہ معترضہ ہے اور جملہ خبر غیب ہے اس مقام پر کلام پاک کے حق تعالیٰ نے دو اعجاز بیان فرمائے۔ (ایک تو اس کا مثل بنانے سے عاجز ہونا دوسرے پیشن گوئی کہ اس کا مثل آئندہ بھی ہرگز نہ بنا سکو گے) فَاتَّقُوا ( تو بچو) یعنی جب یہ بات خوب ظاہر ہوگئی کہ قرآن معجز ہے تو اس پر ایمان لے آؤ اور ایمان لاکر بچو۔ النَّارَ الَّتِىْ وَقُوْدُھَا اس آگ سے جس کا ایندھن وقود اس شئے کو کہتے ہیں جس سے آگ سلگائی جائے۔ النَّاسُ وَالْحِجَارَةُ (آدمی اور پتھر ہیں) لفظ وقود مصدر بھی ہوسکتا ہے اس وقت النَّاسُ وَالْحِجَارَۃ سے پہلے مضاف محذوف ہوگا معنی یہ ہونگے کہ روشن ہونا جہنم کی آگ کا آدمیوں اور پتھر کا جلنا اور سلگنا ہے۔ عبد الرزاق اور سعید بن منصور اور ابن جریر اور ابن منذر اور حاکم اور بیہقی اور دیگر رواۃ نے ابن مسعود کا قول اور ابن جریر نے ابن عباس کا قول اور ایسا ہی ابن ابی حاتم نے مجاہد اور ابو جعفر کے اقوال نقل کئے ہیں اور صدر اوّل میں سے کسی نے اس کے خلاف نہیں کہا کہ جو پتھر جہنم کا ایندھن ہوگا وہ گندھک سیاہ کا پتھر ہے اور بعض نے کہا ہے کہ سب قسم کے پتھر مراد ہیں اور یہ اس لئے فرمایا تاکہ اس آگ کی عظمت وہیبت معلوم ہوجائے اور بعض نے کہا ہے کہ حجارہ سے مراد بت ہیں۔ حق تعالیٰ نے اِنْ لَّمْ تَفْعَلُوْا میں لفظ اِنْ ارشاد فرمایا ہے کہ جس کا ترجمہ اگر ہے حالانکہ یہ موقع اِذَا کا تھا کہ جس کا ترجمہ جب ہے کیونکہ اگر کا لفظ شک کے موقع میں استعمال ہوا کرتا ہے ( چناچہ کہتے ہیں کہ اگر زید آیا تو میں بھی آؤں گا) اور جب کا لفظ یقین کے محل پر بولتے ہیں (چنانچہ کہا جانا ہے جب سورج نکلے گا تو آؤنگا زید کا آنا مشکوک اور سورج کا نکلنا یقینی ہے) اور یہ امر ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ کو کسی قسم کا شک نہیں اس کے نزدیک گذشتہ اور آئندہ سب برابر ہے تو اس طرز سے کلام فرمانے کی دو وجہ ہیں ایک تو یہ کہ ان کے ساتھ ٹھٹھا و استہزاء کرنا منظور ہے ( جیسے کوئی کہے کہ میں تمہارے پاس جمعہ کے دن آؤں گا اور دوسرا کہے کہ اگر اس ہفتہ میں جمعہ ہی نہ آئے تو یہ کلام محض استہزاء و تمسخر ہوگا اسی طرح قرآن کے مثل سے عاجز ہونا اللہ تعالیٰ کو محقق معلوم تھا اس لیے اس طرز سے کلام کرنا محض استہزاء کے لیے ہے) دوسری وجہ یہ ہے کہ ان سے اللہ تعالیٰ نے ان کے گمان کے موافق کلام فرمایا ہے کیونکہ قبل از تامل و غور مثل سے عاجز ہونا انکے نزدیک محقق و ثابت نہ تھا۔ اُعِدَّتْ لِلْكٰفِرِيْنَ ( تیار کی گئی ہے کافروں کے واسطے) یہ جملہ مستانفہ (یعنی جواب سوال مقدر کا ہے گویا سائل سوال کرتا تھا کہ ایسی آگ کس کے لیے ہے تو اس کا جواب دیا گیا) یا النَّارُسے حال ہے اور قد اس سے پہلے مقدر ہے اور وَقُوْدُھَا کی ضمیر ہا سے حال نہ ہوگا کیونکہ اس تقدیر پر وقودھا کی خبر ( ذی الحال اور حال کے درمیان) فاصل ہوجائے گی ( اور یہ جائز نہیں) ۔ ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا نارُکُمْ ھٰذِہٖ جُزْءٌ مِنْ سَبْعِیْنَ جُزْءً مِنْ نَارِجَھَنَّم (متفق علیہ) یعنی تمہاری یہ آگ جہنم کی آگ کے ستّر حصوں میں سے ایک حصہ ہے۔ (اس حدیث کو بخاری و مسلم دونوں نے روایت کیا ہے) نعمان بن بشیر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اِنَّ اَھْوَنَ اَھْلِ النَّارِ عَذَابًا مَنْ لَہٗ نَعْلَانِ وَ شِرَاکَانَ مِنْ نَارٍ یَغْلِیْ مِنْھُمَا دِمَاغُہٗ کَمَا یَغْلِی الْمِرْجَلُ مَا یَرٰی اَنَّ اَحَدًا اَشَدُّ مِنْہُ عَذَابًا وَ اِنَّہٗ لَاَھْوَنُھُمْ عَذَابًا .(متفق علیہ) یعنی جہنم میں سب سے کم عذاب و الا وہ شخص ہوگا جسے دو جوتیاں اور تسمے (1) [ شراک تسمے کو کہتے ہیں ] آگ کے پہنائے جائیں گے اور ان سے اس کا دماغ ایسا جوش مارتا ہوگا جیسے دیگ جوش مارتی ہے اور وہ خیال کرے گا کہ مجھ سے زیادہ سخت عذاب کسی کو نہیں حالانکہ وہ باعتبار عذاب سب سے کم ہوگا اس حدیث کو بخاری و مسلم نے روایت کیا ہے اور ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ سرور عالم ﷺ نے فرمایا : اُوْقِدَ عَلَی النَّارِ اَلْفَ سَنَۃٍ حَتی احمَرَّتَ ثُمَّ اُوْقِدَ عَلَیْھَا اَلْفَ سَنَۃٍ حَتّی ابْیَضَّتْ ثُمَّ اُوْقِدَ عَلَیْھَا اَلْفَ سَنَۃٍ حَتّٰی اسْوَدَّتْ فَھُوَ سَوْدَاءُ مُظْلِمَۃٌ (رواہ الترمذی) یعنی جہنم کی آگ ایک ہزار برس تک دھونکائی گئی یہاں تک کہ وہ بالکل سرخ ہوگئی پھر ایک ہزار برس اور دھونکائی تو سفید ہوگئی پھر ایک ہزار برس اور دھونکائی گئی یہاں تک کہ سیاہ ہوگئی اب بالکل سیاہ تاریک ہے اس حدیث کو ترمذی نے روایت کیا ہے اور نعمان بن بشیر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا : اَنْذَرْتُکُم النَّارَ اَنْذَرْتُکُم النَّار (یعنی میں تمہیں جہنم کی آگ سے ڈراتا ہوں) ۔ راوی حدیث نعمان بن بشیر کہتے ہیں کہ حضور یہی الفاظ فرماتے رہے اور آپ ﷺ نے اتنی بلند آواز سے فرمایا کہ اگر حضور ﷺ اس وقت میری جگہ تشریف رکھتے تو آپ کی آواز مبارک کو بازار والے سن لیتے اور اس جوش سے آپ فرماتے رہے کہ جو گلیم آپ زیب تن فرمائے ہوئے تھے وہ قدموں پر آپڑی تھی۔ اس حدیث کو دارمی نے روایت کیا ہے اور ان آیات و احادیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ جہنم اب موجود ہے۔
Top